Diabetes and the month of Ramadan Dr. Rehan Ansari |
ذیابیطس کوئی روایتی مرض نہیں ہے بلکہ جسم کی ایک افعالی و جسمانی خرابی یا معذوری ہے۔بینائی کی کمزوری کے بعد جیسے آدمی کو عینک پہننا لازمی ہے اسی طرح ذیابیطس لاحق ہونے کے بعد تاحیات غذائی احتیاط اور دوائیں استعمال کرنا ضروری ہے۔ اس عارضہ میں جسم میں انسولین نامی ہارمون کی ضروری مقدار یا تو پیدا نہیں ہو پاتی یا پھر بدن بعض اسباب کی بنا پر اس کی مطلوبہ مقدار استعمال کرنے سے قاصر ہوتا ہے۔ انسولین وہ ہارمون ہے جو شکر اور نشاستہ کو روزانہ درکار توانائی کی پیدائش کے قابل بناتا ہے۔ ہم جو کچھ بھی کھاتے ہیں ان سب کو توانائی کے حصول کے لیے بدن گلوکوز میں تبدیل کرتا ہے اور بدن کے مختلف حصوں میں ذخیرہ کرتا ہے۔ذیابیطس کی پیدائش کے صحیح اسباب کا ہنوز کوئی پتہ نہیں چل سکا ہے لیکن اس کے موروثی ہونے یا موٹاپے کی وجہ سے لاحق ہونے کے شواہد پائے جاتے ہیں۔
Diabetics on Insulin have to monitor more in the month of Ramadan and use short acting Insulin under medical supervision both the times i.e. Sahar and Iftar |
ویسے یہ فیصلہ خود ذیابیطس کے مریض اور اس کے معالج کو کرنا ہے کہ کون سی چیز کیسے اور کتنی استعمال کی جاسکتی ہے۔ کیونکہ ذیابیطس اپنے درجات کے اعتبار سے بالکل انفرادی معاملہ ہے، اس میں سیدھے سیدھے دو اور دو چار والی بات نہیں ہے۔ البتہ اس مضمون سے کسی قدر رہنمائی لی جا سکتی ہے۔
رمضان کے پورے مہینے میں روزہ کے دوران ذیابیطس کا مریض کیسی کیسی بدنی تبدیلیوں سے دوچار ہوتا ہے اس پر کوئی بہت زیادہ تحقیق اب تک نہیں ہوئی ہے۔ علاوہ اس کے جن مریضوں نے روزہ رکھا ہے انھیں بھی ذاتی طور پر کبھی شدید پیچیدگیوں کا تجربہ نہیں ہوا ہے۔ اس لیے جو باتیں لکھی اور بولی جاتی ہیں ان کی بنیاد وہ مشاہدے اور قیاسات ہیں یا مریضوں کے وہ خوف ہیں جو ذیابیطس کی خطرناکیوں سے معنون ہیں اور معالج نہیں چاہتے کہ مریض ان سب سے دوچار ہوں۔ بلکہ ماہرین کی رائے یہی ہے کہ ’’ذیابیطس کے مریض ماہِ رمضان میں بھی اپنے معمولاتِ دوا و غذا سے عام دنوں کی طرح جڑے رہیں البتہ رمضان میں سحر سے پہلے تک اور افطار کے بعد سے شب بھر میں کھانے پینے کے تبدیل شدہ حالات کو اپنی حالت کے مطابق بنائیں اور دواؤں کی مقدار و معمول (خصوصاً اگر انسولین لی جا رہی ہو تو) اپنے معالج سے مشورے کے مطابق کر لیں۔‘‘ کیونکہ روزہ کے دوران (۲۸ تا ۳۰ دن، کم و بیش پندرہ گھنٹے یومیہ) مسلمانوں کو نہ صرف یہ کہ کھانے پینے کی اشیاء ممنوع ہیں بلکہ کسی بھی طرح کی دوائیں لینا یا ورید (vein) کے اندر انجکشن لگوانا بھی ممنوع ہے۔ اور ہر مسلمان تقویٰ کی پیدائش و افزائش کے لیے روزہ رکھنے کی نیت کرتا ہی ہے۔
کھانے پینے کے حالات کے تعلق سے ’’کیلوری‘‘ (توانائی) کی پیمائش ضروری ہے جس کا سادہ سا فارمولہ یہ ہے کہ ہمیں ’’یومیہ ۳۰ کلوکیلوری فی کلوگرام‘‘ وزن کے حساب سے درکار ہوتی ہے۔ اور ایک اوسط وزن ساٹھ کلو گرام کا لیا جائے تو ایسے فرد کو ۱۸۰۰ کلوکیلوری توانائی درکار ہو گی۔ ہماری غذا تین خاص اجزاء پر مشتمل ہوتی ہے نشاستہ (کاربوہائیڈریٹ)، پروٹین اور چربی۔ ۱۸۰۰ کلو کیلوری کے حصول کے لیے ۱۸۰ گرام کاربوہائیڈریٹ، ۹۰گرام پروٹین اور ۸۰ گرام چربی درکار ہے۔ ان کی مختلف غذاؤں کے اعتبار سے دو وقت (سحر و افطار) میں تقسیم کر کے حساب کیا جاسکتا ہے۔
مطالعہ کی روشنی میں ذیابیطس کی وجہ عام روزہ دار میں دن بھر میں تقریباً ۶۰ ملی گرام تک بلڈ شوگر کم ہوا کرتی ہے لیکن بدن میں ذخیرہ کردہ شکر کو دوبارہ گلوکوز میں تبدیل کرنے کا عمل (گلوکونیوجینیسِس) Gluconeogenesis شروع ہونے کے بعد یہ سطح اور نیچے نہیں گرتی۔ نیز سحر کے وقت خاطر خواہ مقدار میں غذا کا استعمال بھی اسے سنبھالنے میں مددگار ہوتا ہے۔ اس طرح یہ واضح ہو جاتا ہے کہ بلڈ گلوکوز کی سطح نارمل رینج کے اندر ہی رہتی ہے اور خطرناک نہیں ہوا کرتی۔ جن مریضوں میں یہ سطح (سال بھر میں) تیزی سے کم یا زیادہ ہوتی ہے (Brittle type)، ان کو ماہرین روزے رکھنے سے منع کرتے ہیں۔ البتہ دیگر مریضوں میں علاج جاری رکھنے کے ساتھ کسی بھی قسم کی شدید پیچیدگی سامنے نہیں آتی۔ خون کی دیگر سبھی متعلقہ جانچ بھی کسی بڑے فرق کا اشارہ نہیں کرتی۔ جیسے کرئیٹنین Creatinine، یورک ایسیڈ Uric acid، بی یو این BUN وغیرہ۔
کن مریضوں کو روزہ رکھنا منع ہے؟
۱) جن مریضوں میں بلڈ گلوکوز کی سطح تیزی کے ساتھ کم یا زیادہ ہو جاتی ہے (Brittle type)
۲) جن میں ذیابیطس کا کنٹرول ٹھیک سے نہیں ہو۔
۳) ایسے مریض جو تنبیہ کے باوجود دواؤں اور غذاؤں کے استعمال میں بے پروا رہتے ہیں۔
۴) ذیابیطس کے وہ مریض جو بیک وقت قلبی امراض کا بھی شکار ہوں اور انجائنا جیسی تکلیف آتی رہتی ہو یا بے قابو ہائی بلڈ پریشر ہوتا ہو۔
۵) جن مریضوں میں پہلے بھی ذیابیطس کی پیچیدگی نظر آ چکی ہو۔
۶) ذیابیطس کا شکار حاملہ عورتیں۔
۷) ذیابیطس کا شکار ایسے افراد جنھیں بار بار مختلف انفیکشن ہو جاتے ہوں۔
۸) ذیابیطس والے ایسے عمر رسیدہ افراد جن کی ذہنی حالت متغیر ہوتی رہتی ہے۔
۹) ایسے مریض جن کو روزہ رکھنے کے دوران دو یا زیادہ مرتبہ ہائپوگلائسیمیا یا ہائپرگلائسیمیا کا سامنا کرنا پڑا ہو۔
کن کو روزہ رکھنے کی اجازت دی جا سکتی ہے؟
۱) جن لوگوں کو مذکورہ بالا حالات کا سامنا نہ ہو۔
۲) جو معالج کی ہدایات پر عمل کریں۔
۳) ایسے افراد جو موٹاپے کا شکار بھی ہوں اور انسولین نہ لے رہے ہوں، البتہ اس میں بھی حاملہ یا دودھ پلانے والی عورتوں کو منع کیا جانا چاہیے۔
۴) انسولین لگانے والے ایسے مریض جو گھر پر ہی اپنا بلڈ شوگر لیول چیک کر سکتے ہیں اور ان کا مرض کنٹرول میں ہو اور معالج کے پاس بھی برابر جاتے رہیں۔
رمضان سے پہلے ہی ایسے افراد کو اپنے معالج سے مشورہ کر کے تمام ہدایات پر عمل کرنا چاہیے۔ اور بلڈ شوگر کے کم ہونے پر سامنے آنے والی علامات کی اچھی طرح معلومات کر لینی چاہیے۔جیسے پانی کا کم ہونا، غنودگی، چکّر اور اسی قسم کی دوسری علامات۔ دواؤں کے تعلق سے رمضان میں مقدارِ خوراک اور دوا کی قسم میں معالج حسبِ ایام و ضرورت تبدیلی کرتے ہیں جسے مریض پر واضح کر دیا جاتا ہے، مگر رمضان کے بعد اپنے پرانے شیڈول پر رجوع ہو جانا چاہیے۔
کھانوں کی احتیاط:
چونکہ ذیابیطس کے تمام مریضوںکےلئے ایک جیسی معیاری غذا مقرر کرنا بہت مشکل ہے آپ کا ڈاکٹر ہی آپ کی حاجت اور خوراک کی کیلوریز کی ضرورت سے سب سے زیادہ واقف ہوتاہے ۔ اس لئے بیشتر مریضوں کےلئے ایک ہی قسم کا کھانا سہولت کا باعث نہ ہوگا۔ اس لئے بہتر یہ سمجھا ہے کہ مختلف قسم کے کھانوں کے متبادل بتادیئے جائیں ۔
روزہ رکھنے والے ذیابیطس کے مریض کو عام دنوں (غیرِ رمضان) میں کھانے کی بے قاعدگی اور پیٹ بھر کر کھانا کھانے کی عادتوں سے بچنا چاہیے۔ چربی دار اشیاء اور زیادہ شکر والی چیزوں سے بڑی حد تک اجتناب کرنا چاہیے تاکہ رمضان میں ایسی غذاؤں کی بھوک پریشان نہ کرے کیونکہ رمضان میں تلی ہوئی اشیاء کی کثرت ہوتی ہے۔ ان کی فہرست میں کئی تیکھی اور میٹھی اشیاء شامل ہیں مثلاً پراٹھے ، پوڑیاں، حلوے، چاٹ اور مشروبات وغیرہ۔ ذیابیطس کے مرض اور علاج دونوں کا براہ راست تعلق غذائی احتیاط ، کھانوں ، روزمرہ کا کام اور دواؤں کے مناسب وقفوں پر منحصر ہے ۔ سحری جتنی دیر سے ممکن ہو کریں۔ روزمرہ کے مشاغل حسبِ معمول جاری رکھیں مگر سہ پہر کو تھوڑی دیر آرام ضرور کریں ۔
ممنوعہ اشیا ء :
شکر، گڑ ، گلوکوز ، جام، شہد، مارملیڈ، شربت، ڈبوں میں بند پھل ، مٹھائیاں ، آئس کریم، چاکلیٹ، کیک، بسکٹ، پیسٹری، کھجور، اصلی گھی وغیرہ ۔
عام اجازت کی اشیا ء :
کلوریز کے اعتبار سے متوازن غذا ہونی چاہئے اور اعتدال بھی ضروری ہے۔ سبزیاں (مثلاً پالک وغیرہ )، عام مصالحے، اچار، چٹنی، گوشت، مچھلی، انڈے ، سلاد ، ٹماٹر ، پیاز ، چائے اور کافی وغیرہ ۔
مقررہ مقدار والی اشیا ء :
آپ کو روزانہ سحر یا افطار کے کھانوں میں مندرجہ ذیل فہرست سے انتخاب کرنا ہے۔
۱۔چھوٹی ڈبل روٹی کے دو سلائس یا بڑی کا ایک سلائس۔
۲۔ ڈیڑھ چھٹانک آٹے میں تیار ہونے والے تین پھلکوں میں ایک (آٹا چھنا ہوا نہ ہو )
۳۔ چائے کے ساتھ کھانے والے دو بسکٹ یا ٹوسٹ
۴۔پکا ہوا دَلیہ دو بڑے چمچہ ۔
۵۔اُبلے ہوئے چاول ایک بڑا چمچہ
۶۔ گوشت اور پولٹری کی اشیا ء ۔
۷۔ ایک پاؤ بغیر چربی کسی قسم کا گوشت مثلاً بڑا ، چھوٹا ، مرغی ، مچھلی ، ایک انڈا اُبلا ہوا۔
پھل :ایک درمیانہ سیب یا سنگترہ ، کینو (مالٹا) ، ناشپاتی، آڑو ۱۲۰ گرام ، تین آلو بخارہ ، ایک چھوٹا کیلا ۵۰ گرام (بمعہ چھلکا ) ،۴خوبانیاں، ۱۰ انگور، ایک سلائس ، خربوزہ، پپیتا یا پون پیالی جوس ۔
ترکاریاں : آلو کے ۸ درمیانہ چپس یا ۴ٹکڑے فرنچ بین، مٹر (کھانے کے دو چمچے، پالک دو چمچے، دو درمیانی مرچیں )
عام ہدایات :
آپ کی روزانہ کی خوراک کی مقدار / کلوریز وہی برقرار رہے گی جوپائی گئی ہے کیونکہ اسی کے حساب سے آپ کی خون میں شوگرکی مقدار کا کنٹرول ٹھیک لگایا گیا تھا۔ اس لئے یاد رکھیں کہ آپ ماہ رمضان میں پکنے والی اشیا ء خاص کر میٹھی و مرغن غذا سے پرہیز کیجئے اور چوبیس گھنٹے کی غذا کو دو برابر حصوں میں تقسیم کرکے جتنی دیر ہوسکے کریں۔ شکر کی مقدار کو کنٹرول رکھیں، غذا، روزمرہ کا کام اور دوائی حسب ہدایات کریں۔ البتہ سہ پہر کو تھوڑاسا آرام ضرورکریں۔ اس لئے دی ہوئی تفصیل سے اور ڈاکٹر سے خون وغیرہ کا مکمل چیک اپ کے ساتھ رابطہ رکھیں تاکہ آپ ماہ رمضان میں روزہ رکھ سکیں گے اور کسی غیر معمولی پیچیدگی کا شکار نہ ہوں گے اور بعض پیچیدہ ذیابیطس کے مریضوں کو روزہ فوراً توڑ دینا چاہئے۔ اچانک ہاتھوں کا کانپنا اور پسینہ آنا ، دل کی دھڑکن کا احساس ہونا۔ ایک چیز کی جگہ دو چیزیں نظر آنا۔ ہونٹوں اور زبان پر سوئیاں سی چبھتی محسوس ہونا، تشنج کے دورے پڑنا، صاف بول نہ سکنا ، آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانا وغیرہ ایسی علامات ہیں کہ ظاہر ہونے کے ساتھ ہی روزہ چھوڑ دینا چاہیے کیونکہ بصورتِ دیگر یہ خطرناک ہوتے ہیں