To View This Blog in Nastaliq Script Download Faiz Nastaliq Unicode Font

Download Faiz Nastaliq Unicode Font from http://www.faiznastaliq.com/faiznastaliq.zip unzip & install it to your windows/font directory

Thursday, August 4, 2011

Diabetes and the month of Ramadan
Dr. Rehan Ansari
ہماری عمر کا بیشتر حصہ اسی اُدھیڑبُن میں گذر جاتا ہے کہ کیا کھانا ہے، کیسے پکانا ہے اور کتنا کھانا ہے۔ رمضان کے موقع پر ذیابیطس کے مریضوں کا یہ تردّد اور بھی بڑھ جاتا ہے۔ اسی لیے وہ اپنے معالج سے یہ سوال ضرور کرتے ہیں کہ کیا وہ روزہ رکھ سکتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی یہ کہ کون کون سی احتیاط لازم ہے؟
ذیابیطس کوئی روایتی مرض نہیں ہے بلکہ جسم کی ایک افعالی و جسمانی خرابی یا معذوری ہے۔بینائی کی کمزوری کے بعد جیسے آدمی کو عینک پہننا لازمی ہے اسی طرح ذیابیطس لاحق ہونے کے بعد تاحیات غذائی احتیاط اور دوائیں استعمال کرنا ضروری ہے۔ اس عارضہ میں جسم میں انسولین نامی ہارمون کی ضروری مقدار یا تو پیدا نہیں ہو پاتی یا پھر بدن بعض اسباب کی بنا پر اس کی مطلوبہ مقدار استعمال کرنے سے قاصر ہوتا ہے۔ انسولین وہ ہارمون ہے جو شکر اور نشاستہ کو روزانہ درکار توانائی کی پیدائش کے قابل بناتا ہے۔ ہم جو کچھ بھی کھاتے ہیں ان سب کو توانائی کے حصول کے لیے بدن گلوکوز میں تبدیل کرتا ہے اور بدن کے مختلف حصوں میں ذخیرہ کرتا ہے۔ذیابیطس کی پیدائش کے صحیح اسباب کا ہنوز کوئی پتہ نہیں چل سکا ہے لیکن اس کے موروثی ہونے یا موٹاپے کی وجہ سے لاحق ہونے کے شواہد پائے جاتے ہیں۔


Diabetics on Insulin have to monitor more
in the month of Ramadan and use
short acting Insulin under medical supervision
both the times i.e. Sahar and Iftar
آگے بڑھنے سے پہلے سب سے زیادہ ضروری بات یہ سمجھتے چلیں کہ ’’خون میں شوگر کا زیادہ ہوجانا پیچیدگی ضرور پیدا کر سکتا ہے مگر خال خال ہی جان لیوا ہوتا ہے؛  جب کہ شوگر کا نارمل سے کم ہوجا نا خطرناک بھی ہے اور جان لیوا بھی!‘‘ اس نکتہ پر توجہ دی جائے تو ذیابیطس سے متاثر (جسے آگے ہم بھی مروّجہ طور پر مریض ہی لکھیں گے) کو خود بہت سے سوالات کا ازخود جواب مل جاتا ہے۔ ہم اسی بات کی توسیع کرتے چلیں گے اور رمضان کے مہینے میں ذیابیطس کے شکار کس طرح روزہ رکھ سکتے ہیں اور (ہمارے یہاں کے معمولات کے حساب سے) انھیں سحر و افطار میں بلا خطر کون کون سی اشیاء استعمال کرنے کی اجازت ہے ان پر روشنی ڈالی جاسکتی ہے۔
ویسے یہ فیصلہ خود ذیابیطس کے مریض اور اس کے معالج کو کرنا ہے کہ کون سی چیز کیسے اور کتنی استعمال کی جاسکتی ہے۔ کیونکہ ذیابیطس اپنے درجات کے اعتبار سے بالکل انفرادی معاملہ ہے، اس میں سیدھے سیدھے دو اور دو چار والی بات نہیں ہے۔ البتہ اس مضمون سے کسی قدر رہنمائی لی جا سکتی ہے۔
رمضان کے پورے مہینے میں روزہ کے دوران ذیابیطس کا مریض کیسی کیسی بدنی تبدیلیوں سے دوچار ہوتا ہے اس پر کوئی بہت زیادہ تحقیق اب تک نہیں ہوئی ہے۔ علاوہ اس کے جن مریضوں نے روزہ رکھا ہے انھیں بھی ذاتی طور پر کبھی شدید پیچیدگیوں کا تجربہ نہیں ہوا ہے۔ اس لیے جو باتیں لکھی اور بولی جاتی ہیں ان کی بنیاد وہ مشاہدے اور قیاسات ہیں یا مریضوں کے وہ خوف ہیں جو ذیابیطس کی خطرناکیوں سے معنون ہیں اور معالج نہیں چاہتے کہ مریض ان سب سے دوچار ہوں۔ بلکہ ماہرین کی رائے یہی ہے کہ ’’ذیابیطس کے مریض ماہِ رمضان میں بھی اپنے معمولاتِ دوا و غذا سے عام دنوں کی طرح جڑے رہیں البتہ رمضان میں سحر سے پہلے تک اور افطار کے بعد سے شب بھر میں کھانے پینے کے تبدیل شدہ حالات کو اپنی حالت کے مطابق بنائیں اور دواؤں کی مقدار و معمول (خصوصاً اگر انسولین لی جا رہی ہو تو) اپنے معالج سے مشورے کے مطابق کر لیں۔‘‘ کیونکہ روزہ کے دوران (۲۸ تا ۳۰ دن، کم و بیش پندرہ گھنٹے یومیہ) مسلمانوں کو نہ صرف یہ کہ کھانے پینے کی اشیاء ممنوع ہیں بلکہ کسی بھی طرح کی دوائیں لینا یا ورید (vein) کے اندر انجکشن لگوانا بھی ممنوع ہے۔ اور ہر مسلمان تقویٰ کی پیدائش و افزائش کے لیے روزہ رکھنے کی نیت کرتا ہی ہے۔
کھانے پینے کے حالات کے تعلق سے ’’کیلوری‘‘ (توانائی) کی پیمائش ضروری ہے جس کا سادہ سا فارمولہ یہ ہے کہ ہمیں ’’یومیہ ۳۰ کلوکیلوری فی کلوگرام‘‘ وزن کے حساب سے درکار ہوتی ہے۔ اور ایک اوسط وزن ساٹھ کلو گرام کا لیا جائے تو ایسے فرد کو ۱۸۰۰ کلوکیلوری توانائی درکار ہو گی۔ ہماری غذا تین خاص اجزاء پر مشتمل ہوتی ہے نشاستہ (کاربوہائیڈریٹ)، پروٹین اور چربی۔ ۱۸۰۰ کلو کیلوری کے حصول کے لیے ۱۸۰ گرام کاربوہائیڈریٹ، ۹۰گرام پروٹین اور ۸۰ گرام چربی درکار ہے۔ ان کی مختلف غذاؤں کے اعتبار سے دو وقت (سحر و افطار) میں تقسیم کر کے حساب کیا جاسکتا ہے۔
مطالعہ کی روشنی میں ذیابیطس کی وجہ عام روزہ دار میں دن بھر میں تقریباً ۶۰ ملی گرام تک بلڈ شوگر کم ہوا کرتی ہے لیکن بدن میں ذخیرہ کردہ شکر کو دوبارہ گلوکوز میں تبدیل کرنے کا عمل (گلوکونیوجینیسِس) Gluconeogenesis شروع ہونے کے بعد یہ سطح اور نیچے نہیں گرتی۔ نیز سحر کے وقت خاطر خواہ مقدار میں غذا کا استعمال بھی اسے سنبھالنے میں مددگار ہوتا ہے۔ اس طرح یہ واضح ہو جاتا ہے کہ بلڈ گلوکوز کی سطح نارمل رینج کے اندر ہی رہتی ہے اور خطرناک نہیں ہوا کرتی۔ جن مریضوں میں یہ سطح (سال بھر میں) تیزی سے کم یا زیادہ ہوتی ہے (Brittle type)، ان کو ماہرین روزے رکھنے سے منع کرتے ہیں۔ البتہ دیگر مریضوں میں علاج جاری رکھنے کے ساتھ کسی بھی قسم کی شدید پیچیدگی سامنے نہیں آتی۔ خون کی دیگر سبھی متعلقہ جانچ بھی کسی بڑے فرق کا اشارہ نہیں کرتی۔ جیسے کرئیٹنین Creatinine، یورک ایسیڈ Uric acid، بی یو این BUN وغیرہ۔
کن مریضوں کو روزہ رکھنا منع ہے؟
۱) جن مریضوں میں بلڈ گلوکوز کی سطح تیزی کے ساتھ کم یا زیادہ ہو جاتی ہے (Brittle type)
۲) جن میں ذیابیطس کا کنٹرول ٹھیک سے نہیں ہو۔
۳) ایسے مریض جو تنبیہ کے باوجود دواؤں اور غذاؤں کے استعمال میں بے پروا رہتے ہیں۔
۴) ذیابیطس کے وہ مریض جو بیک وقت قلبی امراض کا بھی شکار ہوں اور انجائنا جیسی تکلیف آتی رہتی ہو یا بے قابو ہائی بلڈ پریشر ہوتا ہو۔
۵) جن مریضوں میں پہلے بھی ذیابیطس کی پیچیدگی نظر آ چکی ہو۔
۶) ذیابیطس کا شکار حاملہ عورتیں۔
۷) ذیابیطس کا شکار ایسے افراد جنھیں بار بار مختلف انفیکشن ہو جاتے ہوں۔
۸) ذیابیطس والے ایسے عمر رسیدہ افراد جن کی ذہنی حالت متغیر ہوتی رہتی ہے۔
۹) ایسے مریض جن کو روزہ رکھنے کے دوران دو یا زیادہ مرتبہ ہائپوگلائسیمیا یا ہائپرگلائسیمیا کا سامنا کرنا پڑا ہو۔
کن کو روزہ رکھنے کی اجازت دی جا سکتی ہے؟
۱) جن لوگوں کو مذکورہ بالا حالات کا سامنا نہ ہو۔
۲) جو معالج کی ہدایات پر عمل کریں۔
۳) ایسے افراد جو موٹاپے کا شکار بھی ہوں اور انسولین نہ لے رہے ہوں، البتہ اس میں بھی حاملہ یا دودھ پلانے والی عورتوں کو منع کیا جانا چاہیے۔
۴) انسولین لگانے والے ایسے مریض جو گھر پر ہی اپنا بلڈ شوگر لیول چیک کر سکتے ہیں اور ان کا مرض کنٹرول میں ہو اور معالج کے پاس بھی برابر جاتے رہیں۔
رمضان سے پہلے ہی ایسے افراد کو اپنے معالج سے مشورہ کر کے تمام ہدایات پر عمل کرنا چاہیے۔ اور بلڈ شوگر کے کم ہونے پر سامنے آنے والی علامات کی اچھی طرح معلومات کر لینی چاہیے۔جیسے پانی کا کم ہونا، غنودگی، چکّر اور اسی قسم کی دوسری علامات۔ دواؤں کے تعلق سے رمضان میں مقدارِ خوراک اور دوا کی قسم میں معالج حسبِ ایام و ضرورت تبدیلی کرتے ہیں جسے مریض پر واضح کر دیا جاتا ہے، مگر رمضان کے بعد اپنے پرانے شیڈول پر رجوع ہو جانا چاہیے۔
کھانوں کی احتیاط:
چونکہ ذیابیطس کے تمام مریضوںکےلئے ایک جیسی معیاری غذا مقرر کرنا بہت مشکل ہے آپ کا ڈاکٹر ہی آپ کی حاجت اور خوراک کی کیلوریز کی ضرورت سے سب سے زیادہ واقف ہوتاہے ۔ اس لئے بیشتر مریضوں کےلئے ایک ہی قسم کا کھانا سہولت کا باعث نہ ہوگا۔ اس لئے بہتر یہ سمجھا  ہے کہ مختلف قسم کے کھانوں کے متبادل بتادیئے جائیں ۔
روزہ رکھنے والے ذیابیطس کے مریض کو عام دنوں (غیرِ رمضان) میں کھانے کی بے قاعدگی اور پیٹ بھر کر کھانا کھانے کی عادتوں سے بچنا چاہیے۔ چربی دار اشیاء اور زیادہ شکر والی چیزوں سے بڑی حد تک اجتناب کرنا چاہیے تاکہ رمضان میں ایسی غذاؤں کی بھوک پریشان نہ کرے کیونکہ رمضان میں تلی ہوئی اشیاء کی کثرت ہوتی ہے۔ ان کی فہرست میں کئی تیکھی اور میٹھی اشیاء شامل ہیں مثلاً پراٹھے ، پوڑیاں، حلوے، چاٹ اور مشروبات  وغیرہ۔ ذیابیطس کے مرض اور علاج دونوں کا براہ راست تعلق غذائی  احتیاط ، کھانوں ، روزمرہ کا کام اور دواؤں کے مناسب وقفوں   پر منحصر ہے ۔ سحری جتنی دیر سے ممکن ہو کریں۔ روزمرہ کے مشاغل حسبِ معمول جاری رکھیں مگر سہ پہر کو تھوڑی دیر آرام ضرور کریں ۔
ممنوعہ اشیا ء :

 شکر، گڑ ، گلوکوز ، جام، شہد،  مارملیڈ، شربت، ڈبوں میں بند پھل ، مٹھائیاں ، آئس کریم،  چاکلیٹ، کیک، بسکٹ، پیسٹری، کھجور، اصلی گھی وغیرہ ۔
 عام  اجازت کی اشیا ء :

 کلوریز کے اعتبار سے متوازن غذا ہونی چاہئے اور اعتدال بھی ضروری ہے۔ سبزیاں (مثلاً پالک وغیرہ )، عام مصالحے، اچار، چٹنی، گوشت، مچھلی، انڈے ، سلاد ، ٹماٹر ، پیاز ، چائے اور کافی وغیرہ ۔
مقررہ  مقدار والی اشیا ء :

 آپ کو روزانہ سحر یا افطار کے کھانوں میں مندرجہ ذیل فہرست سے  انتخاب کرنا ہے۔
۱۔چھوٹی ڈبل روٹی کے دو سلائس یا بڑی کا ایک سلائس۔
۲۔ ڈیڑھ چھٹانک آٹے میں تیار ہونے والے تین پھلکوں میں ایک (آٹا چھنا ہوا نہ ہو )
۳۔ چائے کے ساتھ کھانے والے دو بسکٹ یا ٹوسٹ
 ۴۔پکا ہوا دَلیہ دو بڑے چمچہ ۔
۵۔اُبلے ہوئے چاول ایک بڑا چمچہ
۶۔ گوشت اور پولٹری کی اشیا ء ۔
۷۔ ایک پاؤ بغیر چربی کسی قسم کا گوشت مثلاً بڑا ، چھوٹا ، مرغی ، مچھلی ، ایک انڈا اُبلا ہوا۔
 پھل :ایک درمیانہ سیب یا سنگترہ ، کینو (مالٹا) ، ناشپاتی، آڑو ۱۲۰ گرام ، تین آلو بخارہ ، ایک چھوٹا کیلا ۵۰ گرام (بمعہ چھلکا ) ،۴خوبانیاں، ۱۰ انگور، ایک سلائس ، خربوزہ،  پپیتا یا پون پیالی جوس ۔
 ترکاریاں : آلو کے ۸ درمیانہ چپس یا ۴ٹکڑے فرنچ بین، مٹر (کھانے کے دو چمچے، پالک دو چمچے، دو درمیانی مرچیں )


عام  ہدایات :
آپ کی روزانہ کی خوراک   کی مقدار / کلوریز وہی برقرار رہے گی جوپائی گئی ہے کیونکہ  اسی کے حساب سے آپ کی خون میں شوگرکی مقدار کا کنٹرول ٹھیک لگایا گیا تھا۔ اس لئے یاد رکھیں کہ آپ ماہ رمضان میں  پکنے والی اشیا ء خاص کر میٹھی و مرغن غذا سے پرہیز کیجئے اور چوبیس گھنٹے کی غذا کو دو برابر حصوں میں تقسیم کرکے جتنی دیر ہوسکے کریں۔ شکر کی مقدار کو کنٹرول رکھیں، غذا، روزمرہ کا کام اور دوائی حسب ہدایات کریں۔ البتہ سہ پہر کو تھوڑاسا آرام ضرورکریں۔ اس لئے دی ہوئی تفصیل سے اور ڈاکٹر سے خون وغیرہ کا مکمل چیک اپ کے ساتھ رابطہ رکھیں تاکہ آپ ماہ رمضان میں روزہ رکھ سکیں گے اور کسی غیر معمولی پیچیدگی کا شکار نہ ہوں گے اور بعض پیچیدہ ذیابیطس کے مریضوں کو روزہ فوراً توڑ دینا چاہئے۔ اچانک ہاتھوں کا کانپنا اور پسینہ آنا ، دل کی دھڑکن کا احساس ہونا۔ ایک چیز کی جگہ دو چیزیں نظر آنا۔ ہونٹوں اور زبان پر سوئیاں سی چبھتی محسوس ہونا، تشنج کے دورے پڑنا، صاف بول نہ سکنا ، آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانا وغیرہ ایسی علامات ہیں کہ ظاہر ہونے کے ساتھ ہی روزہ چھوڑ دینا چاہیے کیونکہ بصورتِ دیگر یہ خطرناک ہوتے ہیں

Tuesday, August 2, 2011

Saum : Ramadan Fasting
The Scientific ViewpointDr. Rehan Ansari
روزہ ایک اسلامی فریضہ ہے،ایک عبادت ہے۔ سائنسی نقطہ نظر سے یہ اتنا اہم عمل ہے کہ قدیم انسانی تاریخ سے یہ مختلف مذاہب میں مختلف صورتوں میں رائج رہا ہے۔ روزہ کیلئے عربی لفظ ’صوم‘ استعمال کیا جا تا ہے اور اس کے متبادل کے طور پر انگریزی میں fasting لکھا جاتا ہے۔لیکن یہ عجیب بات ہے کہ ’صوم‘ اور Fasting لغوی اور اصطلاحی دونوں معنوں میں قطعی مختلف ہیں۔صوم کے لغوی معنی ہیں (تعمیل کرتے ہوئے) رک جانا جبکہ لغت کے اعتبار سے فاسٹنگ کے معنی ہیں غذا کا استعمال ترک کردینا ۔ اصطلاحی طور پر صوم خصوصیت کے ساتھ ایک حکمِ شرعی ہے۔ جس کے تحت آدمی کو صرف کھانے اور پینے والی چیزوں کے استعمال سے ہی روکنا مطلوب نہیں ہے بلکہ اپنی بہت سی خواہشاتِ نفسانی جیسے مختلف عادات ، مشاغل اور خواہشِ جماع سے رکنا ضروری ہو جاتا ہے۔ اس کے برعکس فاسٹنگ میں صرف غذا سے حاصل ہونے والی کیلوری میں تخفیف کے لیے ایک مخصوص غذائی فہرست اور ٹائم ٹیبل کی پابندی مقصود ہوتی ہے۔ گویا فاسٹنگ صرف غذا کے استعمال سے متعلق ہے اسی طرح فاسٹنگ عموماً صرف فربہ افراد کے لیے مخصوص ہے جبکہ روزہ میں افراد پر موٹا یا دبلا ہونے کی قید ہے نہ غذائی پابندی لگائی جاتی ہے کہ یہ کھایا جائے اور یہ نہ کھایا جائے۔
روزہ کا مقصد
روزہ خالقِ کائنات کی جانب سے ایک حکم ہے۔ ایک رہنمائی ہے۔ جو صرف انسانوں کے لیے مخصوص ہے۔ اس کا مقصد نفس میں تقویٰ کی پیدائش ہے۔ اسلامی تعلیمات کے اعتبار سے رہر شخص کو اپنے پیٹ کے تین حصے کرنا چاہیے۔ ایک کھانے (غذا) کے لیے، دوسرا پانی (سیال) کے لیے اور تیسرا روح (ہوا) کے لیے۔ پیٹ کی اس منطقی تقسیم میں کتنے گُن بھرے ہیں اسے ہر وہ شخص محسوس کرسکتا ہے جو انسان کی جسمانی صحت کی فکر کرتا ہے۔ کیونکہ یہی اصول تقویٰ کا پہلا زینہ ہے۔ تقویٰ کے معنی اپنے نفس کو ہر اس چیز سے بچانا، پاک کرنا ہے، جو گمراہی کی طرف لے جاتی ہے۔یہ پرہیزگاری اور پاکی تین قسم کی ہے۔روحانی لحاظ سے پاکی، اخلاقی لحاظ سے پاکی اور جسمانی لحاظ سے پاکی۔ روزہ انسانی جسم و روح کو پاک کرتا ہے اور اخلاق سنوارتا ہے۔
ان عنوانات پر منطقی بحث سے استدلال کیا جاسکتا ہے اور قائل ہونا پڑتا ہے کہ انسان کی روح و جسم اور اخلاق کی ترقی میں روزہ اہم رول ادا کرتا ہے۔ لیکن سائنس مادّہ سے بحث کرتی ہے چنانچہ اس مختصر سے مضمون میں روزے سے جسم کو پہنچنے والے فائدے پر ہی روزشنی ڈالی جائے گی۔
جسم ایک مشین
سائنسی اعتبار سے جسم ایک بایولوجیکل مشین ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ اس مشین کے تمام کل پرزے بھی صحتمند ہوں اور ان کے افعال بھی اعتدال پر چل رہے ہوں۔ اس جسامانی مشین کے درست حالت میں کام کرنے کے لیے مناسب غذا کے ایندھن کی ضرورت ہے جو ہضم کے عمل سے گذر کر بدن کو توانائی فراہم کرے۔ ایسے ہی کسی مشین میں کام کے دوران کچھ نہ کچھ بگاڑ بھی ضرور پیدا ہوتا ہے جو مشین کی سروِسنگ (Servicing) اور اووَرہالنگ (Overhauling) کا متقاضی ہوتا ہے۔ روزہ جسم کا یہ تقاضہ فطری طور پر پورا کرتا ہے کیونکہ روزہ ایک طرح سے حیاتیاتی کیمیا کی استحالاتی مشق (Biochemical metabolic exercise) ہے۔ مطلب یہ کہ جسم کے اندرونی نظام اور غذا پر مختلف ہارمون اور انزائم کے اعمال کی درستگی قائم رکھنے کے لیے پورے باڈی سسٹم کو اعتدال پر لانے کا طریقہ ہے۔تاکہ بدن میں اندرونی طور پر جمع شدہ توانائی کا فاضل حصّہ (جو طویل عرصہ تک پڑا رہے تو نقصان پیدا کر سکتا ہے) بدن خود استعمال کر لے اور اس وجہ سے روزمرہ مصروف رہنے والے نظامِ ہضم و استحالہ (یعنی ہضم کے عمل) کو آرام بھی پہنچے۔اس کے علاوہ روزہ سے انسان کے جسم کو غذا کی کمی میں بھی کام کرنے کی عادت ہوجاتی ہے۔
غذا اور روزہ
انسانی غذا کے تین اہم اجزا ہیں۔ نشاستہ، پروٹین (لحم) اور چربی (شحم)۔ جو کھانے کے بعد ہضم کے عمل سے سادہ مرکبات میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ اس طرح بدن کے لیے نشاستہ یعنی کاربوہائیڈریٹ گلوکوز (Glucose) میں، پروٹین اور اس کے اجزا امینو ایسیڈ (Amino acid) اور چربی کے اجزا شحمی ترشہ  (Fatty acids) میں بدل جاتے ہیں۔ پھر خون میں جذب ہوکر جسم کے ہر نظام اور عضو میں پہنچتے ہیں۔ جہاں وہ جل کر استحالہ  (Metabolism) کے ذریعہ توانائی  (Energy) پیدا کرتے ہیں اور اعضا کے استعمال میں آتے ہیں۔


فاضل توانائی کے خراب اثرات
٭اگر یہ سادہ مرکبات جسم کے استعمال میں نہیں آتے تو بدن میں مختلف مقامات پر ذخیرہ ہوجاتے ہیں۔ جگر اور گوشت میں گلوکوز تبدیل ہوکر گلائیکوجن (Glycogen) کی شکل میں جمع رہتا ہے، امینو ایسیڈ دوبارہ پروٹین میں بدل جاتے ہیں اور عضلات وغیرہ میں جمع رہتے ہیں۔ جبکہ فیٹی ایسیڈ روغنی خلیات (Adipose tissues) کی شکل میں منتقل ہوجاتے ہیں۔
٭ غذا کے ایسے ذخیروں سے بدن کو موٹاپا لاحق ہوتا ہے۔ جس کے بعد ذیابیطس اور قلبی امراض کا بیج پڑ جاتا ہے۔ موٹاپے کے سبب بدن میں کولیسٹرول (Cholesterol) اور ٹرائی گلیسرائیڈ (Triglyceride) جیسے روغنی اجزا کی خون میں کثرت ہوجاتی ہے۔اور ایک بار یہ مرض لاحق ہوگیا تو اس سے چھٹکارا بہت مشکل ہے۔ چنانچہ اسے کنٹرول کرنے کے لیے  روزہ رکھنا بہت مفید عمل ہے۔ جسے رمضان کے علاوہ سال کے دیگر ایام میں بھی اختیار کیا جاسکتا ہے۔تحقیقات سے ثابت ہے کہ روزہ رکھنے سے بلڈ پریشر اور دیگر قلبی امراض میں بہت فائدہ حاصل ہوتا ہے اور بدن پر کوئی عمومی مضر اثرات بھی نہیں پڑتے۔ بلکہ چربی کے استحالہ (Fat metabolism) پر فائدہ بخش اثر پڑتا ہے۔


Iftaar: The time to end SAUM
٭ بسیار خوری اور ہمیشہ شکم سیر رہنے کی عادت معدہ میں نمک کے ترشہ  (ہائیڈروکلورک ایسیڈ) Hydrochloric acid  کے اخراج پر برا اثر رکھتی ہے۔ کیونکہ معدہ یہ تیزاب مسلسل خارج کرنے کا عادی ہوجاتا ہے۔ اس طرح اَلسر Ulcer یعنی قرح کی پیدائش کا سبب بنتا ہے۔ایسے لوگوں میں بھوک کے وقت السر ہونے کے قوی امکانات رہتے ہیں۔ مگر جو افراد روزہ اختیار کرتے ہیں ان کے معدہ کو آرام کا موقع ملتا رہتا ہے اس لیے ہائیڈروکلورک ایسیڈ کا اخراج بھی کنٹرول میں رہتا ہے اور السر کا خطرہ کم ہوجاتا ہے۔
٭ جگر بدن کی سینٹرل فیکٹری ہے۔جہاں خام مال آتا ہے اور پروسیس ہوکر بدن کے لیے قابلِ استعمال بن جاتا ہے۔آدمی جو کچھ کھاتا ہے وہ جگر کے ذریعہ سادہ مرکبات میں تبدیل کر دیا جاتا ہے۔ پھر اس میں سے بدن کے استعمال کرنے کے بعد بھی جو کچھ بچ رہتا ہے وہ پس انداز کیا ہوا حصہ جگر دوبارہ پروسیس کر کے ذخیرہ ہونے کے قابل بنا کر مختلف ڈپو میں جمع کرا دیتا ہے۔اسی طرح غذا کی عدم فراہمی کے حالات میں بدن میں ذخیرہ کردہ غذائی تونائی کو جگر دوبارہ معکوس (اُلٹے) تعاملات کے ذریعہ سادہ مرکبات میں تبدیل کرتا ہے۔جگر کا یہ دوجانبی عمل ہمیشہ جاری رہتا ہے۔اور بدن کو اسٹاک کیے ہوئے غذائی اجزا کی وجہ سے ہونے والے امراض سے بچاؤ ہوتا ہے۔
اخلاقیات اور روزہ
٭ روزہ کی حالت میں چند ہارمون کی مقدار خون میں بڑھ جاتی ہے جیسے Cortisol, ACTH, Endorphin B, Lipotrophine, Adrenaline, Nor-adrenaline۔ اور اس کے برخلاف جنسی ہارمون Androgen کی پیدائش کچھ گھٹ جاتی ہے۔ اس لیے جنسی بھوک کا احساس کم ہوجاتا ہے۔ (اسی سبب حدیثِ مبارکہ میں آیا ہے کہ جنھیں نکاح کی استطاعت نہ ہو وہ روزہ رکھا کریں)۔ ہارمونس کی مقدارِ پیدائش میں ایسے واضح  فرق کے نتیجے میں انسان کے موڈ اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت پر بہت گہرا اثر پڑتا ہے۔ اس طرح اس کی اخلاقی اور روحانی ترقی ہوتی ہے۔
٭ روزہ دار کو فاسٹنگ یا ڈائٹنگ کرنے والوں کی مانند بے لگام بھی نہیں چھوڑ دیا گیا ہے بلکہ اس حالت میں اس پر چند پابندیوں کا اطلاق بھی لازم کیا گیا ہے۔ اخلاقی اور روحانی ترقی کے لیے روزے کے آداب بھی سکھائے گئے ہیں۔ آپؐ کی واضح ہدایات موجود ہیں جیسے بے جا زیادتی کرنے والوں کو صرف یہ جواب دینا کہ ’’میرا روزہ ہے‘‘، خود روزہ دار پر اور مقابل پر بھی گہرا اخلاقی اثر مرتب کرتا ہے۔اور ضبطِ نفس کو آسان بنا دیتا ہے۔ اسی طرح روزہ کی فضیلت اور احترام کو قائم رکھنے کے لیے روزہ دار بہت سی لغو اور بری عادتوں سے بچتا ہے اور ازخود بے جا نفسانی خواہشات اورمضر عادتوں سے بچنے کی ٹریننگ ہو جاتی ہے۔
٭ تراویح اور سماعتِ قرآن مجید کی طرف توجہ اور یکسوئی کے ساتھ طویل قیام ورکوع اور سجدہ سے ایک روحانی کیفیت وجود میں آتی ہے نیز ساتھ ہی ساتھ منظم جسمانی حرکات فزیوتھیراپی کی مانند دورانِ خون کو درست کرتی ہیں اور اس طرح سیکڑوں قلبی اور دماغی کمزوریوں کو دور کرنے کا باعث ہیں۔
٭ تراویح اور دیگر عبادات کے خیال سے آدمی پُرخوری سے بچتا ہے تاکہ سستی اور کاہلی عبادات میں مانع اور حارج نہ ہو۔
ان تمام باتوں کو رمضان کے گذرتے ایام کے ساتھ ہر روزہ دار محسوس کرتا ہے اور ہم نے جیسا کہ پہلے لکھا ہے کہ روزہ سے جسمانی مشین کی سروِسنگ اور اوورہالنگ ہوتی ہے یا دوسرے مناسب الفاظ میں تزکیۂ نفس و بدن عمل میں آتا ہے تو آخرِ رمضان تک حقیقتاً ایک معتدل جسمانی اور نفسانی حالت کا احساس ہوتا ہے۔ جسے انسان چاہے تو سال کے دوسرے مہینوں میں سنبھال سکتا ہے۔ مگر یہ قدرے مشکل کام ہے اس لیے ہر سال ماہِ رمضان کے روزوں کو فرض کردیا گیا ہے تاکہ یہ عمل مسلسل دوہرایا جاتا رہے۔



Saum is not just to abstain from food; It means much more

Monday, August 1, 2011

Mulla ki lathi haanke chaand
Abr se kyonkar jhaanke chaand
Dr. Rehan Ansari

(Mulla's staff drives away the moon /
Why then the crescent peek through the clouds?)