![]() |
Saum : Ramadan Fasting The Scientific ViewpointDr. Rehan Ansari |
روزہ کا مقصد
روزہ خالقِ کائنات کی جانب سے ایک حکم ہے۔ ایک رہنمائی ہے۔ جو صرف انسانوں کے لیے مخصوص ہے۔ اس کا مقصد نفس میں تقویٰ کی پیدائش ہے۔ اسلامی تعلیمات کے اعتبار سے رہر شخص کو اپنے پیٹ کے تین حصے کرنا چاہیے۔ ایک کھانے (غذا) کے لیے، دوسرا پانی (سیال) کے لیے اور تیسرا روح (ہوا) کے لیے۔ پیٹ کی اس منطقی تقسیم میں کتنے گُن بھرے ہیں اسے ہر وہ شخص محسوس کرسکتا ہے جو انسان کی جسمانی صحت کی فکر کرتا ہے۔ کیونکہ یہی اصول تقویٰ کا پہلا زینہ ہے۔ تقویٰ کے معنی اپنے نفس کو ہر اس چیز سے بچانا، پاک کرنا ہے، جو گمراہی کی طرف لے جاتی ہے۔یہ پرہیزگاری اور پاکی تین قسم کی ہے۔روحانی لحاظ سے پاکی، اخلاقی لحاظ سے پاکی اور جسمانی لحاظ سے پاکی۔ روزہ انسانی جسم و روح کو پاک کرتا ہے اور اخلاق سنوارتا ہے۔
ان عنوانات پر منطقی بحث سے استدلال کیا جاسکتا ہے اور قائل ہونا پڑتا ہے کہ انسان کی روح و جسم اور اخلاق کی ترقی میں روزہ اہم رول ادا کرتا ہے۔ لیکن سائنس مادّہ سے بحث کرتی ہے چنانچہ اس مختصر سے مضمون میں روزے سے جسم کو پہنچنے والے فائدے پر ہی روزشنی ڈالی جائے گی۔
جسم ایک مشین
سائنسی اعتبار سے جسم ایک بایولوجیکل مشین ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ اس مشین کے تمام کل پرزے بھی صحتمند ہوں اور ان کے افعال بھی اعتدال پر چل رہے ہوں۔ اس جسامانی مشین کے درست حالت میں کام کرنے کے لیے مناسب غذا کے ایندھن کی ضرورت ہے جو ہضم کے عمل سے گذر کر بدن کو توانائی فراہم کرے۔ ایسے ہی کسی مشین میں کام کے دوران کچھ نہ کچھ بگاڑ بھی ضرور پیدا ہوتا ہے جو مشین کی سروِسنگ (Servicing) اور اووَرہالنگ (Overhauling) کا متقاضی ہوتا ہے۔ روزہ جسم کا یہ تقاضہ فطری طور پر پورا کرتا ہے کیونکہ روزہ ایک طرح سے حیاتیاتی کیمیا کی استحالاتی مشق (Biochemical metabolic exercise) ہے۔ مطلب یہ کہ جسم کے اندرونی نظام اور غذا پر مختلف ہارمون اور انزائم کے اعمال کی درستگی قائم رکھنے کے لیے پورے باڈی سسٹم کو اعتدال پر لانے کا طریقہ ہے۔تاکہ بدن میں اندرونی طور پر جمع شدہ توانائی کا فاضل حصّہ (جو طویل عرصہ تک پڑا رہے تو نقصان پیدا کر سکتا ہے) بدن خود استعمال کر لے اور اس وجہ سے روزمرہ مصروف رہنے والے نظامِ ہضم و استحالہ (یعنی ہضم کے عمل) کو آرام بھی پہنچے۔اس کے علاوہ روزہ سے انسان کے جسم کو غذا کی کمی میں بھی کام کرنے کی عادت ہوجاتی ہے۔
غذا اور روزہ
انسانی غذا کے تین اہم اجزا ہیں۔ نشاستہ، پروٹین (لحم) اور چربی (شحم)۔ جو کھانے کے بعد ہضم کے عمل سے سادہ مرکبات میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ اس طرح بدن کے لیے نشاستہ یعنی کاربوہائیڈریٹ گلوکوز (Glucose) میں، پروٹین اور اس کے اجزا امینو ایسیڈ (Amino acid) اور چربی کے اجزا شحمی ترشہ (Fatty acids) میں بدل جاتے ہیں۔ پھر خون میں جذب ہوکر جسم کے ہر نظام اور عضو میں پہنچتے ہیں۔ جہاں وہ جل کر استحالہ (Metabolism) کے ذریعہ توانائی (Energy) پیدا کرتے ہیں اور اعضا کے استعمال میں آتے ہیں۔
فاضل توانائی کے خراب اثرات
٭اگر یہ سادہ مرکبات جسم کے استعمال میں نہیں آتے تو بدن میں مختلف مقامات پر ذخیرہ ہوجاتے ہیں۔ جگر اور گوشت میں گلوکوز تبدیل ہوکر گلائیکوجن (Glycogen) کی شکل میں جمع رہتا ہے، امینو ایسیڈ دوبارہ پروٹین میں بدل جاتے ہیں اور عضلات وغیرہ میں جمع رہتے ہیں۔ جبکہ فیٹی ایسیڈ روغنی خلیات (Adipose tissues) کی شکل میں منتقل ہوجاتے ہیں۔
٭ غذا کے ایسے ذخیروں سے بدن کو موٹاپا لاحق ہوتا ہے۔ جس کے بعد ذیابیطس اور قلبی امراض کا بیج پڑ جاتا ہے۔ موٹاپے کے سبب بدن میں کولیسٹرول (Cholesterol) اور ٹرائی گلیسرائیڈ (Triglyceride) جیسے روغنی اجزا کی خون میں کثرت ہوجاتی ہے۔اور ایک بار یہ مرض لاحق ہوگیا تو اس سے چھٹکارا بہت مشکل ہے۔ چنانچہ اسے کنٹرول کرنے کے لیے روزہ رکھنا بہت مفید عمل ہے۔ جسے رمضان کے علاوہ سال کے دیگر ایام میں بھی اختیار کیا جاسکتا ہے۔تحقیقات سے ثابت ہے کہ روزہ رکھنے سے بلڈ پریشر اور دیگر قلبی امراض میں بہت فائدہ حاصل ہوتا ہے اور بدن پر کوئی عمومی مضر اثرات بھی نہیں پڑتے۔ بلکہ چربی کے استحالہ (Fat metabolism) پر فائدہ بخش اثر پڑتا ہے۔
![]() |
Iftaar: The time to end SAUM |
٭ جگر بدن کی سینٹرل فیکٹری ہے۔جہاں خام مال آتا ہے اور پروسیس ہوکر بدن کے لیے قابلِ استعمال بن جاتا ہے۔آدمی جو کچھ کھاتا ہے وہ جگر کے ذریعہ سادہ مرکبات میں تبدیل کر دیا جاتا ہے۔ پھر اس میں سے بدن کے استعمال کرنے کے بعد بھی جو کچھ بچ رہتا ہے وہ پس انداز کیا ہوا حصہ جگر دوبارہ پروسیس کر کے ذخیرہ ہونے کے قابل بنا کر مختلف ڈپو میں جمع کرا دیتا ہے۔اسی طرح غذا کی عدم فراہمی کے حالات میں بدن میں ذخیرہ کردہ غذائی تونائی کو جگر دوبارہ معکوس (اُلٹے) تعاملات کے ذریعہ سادہ مرکبات میں تبدیل کرتا ہے۔جگر کا یہ دوجانبی عمل ہمیشہ جاری رہتا ہے۔اور بدن کو اسٹاک کیے ہوئے غذائی اجزا کی وجہ سے ہونے والے امراض سے بچاؤ ہوتا ہے۔
اخلاقیات اور روزہ
٭ روزہ کی حالت میں چند ہارمون کی مقدار خون میں بڑھ جاتی ہے جیسے Cortisol, ACTH, Endorphin B, Lipotrophine, Adrenaline, Nor-adrenaline۔ اور اس کے برخلاف جنسی ہارمون Androgen کی پیدائش کچھ گھٹ جاتی ہے۔ اس لیے جنسی بھوک کا احساس کم ہوجاتا ہے۔ (اسی سبب حدیثِ مبارکہ میں آیا ہے کہ جنھیں نکاح کی استطاعت نہ ہو وہ روزہ رکھا کریں)۔ ہارمونس کی مقدارِ پیدائش میں ایسے واضح فرق کے نتیجے میں انسان کے موڈ اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت پر بہت گہرا اثر پڑتا ہے۔ اس طرح اس کی اخلاقی اور روحانی ترقی ہوتی ہے۔
٭ روزہ دار کو فاسٹنگ یا ڈائٹنگ کرنے والوں کی مانند بے لگام بھی نہیں چھوڑ دیا گیا ہے بلکہ اس حالت میں اس پر چند پابندیوں کا اطلاق بھی لازم کیا گیا ہے۔ اخلاقی اور روحانی ترقی کے لیے روزے کے آداب بھی سکھائے گئے ہیں۔ آپؐ کی واضح ہدایات موجود ہیں جیسے بے جا زیادتی کرنے والوں کو صرف یہ جواب دینا کہ ’’میرا روزہ ہے‘‘، خود روزہ دار پر اور مقابل پر بھی گہرا اخلاقی اثر مرتب کرتا ہے۔اور ضبطِ نفس کو آسان بنا دیتا ہے۔ اسی طرح روزہ کی فضیلت اور احترام کو قائم رکھنے کے لیے روزہ دار بہت سی لغو اور بری عادتوں سے بچتا ہے اور ازخود بے جا نفسانی خواہشات اورمضر عادتوں سے بچنے کی ٹریننگ ہو جاتی ہے۔
٭ تراویح اور سماعتِ قرآن مجید کی طرف توجہ اور یکسوئی کے ساتھ طویل قیام ورکوع اور سجدہ سے ایک روحانی کیفیت وجود میں آتی ہے نیز ساتھ ہی ساتھ منظم جسمانی حرکات فزیوتھیراپی کی مانند دورانِ خون کو درست کرتی ہیں اور اس طرح سیکڑوں قلبی اور دماغی کمزوریوں کو دور کرنے کا باعث ہیں۔
٭ تراویح اور دیگر عبادات کے خیال سے آدمی پُرخوری سے بچتا ہے تاکہ سستی اور کاہلی عبادات میں مانع اور حارج نہ ہو۔
ان تمام باتوں کو رمضان کے گذرتے ایام کے ساتھ ہر روزہ دار محسوس کرتا ہے اور ہم نے جیسا کہ پہلے لکھا ہے کہ روزہ سے جسمانی مشین کی سروِسنگ اور اوورہالنگ ہوتی ہے یا دوسرے مناسب الفاظ میں تزکیۂ نفس و بدن عمل میں آتا ہے تو آخرِ رمضان تک حقیقتاً ایک معتدل جسمانی اور نفسانی حالت کا احساس ہوتا ہے۔ جسے انسان چاہے تو سال کے دوسرے مہینوں میں سنبھال سکتا ہے۔ مگر یہ قدرے مشکل کام ہے اس لیے ہر سال ماہِ رمضان کے روزوں کو فرض کردیا گیا ہے تاکہ یہ عمل مسلسل دوہرایا جاتا رہے۔
![]() |
Saum is not just to abstain from food; It means much more |
1 comment:
Kaafi aham maaloomaat hai, Shukriya
Post a Comment