International Terrorist Israel's Brutality and Genocide Attack on Helpless Palestinians Dr. Rehan Ansari |
ہماری پیدائش سے بھی قبل، عرصہ پہلے، 1958ء میں ایک ہندی فلم ’’یہودی‘‘ ریلیز ہوئی تھی۔ اس میں سلطانِ روم (عیسائی) کے دربار میں اپنی مظلومیت کی دہائی دیتے ہوئے ایک یہودی کردار (سہراب مودی) کا یہ ڈائیلاگ بیحد مشہور ہوا تھا۔ اس قدر مشہور ہوا تھا کہ ہمیں ہوش سنبھالنے کے بعد بھی ایک عرصہ تک اس کی گونج سنائی دیتی رہی۔
’’تمھارا غم ہے غم،اوروں کا غم خواب و کہانی ہے
تمھارا خون ہے خون! ہمارا خون پانی ہے؟‘‘
آج وہ بے طرح یاد آگیا۔ کاش ہم اس کے ساتھ سہراب مودی کا لہجہ بھی پیش کرنے پر قادر ہوتے تو قارئین اس کا صحیح وزن محسوس کرسکتے۔ آج اس کے یاد آنے کی وجہ دوسری ہے۔ یہاں ظالم اور مظلوم بدل گئے ہیں۔ ظالم یہودی ہیں اور مظلوم فلسطینی مسلمان۔
فلسطینیوں پر تازہ دہشت تھوپنے کے لیے اسرائیل کو نیا بہانہ ہاتھ آگیا ہے۔ باہم امن مذاکرات سے وہ اتنا نہیں تلملایا تھا جتنا الفتح اور حماس کے اتحاد سے۔ اور وہ اسی اتحاد کو ضرب پہنچانے اور شکستہ کرنے کی فکر میں غلطاں تھا۔کیونکہ برسوں سے دنیا کی بہترین عسکری اور اَچوک تکنیکوں کے استعمال اور لاکھوں جانیں لینے کے باوجود فلسطینیوں کے جذبۂ قومیت و حریت کو وہ ہلکا سا نقصان بھی نہیں پہنچا سکا ہے۔
گذشتہ دنوں غربِ اردن سے تین اسرائیلی نوجوانوں کے اغوا اور قتل کے بہانے اسرائیل نے حماس کو تازہ انتقامی دھمکیاں بنام ’جواب‘ دی ہیں۔ مغربی پٹی سے تین اسرائیلی نوجوانوں کے اغوا اور قتل کی واردات کو اسرائیل نے راست طور سے حماس کی کارروائی قرار دیا تھا۔ واضح ہوکہ اس اغوا اور قتل کی ذمہ داری کسی بھی تنظیم نے قبول نہیں کی ہے۔ اور حماس نے تردید کی ہے۔ اس لیے اسرائیل کا یہ ’جواب‘ بِلاجواز ہے۔ حماس کو دھمکی دینے کے بعد ہی ایک سولہ سالہ فلسطینی لڑکے محمد حسین ابو خضیر کو وحشیانی انداز سے اس کے گھر سے اٹھا کر لے جایا گیا اور زندہ جلا دیا گیا۔ پہلے تو اسرائیل نے ابوخضیر کو زندہ جلادینے کی تردید کی مگر جب انھیں کے ڈاکٹروں کی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں یہ سامنے آیا کہ اس کے سر پر گہری چوٹ تھی اور اس کی سانس کی نلیوں میں پھیپھڑے کے اندر تک راکھ موجود ملی؛ اور یہ ثبوت ہے کہ جلائے جانے کے وقت وہ سانس لے رہا تھا؛ تو اسرائیل نے اس کی تحقیقات کا حکم دیا۔اتوار (۶؍جولائی) کو اس جرم کے تحت چھ یہودیوں کو گرفتار بھی کرلیا گیا۔ واضح ہو کہ یہ گرفتاری اس اندیشہ کے تحت کی گئی ہے تاکہ غزہ پٹی پر اسرائیلی نوآبادیات پر فلسطینیوں کے احتجاجی حملے پر روک لگائی جاسکے۔ جبکہ پیر کے دن ملنے والی خبروں میں اسرائیل نے تازہ ’’ہوائی حملوں میں سات ’حماس دہشت گردوں‘ کو ہلاک بھی کیا‘‘۔ منگل کو ہوائی حملوں میں اضافہ کر دیاگیا۔ امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی ترجمان ’جین ساکی‘ Jen Psaki نے واشنگٹن میں یہ بیان جاری کیاکہ امریکہ راکٹ حملوں کی مذمت کرتا ہے اور اسرائیل کی حمایت کرتا ہے کہ اسے ان راکٹ حملوں سے اپنے دفاع کا پورا پورا حق ہے۔
یہ بھی یاد رہے کہ مذکورہ اسرائیلی نوجوان ۱۲؍جون کو لاپتہ ہوئے تھے اور ان کے لیے فلسطینی علاقوں اور غربِ اردن میں بڑا سرچ آپریشن کیا گیا تھا۔ چارسو سے زیادہ فلسطینیوں کو گرفتار کیا گیا تھا اور اسرائیلی فوج کے ساتھ لڑائی میں پانچ لوگ ہلاک بھی ہوئے تھے۔ پھر اُن نواجوانوں کی لاشیں حلحول قصبے میں ملی تھیں۔ اطلاع پاتے ہی بڑی تعداد میں اسرائیلی فوجیں وہاں پہنچ گئی تھیں۔اسرائیل سیکوریٹی ایجنسی نے حماس کے دو ارکان مروان القواسمۃ اور عامر ابوعیشۃ کے اس واقعہ میں ملوث ہونے کا ’شبہ‘ ظاہر کیا تھا۔ اسرائیلی فوج نے ان دونوں کے گھروں پر بارودی مواد کے ساتھ حملہ کیا، فلسطینی عینی شاہدین کے مطابق ابوعیشۃ کا گھر تباہ ہوگیا ہے۔
ابوخضیر کی تدفین کے بعد مشرقی یروشلم اور اسرائیل کی عرب بستیوں میں بے چینی پھیل گئی تھی۔ شدت پسند صیہونیوں نے ان کے گھروں کی دیواروں پر ’’خون کا بدلہ خون‘‘ جیسے اشتعال انگیز نعرے لکھ دئیے تھے اور اپنی تازہ انتقامی کارروائیوں کا آغاز کردیا تھا۔ اسرائیلی وزیرِ اعظم بنیامن نیتن یاہو نے کھلے طور سے ’جواب‘ دینے کا اعلان کرکے اس دہشت کو دوچند کردیا تھا اور اس اشتعال میں تیل کا کام کیا تھا۔ یاد رہے کہ بنیامن نیتن یاہو نے کہا تھا کہ ’’حماس کو اس کی قیمت چکانی پڑے گی!‘‘ اور جواب میں حماس نے اسرائیلی نوجوانوں کے اغوا و قتل کے الزامات کی تردید کی تھی اور کہا تھا کہ ’’ان کے خلاف کوئی بے سبب انتقامی کارروائی کی گئی تو اسرائیل کے لیے جہنم کے دروازے کھل جائیں گے‘‘۔ یہ بدبختی بھی سامنے آئی کہ فلسطینی صدر محمود عباس نے یہودی بچوں کے اغوا اور قتل پر اپنا ردّعمل میڈیا میں تو ظاہر کیا لیکن فلسطینی لڑکے کی شہادت پر اپنا کوئی تاثر نہیں دیا۔ محمود عباس نے اسرائیلی نوجوانوں کے قتل کی مذمت کی تھی اور اس پر ندامت کا اظہار کچھ ایسے انداز میں کیا تھا کہ بِل حماس کے نام ہی پھٹتادکھائی دیتا ہے اور اسرائیل کے ناپاک عزائم کو کھادپانی ملتا نظر آتا ہے۔محمود عباس نے فلسطینیوں کو کٹہرے میں کھڑا کردیا ہے۔ یہ کیا سیاست ہے اور اس ڈپلومیسی کے کیسے اثرات مرتب ہوں گے ہم اس کا اندازہ لگانے سے قاصر ہیں۔ البتہ ہم ہی نہیں دنیا جانتی ہے کہ فلسطینیوں میں الفتح اور حماس کے نام سے ہو یا کسی اور نام سے، بنیادی طور پر اتحاد لازمی ہے تاکہ ان کے کاز اور حق کو کوئی نقصان نہ پہنچ سکے۔
یہ بات تو جگ ظاہر ہے کہ میڈیا میں جو بھی خبریں آتی ہیں اس کا سلسلہ یا تو اسرائیلی ذرائع ہوتے ہیں یا امریکی ذرائع۔ انھیں ذرائع نے یہ بات نشر کی کہ اسرائیلی بستیوں پر فلسطینیوں نے مسلسل راکٹ حملے کیے اور متعدد گھروں اور بلڈنگوں کو نقصان پہنچایا۔ اسرائیلی اخبار ’یدیوت احارنوت‘ نے لکھا کہ فلسطینی مزاحمت کاروں نے جمعرات کی شب میں اسرائیل کے ’سدیروت‘ اور ’سدوت ہنیغوف‘ نامی دو کالونیوں پر کئی راکٹ حملے کیے، کئی عمارتیں تباہ کیں، درجنوں اسرائیلی زخمی ہوئے اور علاقے کی بجلی منقطع ہوگئی۔ اسی طرح اس کالونی میں ایک راکٹ اس عمارت پر گرا جو اس کالونی کے میئر کی رہائش گاہ ہے۔ جبکہ ایک اور راکٹ اس وقت گرا جب صیہونی حکومت کے وزیرِ خارجہ ’یائیرلاپید‘ سدیروت کالونی میں موجود تھے۔ ان خبروں میں بے ایمانی اس طرح جھلکتی ہے کہ اسرائیلی نقصانات کو گن گن کر یا جھوٹ کی بنیادوں پر بھی گنا تو دیا جاتا ہے مگر اسرائیل کے تکنیکی طور سے پرفیکٹ حملوں اور فضائی بمباریوں میں فلسطینیوں کے کتنے نقصانات ہوتے ہیں انھیں کبھی بیان نہیں کیا جاتا۔
تازہ وارداتوں کے بعداسرائیلی وزیرِ اعظم کا یہ جذباتی لطیفہ بھی قابلِ داد ہے ؛ کہتے ہیں ’’اخلاق ہمیں ہمارے دشمن سے ممتاز کرتا ہے، وہ موت کو مقدس سمجھتے ہیں، ہم زندگی کو مقدس سمجھتے ہیں‘‘! کاش نیتن یاہو کو کوئی آئینہ دکھا سکے کہ اصلی ’’موت کا سوداگر‘‘ کون ہے؛ کم از کم تازہ ترین ابوخضیر نامی معصوم بچے کے واقعہ میں ہی وہ اپنا چہرہ دیکھ لیں جسے زندہ جلا دیا گیا اور جلانے والے یہودی ہیں۔
جن چھ اسرائیلی نوجوانوں کو ابوخضیر کے قتل کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے انھوں نے اعترافِ جرم کرلیا ہے۔ اسرائیل کے ٹی وی ’چینل 10‘ کے مطابق ان میں ایک انتہائی معروف ربّی کا بیٹا ہے اور پانچ اس کے پوتے ہیں۔ اس پر کافی افسوس اور مذمت کا اظہار کیا جارہا ہے۔ کافی طویل رپورٹیں اور تاثرات بھی سامنے آ رہے ہیں، ابوخضیر کے والدین سے ٹیلفونک ہمدردیاں بھی کی جارہی ہیں مگر مجرمین کو سزا کیا ملے گی اس کا ہلکا سا ذکر بھی نہیں ملتا۔
جہاں تک قیامِ امن کی کوششوں کا تعلق ہے تو اس علاقے میں حماس سے ’قریبی رابطے‘ ہونے کی وجہ سے مصری انٹیلی جنس افسران اسرائیل اور حماس کے درمیان صلح کرانے کی کوششیں کررہے ہیں۔ وہ ایسا پہلے بھی کرتے آئے ہیں۔ فلسطینیوں نے انتفاضہ ثلاثہ کی تحریک چھیڑنے کی خواہش ضرور ظاہر کی ہے مگر اس پر ابھی غوروفکر جاری ہے۔
فلسطینیوں سے زبانی ہمدردی دنیا بھر میں کئی دہائیوں سے کی جارہی ہے۔ اب وہ دن آچلے ہیں کہ انھیں دھیرے دھیرے (حماس کانام لے کر) میڈیا کے ذریعہ دہشت پسند بنا دیا گیا ہے۔ محض اس لیے کہ ان کی اکثریت مسلمان ہے۔ انصاف و عدل کی دہائیاں دینے والی دنیا کی بڑی طاقتوں کو پتہ نہیں فلسطینیوں کو انصاف دلانے میں کیا دشواری اور الجھن ہے یا دلچسپی نہیں ہے۔ کوئی ایک بڑا ملک بھی اسرائیل کو کھل کر یہ بات کہنے کے لیے تیار نہیں ملتا کہ وہ غاصب ہے، جابر ہے اور فلسطینیوں کی سرزمین پر گھس پیٹھیا ہے۔ یہودیوں پر پوری انسانی تاریخ میں مسلمانوں کے ہاتھوں کبھی ظلم کا شکار ہوتے نہیں دیکھا گیا ہے۔ البتہ عیسائیوں نے اپنے دورِحکومت میں ہمیشہ یہودیوں پر عرصۂ حیات رہ رہ کر تنگ کیا ہے۔ مگر کیا جادو کی دنیا ہے کہ آج یہودیوں اور عیسائیوں میں گاڑھی چھنتی ہے۔ خیر سے الٰہ العالمین نے پندرہ سو برسوں قبل ہی یہ انتباہ پوری انسانیت کے لیے لکھ دیا ہے کہ یہود و نصاریٰ ایک دوسرے کے دوست اور حلیف ہیں اور تاقیامت رہیں گے۔
مقطع کی بات میں بنیامن نیتن یاہو کا وہ بیان سن لیں جو بین السطور اصل درد اور وجہِ استبداد ظاہر کرتا ہے کہ ’’یہ (حالیہ) واقعہ حماس اور الفتح کے درمیان اتحاد کا نتیجہ ہے جو اسرائیل کے وجود سے ہی انکاری ہیں‘‘۔ دونوں فلسطینی تنظیموں کے درمیان برسوں کی تفریق کے بعد اپریل میں مفاہمت ہوئی تھی اور گذشتہ ماہ ہی دونوں نے مل کر حکومت بنائی ہے۔
ایک جانب پوری تربیت یافتہ اور جدید ترین اسلحوں سے لیس فوج ہے اور دوسری طرف ایک عوامی گروہ، بغیر کسی فوجی تربیت والا، جنھیں بین الاقوای میڈیا جارح ملیشیا، دہشت گرد اور نہ جانے کیسے کیسے الفاظ میں یاد کرتا ہے۔ نئی دنیا کے لوگوں اور میڈیا میں شامل نوجوانوں کو بھی ان وارداتوں کا ماضی نہیں معلوم، فلسطینیوں کی نئی نسل بھی شاید لڑائی کی اصل وجوہات سے واقف نہیں ہوگی۔ انھیں بھی بس اتنا ہی سمجھتا ہوگا کہ اسرائیلی کسی نہ کسی بہانے سے ان کے آشیانے اجاڑتے رہتے ہیں اور جانیں لیتے رہتے ہیں، انھیں دنیا میں انصاف دلانے کی آواز اٹھانے والے لوگ بھی شاید کم رہ گئے ہیں۔
’’تمھارا غم ہے غم،اوروں کا غم خواب و کہانی ہے
تمھارا خون ہے خون! ہمارا خون پانی ہے؟‘‘
آج وہ بے طرح یاد آگیا۔ کاش ہم اس کے ساتھ سہراب مودی کا لہجہ بھی پیش کرنے پر قادر ہوتے تو قارئین اس کا صحیح وزن محسوس کرسکتے۔ آج اس کے یاد آنے کی وجہ دوسری ہے۔ یہاں ظالم اور مظلوم بدل گئے ہیں۔ ظالم یہودی ہیں اور مظلوم فلسطینی مسلمان۔
فلسطینیوں پر تازہ دہشت تھوپنے کے لیے اسرائیل کو نیا بہانہ ہاتھ آگیا ہے۔ باہم امن مذاکرات سے وہ اتنا نہیں تلملایا تھا جتنا الفتح اور حماس کے اتحاد سے۔ اور وہ اسی اتحاد کو ضرب پہنچانے اور شکستہ کرنے کی فکر میں غلطاں تھا۔کیونکہ برسوں سے دنیا کی بہترین عسکری اور اَچوک تکنیکوں کے استعمال اور لاکھوں جانیں لینے کے باوجود فلسطینیوں کے جذبۂ قومیت و حریت کو وہ ہلکا سا نقصان بھی نہیں پہنچا سکا ہے۔
گذشتہ دنوں غربِ اردن سے تین اسرائیلی نوجوانوں کے اغوا اور قتل کے بہانے اسرائیل نے حماس کو تازہ انتقامی دھمکیاں بنام ’جواب‘ دی ہیں۔ مغربی پٹی سے تین اسرائیلی نوجوانوں کے اغوا اور قتل کی واردات کو اسرائیل نے راست طور سے حماس کی کارروائی قرار دیا تھا۔ واضح ہوکہ اس اغوا اور قتل کی ذمہ داری کسی بھی تنظیم نے قبول نہیں کی ہے۔ اور حماس نے تردید کی ہے۔ اس لیے اسرائیل کا یہ ’جواب‘ بِلاجواز ہے۔ حماس کو دھمکی دینے کے بعد ہی ایک سولہ سالہ فلسطینی لڑکے محمد حسین ابو خضیر کو وحشیانی انداز سے اس کے گھر سے اٹھا کر لے جایا گیا اور زندہ جلا دیا گیا۔ پہلے تو اسرائیل نے ابوخضیر کو زندہ جلادینے کی تردید کی مگر جب انھیں کے ڈاکٹروں کی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں یہ سامنے آیا کہ اس کے سر پر گہری چوٹ تھی اور اس کی سانس کی نلیوں میں پھیپھڑے کے اندر تک راکھ موجود ملی؛ اور یہ ثبوت ہے کہ جلائے جانے کے وقت وہ سانس لے رہا تھا؛ تو اسرائیل نے اس کی تحقیقات کا حکم دیا۔اتوار (۶؍جولائی) کو اس جرم کے تحت چھ یہودیوں کو گرفتار بھی کرلیا گیا۔ واضح ہو کہ یہ گرفتاری اس اندیشہ کے تحت کی گئی ہے تاکہ غزہ پٹی پر اسرائیلی نوآبادیات پر فلسطینیوں کے احتجاجی حملے پر روک لگائی جاسکے۔ جبکہ پیر کے دن ملنے والی خبروں میں اسرائیل نے تازہ ’’ہوائی حملوں میں سات ’حماس دہشت گردوں‘ کو ہلاک بھی کیا‘‘۔ منگل کو ہوائی حملوں میں اضافہ کر دیاگیا۔ امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی ترجمان ’جین ساکی‘ Jen Psaki نے واشنگٹن میں یہ بیان جاری کیاکہ امریکہ راکٹ حملوں کی مذمت کرتا ہے اور اسرائیل کی حمایت کرتا ہے کہ اسے ان راکٹ حملوں سے اپنے دفاع کا پورا پورا حق ہے۔
یہ بھی یاد رہے کہ مذکورہ اسرائیلی نوجوان ۱۲؍جون کو لاپتہ ہوئے تھے اور ان کے لیے فلسطینی علاقوں اور غربِ اردن میں بڑا سرچ آپریشن کیا گیا تھا۔ چارسو سے زیادہ فلسطینیوں کو گرفتار کیا گیا تھا اور اسرائیلی فوج کے ساتھ لڑائی میں پانچ لوگ ہلاک بھی ہوئے تھے۔ پھر اُن نواجوانوں کی لاشیں حلحول قصبے میں ملی تھیں۔ اطلاع پاتے ہی بڑی تعداد میں اسرائیلی فوجیں وہاں پہنچ گئی تھیں۔اسرائیل سیکوریٹی ایجنسی نے حماس کے دو ارکان مروان القواسمۃ اور عامر ابوعیشۃ کے اس واقعہ میں ملوث ہونے کا ’شبہ‘ ظاہر کیا تھا۔ اسرائیلی فوج نے ان دونوں کے گھروں پر بارودی مواد کے ساتھ حملہ کیا، فلسطینی عینی شاہدین کے مطابق ابوعیشۃ کا گھر تباہ ہوگیا ہے۔
ابوخضیر کی تدفین کے بعد مشرقی یروشلم اور اسرائیل کی عرب بستیوں میں بے چینی پھیل گئی تھی۔ شدت پسند صیہونیوں نے ان کے گھروں کی دیواروں پر ’’خون کا بدلہ خون‘‘ جیسے اشتعال انگیز نعرے لکھ دئیے تھے اور اپنی تازہ انتقامی کارروائیوں کا آغاز کردیا تھا۔ اسرائیلی وزیرِ اعظم بنیامن نیتن یاہو نے کھلے طور سے ’جواب‘ دینے کا اعلان کرکے اس دہشت کو دوچند کردیا تھا اور اس اشتعال میں تیل کا کام کیا تھا۔ یاد رہے کہ بنیامن نیتن یاہو نے کہا تھا کہ ’’حماس کو اس کی قیمت چکانی پڑے گی!‘‘ اور جواب میں حماس نے اسرائیلی نوجوانوں کے اغوا و قتل کے الزامات کی تردید کی تھی اور کہا تھا کہ ’’ان کے خلاف کوئی بے سبب انتقامی کارروائی کی گئی تو اسرائیل کے لیے جہنم کے دروازے کھل جائیں گے‘‘۔ یہ بدبختی بھی سامنے آئی کہ فلسطینی صدر محمود عباس نے یہودی بچوں کے اغوا اور قتل پر اپنا ردّعمل میڈیا میں تو ظاہر کیا لیکن فلسطینی لڑکے کی شہادت پر اپنا کوئی تاثر نہیں دیا۔ محمود عباس نے اسرائیلی نوجوانوں کے قتل کی مذمت کی تھی اور اس پر ندامت کا اظہار کچھ ایسے انداز میں کیا تھا کہ بِل حماس کے نام ہی پھٹتادکھائی دیتا ہے اور اسرائیل کے ناپاک عزائم کو کھادپانی ملتا نظر آتا ہے۔محمود عباس نے فلسطینیوں کو کٹہرے میں کھڑا کردیا ہے۔ یہ کیا سیاست ہے اور اس ڈپلومیسی کے کیسے اثرات مرتب ہوں گے ہم اس کا اندازہ لگانے سے قاصر ہیں۔ البتہ ہم ہی نہیں دنیا جانتی ہے کہ فلسطینیوں میں الفتح اور حماس کے نام سے ہو یا کسی اور نام سے، بنیادی طور پر اتحاد لازمی ہے تاکہ ان کے کاز اور حق کو کوئی نقصان نہ پہنچ سکے۔
یہ بات تو جگ ظاہر ہے کہ میڈیا میں جو بھی خبریں آتی ہیں اس کا سلسلہ یا تو اسرائیلی ذرائع ہوتے ہیں یا امریکی ذرائع۔ انھیں ذرائع نے یہ بات نشر کی کہ اسرائیلی بستیوں پر فلسطینیوں نے مسلسل راکٹ حملے کیے اور متعدد گھروں اور بلڈنگوں کو نقصان پہنچایا۔ اسرائیلی اخبار ’یدیوت احارنوت‘ نے لکھا کہ فلسطینی مزاحمت کاروں نے جمعرات کی شب میں اسرائیل کے ’سدیروت‘ اور ’سدوت ہنیغوف‘ نامی دو کالونیوں پر کئی راکٹ حملے کیے، کئی عمارتیں تباہ کیں، درجنوں اسرائیلی زخمی ہوئے اور علاقے کی بجلی منقطع ہوگئی۔ اسی طرح اس کالونی میں ایک راکٹ اس عمارت پر گرا جو اس کالونی کے میئر کی رہائش گاہ ہے۔ جبکہ ایک اور راکٹ اس وقت گرا جب صیہونی حکومت کے وزیرِ خارجہ ’یائیرلاپید‘ سدیروت کالونی میں موجود تھے۔ ان خبروں میں بے ایمانی اس طرح جھلکتی ہے کہ اسرائیلی نقصانات کو گن گن کر یا جھوٹ کی بنیادوں پر بھی گنا تو دیا جاتا ہے مگر اسرائیل کے تکنیکی طور سے پرفیکٹ حملوں اور فضائی بمباریوں میں فلسطینیوں کے کتنے نقصانات ہوتے ہیں انھیں کبھی بیان نہیں کیا جاتا۔
تازہ وارداتوں کے بعداسرائیلی وزیرِ اعظم کا یہ جذباتی لطیفہ بھی قابلِ داد ہے ؛ کہتے ہیں ’’اخلاق ہمیں ہمارے دشمن سے ممتاز کرتا ہے، وہ موت کو مقدس سمجھتے ہیں، ہم زندگی کو مقدس سمجھتے ہیں‘‘! کاش نیتن یاہو کو کوئی آئینہ دکھا سکے کہ اصلی ’’موت کا سوداگر‘‘ کون ہے؛ کم از کم تازہ ترین ابوخضیر نامی معصوم بچے کے واقعہ میں ہی وہ اپنا چہرہ دیکھ لیں جسے زندہ جلا دیا گیا اور جلانے والے یہودی ہیں۔
جن چھ اسرائیلی نوجوانوں کو ابوخضیر کے قتل کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے انھوں نے اعترافِ جرم کرلیا ہے۔ اسرائیل کے ٹی وی ’چینل 10‘ کے مطابق ان میں ایک انتہائی معروف ربّی کا بیٹا ہے اور پانچ اس کے پوتے ہیں۔ اس پر کافی افسوس اور مذمت کا اظہار کیا جارہا ہے۔ کافی طویل رپورٹیں اور تاثرات بھی سامنے آ رہے ہیں، ابوخضیر کے والدین سے ٹیلفونک ہمدردیاں بھی کی جارہی ہیں مگر مجرمین کو سزا کیا ملے گی اس کا ہلکا سا ذکر بھی نہیں ملتا۔
جہاں تک قیامِ امن کی کوششوں کا تعلق ہے تو اس علاقے میں حماس سے ’قریبی رابطے‘ ہونے کی وجہ سے مصری انٹیلی جنس افسران اسرائیل اور حماس کے درمیان صلح کرانے کی کوششیں کررہے ہیں۔ وہ ایسا پہلے بھی کرتے آئے ہیں۔ فلسطینیوں نے انتفاضہ ثلاثہ کی تحریک چھیڑنے کی خواہش ضرور ظاہر کی ہے مگر اس پر ابھی غوروفکر جاری ہے۔
فلسطینیوں سے زبانی ہمدردی دنیا بھر میں کئی دہائیوں سے کی جارہی ہے۔ اب وہ دن آچلے ہیں کہ انھیں دھیرے دھیرے (حماس کانام لے کر) میڈیا کے ذریعہ دہشت پسند بنا دیا گیا ہے۔ محض اس لیے کہ ان کی اکثریت مسلمان ہے۔ انصاف و عدل کی دہائیاں دینے والی دنیا کی بڑی طاقتوں کو پتہ نہیں فلسطینیوں کو انصاف دلانے میں کیا دشواری اور الجھن ہے یا دلچسپی نہیں ہے۔ کوئی ایک بڑا ملک بھی اسرائیل کو کھل کر یہ بات کہنے کے لیے تیار نہیں ملتا کہ وہ غاصب ہے، جابر ہے اور فلسطینیوں کی سرزمین پر گھس پیٹھیا ہے۔ یہودیوں پر پوری انسانی تاریخ میں مسلمانوں کے ہاتھوں کبھی ظلم کا شکار ہوتے نہیں دیکھا گیا ہے۔ البتہ عیسائیوں نے اپنے دورِحکومت میں ہمیشہ یہودیوں پر عرصۂ حیات رہ رہ کر تنگ کیا ہے۔ مگر کیا جادو کی دنیا ہے کہ آج یہودیوں اور عیسائیوں میں گاڑھی چھنتی ہے۔ خیر سے الٰہ العالمین نے پندرہ سو برسوں قبل ہی یہ انتباہ پوری انسانیت کے لیے لکھ دیا ہے کہ یہود و نصاریٰ ایک دوسرے کے دوست اور حلیف ہیں اور تاقیامت رہیں گے۔
مقطع کی بات میں بنیامن نیتن یاہو کا وہ بیان سن لیں جو بین السطور اصل درد اور وجہِ استبداد ظاہر کرتا ہے کہ ’’یہ (حالیہ) واقعہ حماس اور الفتح کے درمیان اتحاد کا نتیجہ ہے جو اسرائیل کے وجود سے ہی انکاری ہیں‘‘۔ دونوں فلسطینی تنظیموں کے درمیان برسوں کی تفریق کے بعد اپریل میں مفاہمت ہوئی تھی اور گذشتہ ماہ ہی دونوں نے مل کر حکومت بنائی ہے۔
ایک جانب پوری تربیت یافتہ اور جدید ترین اسلحوں سے لیس فوج ہے اور دوسری طرف ایک عوامی گروہ، بغیر کسی فوجی تربیت والا، جنھیں بین الاقوای میڈیا جارح ملیشیا، دہشت گرد اور نہ جانے کیسے کیسے الفاظ میں یاد کرتا ہے۔ نئی دنیا کے لوگوں اور میڈیا میں شامل نوجوانوں کو بھی ان وارداتوں کا ماضی نہیں معلوم، فلسطینیوں کی نئی نسل بھی شاید لڑائی کی اصل وجوہات سے واقف نہیں ہوگی۔ انھیں بھی بس اتنا ہی سمجھتا ہوگا کہ اسرائیلی کسی نہ کسی بہانے سے ان کے آشیانے اجاڑتے رہتے ہیں اور جانیں لیتے رہتے ہیں، انھیں دنیا میں انصاف دلانے کی آواز اٹھانے والے لوگ بھی شاید کم رہ گئے ہیں۔