To View This Blog in Nastaliq Script Download Faiz Nastaliq Unicode Font

Download Faiz Nastaliq Unicode Font from http://www.faiznastaliq.com/faiznastaliq.zip unzip & install it to your windows/font directory

Sunday, January 15, 2012

Rushdie= Rush+Die
Dr. Rehan Ansari
ملعون و مردود رُشدی ایک مرتبہ پھر خبروں میں آگیا۔ اس کا سبب اس کی کوئی ہرزہ آمیز تحریر نہیں ہے بلکہ اس کی حالیہ خبرانگیزی اہلِ رُشد وہدایۃ یعنی مسلمانوں (ہندوستانی) کی وجہ سے ہے۔ پورے ملک میں تحریر و تقریر اور جلسے جلوس و مظاہروں سے متعلق مسلمان پوری شدومد کے ساتھ رُشدی کی ہندوستان آمد کے خلاف ہیں اور حکومت ہند سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ اسے ویزا نہیں دیا جائے۔ مرکزی وزیر سلمان خورشید کی زبانی حکومت نے بساط پر یہ پیغام دلوایا کہ ویزا دینے کا معاملہ ہی نہیں ہے کہ وہ ایک ’ہندوستانی نژاد ‘ ہونے کی شناخت رکھتے ہیں اور انھیں قانونی طور پر بغیر ویزا کے اس ملک میں داخل ہونے کی اجازت ہے۔ یہاں یہ سوال ضرور کیا جائے گا کہ آخر اسے ’کن قومی خدمات‘ کے صلے میں یہ اجازت نامہ حاصل ہے اور کیا ابتدا سے ہی ایسے ’متنازعہ شخص‘ کو اجازت نامہ تفویض کرنا حکومت کا قصور نہیں ہے؟ این او سی کس نے دی تھی اس کی تحقیق کرنا چاہیے۔ اس نے اپنے وطن میں ہڑبونگ پیدا کرنے کے علاوہ کیا کبھی اور کوئی ناطہ ہی رکھا ہے؟ اس کی مقبول کتابوں میں ہندوستان کی مکروہ سماجی صورت ہی پیش کی گئی ہے جس کی وجہ سے ملکِ عزیز کے تعلق سے بیرونِ ملک قارئین کے ذہنوں میں ایک منفی تصور ہی ابھرتا ہے!، جس شخص کی آمدورفت وسیع پیمانے پر لا اینڈ آرڈر کا مسئلہ بنتی ہو تو کیا ایسے فرد کو سرحد سے باہر ہی رکھنا وطن کے مفاد میں نہیں ہے؟ ہم بھی اس کے خلاف اٹھنے والی آوازوں میں اپنی ناتواں آواز کو پورے زور کےساتھ شامل کرتے ہیں... مگر!
مگر، حالات کے پس منظر میں اپنے مسلمان بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ چند بے تکلف اور کسی قدر تلخ گفتگو بھی کرنا چاہتے ہیں۔ بقول شاعر:

مرغوب ہے محفل کو تری تلخ نوائی
زخمی سا کوئی گیت سنانے کے لیے آ
آگے بڑھنے سے قبل ہمارے بھائیوں سے شبیر احمد راہیؔ صاحب کی زبانی یہ بھی کہنا چاہیں گے کہ:
’ناموسِ مصطفی کی حفاظت کے واسطے
مرنا قبول ہے  مجھے مرنا قبول ہے‘


The Blasphemy And the blasphemer
رُشدی کے کوائف جاننے کی کوشش کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک مغرب زدہ اور جدیدوآزادخیال ماں باپ کی اولاد ہے اور ہمارا تجربہ یہ رہا ہے کہ اس قسم کے بچوں کو اسلام کے تعلق سے زیادہ ترکمزور اور لاتعلق باتیں ہی سکھائی جاتی ہیں۔ خود رُشدی نے مسلمانوں کے درمیان رہنا پسند نہیں کیا اور نہ ہی اسلامی شعائر و عبادات سے متعلق رہا۔ ہر قسم کی عیاشیاں کی۔ اُس نے شہرت کا سب سے آسان نسخہ آزمایا اور اپنے منصوبے میں کامیاب ہوا۔ غیرمسلم دنیا میں وہ محض اس لیے معروف ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ وہ کامیاب چھیڑخانی کرلیتا ہے اور ہرزہ نویسی میں طاق ہے۔ وہ لوگ تورُشدی کی ادبی حیثیت بھی متعین نہیں کرسکے ہیں۔ مگر... مگر رُشدی مشہور ہے۔ اس کی شہرت ہمارے سبب ہے، ہماری بے کلی کے سبب ہے! اس بے کلی کو ہم خوب ظاہر کرنے کو ایمان کی علامت سمجھنے اور سمجھانے میں مبتلا ہیں۔کیا واقعی حالیہ بے کلی جذبۂ ایمانی کو ناپنے کا پیمانہ ہے۔ کیا اس کے بائیکاٹ یا  ویزا کی منسوخی یا اسی قبیل کی معمولی سزا یا تادیب ہمارے اُمڈتے بپھرتے جذبات کی تسکین کے لیے کافی علاج ہے؟ ہمیں تو پردۂ زنگاری سے کوئی اور معشوق جھانکتا دکھائی دیتا ہے۔ کچھ کھل کر لکھیں تو ہمارے سر پر بہت سے اپنوں کے جوتے پڑنے لگیں گے، اشارہ کرنا بھی اس وقت گناہ میں شمار ہوگا!
برسبیلِ تذکرہ ہمیں عمِّ رسولِ کریمؐ حضرت حمزہؓ کے قبولِ اسلام کا واقعہ یاد آگیا۔ اس کا خلاصہ یوں ہے کہ دنیا کا سب سے بڑا گستاخِ رسول اور شاتم ابوجہل نے جب شانِ اقدسؐ میں کریہہ گستاخیاں کی تھیں تو حضرت حمزہؓ نے معلوم ہونے کے بعد ابوجہل کے سر پر اپنی کمان سے حملہ کرکے زخمی کردیا تھا اور اپنے تئیں بھتیجے ؐ اور خاندان کی بے عزتی کا بدلہ لے لیا تھا۔ نیز یہ بھی گمان تھا کہ آپؐ خوش ہو گئے ہوں گے۔ جب رسول اﷲؐ کو پتہ چلا تو آپؐ نے فرمایا کہ مجھے زیادہ خوشی اس بات سے ہوتی کہ چچا جانؓ دعوتِ حق کو قبول کرلیتے۔ حضرت حمزہؓ نے بلاتاخیر اپنے حلقہ بگوشِ اسلام ہونے کا اعلان کردیا۔ اس واقعے کے نقل کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ ہمیں جمہوری تماشا کرنے سے زیادہ اہم ہے کہ ہم اصلی اسلامی کردار پیش کریں۔ گذشتہ پچیس برسوں سے جس شخص کو دنیا کے دیگر ملکوں میں حفاظت کے ساتھ رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے اسے قرارِ واقعی انجام تک پہنچانے کی جانب مائل ہوں اور لاحاصل شورشرابہ سے گریز کریں۔ ہمارا شور شرابہ ہمارے لیے ہی نقصاندہ ثابت ہوتا ہے۔ اسکی حفاظت دوچند ہو جاتی ہے۔ہمارے مظاہرے مسلمانوں اور اسلام مخالفوں کو موقع فراہم کرتے ہیں اور ہماری امیج و شبیہ کو بین الاقوامی سطح پر مضحکہ خیز بناتے ہیں۔ کیا ہمیں اس کا احساس ہے؟ غم اور غصے سے بھری ہوئی بہت سی تحریریں اردو کے علاوہ دوسری زبانوں میں بھی ہمیں پڑھنے کو ملیں۔ میڈیا میں کچھ مظاہراتی تصویروں کی بھی اشاعت ہوئی۔ لیکن جس ایک اعلان نے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ ارتضیٰ نشاط صاحب کا قطعہ تھا جس سے ہم بھی مکمل اتفاق کرتے ہیں کہ:
’پھر سے مطالبہ کرو رُشدی کے قتل کا
اُس کی پناہ گاہ کا توڑے تو کوئی لاک
موقع یہ کس کو ملتا ہے یارب ہمیں دِکھا
کرتا ہے اُس غلیظ سے دُنیا کو کون پاک
(الف، نون: انقلاب، ممبئی، ۱۲جنوری ۲۰۱۲)
ایک دلچسپ بات اور بھی لکھ دیں کہ رُشدی کے نام کے مروّجہ انگریزی املے Rushdie کو توڑ کر دیکھا تو نظر آیا کہ اس میں Rush (بھاگ) اور Die (مر) ایک دوسرے میں پیوست ہیں۔
ہم اپنی بات کو مزید طویل نہ کرتے ہوئے صرف یہی کہنا چاہتے ہیں کہ یہ مطالبہ ہی اصل فیصلہ ہے۔ یہ عمل دیوانگی کا نہیں ہوشمندی کا تقاضہ کرتا ہے۔ حکومت ہمیں بھی حقِ آزادئ تحریر دے تو اس سے زیادہ لکھنے پر بھی ہم قادر ہیں.