Rushdie= Rush+Die Dr. Rehan Ansari |
مگر، حالات کے پس منظر میں اپنے مسلمان بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ چند بے تکلف اور کسی قدر تلخ گفتگو بھی کرنا چاہتے ہیں۔ بقول شاعر:
مرغوب ہے محفل کو تری تلخ نوائی
زخمی سا کوئی گیت سنانے کے لیے آ
آگے بڑھنے سے قبل ہمارے بھائیوں سے شبیر احمد راہیؔ صاحب کی زبانی یہ بھی کہنا چاہیں گے کہ:
’ناموسِ مصطفی کی حفاظت کے واسطے
مرنا قبول ہے مجھے مرنا قبول ہے‘
The Blasphemy And the blasphemer |
برسبیلِ تذکرہ ہمیں عمِّ رسولِ کریمؐ حضرت حمزہؓ کے قبولِ اسلام کا واقعہ یاد آگیا۔ اس کا خلاصہ یوں ہے کہ دنیا کا سب سے بڑا گستاخِ رسول اور شاتم ابوجہل نے جب شانِ اقدسؐ میں کریہہ گستاخیاں کی تھیں تو حضرت حمزہؓ نے معلوم ہونے کے بعد ابوجہل کے سر پر اپنی کمان سے حملہ کرکے زخمی کردیا تھا اور اپنے تئیں بھتیجے ؐ اور خاندان کی بے عزتی کا بدلہ لے لیا تھا۔ نیز یہ بھی گمان تھا کہ آپؐ خوش ہو گئے ہوں گے۔ جب رسول اﷲؐ کو پتہ چلا تو آپؐ نے فرمایا کہ مجھے زیادہ خوشی اس بات سے ہوتی کہ چچا جانؓ دعوتِ حق کو قبول کرلیتے۔ حضرت حمزہؓ نے بلاتاخیر اپنے حلقہ بگوشِ اسلام ہونے کا اعلان کردیا۔ اس واقعے کے نقل کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ ہمیں جمہوری تماشا کرنے سے زیادہ اہم ہے کہ ہم اصلی اسلامی کردار پیش کریں۔ گذشتہ پچیس برسوں سے جس شخص کو دنیا کے دیگر ملکوں میں حفاظت کے ساتھ رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے اسے قرارِ واقعی انجام تک پہنچانے کی جانب مائل ہوں اور لاحاصل شورشرابہ سے گریز کریں۔ ہمارا شور شرابہ ہمارے لیے ہی نقصاندہ ثابت ہوتا ہے۔ اسکی حفاظت دوچند ہو جاتی ہے۔ہمارے مظاہرے مسلمانوں اور اسلام مخالفوں کو موقع فراہم کرتے ہیں اور ہماری امیج و شبیہ کو بین الاقوامی سطح پر مضحکہ خیز بناتے ہیں۔ کیا ہمیں اس کا احساس ہے؟ غم اور غصے سے بھری ہوئی بہت سی تحریریں اردو کے علاوہ دوسری زبانوں میں بھی ہمیں پڑھنے کو ملیں۔ میڈیا میں کچھ مظاہراتی تصویروں کی بھی اشاعت ہوئی۔ لیکن جس ایک اعلان نے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ ارتضیٰ نشاط صاحب کا قطعہ تھا جس سے ہم بھی مکمل اتفاق کرتے ہیں کہ:
’پھر سے مطالبہ کرو رُشدی کے قتل کا
اُس کی پناہ گاہ کا توڑے تو کوئی لاک
موقع یہ کس کو ملتا ہے یارب ہمیں دِکھا
کرتا ہے اُس غلیظ سے دُنیا کو کون پاک
(الف، نون: انقلاب، ممبئی، ۱۲جنوری ۲۰۱۲)
ایک دلچسپ بات اور بھی لکھ دیں کہ رُشدی کے نام کے مروّجہ انگریزی املے Rushdie کو توڑ کر دیکھا تو نظر آیا کہ اس میں Rush (بھاگ) اور Die (مر) ایک دوسرے میں پیوست ہیں۔ہم اپنی بات کو مزید طویل نہ کرتے ہوئے صرف یہی کہنا چاہتے ہیں کہ یہ مطالبہ ہی اصل فیصلہ ہے۔ یہ عمل دیوانگی کا نہیں ہوشمندی کا تقاضہ کرتا ہے۔ حکومت ہمیں بھی حقِ آزادئ تحریر دے تو اس سے زیادہ لکھنے پر بھی ہم قادر ہیں.
No comments:
Post a Comment