To View This Blog in Nastaliq Script Download Faiz Nastaliq Unicode Font

Download Faiz Nastaliq Unicode Font from http://www.faiznastaliq.com/faiznastaliq.zip unzip & install it to your windows/font directory

Monday, January 27, 2014

Isn't Somnath Bharti overly honest so far?
Dr Rehan Ansari
ایڈوکیٹ سومناتھ بھارتی ریاست دہلی کے وزیرِ قانون ہیں، ان کے پاس دیگر محکمے سیاحت، فن و ثقافت اور اصلاحِ انتظامیہ کے ہیں۔اس سے قبل وہ ہماری اور آپ کی مانند ایک عام آدمی تھے۔ مگر پیشے سے ایک کامیاب اور نامور وکیل تھے۔ آئی آئی ٹی کے پوسٹ گریجویٹ بھی ہیں۔ ریاضی سے ایم ایس سی کیا ہے اور قانون کی ڈگری ایل ایل بی بھی رکھتے ہیں۔ابھی مہینہ بھر کی دہلی میں عام آدمی پارٹی ( حسبِ اُردو ’ عآپ‘ یا مشہورِ عام ’آپ‘) کی حکومت میں ایک اہم اصلاحی کام کے لیے ان کی جانب سے کیے گئے اقدام کو لے کر ایک ہنگامہ سا کھڑا کردیا گیا ہے۔ اس ہنگامے کے پس منظر سے اور خبروں کی بین السطور سے بہت سے سوال بھی سر اُبھارتے ہیں؛ جن کا بیان آگے کیا جائے گا۔ سرِ دست یہ سوال ہمارے سامنے کسی ماہر جاسوس کی مانند عدسہ سے جھانک رہا ہے کہ ’’سومناتھ بھارتی کیوں یک بیک بی جے پی، میڈیا اور کانگریس کی آنکھ میں مساوی طور سے کھٹکنے لگے ہیں؟ کہیں وہ حد سے زیادہ ایماندار اور دیانتدار تو نہیں ہیں؟

ہمیں سومناتھ بھارتی کا اتنا ہی تعارف حاصل ہے جتنا میڈیا کے توسط سے مل سکا ہے۔ ان کے ماضی یا اصلی حال سے ہم اس لیے واقف نہیں ہیںکہ دلّی یہاں سے واقعی بہت دور ہے۔لیکن ان کے ذریعہ نیم شب کو گشت کرکے کسی فلیٹ پر چھاپہ مارنے کی کارروائی بہت معنی خیز عمل ہے۔ ایک معنی تو وہی ہیں جس کی تصویر اور تجزیہ میڈیا (نیشنل میڈیا پڑھیں؛ جو بڑی دو سیاسی پارٹیوں کی حسبِ منشا کچھ دہائیوں سے خبریں پھیلاتا ہے) پھیلانا اور دکھانا چاہتا ہے۔ اور دوسرے معنی وہ ہیں جو کسی بھی عادل حکمراں کا صدیوں سے مشہور و معروف وطیرہ و تقلید ہے کہ اپنی رعایا کی خبرگیری اور حفظ و امن کے لیے وہ راتوں کو اُٹھ کر گشت کرتے تھے۔ اور سومناتھ بھارتی کے زیرِ بحث قضیہ میں بین السطور یہی دوسرے معنی جھانکتے ہیں۔
ہمارا نیشنل میڈیا دہلی پولیس کے سامنے دو سیاہ فام افریقی عورتوں کے بیان کو یوں پیش کررہا ہے گویا وہ بالکل سچ کہہ رہی ہیں اور سومناتھ بھارتی نے ان کے ساتھ شدید غیراخلاقی برتاؤ کیا ہے۔ تفصیلات آپ کی نظروں سے بھی گذری ہوں گی۔ لیکن ان کی بین السطور میں کہیں یہ نہیں ملتا کہ آخر ان عورتوں کی دہلی میں موجودگی کی کیا وجوہ ہیں؟ کیا وہ طالبات ہیں یا کسی اور معاملہ میں اپنا ملک چھوڑ کر یہاں راجدھانی میں رہ رہی ہیں؟ان عورتوں کے ساتھ کوئی اور بھی رہائش پذیر ہے یا نہیں؟ اگر ہے یا ہیں تو وہ کون لوگ ہیں، ان کے رشتہ دار ہیں یا نہیں؟ وغیرہ۔ یہ سوال تشنہ جواب ہیں۔ میڈیا اور بھاجپا کا حملہ بس سومناتھ پر ہورہا ہے یا کیجریوال پر۔
آئیے ہم بھی دیکھیں کہ خود سومناتھ کے اسمبلی حلقۂ انتخاب جنوبی دہلی کے مالویہ نگر کی اُس کھڑکی ایکسٹینشن کے جھروکے سے دکھائی کیا دیتا ہے جس کی وجہ سے یہ ’بوال‘ کھڑا ہوگیا ہے۔ خبروں میں آتا ہے کہ یہ علاقہ برسوں سے منشیات اور جسم فروشی کے لیے معروف ہے اور وہاں رہنے والے شریف گھرانوں کے افراد کے لیے ایک آزار و ناگوار بنا ہوا ہے۔ اس علاقے میں فلیٹ کے مالکان نے انھیں کرایہ پر دے رکھا ہے اور کرایہ داروں کی اکثریت سیاہ فام افریقی ہیں، خصوصاً یوگانڈہ ملک کے۔ ان میں طلبہ بھی ہیں اور دیگر بھی۔ یہاں رہنے والی عورتیں افریقی اندازوادا سے ہی رہتی ہیں اس لیے دہلی کے منچلے اور بگڑے امیر نوجوان ان سے ہر قسم کی شرارت بھی سرِ عام کیا کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ کھلے عام جنسی طور سے چھیڑا بھی کرتے ہیں۔ نشہ آور ادویات اور شراب کی خریدوفروخت کے معاملات بھی پرانے معمولات بتائے جاتے ہیں۔ اب ایسے عالم میں ’کھڑکی‘ میں کسی خیر کی امید کہاں سے کی جاسکتی ہے۔ لیکن باربار کی شکایتوں پر سابقہ کانگریس حکومت نے جانے کیوں کانوں میں انگلیاں ٹھونس رکھی تھی۔ اس پر طرہ یہ کہ بی جے پی بھی اندھی بہری اور گونگی تھی۔میڈیا سے بھی ’کھڑکی‘ کا نام ہم نے اس باب میں کبھی نہیں سنا۔ ابھی کے سومناتھ مخالف حالات میں کھڑکی کا ایک افریقی تاجر اپنا دفاع ان جملوں میں کرتا ہے کہ ’’ہم سب تو ہندوستان کے کسی بھی ایئر پورٹ پر اپنے ملک کا پاسپورٹ لے کر آتے ہیں اور ہمارے سامان کی جانچ کے مراحل بھی طے کیے جاتے ہیں، پھر یہ الزام کیسا کہ ہم منشیات لے کر آتے ہیں اور بیچتے ہیں۔ یہ نشہ آور چیزیں تو یہیں مقامی لوگوں سے ملا کرتی ہیں۔ یہ مسئلہ تو مقامی ہے۔ ہمارا نہیں۔ (بحوالہ ’ڈیلی میل آن لائن انڈیا‘ جمعہ ۲۴؍ جنوری)
درج بالابیان میں اس بزنس مین نے اپنے دفاع کے ساتھ ہی یہ اعتراف ضرور کیا کہ کھڑکی میں منشیات مل جاتی ہیں! ہم نہیں جانتے کہ وہاں کن ذرائع سے یہ پہنچتی ہیں لیکن ملتی ضرور ہیں۔ یہ دیگر بات ہے کہ وہاں بسنے والے سبھی افریقی سیاہ فام ایسے غیرسماجی معاملات میں ملوث نہیں ہیں ، ان میں شریف کاروباری بھی ہیں، لیکن اس علاقے کا بدنامِ زمانہ ہونا ازخود ایک سوال ہے۔
اب یہ سوال اٹھتا ہے کہ سابقہ حکومت اور اپوزیشن اتنے برسوں تک کسی کارروائی سے گریزاں کیوں رہیں؟ میڈیا میں بھی کبھی کھڑکی کا نام کیوں نہیں سنائی دیا؟ اگر سومناتھ بھارتی کھڑکی میں شبینہ گشت اور چھاپہ کی کارروائی کرتے ہیں تو اس لیے کہ ان پر دوہری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ ایک تو وہ اسی حلقہ کے رکنِ اسمبلی ہیں دوسرے یہ کہ وہ ریاست کے وزیرِ قانون بھی ہیں۔ اب دیکھیے اس بات کو بھی کہ پوری دہلی دہلنے لگی اور ملک و بیرونِ ملک بھی اس کا چرچا ہوگیا مگر خود کھڑکی کے عوام کا کوئی منفی ردّ عمل سامنے نہیں آیا! آخر کیوں؟ کیوں موقعۂ واردات سے دہلی پولیس نے بھی اپنا دامن کھینچے رکھا؟ جہاں تک سومناتھ کے کسی قدر بداخلاقی سے پیش آنے کی خبروں کی بات ہے اس کی شکایت پولیس اسٹیشن میں عجیب سی لگتی ہے۔ کسی معمولی سے جرم کے مرتکب کو ملک کے کسی بھی پولیس اسٹیشن میں کیسے اخلاق کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ کبھی تو شریف شہریوں کو معمولی سی دستاویزی جانچ پڑتال کے معاملے میں بھی پولیس جس اخلاق سےپیش آتی ہے اس کی داستانیں بھی کم نہیں ہیں۔ چہ جائیکہ منشیات اور جنسی معاملات کی بات پر وزیرِ قانون سومناتھ کو خوش اخلاقی سے پیش آنے کا سوال اٹھایا جائے؟
یہ بات بھی خبر میں شامل ہے کہ سیاہ فام باشندوں کو دہلی کے نوجوان ’’کالیا، کلّو یا حبشی‘‘ جیسے ہتک آمیز ناموں سے پکارتے ہیں جس کے سبب ان کی دل آزاری ہوتی ہے اور انھیں نسلی تفریق و نفرت کا احساس ہوتا ہے! سومناتھ پر بھی اسی طرح کا الزام لگایا گیا ہے کہ اس نے چھاپے کے دوران یہ جملہ استعمال کیا تھا کہ ’’وہ کالے لوگوں کو یہاں رہنے نہیں دیں گے‘‘۔ ہمیں اس کا دفاع نہیں کرنا ہے۔ کہا ہوگا انھوں نےایسا۔ تحقیقات جاری ہیں اس بارے میں۔ لیکن...
لیکن ... یہ بات واضح کردینا چاہتے ہیں کہ ان ناموں سے یقیناً ان کو پکارتے ہوں گے ان سے ملنے والے۔ لیکن یہ عرفیتیں تو عام ہندوستانی اپنے درمیان بھی سیاہ رنگ والوں کے لیے جابجا استعمال کرجاتے ہیں۔ نسلی تفریق اور ہتک و نفرت کا احساس اس وقت کیا جاسکتا ہے کہ جب انھیں عوامی مقامات، عوامی سواریوں اور دیگر شہری سہولیات کا استعمال کرنے سے سیاہ فامیت کی وجہ سے روکا جائے۔ اور ہمارا چیلنج ہے کہ ایک سومناتھ ہی نہیں کوئی بھی بھارتی باشندہ ایسا نہیں ہے کہ کسی کو سیاہ فامیت کی وجہ سے نفرت انگیز انداز میں پکارے اور اس سے نسلی تفریق کا جذبہ دکھائے۔ یہ خود مخلص ہندوستانی افراد برداشت نہیں کریں گے۔
اس سیاسی دھماچوکڑی اور شور و غل سے پرے پردۂ زنگاری میں کوئی معشوق ہے تو بس یہی ہے کہ بی جے پی اور کانگریس کے ایم ایل ایز اور اپوزیشن لیڈروں کو ’’وی آئی پی‘‘ سیٹ تو مل گئی ہے مگر ’’کلچر‘‘ نہیں مل سکا ہے اور وہ ’آپ‘ کی ایک ماہ کی نوزائیدہ حکومت کے پانی اور بجلی والے کاموں کو جائز عوامی مقبولیت ملنے سے پہلے ہی ٹانگ کھینچنے کے لیے پوری طرح زورآزمائی میں مصروف ہیں اور ہاتھ آیا ہوا یہ موقع کھونا نہیں چاہتیں۔ نیشنل میڈیا بھی ہمیشہ کی طرح ان کا حلیف بنا ہوا ہے۔