To View This Blog in Nastaliq Script Download Faiz Nastaliq Unicode Font

Download Faiz Nastaliq Unicode Font from http://www.faiznastaliq.com/faiznastaliq.zip unzip & install it to your windows/font directory

Monday, March 3, 2014

The new political sleight of Rajnath Singh
Dr. Rehan Ansari

ایک مرتبہ اور ثابت ہوا کہ وہ اتنے عقلمند نہیں ہیں جتنے بھولے ہم لوگ ہیں۔ ان کی دکانداری کا بھرم ہمیں سے قائم ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کی انتخابی مہم پورے زوروشور سے جاری ہے۔ اسی سلسلے میں دہلی میں مسلمانوں کے ایک معمولی سے مجمع (بی جے پی کے مائناریٹی سیل کے مسلم چہروں!) سے خطاب کرتے ہوئے بھاجپا کے صدر راج ناتھ سنگھ نے مسلمانوں سے معافی مانگنے کی تجویز انتہائی شاطرانہ انداز میں یوں رکھی کہ وہ اپنی اس سیاسی چال میں کامیاب ہوگئے۔ بات پھوٹتے ہی مشہور ہوگئی۔ یاد کیجیے کہ انھوں نے مشروط طور پر معافی مانگنے کی بات کی تھی کہ ’’اگر‘‘ ان سے کوئی غلطی ہوئی ہو تو وہ ’’سرجھکا کر‘‘ معافی مانگنے کو تیار ہیں۔ مسلمانوں نے حسبِ عادت و سابق اس کا فطری انداز میں ردِّعمل بھی پیش کیا ؛ ان کی اس بات کو موقع پرستانہ سیاست بھی کہا اور یہ بھی کہا کہ وہ بی جے پی اور خصوصاً اس کے وزیرِ اعظم کے لیے نامزد امیدوار مودی کو معاف کرنے کے موڈ میں قطعی نہیں ہیں۔ دیگر سیاسی پارٹیوں نے بھی اس بیان پر کچھ لے دے کی۔ راج ناتھ سنگھ نے اپنی چال میں زبردست کامیابی حاصل کرلی۔ وہ یوں کہ، خود راج ناتھ سنگھ، بھارتیہ جنتا پارٹی اور آر ایس ایس برابر جانتے ہیں کہ مسلمان انھیں معاف نہیں کریں گے۔ لیکن ہند ووٹوں کو اپنی جانب پورے وثوق کے ساتھ راغب کرنے کا حربہ یہی ہے کہ مسلمانوں کو بھارتیہ جنتا پارٹی سے مذہبی بنیادوں پر انتہائی برگشتہ دکھایا جائے اور اس طرح کانگریس اور دیگر پارٹیوں کے تعلق سے سوچنے والے ہندوؤں کے جذبات کو اُبھار کر ان کا ووٹ اپنی جانب کھینچنے کی تدبیر کی جائے۔ راج ناتھ سنگھ اس میں کامیاب ہوئے۔ ہم نے بھی اور میڈیا نے بھی ان کی بھرپور مدد کی۔ وگرنہ کیا وجہ ہے کہ اتنے حساس بیان پر نہ آر ایس ایس چیں بہ جبیں ہوئی اور نہ مودی اور مودی نوازوں نے اس پر کسی حیرت اور بے چینی کا اظہار کیا! ادھر راج ناتھ سنگھ نے بھی تمام مطلوبہ ری ایکشن آنے کے بعد اس کا فالواَپ نہیں کیا۔ وہاں سناٹا چھایا ہوا ہے۔ جو دروازہ کبھی کھلا ہوا نہیں تھا اسے بند کرنے کا جواز ہی کہاں ہے۔

راج ناتھ سنگھ اپنی مزید چانکیائی دکھاتے رہیں گے۔ وہ اپنے  بیان کی جانب مڑ کر بھی نہیں دیکھ رہے ہیں؛۔اور اپنا ووٹ بینک سنبھالنے کے لیے دوسری جانب مشغول ہوچکے ہیں۔ ہمارا فالواَپ جاری ہے اور ابھی الیکشن تک رکنے ولا بھی نہیں ہے۔ بلکہ راج ناتھ سنگھ کی اس بات کو یاد دلانے کے لیے وقفہ وقفہ سے ہماری قوم کے خودساختہ رہبر و رہنما سامنے آتے رہیں گے۔ میڈیا میں بھی رہ رہ کر اس بیان کی گرد صاف کی جاتی رہے گی۔
بات نکل آئی ہے تو ذرا ایک برس قبل کی بھی وہ بات یاد دلاتے چلیں کہ ممبئی کے مشہور پانچ ستارہ ہوٹل ’لی لا‘ میں ملک کے انتہائی مقبول، معتبر و منفرد ’’اردو‘‘ ٹی وی چینل ETV (اردو) نے  ’ملکِ عزیز میں مسلمانوں کو درپیش مسائل‘ پر چھ گھنٹوں تک چلنے والے ایک لائیو مباحثہ کا انعقاد کیا تھا۔
اس مباحثہ کی صدارت کرتے ہوئے راج ناتھ سنگھ نے بیشتر وقت این ڈی اے (واجپئی) سرکار کے دفاع یا اپنی نظریہ ساز جماعت کو سیکولر ثابت کرنے میں لگا دیا۔ کسی صاحب نے اپنی تقریر میں مسلمانوں کو ’’ملک کا حصہ دار‘‘ کہا تو انھیں جیسے موقع مل گیا کہ وہ مسلمانوں کے ریزرویشن کے مطالبے پر چوٹ کرسکیں۔ اوراسی بات کے حوالے سے ایک سوال کرکے انھوں نے سامعین میں کچھ ساعتوں کے لیے سناٹا ضرور پسار دیا تھا کہ مسلمان آخر خود کو بھارتیہ (ہندوستانی) کہتے ہیں تو پھر کیوں وہ حصہ مانگتے وقت خود کو مسلمان کہتے ہیں، بھارتیہ کیوں نہیں کہتے؛ (یعنی نام نہاد مین اسٹریم یا اوپن میں) کیوں نہیں مقابلہ کرکے آگے آتے۔ کوئی جواب نہیں دیا گیا۔ پروگرام میں مسلمانوں کا ہی مجمع بیشتر تھا۔ ہم لوگ جتنے مضطرب اور بے چین بیٹھنے کے عادی ہیں اس کا اظہار وہاں بھی ہوتا رہا۔ موقع موقع سے پیدا ہونے والے انتشار نے بھی راج ناتھ سنگھ کے سوال کا جواب دینے میں مانع رکھا۔ کئی جوابات ممکن ہیں لیکن ہم نے سوچا کہ ایک جواب انھیں دے ہی دیا جائے کہ جب مسلمانوں پر اس ملک میں چن چن کر مظالم اسی بنیاد پر ڈھائے جاتے ہیں کہ وہ ’’مسلمان‘‘ ہیں، تعصب اسی لیے برتا جاتا ہے کہ وہ مسلمان ہیں، فسادات میں نام نہاد ’’بھارتیہ‘‘ لوگوں (ہم قوم) کے ہاتھوں اسی لیے کاٹا مارا اور تباہ کیا جاتا ہے کہ وہ ’’مسلمان‘‘ ہیں، تو کیا برا ہے اگر وہ اپنا حق اور تحفطات اس حیثیت سے مانگیں کہ وہ ’’بھارتیہ مسلمان‘‘ ہیں! آپ کی چانکیائی اسی وقت کیوں جاگتی ہے جب مسلمان اپنا حق طلب کرتا ہے؟ آخر ہندوؤں میں ہی کئی ذاتوں اور برادریوں کو دستوری تحفطات اور حقوق حاصل ہیں تو صرف مسلمانوں کے مطالبے کو غیردستوری کیوں سمجھا اور سمجھایا جاتا ہے۔
راج ناتھ سنگھ کے تازہ تر بیان سے بہرحال انھیں جو حاصل کرنا تھا وہ ہوا بھی۔ ممبئی کی زبان میں انھوں نے موقع دیکھ کر چوکا لگادیا۔ بھارتیہ جنتا پارٹی اور سنگھ پریوار کی دوسری ذیلی تنظیمیں جس قدر منظم انداز سے انتخابی سرگرمیاں چلاتی ہیں اور جیسا ہوم ورک کرتی ہیں اس کی مثال دوسری سیاسی پارٹیوں میں نہیں ملتی۔ اسے بالکل پروفیشنل انداز کہا جانا چاہیے۔ وہ سیاست یا جذباتی سیاست بھی بالکل پروفیشنل انداز میں کھیلتی ہیں۔ اور صرف انتخابی موسم میں نہیں بلکہ پورے ٹرم میں ان کا یہ کھیل بند نہیں ہوتا۔ آپ نے دیکھا ہی ہے کہ ایک سابق آرمی چیف کس طرح اپنی وردی کے اترتے ہی بھگوا دھاری ہو گیا۔ ایک سابق پولیس کمشنر وردی کے اندر بھی جب تک رہا بالکل خاموشی کے ساتھ اپنی اصلیت کے مطابق کام کرتا رہا لیکن شاید انتخابات کے قریب آتے آتے اسے وردی میں گھٹن کا احساس ہونے لگا تو خاکی پتلون اتار کر خاکی نیکر چڑھا لیا تاکہ ہاتھ آیا ہوا موقع کہیں نکل نہ جائے۔ ان سابق کمشنر صاحب نے تو کچھ مہینوں پہلے ہی ہمارے چند معتبر افراد کو ساتھ لے کر ’’انسان کی تلاش‘‘ کرنی چاہی تھی۔ اس کی بھی خوب تشہیر کی گئی۔ لیکن ان کی نقاب الٹی تو ان پر ہمارا اعتبار ٹھٹھا مار رہا تھا۔حیف صد حیف۔ کئی اور مثالیں بھی ہمارے حافظے میں جاگ رہی ہوں گی لیکن خیر!
راج ناتھ سنگھ نے اپنے بیان میں طرح طرح سے پوچھے جانے والے ایک سوال کا جواب جب بھی دیا وہ یکساں تھا۔ وہ ایک سوال تھا کہ مودی آخر گجرات کے مسلم کش فساد کے لیے معافی کیوں نہیں مانگتے۔ ان کا جواب ہمیشہ یہی ملتا رہا کہ جب ملک کی عدالتِ عالیہ نے مودی کو کلین چٹ دے دی ہے تو ہم کیا اب عدالت کے فیصلے کا بھی انکار کریں گے؟ اب تو اس بات پر کوئی گفتگو بھی نہیں ہونا چاہیے۔ راج ناتھ سنگھ جی! آپ کی بات سرآنکھوں پر۔ لیکن براہِ کرم اس سوال کا جواب تو آپ، بھارتیہ جنتا پارٹی، آر ایس ایس اور خود مودی سمیت عدالت کو بھی دینا ضروری ہوگیا ہے کہ اگر ان فسادات میں مودی اور ان کی حکومت کا ہاتھ نہیں تھا تو آخر یہ فسادات کس کی ایما پر ہورہےتھے اور اصل مجرم پھر کون ہے؟ کیا گجرات میں فسادات ہوئے ہی نہیں؟ کیا وہاں کے مسلمانوں پر قیامت توڑی ہی نہیں گئی؟ کیا ریاستی حکومت نے ان تباہ حال مسلمانوں کی کوئی (ہمدردانہ) خبرگیری اور بازآباکاری کا کوئی انتظام بھی کیا؟ اگر گجرات میں اقتصادی ترقی کا ڈھنڈورا پیٹا جارہا ہے تو انسانی اور قومی تنزلی کا ذکر دبے لفظوں میں بھی کیوں نہیں کیا جاتا؟
سرِ دست ہم اپنے لوگوں سے یہ ضرور کہنا چاہیں گے کہ راج ناتھ سنگھ سمیت جتنے بھی بھاجپائی ہوں (خواہ نام سے وہ ہمارے بھائی ہوں) ان کی کسی بھی بات کو الٹ پلٹ کے ضرور دیکھنے کی کوشش کریں کہ ہر سکہ کے دو رخ ہوتے ہیں۔ ہوسکتا ہے خوشنما رخ کا دوسرا رخ انتہائی کربناک بلکہ دہشتناک نکلے۔ ان چالاک لوگوں کے بیانات پر سب سے حسین اور نتیجہ خیز ردِّ عمل یہی ہونا چاہیے کہ اسے ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دیں یا اگر یہ ممکن نہ ہوتو کسی لطیفہ کی مانند سن لیا کریں۔بس! ان کے زہروں کا تریاق یہ ہے کہ جو سیکولر برادرانِ وطن ہمارے آس پاس اور سماج و سیاست میں ہیں ان سے اپنے مراسم کو خوشگوار بنانے کی ہر ممکن کوشش کریں۔ یہی ہمارا طویل وقتی پروگرام ہونا چاہیے۔