To View This Blog in Nastaliq Script Download Faiz Nastaliq Unicode Font

Download Faiz Nastaliq Unicode Font from http://www.faiznastaliq.com/faiznastaliq.zip unzip & install it to your windows/font directory

Friday, March 18, 2011



Urdu Uncared By Urdu Speaking People
جب کسی زبان کے بولنے والے تعداد میں کم ہو جاتے ہیں تو میڈیا کے لیے یہ خبر بنتی ہے۔ ایسی ہی ایک خبر گذشتہ دنوں نظر سے گذری۔ خبر پڑھ کر پہلے تو اچنبھا ہوا کہ وہ ایک ایسی زبان کی اطلاع ہے جو دنیائے لسانیات میں تازہ ترین دریافت ہے یعنی ’’کورو‘‘ جو اروناچل پردیش کے مشرقی کامینگ علاقے کی ایک قبائلی زبان ہے اور ساتھ ہی بعدالمشرقین کی مانند یہ بھی درج ہے کہ اس زبان کے بولنے والے افراد تعداد میں صرف بارہ سو رہ گئے ہیں اس لیے ایک دو نسلوں کے بعد اس کے ختم ہو جانے کا اندیشہ ہے کیونکہ ان کی نئی نسل اس سے مکمل نابلد تو نہیں لیکن چھوڑے ہوئے ضرور ہے۔ یا مظہرالعجائب۔ نومولود کی جان کو خطرہ کی خبر۔ بہر کیف اس خبر کے پس منظر میں ہم نے اردو کے حالات کا مطالعہ و مشاہدہ کرنے کی ضرورت محسوس کی تو کچھ ایسے احوال سامنے آئے جو فکر کا سبب بنتے ہیں۔
آج کل ہمارے اکثر دانشور حضرات انگریزی کی اہمیت کے قائل اور اس کی تبلیغ پر مائل ملتے ہیں۔ خواہ کوئی بھی تعلیمی تقریب ہو انگریزی کے تذکرے پر ان کی رال ٹپک ہی جاتی ہے۔ ہم انگریزی کی اہمیت و افادیت کے نہ منکر ہیں اور نہ اس کے مخالف؛ مگر یہ ضرور دیکھتے ہیں کہ انگریزی کے یہ مبلغین صر ف انگریزی کی تعریف و توصیف میں رطب اللسان نہیں رہتے بلکہ اردو کے بدخواہ و مخالف بھی نظر آتے ہیں۔ یہ لوگ شخصی ترقی (خصوصاً روزی روٹی کے لیے) اردو کو بڑا نقصاندہ سمجھتے اور سمجھاتے ہیں۔ (ہماری ناقص سمجھ میں یہ بھی نہیں آتا کہ کسی زبان کو جاننے میں نقصان بھی ہوتا ہے)۔ اپنے بچوں کے لیے اردومیڈیم اسکولوں کو غیرمناسب خیال کرتے ہیں۔ ان میں سے بعض کے ساتھ بات چیت ہو تو یہ محتاط رویہ اختیار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ نہیں ہم اردو کے خلاف نہیں ہیں؛ دیکھیے نا! ہم اپنے گھر میں تو بچوں کے لیے ’’اردو اور عربی (بہ معنی ناظرہ قرآن)‘‘ کی تعلیم کا نظم کرتے ہیں تاکہ وہ ’’مذہب‘‘ کی تعلیمات بھی حاصل کر سکیں۔
آگے بڑھنے سے پہلے چند معترضہ جملے ملاحظہ فرمائیں۔ اوّل تو اردو اگر آپ کی زبان ہے تو یہ اختیاری نہیں ہے، مادری ہے۔ آپ انگریزی بھی سمجھنا چاہتے ہیں تو اسے اردو میں ہی سمجھ پائیں گے۔ دوسری بھی جتنی زبانیں آپ سیکھنا یا اپنانا چاہیں گے ان کے الفاظ کے معانی آپ کو سمجھنے کے لیے اردو میں ہی یاد کرنے پڑیں گے۔ اسی لیے آپ اردو کو جتنی کم اہمیت دیں گے اور جتنا کم جانیں گے انگریزی یا دوسری زبان بھی اتنی ہی کم سمجھ پائیں گے۔ ہم انگریزی زبان کے مخالف نہیں ہیں لیکن اردو کی قیمت پر انگریزی سیکھنے کے ضرور خلاف ہیں۔ اس کے انجام کے بطور ہمیں آدھاتیتر آدھابٹیر نما نسل میسر آئی ہے جو چند مستثنیات کے علاوہ ہمارے لیے باعثِ ندامت بنی ہوئی ہے۔جنکے شعور کی کونپلوں کو لے جا کر ہم نے بنجر زمین میں بو دیا تھا۔ اب ان کے اندر نہ ہماری تہذیب جھلکتی ہے نہ ثقافت کے زیور ہی اس کے تن بدن پر نظر آتے ہیں۔ اس کا سب سے محبوب مکالمہ ہے ’’سب چلتا ہے‘‘!
اسی ’’چلتا ہے‘‘ کلچر کے زیرِ دام ہماری زبان و تہذیب کا چل چلاؤ ہوتا نظر آرہا ہے۔’جینے سے ہمیں بس مطلب ہے اب اور ہمیں کچھ کام نہیں‘۔ موضوع بہت طویل بحث کا متقاضی ہے اور اخبار کے صفحات ایسی طوالت کے متحمل نہیں ہوتے۔ اس لیے طوالت کو بین السطور میں پڑھنے کی کوشش بھی کئی پیغامات کی ترسیل کر سکتی ہے۔
اصل میں زبان بولنے یا جاننے کو بھی ہم نے بیحد محدود معنوں میں سمجھا ہوا ہے۔ بول چال کی زبان خواہ انگریزی یا مراٹھی ہی کیوں نہ ہو، کا جان لینا ہماری نظر میں زباندانی ہے۔ یہ تو کام چلانا ہے۔ اسی کی وجہ سے سب چلتا ہے۔ وگرنہ زباندانی ایک دوسری شئے ہے۔ آپ انگریزی بول چال کی زبان جان کر بھی انگریزی کی تحریر کو مکمل طور سے سمجھنے کے قابل نہیں ہو سکیں گے۔ انگریزی اخبارات کا مطالعہ کیجیے تو محسوس ہوگا کہ ہر انگریزی زبان کا قلمکار بہتر سے بہتر انگریزی اور نئے سے نئے الفاظ و جدید ترکیبات لکھنے کی مسلسل کوشش میں لگا رہتا ہے۔ حتیٰ کہ ’’چٹپٹی تحریر‘‘ لکھنے والے بھی دوسری زبان کے الفاظ کو انگریزی پیکر دے کر لکھنے کی کوشش کرتے ہیں جو ازخود ایک نئی محنت ہے۔ ان کی انگریزی پڑھنے کے بعد جب ہم اپنے اخبارات کی جانب آتے ہیں تو یہاں آوا کا آوا ہی بگڑا ملتا ہے۔ کسی نے معمولی سا بھی کوئی غیرمستعمل اردو لفظ لکھ دیا تو اس پر یہ الزام لگ جاتا ہے کہ ’’بہت مشکل زبان لکھتا ہے یار، ذرا آسان لکھنا چاہےے تاکہ سب کو سمجھ میں آئے۔‘‘ یعنی ہم لوگ عام بول چال کی زبان میں ہی تحریر بھی کرنا اور پڑھنا چاہتے ہیں۔کیا یہ تنزلی کی بات نہیں ہے۔ کیا زبان اس طرح ترقی کرنا تو کجا محفوظ بھی رہ سکے گی؟
ہمارے مشاہدے میں یہ بات بھی آتی رہی ہے کہ (یہاں بھی استثنائی معاملات کو چھوڑ کر) اردو اسکولوں میں اردو مضمون پڑھانے والے اساتذہ کی اکثریت نصاب سے ہٹ کر کسی موضوع پر انھیں لکھنے کو کہہ دیں تو ان کے ہاتھ پاؤں پھول جاتے ہیں اور کسی موضوع پر اظہارِ خیال انھیں سخت امتحان میں ڈال دیتا ہے۔ وہ اپنے طلبہ کو اردو مضمون نویسی کے لیے بازار میں دستیاب ڈائجسٹ سے نقل کروا دیتے ہیں۔ یہاں یہ بات بھی برمحلِ تذکرہ لکھ دیں کہ اردو میڈیم اسکولوں میں دیگر مضامین کے اساتذہ تو اردو (اچھی اردو زبان) کا جاننا اور بولنا اپنے لیے قطعی لازمی نہیں سمجھتے! گویا اردو کی علمبرداری اور ذمہ داری صرف اردو پڑھانے والے استاذ کو ہی زیبا ہے۔
اردو کے سلسلے میں تو معروضات بہت سی ہیں اور گذرتے ایام کے ساتھ اس میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے لیکن چند ایک باتیں کہنے پر اکتفا کرتے ہیں جیسے بہت سے اردو کے ہمدرد ایسی باتیں بھی پوچھتے ہیں کہ مثلاً ٹیلیویژن کو اردو میں کیا لکھیں گے، ہمارا کہنا یہ ہے کہ ’’دوردرشن‘‘ کی ترکیب خالصتاً اردو ہی ہے اور لفظ درشن اور دور، اردو میں ہندی کی تشکیل و ترویج سے پہلے بھی رائج رہا ہے؛ پھر وہ پوچھتے ہیں کہ اچھا ٹیلیفون کے لیے آپ کیا لفظ لکھیں گے پھر کہنا پڑتا ہے کہ اردو میں بہت سے انگریزی الفاظ جذب ہوچکے ہیں جیسے ٹیچر، اسکول، پروفیسر، انسپکٹر، ڈاکٹر وغیرہ، تو ٹیلفون کو من و عن لکھا جاسکتا ہے اور اردو نام ہی ہے اس وسیع القلب اور روادار زبان کا کہ اس میں ہندوستانی اور انگریزی کے علاوہ دنیا کی دیگر زبانوں خصوصاً عربی اور فارسی کے الفاظ کی کثرت ہے اور یہ اکلوتی ہندوستانی نژاد زبان ہے جو غیرمنقسم ہندوستان کے طول و عرض میں عوامی رابطے کے لیے مکمل طور سے قبول کی جا چکی تھی۔ جس کا اظہار داغ دہلوی نے بھی کیا تھا کہ:
اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ
سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے
یہ کریڈٹ کسی دوسری ہندوستانی زبان کو کبھی حاصل نہیں رہا۔ یہ انگریزوں کی چال (فورٹ ولیم کالج کا قیام) اور چند بدنہاد ہندوستانیوں کی سازش کا نتیجہ اور دیانتدار و محبِّ وطن ہندوستانیوں کی زبوں حالی تھی کہ اردو پر برا وقت آن پڑا پھر اس میں ترقیاتی کام بند ہوکر اس تنزلی کا دور شروع ہوگیا جسے آج ہم سب ’’آسان اردو‘‘ کے نام سے جانتے ہیں۔
کمپیوٹر کا دور آنے کے بعد اس پر اور ایک برا دور آگیا کہ اردو میں کتابت اور خوش نویسی سے لوگوں کی دلچسپی تقریباً صفر ہوگئی۔ قدر مفقود ہوگئی۔ اس کامستقبل میں انجام اچھا نہیں ہے۔ یہ ایک الگ موضوع ہے جس پر تفصیل سے گفتگو ہوسکتی ہے۔  البتہ ہمیں لازمی ہے کہ اردو کے چہرے یعنی خطِ نستعلیق کی بھی حفاظت کریں۔ 
آخر ہم آج اردو کا یہ دکھڑا لیے کیوں بیٹھے ہیں؟ اس کا سبب یہ ہے کہ دنیا میں چھوٹی چھوٹی زبان والوں اور چھوٹے چھوٹے علاقے کے لوگ اپنی زبان و تہذیب کی حفاظت کو لے کر تحریک چلا بیٹھے ہیں... جس کی ایک مثال ہماری اپنی ریاست مہاراشٹر ہے۔ یہاں راج ٹھاکرے Raj Thackrey اور ان کے قبیل کے دیگر لوگ مراٹھی جیسی محدود زبان کی خدمت و تحفظ میں کیا کچھ نہیں کرتے... لیکن ہم اردو والے بے فکر بیٹھے ہیں۔ 
اپنی زبان کی حفاظت کا مطلب صرف یہ نہیں ہے کہ ہم اس کے الفاظ و معانی جانتے رہیں اور بولتے رہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہم اپنا تہذیبی اثاثہ، اپنی تاریخ، اپنی ثقافت اور اپنے آبا واجداد کے کارناموں کی حفاظت کرتے ہیں؛ انھیں نئی نسل میں منتقل کرتے ہیں، انھیں سونپتے ہیں۔ان میں دلیری و بہادری کی کہانیاں بھی ہیں، فنون اور فنونِ لطیفہ بھی ہیں، ہماری مقامی تاریخ بھی ہے، نظم و نثر کا بیش بہا ادبی سرمایہ بھی ہے، روایات واقدار کا اثاثہ بھی ہیں اور ہماری اپنی تہذیبی جڑیں بھی اس میں موجود ہیں... اور یہ سب مل کر ہماری اپنی شناخت ہیں۔کیا ہم اپنی ہی شناخت کے خود دشمن نہیں ہوچکے ہیں.

Wednesday, March 16, 2011

NUCLEAR POWER PLANT MELTDOWN AND IT'S HAZARDS
جاپان کے حالیہ نیوکلیائی بجلی گھر حادثہ اور مابعد اثرات و تحریکات کے پس منظر میں ہمارے ایک بزرگ شبیر احمد راہی صاحب کا یہ شعر یادداشت میں بازگشت کرتے ہوئے سامنے آیا کہ:
نِت نئی   روز   ترقی   پہ   نہ   پھولو   اتنا
اس ترقی میں جو ہے موت کا ساماں دیکھو!
نیوکلیائی ری ایکٹر پگھلاؤ کی یوں تو کوئی واضح تعریف انٹرنیشنل ایٹمک انرجی ایجنسی (IAEA) نے متعین کی ہے اور نہ ہی US Nuclear Regulatory Commission نے۔مگر اس بات پر سبھی کا اتفاق ہے کہ جب کسی نیوکلیر ری ایکٹر کے حفاظتی خول کو حرارت کی زیادتی کے سبب نقصان پہنچے تو اسے ’’نیوکلیر ری ایکٹر میلٹ ڈاؤن‘‘ کہنا چاہیے۔ 
نیوکلیائی توانائی کی مدد سے مائع کو گرما کر اس سے بجلی کی پیداوار کرنے والے پلانٹ کو نیوکلیائی بجلی گھر (Nuclear Power Plant) کہتے ہیں۔ جب اسی حرارت کو مناسب طریقے سے کنٹرول نہیں کیا جا سکے گا تو حرارت کی مسلسل پیدائش کے نتیجے میں ’’جوہری معمل‘‘ یا نیوکلیائی ری ایکٹر (Nuclear Reactor) کے مرکزی حصہ میں درجۂ حرارت انتہائی حد تک بڑھ جاتا ہے اور نتیجتاً اس کا خول پگھلنے لگتا ہے۔ چونکہ جوہری تعاملات (یعنی جوہری انشقاق Fission اور انضمام Fusion یعنی انتشار اور ملاپ) ایک مسلسل عمل ہیں اس لیے ری ایکٹر بند ہونے کے باوجود حرارت کی پیدائش بند نہیں ہوتی۔ مگر وقت گذرنے کے ساتھ یہ زائد حرارت ازخود ختم ہو جاتی ہے۔ حرارت کو کنٹرول میں رکھنے کے لیے ری ایکٹر کے حفاظتی خول (core) کی بیرونی تبرید (cooling) کی جاتی ہے۔ یہی تبریدی نظام کسی سبب خراب ہو جائے تو اندر پیدا ہونے والی حرارت مسلسل بڑھتے جاتی ہے اور جوہری معمل کا خول اس حرارت کو سہنے کا متحمل نہیں رہ جاتا اس لیے پگھل جاتا ہے۔ اور نیوکلیائی مادّہ باہر کی سمت خارج ہونے لگتا ہے۔ نیوکلیائی مادّے چونکہ بھاری عناصر کی جماعت ہیں یعنی ان کا جوہری عدد 82 سے زیادہ ہوتا ہے چنانچہ ان کا مرکزہ غیر مستحکم ہوتا ہے؛ اس لیے اس میں سے تابکار شعاعیں خارج ہوتے رہتی ہیں۔ اور ایسا اس وقت تک ہوتا رہتا ہے جب تک تابکاری تکسیر کے نتیجہ میں وہ عنصر سیسہ (Lead (Pb جیسی مستحکم دھات میں تبدیل نہیں ہوجاتا۔ اس منزل تک پہنچے کے لیے اس تابکار عنصر کی نصف زندگی Half Life  کی اہمیت ہے کیونکہ کچھ تابکار عناصر کی نصف زندگی لاکھوں سال بھی ہے اور کچھ کی محض چند سیکنڈ ہے!۔
 جاپان میں فوکوشیما ڈائچی Fukushima Daiichi Nuclear Power Station کے مقام پر حالیہ زلزلہ اور سونامی سیلاب کے سبب نیوکلیر ری ایکٹر کے خول کو ہی نقصان نہیں پہنچا بلکہ اس کے ایمرجنسی تبریدی نظام کو بھی نقصان پہنچنے کے سبب نیوکلیائی مادّہ کے اخراج کی خبریں آئی ہیں۔ حالانکہ جاپانی حکام نے اس بات کی تردید کی ہے کہ وہاں کوئی شدید نقصان ہوا ہے یا نیوکلیائی مادّہ اطراف میں اپنے اثرات مرتب کرکے ماحولیاتی مسائل پیدا کر رہا ہے۔ ماہرین کی ٹیم اس ری ایکٹر کی درستی کے لیے مسلسل لگی ہوئی ہے۔ یہ ساری باتیں یقینا فکرمند کرنے والی ہیں اور جاپان میں موجود لوگ خوفزدہ سے ہیں۔ اس کا سبب یہ بھی ہے کہ جاپان نے امریکی جوہری بم کی سنگینیاں کئی نسلوں تک جھیلی ہیں اور یہ سیاہ تاریخ ان کے ذہنوں سے محو نہیں ہو سکتیں۔ ہماری دعا ہے کہ جاپانی حکام جلد سے جلد حالیہ حادثہ سے اپنے عوام اور دنیا کے دوسرے انسانوں کو محفوظ کر سکیں۔
آئیے ایک نظر اس پر بھی ڈالیں کہ نیوکلیائی مادّوں کے بیرونی دنیا میں آجانے سے یا ماحول میں نیوکلیائی آلودگی کا سبب بننے سے انسانی آبادیاں کن آزار سے دوچار ہوتی ہیں۔ نیوکلیائی توانائی یا تابکاری  کے بالکل واضح نقصانات میں ہلاکت خیزیاں، موتیا بند اور جسم کے مختلف اعضا میں مہلک کینسروں کی پیدائش ہیں۔ علاوہ ازیں جس جگہ تابکار عناصر ماحولیات کو متاثر کرتے ہیں تو وہاں کے چرند و پرند اور پیڑ پودوں میں بھی اس تابکاری کے اثرات دیکھنے کو ملتے ہیں۔ اور اگر ان سبزیوں یا پھلوں کو یا متاثرہ جانوروں کے گوشت کو خوراک میں استعمال کیا جائے تو تابکاری کے اثرات داخلِ بدن ہو جاتے ہیں۔ تابکار اجزا غذائی جز بن جاتے ہیں۔پھر جو کوئی انھیں استعمال کرتا ہے اس پر وہ اپنے اثرات مرتب کرتے ہیں۔ متاثرین میں جسمانی نقائص بھی سامنے آئے ہیں۔ ان کی اولادوں میں بھی ان نقائص کو منتقل ہوتے دیکھا جا چکا ہے اس لیے تابکاری کے نتیجہ میں موروثی خصوصیات یعنی DNA میں کیسی تبدیلیاں در آتی ہیں ان کا مطالعہ ابھی پوری طرح نتیجہ خیز نہیں ہوا ہے.

Sunday, March 13, 2011

Active and Passive Euthanasia : Debatable
ارُونا شان باغ ug)(Aruna Shanba کو KEM اسپتال کا نرسنگ عملہ ’’ارُونا اسٹاف‘‘ کے  نام سے پکارتا اور اپنی اُنسیت کا اظہار کرتا ہے۔ گذشتہ ۳۸ برسوں سے ارُونا اسپتال کے بستر پر پڑی ایک غیر محسوس زندگی گذار رہی ہے۔ اس کی مخلص، بے لوث خدمت و تیمارداری کرتے ہوئے اس وقت شاید نرسنگ اسٹاف کی بھی ’تیسری جنریشن‘ مامور ہو۔ ارُونا کے ساتھ ظلم و درندگی کے واقعہ کے فوراً بعد سے ہی وہ بے چارگی کا شکار ہے۔ اس کی بڑی تفصیلات اخباروں کے صفحات پر پڑھنے کو مل چکی ہیں۔ سپریم کورٹ نے ارُونا کو موت کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا۔ زندہ باد۔ پنکی ویرانی یعنی مدعیہ کو اس باب میں شکست ہوئی اور KEM اسپتال کے نرسنگ اسٹاف نے خوشیاں منائی۔ لازم بھی تھا اور یہ ان کا حق بھی تھا۔ ارُونا کو بالرّحم موت Euthanasia ( تلفظ: یوتھانیشیا) کے حوالے کیے جانے کی بابت دریافت کرنے پر اسپتال کے ڈین ڈاکٹر سنجے اوک (Dr. Sanjay Oak) نے برملا یہ بیان دیا تھا کہ ہمارا کام لوگوں کی زندگی کو بچانے کا ہے نہ کہ انھیں موت کے حوالے کرنے کا، ہم لوگوں سے جو کچھ بن پڑے گا ہم ارُونا کے لیے کریں گے۔
اردو کے ایک شاعر نے ان حالات کی کیسی اچھی ترجمانی کی ہے کہ:
ملک الموت کو ضد ہے کہ وہ جاں لے کے ٹلے
سر  بہ  سجدہ  ہے مسیحا  کہ  مری لاج  رہے!

پنکی ویرانی (Pinky Virani) تو محسن کشی پر آمادہ تھی۔ فریش و بے چاری ارُونا شان باغ یقینا پنکی ویرانی کی محسن تھی۔ ’’ارُونا  کی کہانی‘‘ کو فروخت کرکے اس نے روپیہ بھی کمایا تھا اور نام بھی۔ ورنہ پنکی کی شہرت ایک محدود حلقے سے آگے نہیں تھی۔ بدلے میں پنکی نے ارُونا کو کیا دیا؟ کرُونا (رحم) کے نام پر اس کی موت کا مطالبہ کردیا!۔ بالفرض اگر پنکی کی درخواست کو سپریم کورٹ نے قبول کر لیا ہوتا تو پنکی کو اس حوالے سے شہرت و ناموری کے ساتھ مزید مالی فائدے حاصل ہوسکتے تھے... کیسا رحم ہے یہ پنکی کا؟... پنکی نے تو ارُونا کی ذات کا استحصال کیا ہے ہمدردی کے نام پر، نسوانیت کی آڑ میں۔ پنکی تو اپنے قبیح ارادوں کے لیے اسپتالی عملہ تک کو اپنا ہمنوا نہیں بنا سکی۔ اس عملہ کو جو اڑتیس برسوں سے شبانہ روز ارُونا کی تیمارداری پر مامور ہے۔ کیا پنکی کو اس وقت بھی سوچنا نہیں چاہیے تھا ۔ اُلٹا وہ دوست کے بہروپ میں سپریم کورٹ تک جا پہنچی۔ خیر سے سپریم کورٹ نے سہ رکنی طبی ماہرین کے عملہ کو تمام کوائف کی تحقیق پر مامور کرکے حقائق جاننے کے بعد ارُونا کی گردن پنکی کے ہاتھوں سے چھڑائی۔ مانا کہ ارُونا کی زندگی سرِ دست کوئی قیمت نہیں رکھتی۔ خود ارُونا کے لیے بے سود ہے یہ زندگی!۔ لیکن انسان تو فطری طور سے جانوروں کے ساتھ بھی رحم کا جذبہ رکھتے ہیں۔ قریب المرگ جانور کو بھی پوری راحت رسانی اور لوازماتِ زندگی کی فراہمی کرتے ہیں۔ارُونا تو انسان ہے۔ 
سپریم کورٹ نے فیصلہ کے اندر ایک عجیب سی رائے رکھ دی ہے۔ Active Euthanasia اور Passive Euthanasia یعنی فعلی قتل بالرّحم اور منفعلی قتل بالرّحم۔ اور سپریم کورٹ نے پیسیو یا منفعلی کو منتخب معاملات میں بالجواز قرار دیا ہے۔ اس کی تشریح یوں کی جائے گی کہ فعلی یا ایکٹیو یوتھانیشا میں ایسے مریض کو ڈاکٹر زہریلے انجکشن کے ذریعہ موت کے حوالے کردیں اور منفعلی یا پیسیو یوتھانیشیا میں جن مریضوں کے لیے مرضی حالت طویل ترین ہو اور کسی افاقے کی امید نہ ہو تو اس مریض کے جسم پر لگے طبی آلات و لوازمات کو علیٰحدہ کردیا جائے اور اسے اس طرح (ازخود) مرنے کے لیے چھوڑ دیا جائے۔یہی دوسرا عمل سپریم کورٹ نے بالجواز کر دیا ہے۔
سپریم کورٹ کے ججوں نے یہ تقسیم اپنے طور پر کی ہے یا طبی ماہرین کے مشورے پر؛ یا انسانیت کے علمبرداروں کی رائے لے کر؛ یا مختلف مذہبی رہنماؤں سے تبادلۂ خیال کے بعد کی ہے... یہ صراحت ہمارے پڑھنے میں نہیں آئی۔ البتہ قانونی ماہرین اور وکلا کی جانب سے اس رائے کا استقبال ضرور پڑھنے کو ملا۔ ہمیں ضرور حیرت ہوئی۔ یہاں میں ڈاکٹر سنجے اوک صاحب کے بیان کی ترجیع ضرور کرنا چاہوں گا کہ ’’کسی بھی طبیب کا کام اخیر وقت تک مریض کی زندگی بچانے سے معنون ہے نہ کہ اس کی زندگی لینے سے۔‘‘ 
قتل بالرّحم کا کام فعلی ہو یا منفعلی ہر دو صورت میں مریض یا طبیب ایذا سے ضرور دوچار ہوگا۔ کیونکہ یہ خدمت طبیبوں کو ہی انجام دینی ہے۔ جسے کسی بھی طرح سے انسانی نہیں کہا جاسکتا۔ یہ ’’حلفِ بقراطیہ‘‘ Hippocratic oath کے اس جز کے بھی سراسر منافی ہے جسے طبی لیاقت سے سرفرازی کے وقت ہر طبیب کو لینا لازم ہے کہ وہ کسی بھی مریض کو ایسی دوا (تدبیر) ہرگز نہیں دے گا جو اس کی ہلاکت کے لیے طلب کی جائے گی۔
 کیا منفعلی حالت میں وہ مریض جو بالکل بیخود و بے سدھ ہے اسے کوئی ایذا نہیں ہوگی؟ کیا ہوش و حواس والے اسے محسوس نہیں کر سکتے کہ اگر کوئی ہمارا گلا دباتا جائے یعنی آکسیجن کی فراہمی بند کر دے تو ہمیں کیسی گھٹن سی ہوتی ہے؟ اور اگر یہی عمل بجائے چند سیکنڈ کے کئی منٹ تک طویل ہوجائے تو ہر فراش مریض ’’ارُونا‘‘ میں نہیں تبدیل ہو سکتا۔ یہی ( کلبی زنجیر والاحادثہ) تو ہوا تھا ارُونا کے ساتھ جس کی وجہ سے وہ ایک  "vegetable life" گذار رہی ہے۔ سبزیوں میں بھی جان ہوتی ہے۔ انھیں کاٹنے پر وہ ایذا نہ دکھلائیں تو یہ جواز نہیں بنتا کہ انھیں تکلیف نہیں ہوتی۔ یقینا ہمارے سماج میں بہت سے بدنصیب مریض بھی ہوں گے اور بہت سے بدنصیب رشتہ دار بھی؛ ہم ہمدردی رکھتے ہیں ان سب سے؛لیکن انسانی ذمہ داریاں اور بھی بہت سی ہیں۔ یہ ساری جدید اصطلاحیں اور نئے قوانین کے جو حوالے پیش کیے جا رہے ہیں ان کی تاریخ بیسویں صدی عیسوی سے قبل دنیا میں کہیں اور کسی ملک میں بھی نہیں پائی جاتی۔ ہمارے نزدیک تو یہ صرف بہانے ہیں اپنی عیش پسند زندگیوں میں کسی بھی امتحان سے گریز کے۔ اصل میں ہم لوگ خود اب منفعل زندگی گذار کر مرجانا چاہتے ہیں