Eating Meat and Health Dr. Rehan Ansari |
’غذا‘ اور ’تغذیہ‘میں ایک معنوی فرق پایا جاتا ہے۔ غذا بہت سے اجزاء کا مرکب ہوتی ہے جو معمولی مقدار سے لے کر سیکڑوں گرام تک کھائی جاتی ہے جبکہ تغذیہ سے مراد جسم میں ہضم کے عمل کے بعد غذا سے حاصل کردہ اجزاء و توانائی ہے۔ جو ضرورتِ بدن کے مطابق ہوتی ہے۔ (یہاں یہ بات واضح ہو جانی چاہیے کہ غذا اور غذائی اجزاء میں کوئی خطِ تفریق نہیں ہے)
غذا کی تین بڑی قسمیں ہیں۔ ایک کاربوہائیڈریٹ (نشاستہ)، دوسری چربی (شحم) اور تیسری پروٹین (لحم)۔
لحم سے مراد پروٹین لیا جاتا ہے جبکہ لحم کے معنی گوشت کے ہیں۔ اس کا واضح سبب یہ ہے کہ عمدہ قسم کا پروٹین گوشت سے ہی حاصل ہوتا ہے۔ (حالانکہ دالوں اور سبزیوں سے بھی پروٹین دستیاب ہوتا ہے)۔ غذائیت کے ماہرین کا بھی اس پر اتفاق ہے۔ اسی لیے کتابوں میں درج باتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ:
’’غذائیت (تغذیہ) کے اعتبار سے حیوانی پروٹین کو نباتاتی پروٹین پر فوقیت حاصل ہے کیونکہ جسمِ انسان کے حیاتیاتی تقاضوں کے لحاظ سے حیوانی پروٹین مکمل ہوتا ہے۔ اور اس میں ہر قسم کے لازمی اَمینو ایسیڈ (پروٹین کے جوہر) موجود ہوتے ہیں۔ جبکہ نباتاتی پروٹین اس ضمن میں ناقص ہوا کرتے ہیں‘‘۔
پروٹین کی دستیابی کے دوسرے مسلمہ عالمی حیوانی ذرائع دودھ، انڈا، پرندے اور مچھلی وغیرہ ہیں۔ مگر ہمارے یہاں کے شاطر لوگوں نے ان میں سے دودھ اور اس سے بنی ہوئی اشیاء کو ’’ویجیٹیرین‘‘ (Vegetarian) زمرے میں شامل کر رکھا ہے۔ ایں چہ بوالعجبی است؟۔ بھلا دودھ بھی کسی باغ یا کھیت سے حاصل کیا جاتا ہے؟
آئیے اس تمہید کے بعد ہم یہ سلسلہ گوشت خوری اور صحت سے ملا دیں۔ گوشت سے ہمیں پروٹین کے علاوہ ’بی کمپلیکس‘ گروپ کے سبھی حیاتین ملتے ہیں،خصوصاًنکوٹینک ایسیڈ اور رائبوفلیوین۔ علاوہ ازیں فولاد اور فاسفورس بھی۔ (سبزیوں یہ متفرق طور پر موجود ہوتے ہیں)۔ نیز جگرمیں متعدد طرح کے غذائی اجزاء کثیر مقدار میں موجود ہوتے ہیں۔
مچھلی کے گوشت کو نسبتاً بہتر مانا جاتا ہے کیونکہ اس کا پروٹین جلد ہضم ہونے والا بتلاتے ہیں۔ نیز اس میں موجود چربی کو زیادہ نقصان دہ نہیں سمجھا جاتا۔ البتہ تحقیقات سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ موسم کے لحاظ سے یہ چربی بھی تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ مچھلی کے علاوہ مرغ کا گوشت بھی اچھا سمجھا جاتا ہے۔ لیکن منطقی نظر سے دیکھا جائے تو یہ فوائد صرف اسی لیے ہیں کہ مچھلیاں اور پرندے حیوانات کی جماعت بندی میں نوعی اعتبار سے پستانیوں (دودھ پلانے والوں) سے پست و کمزور ہیں۔ اس لیے ان کے قویٰ بھی کمزور ہوتے ہیں۔ البتہ چوپایوں کا گوشت انسان کے جسمانی تقاضوں سے قریب تر ہوتا ہے۔ اس لیے بکری اور دیگر مویشیوں کے گوشت کو فطرتاً قریب تر خواص کا حامل سمجھا جا سکتا ہے۔
عمدہ گوشت کے حصول کے لیے جانور بھی صحتمند اور توانا، نقائص اور امراض سے پاک ہونا چاہیے۔ اس کے لیے اس کی جائے پیدائش، عمر، پرورش و نگہداشت کی پوری تفصیلات جاننا ضروری ہے۔ عمدہ گوشت کی پہچان یہ ہے کہ وہ نہ تو بہت سفید یا زردی مائل ہو اور نہ نیلگونی رنگ کا ہو، چھونے پر بھرپور محسوس ہو، نرم اور پلپلا نہ ہو، اس کی بو بھی خوشگوار ہو۔ جس گوشت میں ان خصوصیات کی موجودگی نہیں ملتی اسے بہتر نہیں سمجھا جاتا۔ جانور کا ذبیحہ بھی لازمی ہے اور یہ ذبیحہ صاف ستھرے مذبح میں، پاکیزہ انداز میں، اسلامی خطوط (سنتِ ابراہیمی) پر کیا جائے تو گوشت کے فوائد بڑھ جاتے ہیں۔
ذبیحہ
ذبیحہ کی سائنسی حیثیت یہ ہے کہ اس عمل میں جانور کے جسم سے لگ بھگ پورا خون باہر آجاتا ہے اور گوشت نیز دیگر اعضاء خون سے خالی ہوجاتے ہیں۔ جیسے ہی گردن سے گذرنے والی خون کی بڑی نالیاں (Carotids & Jugulars) کٹتی ہیں تو جانور بے ہوش ہو جاتا ہے اور اس کے احساسات ختم ہو جاتے ہیں۔ یہ فوری طور پر ہوتا ہے۔ پھر وہ درد محسوس کر سکتا ہے نہ الم و اذیت۔ مگر دماغ کا جسم کے عضلات سے حرام مغز کی معرفت تعلق بنا رہتا ہے۔ اس لیے عضلات تیزی کے ساتھ پھیلنے اور سکڑنے (Convulsion / Seizures) کے عمل سے گذرتے ہیں اور جانور تڑپتا ہے۔ اس کی وجہ سے گوشت کے آخری کناروں میں رکا ہوا خون بھی باہر کی طرف بہہ کر نکل جاتا ہے۔ پھر یہ گوشت نیز دیگر اعضاء کھانے کے بعد صحت بخش ثابت ہوتے ہیں۔
برخلاف ذبیحہ کے کسی دوسرے طریقہ سے ہلاک کیے گئے جانور کے جسم سے خون پوری طرح خارج نہیں ہوتا اور یہ گوشت نیز دیگر اعضاء میں جمع رہ جاتا ہے۔ ہلاکت سے قبل جانور کو کسی بھی طرح ذہنی طور پر مجروح کیا جائے یا برقی شاک دیا جائے تو اس دوران وہ صدمہ کا شکار ہوجاتا ہے جس کے نتیجے میں خون میں ہسٹامین (Histamine)نامی مادہ کثیر مقدار میں خارج ہوتا ہے۔ یہ مادہ خون کی نالیوں کو سکیڑنے کی بجائے پھیلا دیتا ہے۔ ان نالیوں میں خون ٹھہر جاتا ہے۔ اس لیے ایسا گوشت بدمزہ ہونے کے علاوہ جلد خراب ہو جانے والا ہوتا ہے (یعنی قابلِ خوراک نہیں رہ جاتا)۔
گوشت خوری کے چند نقصانات:
ہر چند کہ گوشت خوری فطرتاً انسان کو مرغوب ہے اور دنیا کی اکثر انسانی آبادی کی غذا کا انحصار اسی پر ہے، مگر یہ شرط ہے کہ اسے سلیقے سے کھانا چاہیے۔ اس کا کثرت سے استعمال کرنا نقصان پہنچا سکتا ہے۔ سبزی گوشت کی اصلاح کے لیے بہترین چیز ہے۔ اسلیے کوشش یہ کی جائے کہ گوشت کے ساتھ کوئی سبزی بھی شاملِ غذا ہو۔ بڑی مقدار میں گوشت کھانے سے یورک ایسیڈ (Uric acid) اوردوسرے نقصان دہ فضلات پیدا ہو کر خون میں شامل ہوتے ہیں جو گردوں اور جوڑوں کے لیے اچھے نہیں مانے جاتے۔ گوشت خوری سے بعض افراد درج ذیل امراض کا بھی شکار ہو سکتے ہیں:
١] گردوں کے امراض، ورم اور سوزش وغیرہ۔
۲] خون میں کولیسٹرول Cholesterol اور ٹرائی گلیسرائیڈ Triglycerides کی مقدار بڑھ سکتی ہے جو بیشتر قلبی امراض کی جڑ ہیں۔
۳] گوشت کے بکثرت استعمال سے شہوت میں اضافہ ہوتا ہے اور آدمی اخلاقی جرائم کرتا ہے۔
۴] بعض طفیلی امراض جیسے کدّو دانے (Tapeworm)یا Hydatid وغیرہ بھی گوشت خوری سے لاحق ہوتے ہیں۔
۵] بعض جراثیمی امراض جیسے اینتھریکس، ٹی بی اور غذائی سمّیت نیز ڈائریا بھی گوشت خوری سے ممکن ہیں۔
گوشت خوری اور کینسر کے امکانات:
ہمارے دور میں گوشت خوری خصوصاً بڑے جانوروں کا گوشت کھانے کو لے کر کافی بحث جاری ہے۔اسے بعض اعضاء کے کینسر کی پیدائش سے جوڑنے کی باتیں کی جاتی ہیں۔ خواتین میں پستان اور مردوں میں غدۂ مذی Prostate کے کینسر کی پیدائش کا ذمہ دار گوشت خوری کو قرار دینے کی تحقیق پیش کی جا رہی ہے۔ لیکن سب اندازوں کی بنیاد پر یا پھر تحقیقی کوتاہیوں کے ساتھ۔
آئیے انھی کے درمیان سے ہم چند حوالے ایسے بھی پیش کردیں جو کینسر کی پیدائش کے تعلق سے ان دعووں کی نفی کرتے ہیں۔
ایک ویب سائٹ ہے breastcancer.org۔ اس سائٹ پر عورتوںکو پستان کے کینسر کے تعلق سے ہر قسم کی معلومات اور سوال و جواب کی سہولت دستیاب ہے۔ اس سائٹ پر یہ رقم ہے کہ ہر ملک میں پستان کے کینسر کی کہانی اور وقوع میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ تحقیقاتی رپورٹ کا خلاصہ یہ بتلاتا ہے مشاہدہ کے بعد ۴فیصد خواتین میں کینسر پایا گیا تو اس کی وجوہات بہت سے دوسرے عوامل بھی تھے، صرف گوشت خوری کو نہیں کہا جا سکتا۔ اس لیے یہ مفروضہ کہ گوشت خوری اور پستان کے کینسر میں تعلق ہے غلط اور بے بنیاد ہے۔ البتہ اس مفروضہ کو زیادہ سے زیادہ شہرت دی جارہی ہے۔ لازمی تحقیقی ڈیٹا اور شواہد کوئی پیش نہیں کرتا۔
ایک دوسری بلاگ سائٹ ہے: thecancerblog.com اس کے صفحات میں یہ ملتا ہے کہ بچوں اور نوجوانوں کو خصوصاً لڑکیوں کو جست (Zinc / Zn)عنصر کی ضرورت زیادہ ہوتی ہے۔ جست کی وجہ سے ان کی بیماریوں سے مدافعت کی قوت اور جلد کی صحت و نمک اچھے ہوتے ہیں۔ ان کی جلد سردی کے اثرات اور infectionسے محفوظ رہتی ہے۔ گوشت ہی جست کی کامیابی کا سب سے آسان اور ارزاں ذریعہ ہے۔فولاد بھی صحت کے لیے ضروری عنصر ہے۔ حائضہ عورتوں کو اس کی ضرورت زیادہ ہوا کرتی ہے۔ بوڑھی عورتوں اور حاملہ عورتوں کو بھی یہ ضروری ہے، بچوں کو بھی ضروری ہے۔گوشت میں فولاد کی کثیر مقدار ہوتی ہے اور جسم کو سب سے زیادہ آسانی کے ساتھ گوشت سے ہی فولاد حاصل ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں گوشت میں بی کمپلیکس وٹامن، فاسفورس، پوٹاشیم، میگ نیشیم، سیلینیم، گوشت اور اعضاء کی صحت کے لیے ضروری پروٹین ہیں۔ گوشت سے حاصل ہونے والا پروٹین ہمارے جسم کے عین مطابق اور مکمل ہوتا ہے۔ Complete ہوتا ہے۔ یعنی اس میں وہ تمام ’’امائنوایسیڈ‘‘ Amino Acids ہوتے ہیں جو بصورتِ دیگر جسم کو تیار کرنے پڑتے۔پروٹین جسم کی ٹوٹ پھوٹ کو سدھارنے کے لیے لازمی ہیں۔
مذکورہ بالا کے علاوہ بھی مزید سائٹس ہیں جس پر بین السطور میں یہ تو درج پایا جاتا ہے کہ گوشت بالفاظِ دیگر سرخ گوشت کا استعمال کرنے والوں کو فلاں کینسر ہوجاتا ہے لیکن حتمی الزا م سے گریز کیا جاتا ہے اور ڈیٹا بھی فراہم نہیں یا جاتا اور نہ حوالوں کے ساتھ کوئی ایسی بات پیش کی جاتی ہے۔ البتہ قیاسات اور بے بنیاد دعویٰ داری ضرور جاری ہے۔ ہمیں آج تک اندازہ نہیں ہو سکا کہ گوشت خوری کے مخالفین خود نہ چاہیں تو کوئی ان کو زبردستی تو گوشت کھلانے بھی نہیں آتا لیکن وہ دوسروں کو سبزیوں کے لیے راغب کرنے کے لیے جانے کیسے کیسے ناٹک کھیلتے ہیں۔ کینسر نسبتاً کم واقع ہونے والا مرض ہے۔اس لحاظ سے گوشت خوری ہی نہیں بلکہ کھانے پینے میں عدم مساوات اور بسیارخوری ہی کینسر کے ساتھ دوسرے عوارض کو بھی راہ دیتا ہے.