To View This Blog in Nastaliq Script Download Faiz Nastaliq Unicode Font

Download Faiz Nastaliq Unicode Font from http://www.faiznastaliq.com/faiznastaliq.zip unzip & install it to your windows/font directory

Thursday, October 27, 2011

Eating Meat and Health
Dr. Rehan Ansari
تغذیہ (Nutrition)صحت کا محور ہے۔ زندگی میں بہتر نمو اور افزائش کے لیے متوازن غذا ہی بنیاد بنتی ہے۔ جدید سائنس نے غذائی اجزا کو کھول کھول کر بیان کیا ہے مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ ان کی دریافت اور بیان سے پہلے انسان ان کے فوائد سے محروم تھا، جیسا کہ جدید ماہرینِ غذائیت کی خام خیالی ہے،بلکہ تاریخ میں بھی انسان اپنی بہترین دانست کا استعمال کرکے طرح طرح کی غذائیں تیار کرتا رہا تھا اور مفید و مضر کو پرکھتا رہا تھا۔
’غذا‘ اور ’تغذیہ‘میں ایک معنوی فرق پایا جاتا ہے۔ غذا بہت سے اجزاء کا مرکب ہوتی ہے جو معمولی مقدار سے لے کر سیکڑوں گرام تک کھائی جاتی ہے جبکہ تغذیہ سے مراد جسم میں ہضم کے عمل کے بعد غذا سے حاصل کردہ اجزاء و توانائی ہے۔ جو ضرورتِ بدن کے مطابق ہوتی ہے۔ (یہاں یہ بات واضح ہو جانی چاہیے کہ غذا اور غذائی اجزاء میں کوئی خطِ تفریق نہیں ہے)
غذا کی تین بڑی قسمیں ہیں۔ ایک کاربوہائیڈریٹ (نشاستہ)، دوسری چربی (شحم) اور تیسری پروٹین (لحم)۔
لحم سے مراد پروٹین لیا جاتا ہے جبکہ لحم کے معنی گوشت کے ہیں۔ اس کا واضح سبب یہ ہے کہ عمدہ قسم کا پروٹین گوشت سے ہی حاصل ہوتا ہے۔ (حالانکہ دالوں اور سبزیوں سے بھی پروٹین دستیاب ہوتا ہے)۔ غذائیت کے ماہرین کا بھی اس پر اتفاق ہے۔ اسی لیے کتابوں میں درج باتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ:
’’غذائیت (تغذیہ) کے اعتبار سے حیوانی پروٹین کو نباتاتی پروٹین پر فوقیت حاصل ہے کیونکہ جسمِ انسان کے حیاتیاتی تقاضوں کے لحاظ سے حیوانی پروٹین مکمل ہوتا ہے۔ اور اس میں ہر قسم کے لازمی اَمینو ایسیڈ (پروٹین کے جوہر) موجود ہوتے ہیں۔ جبکہ نباتاتی پروٹین اس ضمن میں ناقص ہوا کرتے ہیں‘‘۔
پروٹین کی دستیابی کے دوسرے مسلمہ عالمی حیوانی ذرائع دودھ، انڈا، پرندے اور مچھلی وغیرہ ہیں۔ مگر ہمارے یہاں کے شاطر لوگوں نے ان میں سے دودھ اور اس سے بنی ہوئی اشیاء کو ’’ویجیٹیرین‘‘ (Vegetarian) زمرے میں شامل کر رکھا ہے۔ ایں چہ بوالعجبی است؟۔ بھلا دودھ بھی کسی باغ یا کھیت سے حاصل کیا جاتا ہے؟




آئیے اس تمہید کے بعد ہم یہ سلسلہ گوشت خوری اور صحت سے ملا دیں۔ گوشت سے ہمیں پروٹین کے علاوہ ’بی کمپلیکس‘ گروپ کے سبھی حیاتین ملتے ہیں،خصوصاًنکوٹینک ایسیڈ اور رائبوفلیوین۔ علاوہ ازیں فولاد اور فاسفورس بھی۔ (سبزیوں یہ متفرق طور پر موجود ہوتے ہیں)۔  نیز جگرمیں متعدد طرح کے غذائی اجزاء کثیر مقدار میں موجود ہوتے ہیں۔
مچھلی کے گوشت کو نسبتاً بہتر مانا جاتا ہے کیونکہ اس کا پروٹین جلد ہضم ہونے والا بتلاتے ہیں۔ نیز اس میں موجود چربی کو زیادہ نقصان دہ نہیں سمجھا جاتا۔ البتہ تحقیقات سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ موسم کے لحاظ سے یہ چربی بھی تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ مچھلی کے علاوہ مرغ کا گوشت بھی اچھا سمجھا جاتا ہے۔ لیکن منطقی نظر سے دیکھا جائے تو یہ فوائد صرف اسی لیے ہیں کہ مچھلیاں اور پرندے حیوانات کی جماعت بندی میں نوعی اعتبار سے پستانیوں (دودھ پلانے والوں) سے پست و کمزور ہیں۔ اس لیے ان کے قویٰ بھی کمزور ہوتے ہیں۔ البتہ چوپایوں کا گوشت انسان کے جسمانی تقاضوں سے قریب تر ہوتا ہے۔ اس لیے بکری اور دیگر مویشیوں کے گوشت کو فطرتاً قریب تر خواص کا حامل سمجھا جا سکتا ہے۔



عمدہ گوشت کے حصول کے لیے جانور بھی صحتمند اور توانا، نقائص اور امراض سے پاک ہونا چاہیے۔ اس کے لیے اس کی جائے پیدائش، عمر، پرورش و نگہداشت کی پوری تفصیلات جاننا ضروری ہے۔ عمدہ گوشت کی پہچان یہ ہے کہ وہ نہ تو بہت سفید یا زردی مائل ہو اور نہ نیلگونی رنگ کا ہو، چھونے پر بھرپور محسوس ہو، نرم اور پلپلا نہ ہو، اس کی بو بھی خوشگوار ہو۔ جس گوشت میں ان خصوصیات کی موجودگی نہیں ملتی اسے بہتر نہیں سمجھا جاتا۔ جانور کا ذبیحہ بھی لازمی ہے اور یہ ذبیحہ صاف ستھرے مذبح میں، پاکیزہ انداز میں، اسلامی خطوط (سنتِ ابراہیمی) پر کیا جائے تو گوشت کے فوائد بڑھ جاتے ہیں۔
ذبیحہ

ذبیحہ کی سائنسی حیثیت یہ ہے کہ اس عمل میں جانور کے جسم سے لگ بھگ پورا خون باہر آجاتا ہے اور گوشت نیز دیگر اعضاء خون سے خالی ہوجاتے ہیں۔ جیسے ہی گردن سے گذرنے والی خون کی بڑی نالیاں (Carotids & Jugulars) کٹتی ہیں تو جانور بے ہوش ہو جاتا ہے اور اس کے احساسات ختم ہو جاتے ہیں۔ یہ فوری طور پر ہوتا ہے۔ پھر وہ درد محسوس کر سکتا ہے نہ الم و اذیت۔ مگر دماغ کا جسم کے عضلات سے حرام مغز کی معرفت تعلق بنا رہتا ہے۔ اس لیے عضلات تیزی کے ساتھ پھیلنے اور سکڑنے (Convulsion / Seizures) کے عمل سے گذرتے ہیں اور جانور تڑپتا ہے۔ اس کی وجہ سے گوشت کے آخری کناروں میں رکا ہوا خون بھی باہر کی طرف بہہ کر نکل جاتا ہے۔ پھر یہ گوشت نیز دیگر اعضاء کھانے کے بعد صحت بخش ثابت ہوتے ہیں۔
برخلاف ذبیحہ کے کسی دوسرے طریقہ سے ہلاک کیے گئے جانور کے جسم سے خون پوری طرح خارج نہیں ہوتا اور یہ گوشت نیز دیگر اعضاء میں جمع رہ جاتا ہے۔ ہلاکت سے قبل جانور کو کسی بھی طرح ذہنی طور پر مجروح کیا جائے یا برقی شاک دیا جائے تو اس دوران وہ صدمہ کا شکار ہوجاتا ہے جس کے نتیجے میں خون میں ہسٹامین (Histamine)نامی مادہ کثیر مقدار میں خارج ہوتا ہے۔ یہ مادہ خون کی نالیوں کو سکیڑنے کی بجائے پھیلا دیتا ہے۔ ان نالیوں میں خون ٹھہر جاتا ہے۔ اس لیے ایسا گوشت بدمزہ ہونے کے علاوہ جلد خراب ہو جانے والا ہوتا ہے (یعنی قابلِ خوراک نہیں رہ جاتا)۔
گوشت خوری کے چند نقصانات:
ہر چند کہ گوشت خوری فطرتاً انسان کو مرغوب ہے اور دنیا کی اکثر انسانی آبادی کی غذا کا انحصار اسی پر ہے، مگر یہ شرط ہے کہ اسے سلیقے سے کھانا چاہیے۔ اس کا کثرت سے استعمال کرنا نقصان پہنچا سکتا ہے۔ سبزی گوشت کی اصلاح کے لیے بہترین چیز ہے۔ اسلیے کوشش یہ کی جائے کہ گوشت کے ساتھ کوئی سبزی بھی شاملِ غذا ہو۔ بڑی مقدار میں گوشت کھانے سے یورک ایسیڈ (Uric acid) اوردوسرے نقصان دہ فضلات پیدا ہو کر خون میں شامل ہوتے ہیں جو گردوں اور جوڑوں کے لیے اچھے نہیں مانے جاتے۔ گوشت خوری سے بعض افراد درج ذیل امراض کا بھی شکار ہو سکتے ہیں:
١] گردوں کے امراض، ورم اور سوزش وغیرہ۔
۲] خون میں کولیسٹرول Cholesterol اور ٹرائی گلیسرائیڈ Triglycerides کی مقدار بڑھ سکتی ہے جو بیشتر قلبی امراض کی جڑ ہیں۔
۳] گوشت کے بکثرت استعمال سے شہوت میں اضافہ ہوتا ہے اور آدمی اخلاقی جرائم کرتا ہے۔
۴] بعض طفیلی امراض جیسے کدّو دانے (Tapeworm)یا Hydatid وغیرہ بھی گوشت خوری سے لاحق ہوتے ہیں۔
۵] بعض جراثیمی امراض جیسے اینتھریکس، ٹی بی اور غذائی سمّیت نیز ڈائریا بھی گوشت خوری سے ممکن ہیں۔
گوشت خوری اور کینسر کے امکانات:
ہمارے دور میں گوشت خوری خصوصاً بڑے جانوروں کا گوشت کھانے کو لے کر کافی بحث جاری ہے۔اسے بعض اعضاء کے کینسر کی پیدائش سے جوڑنے کی باتیں کی جاتی ہیں۔ خواتین میں پستان اور مردوں میں غدۂ مذی  Prostate کے کینسر کی پیدائش کا ذمہ دار گوشت خوری کو قرار دینے کی تحقیق پیش کی جا رہی ہے۔ لیکن سب اندازوں کی بنیاد پر یا پھر تحقیقی کوتاہیوں کے ساتھ۔




آئیے انھی کے درمیان سے ہم چند حوالے ایسے بھی پیش کردیں جو کینسر کی پیدائش کے تعلق سے ان دعووں کی نفی کرتے ہیں۔
ایک ویب سائٹ ہے breastcancer.org۔ اس سائٹ پر عورتوںکو پستان کے کینسر کے تعلق سے ہر قسم کی معلومات اور سوال و جواب کی سہولت دستیاب ہے۔ اس سائٹ پر یہ رقم ہے کہ ہر ملک میں پستان کے کینسر کی کہانی اور وقوع میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ تحقیقاتی رپورٹ کا خلاصہ یہ بتلاتا ہے مشاہدہ کے بعد ۴فیصد خواتین میں کینسر پایا گیا تو اس کی وجوہات بہت سے دوسرے عوامل بھی تھے، صرف گوشت خوری کو نہیں کہا جا سکتا۔ اس لیے یہ مفروضہ کہ گوشت خوری اور پستان کے کینسر میں تعلق ہے غلط اور بے بنیاد ہے۔ البتہ اس مفروضہ کو زیادہ سے زیادہ شہرت دی جارہی ہے۔ لازمی تحقیقی ڈیٹا اور شواہد کوئی پیش نہیں کرتا۔
ایک دوسری بلاگ سائٹ ہے: thecancerblog.com اس کے صفحات میں یہ ملتا ہے کہ بچوں اور نوجوانوں کو خصوصاً لڑکیوں کو جست (Zinc / Zn)عنصر کی ضرورت زیادہ ہوتی ہے۔ جست کی وجہ سے ان کی بیماریوں سے مدافعت کی قوت اور جلد کی صحت و نمک اچھے ہوتے ہیں۔ ان کی جلد سردی کے اثرات اور infectionسے محفوظ رہتی ہے۔ گوشت ہی جست کی کامیابی کا سب سے آسان اور ارزاں ذریعہ ہے۔فولاد بھی صحت کے لیے ضروری عنصر ہے۔ حائضہ عورتوں کو اس کی ضرورت زیادہ ہوا کرتی ہے۔ بوڑھی عورتوں اور حاملہ عورتوں کو بھی یہ ضروری ہے، بچوں کو بھی ضروری ہے۔گوشت میں فولاد کی کثیر مقدار ہوتی ہے اور جسم کو سب سے زیادہ آسانی کے ساتھ گوشت سے ہی فولاد حاصل ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں گوشت میں بی کمپلیکس وٹامن، فاسفورس، پوٹاشیم، میگ نیشیم، سیلینیم، گوشت اور اعضاء کی صحت کے لیے ضروری پروٹین ہیں۔ گوشت سے حاصل ہونے والا پروٹین ہمارے جسم کے عین مطابق اور مکمل ہوتا ہے۔ Complete ہوتا ہے۔ یعنی اس میں وہ تمام ’’امائنوایسیڈ‘‘ Amino Acids ہوتے ہیں جو بصورتِ دیگر جسم کو تیار کرنے پڑتے۔پروٹین جسم کی ٹوٹ پھوٹ کو سدھارنے کے لیے لازمی ہیں۔
مذکورہ بالا کے علاوہ بھی مزید سائٹس ہیں جس پر بین السطور میں یہ تو درج پایا جاتا ہے کہ گوشت بالفاظِ دیگر سرخ گوشت کا استعمال کرنے والوں کو فلاں کینسر ہوجاتا ہے لیکن حتمی الزا م سے گریز کیا جاتا ہے اور ڈیٹا بھی فراہم نہیں یا جاتا اور نہ حوالوں کے ساتھ کوئی ایسی بات پیش کی جاتی ہے۔ البتہ قیاسات اور بے بنیاد دعویٰ داری ضرور جاری ہے۔ ہمیں آج تک اندازہ نہیں ہو سکا کہ گوشت خوری کے مخالفین خود نہ چاہیں تو کوئی ان کو زبردستی تو گوشت کھلانے بھی نہیں آتا لیکن وہ دوسروں کو سبزیوں کے لیے راغب کرنے کے لیے جانے کیسے کیسے ناٹک کھیلتے ہیں۔ کینسر نسبتاً کم واقع ہونے والا مرض ہے۔اس لحاظ سے گوشت خوری ہی نہیں بلکہ کھانے پینے میں عدم مساوات اور بسیارخوری ہی کینسر کے ساتھ دوسرے عوارض کو بھی راہ دیتا ہے.

Sunday, October 23, 2011

We will miss you dear Qaddafi
Dr. Rehan Ansari
پورے آٹھ ماہ کی داخلی جنگ کے بعد جمعرات (۲۰اکتوبر کو)قذافی مار دیئے گئے۔ مگر کیا لیبیا کو فتح کر لیا گیا؟ اب لیبیا آزادی کی جانب رواں ہوگا یا مغرب کا یرغمال و غلام بنا رہے گا؟ ابھی کیا خانہ جنگی کا دوردورہ ہوگا؟ کون اپنی روٹی پر کتنی دال کھینچے گا؟ یہ اور ایسے ہی کئی متعدد ہیجان انگیز سوالات تجزیہ کاروں کے ذہنوں میں اُٹھ رہے ہیں۔ ایسا اس لیے ہورہا ہے کہ اس سوال کا اطمینان بخش جواب نہیں مل رہا ہے کہ یورپی ممالک نے اٹلی اور امریکہ کے ساتھ مل کر کس بنیاد پر لیبیا میں دخل اندازی (حملہ پڑھیے) کیا تھا؟
بین الاقوامی میڈیا کے ذریعہ قذافی کو ایک جابر اور آمر حاکم بتلایا جاتا رہا ہے۔ لیکن قذافی نے اپنی رعیت پر کبھی کسی نوعیت کا جبر کیا ہو اس کا کوئی ثبوت  ملتا ہے نہ دیا جاتا ہے!۔ باغیوں (غداری کی جدید نقاب کا نام) کا ساتھ دینے اور انھیں قذافی کی فوج سے محفوظ رکھنے کے لیے ناٹو NATO نے یہ حملے کیے ؛ ہاں کسی قدر یہ بات درست ہو سکتی ہے لیکن اس کا ثبوت نہیں ہے کہ باغیوں نے اتحادی فوجوں کو پکارا ہو یا بلایا ہو۔ ان باغیوں نے تو ابھی تک یہ بھی نہیں بتلایا ہے کہ وہ بغاوت پر کن وجوہ سے آمادہ ہوئے ہیں اور قذافی سے ان کے کیا مطالبات تھے۔ تسلیم کرنا یا نہ ماننا تو بعد کی بات تھی۔ تیسری اور بیّن وجہ یہ دکھائی دیتی ہے کہ لیبیا کا تیل جسے صارف دنیا میں سب سے بہتر کوالیٹی کا تسلیم کیا جاتا ہے، اس کے ذخائر پر امریکہ اور یورپ کی لالچی نگاہیں ہیں اور وہاں قذافی کی جگہ اپنے کسی پٹھو کو کرسئ اقتدار سونپنا چاہتے ہیں۔


Qaddafi with his GREEN BOOK
 قذافی گذشتہ بیالیس برسوں سے پے بہ پے مختلف عہدوں پر متمکن رہے اور اپنے سیاسی و ملکی نظریات کو ’گرین بُک‘ (الکتاب الاخضر) نامی کتاب میں لکھ کر پیش کر دیا تھا۔ اس میں تین خصوصی ابواب تھے جو جمہوریت کے مسائل، معاشی مسائل اور سماجی مسائل سے متعلق تھے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ کتاب قذافی کا کھلا فرمان یا دستورِ حکومت تھا جسے ہر لیبیائی کو تسلیم کرنا تھا۔ اس کتاب کو لے کر دانشوارانہ سطح پر کافی لے دے ہوتی رہی ہے۔ ایک بات جو مقطع کی ہے وہ یہ کہ قذافی نے اپنے ملک اور عوام کو کوئی ڈُپلکیٹ دستور نہیں دیا تھا بلکہ (لنگڑا لولا کہیں یا اسے آمرانہ کہیں) اپنا ایک نظریۂ حکومت دیا تھا جس میں ’جمہوریت‘ جیسا آمروں کے نزدیک ناپسندیدہ لفظ ہی نہیں بلکہ پورا ایک باب شامل تھا!
قذافی کے پورے دورِ اقتدار میں لیبیا میں اندرونی طور پر کبھی شورش نہیں رہی۔ شاید یہی بات دنیا کے چودھریوں کو کھٹکتی رہی۔ اسی لیے اس پر مختلف طریقوں سے پابندیاں اور عتاب نازل کیے جاتے رہے۔ الزامات لگائے جاتے رہے۔ مگر لیبیا کی آبادی نے اپنے اس قائد کے خلاف کبھی بے اطمینانی نہیں ظاہر کی۔پورے ملک کی آبادی میں نہ کہیں چوری چکاری سننے کو ملتی تھی نہ میلوں میل تک کوئی بھکاری کہیں پر نظر آتا ہے۔ ان کے دورِ اقتدار میں غربت  کا پتہ نہیں تھا۔ عوام کو ایک آسودہ زندگی میسر رہی۔ صحتِ عامہ کی نگرانی کا خاطر خواہ نظم رہا۔تعلیم عام اور لازمی ہے۔ملک میں داخلی آزادی رہی ہے جسے قذافی کی زبان میں ’’الجماہیریہ‘‘ کہا جاتا تھا۔ وہ کسی بھی کاروباری کمپنی میں تنخواہ دار ملازم نہیں رہتے تھے بلکہ بحیثیت پارٹنر انھیں منافع دیا جاتا تھا۔ اسلام پسندی میں بھی انتہائیت کی جگہ باہم مسلکی و فرقہ وارانہ رواداری پائی جاتی تھی، ایک ہی مصلے پر سبھی کی نماز ہو جاتی تھی۔ قذافی کی کوئی آمرنما سفاکیت بھی کبھی دیکھنے یا سننے کو نہیں ملی۔ حتیٰ کہ دنیا کے دیگر ملکوں کے مسلمانوں میں بھی قذافی کسی دوسرے عرب رہنما کے مقابلے میں زیادہ پہچانے اور پسند کیے جاتے رہے ہیں۔ ان کی مہمان نوازی اور اعلیٰ ظرفی کا ہمیشہ اعتراف پڑھنے اور دیکھنے کو ملا۔
 اس قائد کو دنیا بھر میں میڈیا پر قابض لابی نے ہمیشہ مضحکہ خیز کردار بنا کر پیش کیا۔ اس کے ہتک آمیز کارٹون شائع کیے جاتے رہے۔ اس کے بیانات کو توڑمروڑ کر اس طرح پیش کیا جاتا رہا کہ وہ کسی ملک کا سربراہ نہیں بلکہ سیاسی طور سے ایک غیربالیدہ انسان تھا۔ وہ دنیا میں دہشت پروری کا گنہگار تھا۔ جبکہ یورپ اور امریکہ سمیت دیگر مغربی ممالک سے (تیل کی تجارت سے متعلق اور اس کے عوض بھی) اپنے مطالبات کو منوا لینے کی صلاحیت جتنی قذافی میں رہی ہے وہ دیگر عرب ملکوں کے سربراہوں میں نہیں دکھائی دی۔ شاید یہی وجہ تھی کہ وہ سب کی آنکھوں میں تنکے کی مانند کھٹکتے رہے۔ خود عرب ملکوں کے سربراہوں نے انھیں جب جب وقت ملا عربی نہیں بلکہ افریقی ہی سمجھا۔اس کے باوجود لیبیا اور برّاعظم افریقہ میں کثیرآبادی ان کی قیادت پر اعتماد کرتی رہی۔ انسانی تاریخ گواہ ہے کہ بیالیس برس جیسے طویل عرصہ کے لیے کسی سفاکیت اور بربریت کے سہارے اقتدار پر آج تک دنیا میں کوئی تنہا آمر قائم نہیں رہ سکا ہے۔
آخر لیبیا میں یہ سب ہوا کیسے۔ قارئین کو شاید یاد نہ ہو اس لیے ذکر کر دیں کہ ماہ فروری کے آخری ہفتے سے یہ شورش برپا ہوئی جب شہر بن غازی سے مصطفی عبدالجلیل نامی قذافی کے سابق معتمد نے یہ الزام لگایا کہ حکومت اپنے قیدیوں کے ساتھ انتہائی وحشیانہ سلوک کرتی ہے۔ یہ اندر کی بات تھی۔ جس پر احتجاج ہوا لیکن احتجاجیوں نے صاف کہا تھا کہ وہ بن غازی کی مقامی کارپوریشن کے خلاف ہیں، قذافی کے نہیں۔ البتہ شورش بڑھائی جاتی رہی۔ یہاں تک کہ قذافی کے حامیوں اور باغیوں میں جھڑپیں شروع ہوگئیں۔ اور یہ بنیادی وجہ فراموش کر دی گئی۔ دیکھا جائے تو یہ معاملہ کس قدر طول پکڑتا... بیچ بچاؤ کی صورت پیش آتی اور معاملہ سلجھ سکتا تھا۔ لیکن سیف الاسلام کے جوش نے ہوش کھودیا اور احتجاجیوں پر انتقامی کارروائی کروا دی۔ بس پھر کیا تھا، یورپ اور امریکہ کو موقع ہاتھ آگیا اور انھوں نے اپنے پٹھووں کو اسلحہ تک فراہم کر دیا جس کی وجہ سے مسلح جھڑپیں شروع ہوگئیں۔ قذافی حکومت کے لیے باغیوں کے پاس اسلحوں کی موجودگی ایک چیلنج کی صورت بن گئی۔ بات پھر مسلسل بگڑتی چلی گئی اور یہاں تک پہنچی۔ یورپی طاقتوں نے امریکہ کے اشارے پر فرانس کی قیادت میں الائیڈ فورس بنا لی اور حملہ کر دیا۔ لیبیا کے آسمان کو نوفلائی زون قرار دے کر خود اپنے ڈرون طیاروں کو ہر سمت اڑانے لگے اور قذافی کے فوجی ٹھکانوں کو تباہ کرنے لگے۔




 یہ حملہ صرف اسلحوں اور ہوائی جہازوں سے نہیں کیا گیا بلکہ میڈیا کے ذریعہ پوری دنیا میں قذافی اور اس کے بیٹوں کو عیاش، بدقماش، فضول خرچ، سنکی اور جانے کیا کیا الزامات کے ساتھ پیش کیا گیا۔ ہم بھی آپ کی مانند (ادھوری یا پوری) حقیقت نہیں جانتے لیکن یورپی اور امریکی میڈیا کی مبیّنہ عادتوں کے سبب ہم ان ساری باتوں پر یقین نہیں رکھتے۔ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ ایک مسلمان اتنا غیور تو ضرور ہوتا ہے کہ جانتے بوجھتے کسی فاسق اور زانی کی اقتدا میں نماز ادا نہیں کرے گا۔ مگر ہم نے دیکھا ہے کہ کسی بھی عوامی جلسہ میں وقتِ نماز ہوجائے تو خود قذافی مصلے پر امامت کے لیے اترتے تھے اور تمام حاضرین ان کی اقتدا میں نماز ادا کرتے تھے۔ تو کیا دنیا کو ان کے برے کردار کا علم تھا مگر خود لیبیائی عوام اس سے بے خبر تھے؟


قذافی سے اصل میں غلطیاں کہاں ہوئیں یہ دیکھنے کی ضرورت ہے۔ قذافی نے اپنے خلاف کی جانے والی سازش کو محسوس نہیں کیا۔ اسی لیے کسی حفظِ ماتقدم کی جانب ان کی توجہ نہیں گئی۔وہ یقینی طور سے اپنے آخری ایام میں اقتدار کے نشے میں مست و بے خود اور حد سے زیادہ خوداعتماد ہو گئے تھے اور اس کا سبب ان کے جوان بیٹوں میں اقتدار کی آسان منتقلی کے یقین کے سوا اور کچھ نہیں ہوسکتا۔اسی سبب انھوں نے ملوکیت اور جمہوریت کو خلط ملط کردیا۔ انھیں جدید دور میں لیبیا کے مختلف قبائل کی جوان ہوتی ہوئی نسلوں سے وہ رغبت نہیں نظر آئی جو اپنی جوانی کے دنوں میں پورے لیبیائی عوام سے تھی۔ کسی بھی حاکم کے لیے لازمی ہے کہ اس کا عرصۂ حکومت جتنا بڑھتا ہے وہ عوام سے اپنی قربت بھی اتنی بڑھائے۔ اس کی بجائے قذافی نے فاصلے پیدا کیے۔ لیبیا کی نوجوان نسل میں سگریٹ نوشی ایک اسٹیٹس سمبل کی مانند موجود ہے۔ انھیں وقت ضائع کرنے کے علاوہ دوسرے تعلیمی، ثقافتی و معاشرتی اشغال نہیں دیئے گئے۔ اعلیٰ تعلیمی انتظامات اندرونِ ملک کرنے کی بجائے اپنے نوجوانوں کو حکومتی اخراجات پر مغربی ممالک میں بھیجنا انھیں آسان لگا جس کی وجہ سے وطن سے ان کی محبت میں سیاست بھی داخل ہوگئی اور اس پر بیرونی نظریات کے اثرات زیادہ ملتے ہیں۔ ان جیسے اسباب نے زمامِ اقتدار پر قذافی کی پکڑ ایسی ڈھیلی کر دی کہ مغربی ممالک کو موقع ملتے ہی ان پر بھوکے جانوروں کی مانند ٹوٹ پڑے اور آخر قذافی کو ایک عبرت انگیز انجام سے دوچار ہونا پڑا۔ اے قذافی ترے انجام پہ رونا آیا۔