A Blog for the lovers of Science & Literature, Education, Politics and Journalism, Health & Medicine, Society & Culture and Fine Arts: by Dr. Rehan Ansari... To view this page with Faiz Nastaliq Font... Download Faiz Nastaliq Unicode Font from http://www.faiznastaliq.com/faiznastaliq.zip unzip & install it to your windows/font directory
To View This Blog in Nastaliq Script Download Faiz Nastaliq Unicode Font
Download Faiz Nastaliq Unicode Font from
http://www.faiznastaliq.com/faiznastaliq.zip
unzip & install it to your windows/font directory
Friday, September 16, 2011
Sunday, September 11, 2011
Who will get lesson from these attacks? Doctors or Public Dr. Rehan Ansari |
Doctors on Strike (File Photo |
Junior Doctors on Strike (File Photo |
Unrest Crowd in front of Hospital Gate |
This becomes a common scene during medical staff strike |
CPA کے اطلاق کے بعد سے ہی مریض کو داخل کرنے کے وقت اسپتالوں اور دواخانوں میں لکھت پڑھت بڑھ گئی ہے۔ داخلے کے طریقوں میں سخت شرائط شامل ہو گئی ہیں۔ قوانین کی پاسداری کو ہر عمل پر فوقیت حاصل ہو گئی ہے۔ اب میڈیکل اور پیرا میڈیکل عملہ کسی بھی شکل میں کوئی Risk نہیں لینا چاہتا۔
یہی اور ایسے دوسرے عوامل ہیں (جن میں ہر تجارتی شعبے کی مانند طبی تجارتی اداروں یعنی پیرامیڈیکل کی مختلف آفر اور اسکیمیں بھی شامل ہیں) جن کی وجہ سے پرخلوص طبی خدمات کو بڑا دھکا پہنچا ہے۔ لوگ بھی ’اخلاص‘ کی جگہ ’تکلف‘ کی پذیرائی زیادہ کرتے ہیں۔ خصوصاً شہروں میں۔ دیہات بھی اب کتابوں کے صفحات تک محدود ہوتے جارہے ہیں۔ اسی تکلف اور تصنع کا انجام ہے کہ عوام کا طبی برادری پر اور طبی برادری کا عوام پر سے اعتماد گھٹتا جارہا ہے۔ ان سب حقائق کے باوجود آئیے اس زاویے پر کہ اخراجات و تکلفات ضرور بڑھ گئے ہیں لیکن طبی برادری کے ساتھ اپنے مریضوں کے دکھ اور تکلیف کو آج بھی اتنی ہی سنگینی کے ساتھ محسوس کرتی ہے جتنا سنگین آزار وہ مریض کے لیے ہوتا ہے۔ اس کی تکلیف کو (نئی تکنیکوں کے ساتھ) دور کرنے کے لیے ہر ممکن جتن کرنے لگتی ہے۔ اپنا آرام، چین اور نیند قربان کرتی ہے، محض اس لیے کہ مریض اور اس کے متعلقین کو راحت نصیب ہو۔ اس پورے دور میں مریض کے متعلقین بھی بڑی آس اور امید کے ساتھ تعاون کرتے ہیں۔ اور دعا مانگتے رہتے ہیں۔ لیکن بقول اکبرؔ:
ابھی بیمار ہیں سب کر رہے ہیں قول و عہد اکبرؔ
اُسی کوچے میں پھر پہنچیں گے ہونے دو ذرا اچّھا
اس شعر میں ’اچھا ‘ نہ ہو کر کچھ اونچا یا نیچا ہو جائے یا کچھ ’’غچہ‘‘ ہو جائے تو نوبت وہی توڑ پھوڑ اور زد و کوب کی آجاتی ہے۔ ہماری دانست میں عوام کو ایسے مرحلے پر صبر کا مظاہرہ کرنا لازمی ہے۔ کیونکہ وہ انجام پر مبنی شاعر کی اس بات کو شاید محسوس کر سکتے ہیں کہ:
ملک الموت کو ضد ہے کہ وہ جاں لے کے ٹلے
سر بہ سجدہ ہے مسیحا کہ مری بات رہے!
کوئی بھی ڈاکٹر یہ نہیں چاہتا کہ اس کے مریض کو کسی بھی طرح کا نقصان پہنچے، لیکن مقدر تو غیر مبدّل ہے۔ اگر اپنے سماج میں تناسب کا خیال کریں تو ڈاکٹر اور اسپتال ابھی کم تعداد میں ہیں۔ اور عوام کو خیال رکھنا ہی چاہیے کہ یہ آپ کی لازمی اور ایمرجنسی ضروریات ہیں... اور یہ نہر اُلٹی نہیں بہتی.
Subscribe to:
Posts (Atom)