Is It Mandatory To Be Part Of Deep-Prajwalan Ceremony Dr. Rehan Ansari |
مختلف سماجی و ثقافتی تقریبات میں دعوت پر شمولیت کرنا ایک ذمہ داری اور بصورتِ دیگر ایک مشغلے کی مانند تصور کرتا ہوں ۔ ایسے پروگرام جو برادرانِ وطن کی جانب سے منعقد کیے جاتے ہیں ان کے افتتاحی لمحات میں ’’دیپ جلانے کی رسم‘‘ ادا کی جاتی ہے۔ اس میں یہ بات بھی دیکھنے میں آتی ہے کہ ہمارے یعنی مسلم سماج کی نمایاں اور غیر نمایاں شخصیات کو جب کبھی مہمان بنایا جاتا ہے تو اس ’’دیپ پرجولن‘‘ Deep Prajwalan میں بھی شریک کیا جاتا ہے، اور وہ بخوشی اس میں حصہ لیتے ہیں!
ان مسلمانوں میں بہت سے ادیب و شاعر، اسکرپٹ رائٹر، مکالمہ نویس، نغمہ نگار، فنکار و قلمکار، ڈاکٹر اور انجینئر، مقتدر و غیرمقتدر سیاستداں، اور ہر طرح کے لوگ ملتے ہیں۔
سوال یہاں یہ اٹھتا ہے کہ کیا ایسی تقریبات میں ’’دیپ پرجولن‘‘ کی رسم ادا کرنا یا اس میں شرکت کوئی ضروری امر ہے؟ اگر آپ مذہبِ اسلام کے پیرو ہیں تو آپ کا اندرون بلا تردّد احتجاج کرتے ہوئے کہے گا کہ یہ اسلامی تعلیمات کے برعکس ہے۔ اس کے لیے نہ کسی عالمِ دین کی ضرورت ہے نہ کسی فتوے کی۔ ہم سبھی جانتے ہیں کہ یہ ایک مبینہ مشرکانہ رسم ہے اور اس کے دیپ کی بناوٹ میں بھی اس کا خاص التزام رکھا جاتا ہے کہ اس میں ہندوئیت جھلکے۔
آگے بڑھنے سے قبل یہ لکھنا لازمی ہے کہ دیپ جلانے کا مقصد کیا ہے؟ ہندوؤں میں صبح اور شام کو اپنے معبود کے سامنے دیا (دیپ، دیپم یا دیپک) جلانے کو عبادت کی ابتدا مانا جاتا ہے۔ دیپک کی روشنی کو علم کی روشنی کی علامت مانا جاتا ہے اس کے علاوہ کچھ کے نزدیک اس سے ’’وِشنو دیوتا‘‘ کا علامتی وجود بھی متصور ہے۔ اس کے ساتھ ہی دیپ سے کچھ فلسفے بھی جڑے ہیں۔ دیا مٹی کا ہونا چاہیے، اس کا شعلہ علم کی روشنی کی علامت ہے جو اندرون کا اندھیرا دور کرتا ہے، اس کی باتی (فیتہ) جسم کی مانند ہے اور گھی یا تیل اس کی غذا ہے وغیرہ۔ پھر اس فلسفے کی اپنی تفصیلات ہیں جو طرح طرح کی عقیدتوں اور دلچسپ، مرغوب و خوش کن وضاحتوں سے بھری ہوئی ہیں۔
اس کے علاوہ یہ بات بھی ذہن نشین کر لیں کہ اسلام کے علاوہ دنیا کے بیشتر مذاہب میں چراغ یا دیا جلانا اس کے علاوہ موم بتی کی ایجاد کے بعد اسے اپنے معبودوں کے سامنے جلانے کا طریقہ اختیار کیا جاتا ہے۔ ان کے بھی اپنے اپنے فلسفے ہیں۔ ان کے دیپک کی شبیہ ان کی عقیدتوں کے مطابق ہوتی ہے۔
Christians have Cross-Replica atop their lamp |
خیر، ہم بات کر رہے تھے کہ کیا ایسی ’دیپ پرجولن‘ کی تقریب میں ہمارا حصہ لینا ضروری ہے؟ کچھ لوگ سوچتے ہیں کہ یہ موقع یعنی ڈائس پر موجود رہنے کی مجبوری ہے!... ممکن ہے ایسا ہوتا ہو... مگر اس سلسلے میں منتظمین کو پیشگی بتلایا جاسکتا ہے کہ جب دیپ پرجولن کا انعقاد ہو تو مسلمان مہمان کو اس سے مستثنیٰ رکھا جائے کہ یہ اس کے دینی عقائد کے خلاف ہے، اگر یہ ممکن نہ ہو تو کچھ ایسا حیلہ اختیار کیا جائے کہ چند ساعتوں کے لیے وہاں سے ہٹ جایا جائے۔ ہم انھیں منع تو نہیں کرپائیں گے اور نہ وہ اس موقع پر مانیں گے، اس لیے انھیں کہہ سکتے ہیں کہ آپ لوگوں کو جو کچھ کرنا ہے وہ سب کرگذریں اس کے بعد ہی ہمیں اسٹیج یا موقعۂ تقریب پر بلایا جائے۔
رواداری ہرگز اس کا نام نہیں ہے کہ ان کے شرکیہ کاموں میں خود کو شریک و شامل رکھیں، بلکہ رواداری اس کا نام ہے کہ وہ جوکچھ کرتے ہیں انھیں کرنے دیا جائے اور اس میں رخنہ نہ ڈالیں اس کے علاوہ وہ بھی ہمیں ہماری اسلامی شناخت و شعائر کے ساتھ تسلیم کریں۔ اس طرح رواداری ہی نہیں قومی یکجہتی بھی پیدا ہوگی۔ ماضی میں یہی ہمارے (ہندو اور مسلمان) بزرگوں نے بھی کیا ہے۔