To View This Blog in Nastaliq Script Download Faiz Nastaliq Unicode Font

Download Faiz Nastaliq Unicode Font from http://www.faiznastaliq.com/faiznastaliq.zip unzip & install it to your windows/font directory

Saturday, December 3, 2011

Is It Mandatory To Be Part Of
Deep-Prajwalan Ceremony

Dr. Rehan Ansari
بڑی احتیاط کے ساتھ اس عنوان پر قلم اٹھانا چاہا ہے۔ یہ وضاحت کردوں کہ میرا قلم سچ لکھنے سے نہیں ڈرتا۔ احتیاط اس احساس سے عبارت ہے کہ ہمارے کچھ برادرانِ ملت، جن کا شیوہ ’’رواداری‘‘ کے نام پر (مشرکین و ملحدین کے) رسوم و رواج میں شامل ہونے کا رہتا ہے، کا مزاج بگڑ جانے اور مجھے طرح طرح سے کوسنے کا ہے، مجھے منفی یعنی نگیٹیو سمجھنے کا ہے۔ خیر ان سب باتوں کا مجھے کوئی اصلی خوف بھی نہیں ہے۔ میرا مقصد صرف آگاہ و اصلاح کرنے کا ہے۔ آمدم برسرِ مطلب۔
مختلف سماجی و ثقافتی تقریبات میں دعوت پر شمولیت کرنا ایک ذمہ داری اور بصورتِ دیگر ایک مشغلے کی مانند تصور کرتا ہوں ۔ ایسے پروگرام جو برادرانِ وطن کی جانب سے منعقد کیے جاتے ہیں ان کے افتتاحی لمحات میں ’’دیپ جلانے کی رسم‘‘ ادا کی جاتی ہے۔ اس میں یہ بات بھی دیکھنے میں آتی ہے کہ ہمارے یعنی مسلم سماج کی نمایاں اور غیر نمایاں شخصیات کو جب کبھی مہمان بنایا جاتا ہے تو اس ’’دیپ پرجولن‘‘ Deep Prajwalan میں بھی شریک کیا جاتا ہے، اور وہ بخوشی اس میں حصہ لیتے ہیں!
ان مسلمانوں میں بہت سے ادیب و شاعر، اسکرپٹ رائٹر، مکالمہ نویس، نغمہ نگار، فنکار و قلمکار، ڈاکٹر اور انجینئر، مقتدر و غیرمقتدر سیاستداں، اور ہر طرح کے لوگ ملتے ہیں۔
سوال یہاں یہ اٹھتا ہے کہ کیا ایسی تقریبات میں ’’دیپ پرجولن‘‘ کی رسم ادا کرنا یا اس میں شرکت کوئی ضروری امر ہے؟ اگر آپ مذہبِ اسلام کے پیرو ہیں تو آپ کا اندرون بلا تردّد احتجاج کرتے ہوئے کہے گا کہ یہ اسلامی تعلیمات کے برعکس ہے۔ اس کے لیے نہ کسی عالمِ دین کی ضرورت ہے نہ کسی فتوے کی۔ ہم سبھی جانتے ہیں کہ یہ ایک مبینہ مشرکانہ رسم ہے اور اس کے دیپ کی بناوٹ میں بھی اس کا خاص التزام رکھا جاتا ہے کہ اس میں ہندوئیت جھلکے۔
آگے بڑھنے سے قبل یہ لکھنا لازمی ہے کہ دیپ جلانے کا مقصد کیا ہے؟ ہندوؤں میں صبح اور شام کو اپنے معبود کے سامنے دیا (دیپ، دیپم یا دیپک) جلانے کو عبادت کی ابتدا مانا جاتا ہے۔ دیپک کی روشنی کو علم کی روشنی کی علامت مانا جاتا ہے اس کے علاوہ کچھ کے نزدیک اس سے ’’وِشنو دیوتا‘‘ کا علامتی وجود بھی متصور ہے۔ اس کے ساتھ ہی دیپ سے کچھ فلسفے بھی جڑے ہیں۔ دیا مٹی کا ہونا چاہیے، اس کا شعلہ علم کی روشنی کی علامت ہے جو اندرون کا اندھیرا دور کرتا ہے، اس کی باتی (فیتہ) جسم کی مانند ہے اور گھی یا تیل اس کی غذا ہے وغیرہ۔ پھر اس فلسفے کی اپنی تفصیلات ہیں جو طرح طرح کی عقیدتوں اور دلچسپ، مرغوب و خوش کن وضاحتوں سے بھری ہوئی ہیں۔
اس کے علاوہ یہ بات بھی ذہن نشین کر لیں کہ اسلام کے علاوہ دنیا کے بیشتر مذاہب میں چراغ یا دیا جلانا اس کے علاوہ موم بتی کی ایجاد کے بعد اسے اپنے معبودوں کے سامنے جلانے کا طریقہ اختیار کیا جاتا ہے۔ ان کے بھی اپنے اپنے فلسفے ہیں۔ ان کے دیپک کی شبیہ ان کی عقیدتوں کے مطابق ہوتی ہے۔


Christians have Cross-Replica atop their lamp
ہمارے ہندوستان میں (پاکستان/ بنگلہ دیش/ سری لنکا سمیت)  صدیوں سے ملے جلے تہذیبی اثرات ہم پر بھی پڑے ہیں، ہم بھی چراغ جلانے اور چراغاں نیز شمع فروزی کرنے میں خود کو الگ الگ بہانوں کے ساتھ مبتلا کر لیتے ہیں اور کبھی کوئی اشارہ کرتا ہے تو اندر سے سبکی محسوس ہوتی ہے، پھر اس پر نادم ہونے کی بجائے اپنی اس سبکی کو چھپانے کے لیے طرح طرح کی تاویلات پیش کرنے لگتے ہیں۔ خود کو صحیح سمجھنے اور سمجھانے لگتے ہیں۔ ہماری باتوں کو تسلیم نہ کرنے والے سے اکثر جھڑپ بھی کر لیتے ہیں۔
خیر، ہم بات کر رہے تھے کہ کیا ایسی ’دیپ پرجولن‘ کی تقریب میں ہمارا حصہ لینا ضروری ہے؟ کچھ لوگ سوچتے ہیں کہ یہ موقع یعنی ڈائس پر موجود رہنے کی مجبوری ہے!... ممکن ہے ایسا ہوتا ہو... مگر اس سلسلے میں منتظمین کو پیشگی بتلایا جاسکتا ہے کہ جب دیپ پرجولن کا انعقاد ہو تو مسلمان مہمان کو اس سے مستثنیٰ رکھا جائے کہ یہ اس کے دینی عقائد کے خلاف ہے، اگر یہ ممکن نہ ہو تو کچھ ایسا حیلہ اختیار کیا جائے کہ چند ساعتوں کے لیے وہاں سے ہٹ جایا جائے۔ ہم انھیں منع تو نہیں کرپائیں گے اور نہ وہ اس موقع پر مانیں گے، اس لیے انھیں کہہ سکتے ہیں کہ آپ لوگوں کو جو کچھ کرنا ہے وہ سب کرگذریں اس کے بعد ہی ہمیں اسٹیج یا موقعۂ تقریب پر بلایا جائے۔
رواداری ہرگز اس کا نام نہیں ہے کہ ان کے شرکیہ کاموں میں خود کو شریک و شامل رکھیں، بلکہ رواداری اس کا نام ہے کہ وہ جوکچھ کرتے ہیں انھیں کرنے دیا جائے اور اس میں رخنہ نہ ڈالیں اس کے علاوہ وہ بھی ہمیں ہماری اسلامی شناخت و شعائر کے ساتھ تسلیم کریں۔ اس طرح رواداری ہی نہیں قومی یکجہتی بھی پیدا ہوگی۔ ماضی میں یہی ہمارے (ہندو اور مسلمان) بزرگوں نے بھی کیا ہے
۔

1 comment:

Hamid Iqbal Siddiqui said...

Ek naya mouzu hai, mubarakbad. maazi me jab bhi mushairey hote thye, shama-daan unka zuroori hissa hota tha, jab kisi shair ki kalam sunanye ki baari aati, us ke aagye shama-daan rakh diya jaata tha, ghaliban ye rasm bijli ki adm-dastiyabi ke sabab thi, aaj bhi dramye main jis fankaar ko numaayan karna hota hai, us par spot light di jati hai. lekin maazi ke us sham-daan ka deep prajwalan ki hinduaana rasm se koi taaluq nahi tha.