To View This Blog in Nastaliq Script Download Faiz Nastaliq Unicode Font

Download Faiz Nastaliq Unicode Font from http://www.faiznastaliq.com/faiznastaliq.zip unzip & install it to your windows/font directory

Saturday, April 16, 2011

Ban On Burqa Is Ban On Modesty
برقع یا برقعہ، اس کی ہجے دونوں طرح سے کرتے ہیں۔عورتوں کی عالمگیر اسلامی شناخت کے لیے انھیں بابرقع دکھایا جاتا ہے۔ یہ مسلمانوں کے علاوہ اکثر کو بیشتر کھٹکتا ہے۔خود مسلمانوں میں بھی ایسے لوگوں کی تعداد کم نہیں ہے جو برقع کو غیرلازمی ہی نہیں بلکہ غیر ضروری سمجھتے ہیں۔فرانس میں ایک سرکوزی (Sarkozy) ہے اور ہمارے بیچ کئی سرکوزی ہیں، ان کی سرکوبی بھی توجہ چاہتی ہے۔
ہم اپنا مضمون لکھنے سے قبل سوچتے رہے کہ کسی جذباتی مسلمان کے انداز میں لکھیں اور برقع Burqa کے مخالفین کو اسلام کا مخالف اور شریعت کا مخالف بتائیں، ان کی خوب خوب مذمت کریں جو ہمارا آج کل کا شیوہ ہے، لیکن دیکھا کہ اس طرح زد میں ہمارے ہی بہت سے مسلمان بھائی اور بہنیں آتی ہیں؛ پھر سوچا کہ ایک موڈریٹ یعنی اعتدال پسند کے انداز میں لکھیں کہ بھائی جنھیں برقع اچھا لگتا ہے انھیں پہننے دو اور جنھیں پسند نہیں ہے ان پر اپنی پسند مت تھوپو ۔ بہتر خیال تھا۔ لیکن اس کی وجہ سے ہمیں اندیشہ ہوا کہ ہم ایک اسلامی حکم کی اہمیت کو کم کرنے کا گناہ کریں گے؛ پھر سوچا اس موضوع کو چھوا ہی نہ جائے۔بہت سے دوسرے معاملات ہیں لکھنے پڑھنے کے۔ مگر ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمیں اپنا ضمیر کچوکے لگانے لگا! تو صاحب ہم نے بھی ارادہ کرکے کہا کہ چل میرے خامہ بسم اﷲ، چند سطریں ملّی ذمہ داری ادا کرنے کے لیے لکھ ہی جائیں۔
Law Breaker or Criminal? How's
your police behaving with a WOMAN
 Mr. Nicholas Sarkozy? Don't you have
the lady cops to equalise the gender difference
برقع پوشی خواتین کی پردہ داری کی ایک قسم ہے۔ دنیا بھر میں خواتین ہر زمانہ میں اور ہر سماج میں، کسی نہ کسی انداز میں اور کسی نہ کسی درجہ میں، مردوں سے پردہ داری ضرور کرتی آئی ہیں۔ مگر ہر دَور میں کسی پردہ داری کو طنزوتشنیع سہنا پڑی ہے تو وہ برقع کو۔تازہ ترین واردات فرانس میں ’عوامی مقامات‘ پر برقع پوشی پر پابندی کا نفاذ ہے (گویا کہیں اور بھی برقع پہنا جاتا ہے!!)۔ دیکھا جائے تو برقع اصطلاحی و معنوی دونوں لحاظ سے ازخود ایک پابندی ہے۔ اس لیے فرانس کی معلنہ پابندی کو ’’ایک پابندی پر پابندی‘‘ کہنا چاہیے یا پھر ’’پردہ سے آزادی کے لیے ایک پابندی‘‘... اور حیلہ کیا ہے؟... حیلہ یہ ہے کہ فرانس کے حالیہ صدر نکولاس سرکوزی Nicholas Sarkozy کی دانست میں برقع پوش خواتین کسی ظلم کا شکار نظر آتی ہیں اور دنیا والے اس نظر سے دیکھتے ہیں گویا فرانس میں عورتوں کو مردوں کے یکساں شہری حقوق حاصل نہیں ہیں۔ سر دُھننے کے قابل ہے یا نہیں یہ منطق؟... کیا پوری دنیا کو صرف فرانس میں ہی برقع پوش خواتین نظر آتی ہیں، اور نکولاس سرکوزی کو ایسا طعنہ دیا بھی کس نے اور کب (ہمیں نہیں معلوم)، جبکہ خود فرانسیسی سروے کے مطابق پورے فرانس میں محض تقریباً بیس ہزار خواتین ہی برقع اختیار کیے ہوئے ہیں۔ یہ بھی واضح رہے کہ یورپی ممالک میں صرف فرانس ہی ایک ایسا ملک ہے جہاں مسلمان سب سے زیادہ تعداد میں ہیں۔ ہم مزید تجزیہ میں نہیں جاتے ہوئے اور عالمی سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق مغرب کو لگے ہوئے مشہور زمانہ مرض ’’اسلاموفوبیا‘‘ Islamophobia کی ایک علامت کے طور پر فرانس میں برقع پر پابندی کے تعلق سے اردو کے مشہور شاعر اکبر الٰہ آبادی کا ایک قطعہ پیش کرنا چاہیں گے کہ:
بے پردگی  کی  ہو  نہ یہ  درپردہ  اِک  بِنا
جن کو یہ ڈر ہے اُن کی تو جانوں پہ آ بنی
لیکن   نگاہِ   نبض شناسانِ   وقت    میں
امراضِ قوم   کے   لیے   عمدہ   دوا  بنی
سرکوزی کسی روز ممبئی کے مدنپورہ یا بھنڈی بازار اور آس پاس کے علاقوں میں آگھومیں تو انھیں پتہ چلے گا کہ فرانس کی ’’مظلومات‘‘ سے کئی گنا مظلومات ہر گلی کوچے میں پھر رہی ہیں اور خوش و خرم ہیں۔ فرانس کی بھی جن خواتین کو یکساں حقوق دلانے کی فکر میں سرکوزی کا وزن کچھ متاثر ہوا ہے وہ اس پابندی پر سرکوزی حکومت سے ناراض ہو گئی ہیں اور پوری دنیا اس بات کو اچھی طرح جانتی ہے مسٹر سرکوزی!
Modernity v/s Modesty
It's a matter of choice
برقع تو اصل میں کوئی مخصوص  پوشاک نہیں ہے۔ یہ تعلیم ہے۔ سراپا اخلاق ہے۔ اور اس کے فوائد کچھ وہی خاتون جانتی (احساس کرتی) ہے جو اسے اختیار کرتی ہے،اس کا اہتمام کرتی ہے۔ اسے بخوبی پتہ ہے کہ اسی برقع کی بدولت لوگ اسے پاکیزہ، عفت مآب، عصمت دار اور عزت دار سمجھتے ہیں۔ سرکوزی طبع کے لوگوں کی ہوسناک نگاہیں اس کے برقع کو سرایت نہیں کر پاتیں۔ لیکن اسی معاشرہ میں ان کے ساتھ ایسی خواتین کی تعداد بھی کافی بڑھی ہوئی ہے جو بالوں کو نت نئے انداز سے کٹوا کر ان کی نمائش کرتی پھرتی ہیں۔ یہ معمولی گھریلو عورت سے لے کر کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھانے والی اسلامک اسکالر بھی کہلاتی ہیں۔ان کے حامی مرد دانشورانِ قوم، پروفیسر اور صحافی حضرات بھی کافی تعداد میں موجود ہیں۔
بات نکل آئی ہے تو عرض کردیں کہ ہمارے یہاں ان دونوں یعنی برقع کو اختیار کرنے والیوں اور برقع سے فرار چاہنے والیوں کے درمیان ایک ایسا گروہ بھی ہے جس نے برقع کو اس انداز میں اختیار کیا ہے کہ وہ اوّل الذکر دونوں کے لیے ہی نہیں بلکہ جملہ مسلمانوں کے لیے بھی شرمندگی کا سبب بن گئی ہیں۔ اس بات پر کئی اردو صحافیوں نے تواتر کے ساتھ گاہے گاہے لکھا بھی ہے۔ مگر افسوس کہ ان کے نسخوں کا کسی نے کبھی کوئی نوٹس بھی نہیں لیا۔ تازہ ترین اطلاعات ایسی بھی ہیں کہ ممبئی کے مسلم شناخت رکھنے والے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں جو لڑکیاں پڑھتی ہیں ان میں بعض برقع پوش ہونے کے ساتھ پڑھائی کے علاوہ ہر قسم کی ’’کالجیانہ زندگی‘‘ جی رہی ہیں۔ ان میں سے اکثر (فرینڈز) کئی معاملات میں ایک دوسرے کی معاون بھی ہوتی ہیں اور کسی بھی مذہب کے ماننے والے لڑکوں کے ساتھ کوئی بھی وقتی یا طویل مدتی عہد و پیمان کرنے میں بھی پوری ڈھٹائی کے ساتھ ملوّث ہیں۔ مذکورہ رپورٹ کوئی نئی بھی نہیں رہ گئی ہے اس لیے اس پر چونکنے سے زیادہ اس کے اصل علاج پر بھی ہمیں سنجیدہ ہو جانے کا وقت ہے۔ بقول شبیر احمد راہی:

مجھ سے پوچھو تو سنبھلنے کا یہی اِک وقت ہے
مریم  و شمشاد  نے  پھینکی  نہیں  چادر  ابھی
برقع کی بات پر ہم سب ہمیشہ بیحد جذباتی ہو جاتے ہیں۔ حمایت میں بھی اور مخالفت میں بھی۔ مخالفت برائے مخالفت ہوتی ہے تو کسی کو بھی برا لگتا ہے... خود مخالفت کرنے والے اپنے خلاف کچھ سننے کے لیے کبھی آمادہ ملتے ہیں کیا؟... ہم مخالفین پر دانت پیستے ہیں، ان کی مذمت کرتے ہیں۔ یہ غیرواجبی نہیں ہے۔ فرانس کے سرکوزی کی بھی ہم اپنی پوری قوت سے چلا کر مذمت کرتے ہیں... لیکن جو لاتعداد سرکوزی ہمارے درمیان ہیں ان کا کریں۔ ان کے ساتھ سرپھوڑی کون کرے۔ ان کی بھی اپنی تاویلات ہیں، طرح طرح کے سوالات ہیں، اشکالات ہیں... بہرحال ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ان کی بھی فرانسیسی سرکوزی کی مانند مذمت کریں، احتجاج کریں، کیونکہ:
وہ بدنظر ہے وہ بدخواہ و بدنہاد بھی ہے
جسے  بہن کے  بدن  پر  رِدا  پسند نہیں
٭٭

Friday, April 15, 2011

اسلامی خطاطی اور مینا کاری کے نمونے:
شمیم آرا قریشی کے شہپاروں کی نئی دہلی میں نمائش
Egyptian Ambassador Albaqley, Jordanian Ambassador Sami and
Kuwaiti Amabssador sharari inaugurating the Exibition with sirajuddin Qureshi.
Artist Shamim Ara Qureshi (Center) can also be seen
اسلامی فن خطاطی کو ایک پیرہن عطا کرنے کی ماہر شمیم قریشی کے فن پاروں پر مشتمل ایک سہ روزہ نمائش کا 14 اپریل کو انڈیا اسلامک کلچرل سینٹر (نئی دہلی) میں افتتاح عمل میں آیا۔اس نمائش کا اہتمام نوبل ایجوکیشن فائونڈیشن کے اشتراک سے کیا گیاہے۔اس موقع پرآئی آئی سی سی کے صدرسراج الدین قریشی نے کہا کہ فن خطاطی کوہمیشہ سے ایک نفیس ترین فن شمار کیا جاتا رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ اسلامی فن خطاطی یا قرآنی آیات کو طغرے کی شکل میں لکھنے کا فن تاریخ اسلام کا ایک روشن پہلو رہا ہے۔انہوں نے نمائش کے افتتاح کے بعداپنی تقریر میں کہا کہ آج کی نمائش کی ایک اضافی اہمیت اس لئے بھی ہے کہ اس میں اسلامیان ہند کی ایک بیٹی کا فن جلوہ گر ہے۔فنکارمحترمہ شمیم قریشی کا تعارف کراتے ہوئے انہوں  نے کہا کہ شمیم قریشی نے جب سے ہوش سنبھالا ہے وہ اسی فن کی آبیاری میں مصروف ہیں۔انہوں نے بتایا کہ شمیم قریشی نے کینوس اور ظروف و مرتبان نیز گلدانوں (Canvas and Ceramics) کے اوپر خطاطی اور مینا کاری کے نمونوں پر مبنی سینکڑوں اسلامی شہ پارے تیار کئے اور اس عظیم فن کو کچھ نئی جہتیں بھی دیں۔واضح رہے کہ شمیم قریشی ایران میں بھی اپنے فن کا مظاہرہ کرچکی ہیں‘ان کی پیدائش ممبئی میں ہوئی۔


اس موقع پر مصر کے سفیر خالد الباقلی‘ اردن کے سفیرمحمد شراری الفیض ‘ کویت کے سفیر سامی محمد السلمان اور انڈونیشیا کے ایجوکیشن کونسلر سون کسوادی سمیت فلسطین ‘اومان اور بہت سے سفارتخانوں کے مختلف افسران نے نمائش کا جائزہ لیا۔مصر اور کویت کے سفراء نے فنکار شمیم قریشی کی کاوشوں کی تعریف کی اور دونوں نے وعدہ کیا کہ وہ اپنے اپنے ملکوں میں ان کے شہ پاروں کی نمائش کا اہتمام کرائیں گے اور ان کے فن کو فروغ دینے کے لئے ہر ممکن مدد کریں گے۔ نمائش کے افتتاح کے موقعہ پرایم ودود ساجد‘محمد احمد کاظمی ‘وصی احمد نعمانی‘ ایم اے حق‘ حاجی یوسف قریشی‘ شفیق الحسن‘ شوکت مفتی‘ عتیق الرحمن صدیقی‘ تنویر حاذق‘ ارمان خان ‘عتیق ساجداور بہت سی ممتاز شخصیات نے شرکت کی۔




Tuesday, April 12, 2011

Alzheimer's Disease
الژھائمر کا مرض‘‘ (Alzheimer's Disease) ایک لاعلاج مرض ہے۔ انسانوں کو نامعلوم زمانہ سے متاثر کرنے والے اس عارضہ کا جرمنی کے ماہرِ نفسیات الوئس الژھائمر (Alois Alzheimer) نے پہلی بار اب سے پورے سو برس قبل (۱۹۰۶ء میں) بیان کیا تھا۔ اسی لیے اس کیفیت کو ان کے نام سے منسوب کیا گیا ہے۔ 
Normal & Alzheimer's Brain Structure


تعارف
یہ ایک ایسا مرض ہے جس میں دماغ بتدریج انحطاط کا شکار ہو تا جاتا ہے۔ اس کی ساخت سکڑنے لگتی ہے۔ اس کے خلیات دھیرے دھیرے اپنا کام کاج تج دیتے ہیں اور رفتہ رفتہ خود بھی ختم ہو جاتے ہیں۔ سب سے پہلے یادداشت کے مراکز اس کا شکار بنتے ہیں، اس کے بعد زبان (بولنے) پر قابو رکھنے والے خلیات، پھر وقت، جگہ اور حوائجِ ضروریہ کا ادراک کرنے والے خلیات و مراکز اور چند برسوں میں پورا دماغ اس سے متاثر ہو جاتا ہے۔ یہ عموماً ساٹھ برس سے زیادہ عمر کے افراد کو گھیرتا ہے۔ اس مرض میں گرفتارلوگ عموماً سات سے دس برسوں میں فوت ہو جایا کرتے ہیں۔ جو اس پورے عرصہ تک زندہ رہتے ہیں ان کے ایام قابلِ رحم و افسوس ہوتے ہیں۔ صرف مریض کے لیے ہی نہیں بلکہ اس کے اعزا و اقربا اور ان سب کے لیے بھی جو اس سے محبت اور بہی خواہی کا جذبہ رکھتے ہیں۔ سدا مسکن بنے رہنے والی جگہ اورآس پاس کی چیزوں اور (آشنا) لوگوں سے مریض خوف کھانے لگتا ہے، گھر کے لوگ، احباب، خویش و اقارب سب اندوہ کے ساتھ اپنے عزیز کو ذہنی و جسمانی طور پر اپنے سے دور ہوتے ہوئے دیکھتے رہتے ہیں۔
علامات
اس عارضہ کا وقوع بہت دھیرے دھیرے ہوتا ہے۔ ابتدائی دنوں میں مریض پہلے سے جانی بوجھی بات کو اپنے لیے بالکل نئی معلومات بتلاتا ہے۔ اپنا قلم، کنجیاں اور عینک وغیرہ کہیں (سامنے ہی) رکھ کر بھول جاتا ہے اور یاد نہیں کر پاتا۔  جیسے جیسے عارضہ بڑھتا ہے تو ایک دو دن پہلے کے واقعات و حالات بھی اسے بالکل یاد نہیں رہ پاتے کہ وہ کہیں گیا تھا یا کسی شناسا سے ملا تھا۔ حتیٰ کہ اپنے واقف کار سے مل کر بھی اس کا تعارف حاصل کرنا چاہتا ہے۔  زبان ساتھ نہیں دیتی اور مناسب الفاظ اظہارِ مدعا کے لیے نہیں ملتے۔  بڑھی ہوئی صورتوں میں وہ پہلے سے چلنے پھرنے والے اپنے راستوں کو بھی یاد نہیں رکھ پاتا اور کس سمت سے آیا ہے پھر کس سمت لوٹ کر جانا ہے اسے سمجھ میں نہیں آتا۔ اس طرح گم ہوجانے کا اندیشہ ہوتا ہے۔  مریض اپنے گھروالوں کی شکل سے بھی گھبرانے لگتا ہے اور ان سے ملنے یا ان سے بات چیت کرنے میں بہت خوفزدہ ہوتا ہے۔ مریض اپنے روزانہ کے معمولات جیسے کھانا پینا، غسل اور پیشاب پاخانہ نیز دیگر حوائج خود سے انجام دینے سے قاصر رہتا ہے اور محتاج ہو جاتا ہے۔  الژھائمر سے متاثر مریض اس سے فوت نہیں ہوتا اور کئی برس تک زندہ رہ سکتا ہے لیکن اس دوران کوئی اور مرض لاحق ہوکر اس کی پیچیدگیوں کی وجہ سے وہ مر سکتا ہے جیسے نمونیا وغیرہ۔
دماغی ساخت میں تبدیلیاں
انسانی دماغ سے مماثل کسی دوسرے جاندار کا دماغ نہیں ہے۔ اسی سبب دماغ کی ساخت میں ہونے والی تبدیلیوں کا کسی انسان کی زندگی میں مطالعہ قطعی آسان کام نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ درجہ بدرجہ واقع ہونے والی سبھی وجوہات اور ساختی تبدیلیوں کا پتہ نہیں لگ سکتا۔ الژھائمر کے مریض کے دماغ کا بعد از مرگ مطالعہ کیا گیا تو اس میں ظاہر ہونے والی تبدیلیاں کچھ ایسی تھیں: دماغ کی ساخت معمول سے سکڑی ہوئی ملی۔  دماغ کے متاثرہ حصوں (خصوصاً یادداشت کے مرکز) میں ریشہ دار ساختیں (Tangles) اور کھرنڈ (Plaques) پائی گئیں۔ یہ دونوں منجمد غیر طبعی پروٹین ہیں۔  ماہرین نے یہ نتائج نکالے ہیں کہ انھی دونوں کی وجہ سے دماغ کی ساخت سکڑنے لگتی ہے، عصبی خلیات انحطاط پذیر ہو جاتے ہیں، وہ سوکھنے لگتے ہیں اور مختلف مراکز کا آپسی رابطہ اور تال میل ختم ہوجاتا ہے۔سب سے زیادہ اور پہلے یادداشت اور بولنے کے مرکز متاثر ہوتے ہیں۔


اسباب
الژھائمر کے اسباب پر ابھی تک اسرار کا پردہ پڑا ہوا ہے۔ محققین نے قیاساً موروثی اسباب کو بھی بیان کیا ہے۔ اور اس ضمن میں انھوں نے جینیٹک مطالعہ پیش کیا ہے۔  کچھ نسلی، جغرافیائی حالات اور غذائیات بھی اس کے ممکنہ اسباب بنتے ہیں جیسے نائیجیریا کے غریب باشندوں کے مقابلے میں امریکہ کے امیر افراد کو الژھائمر میں زیادہ مبتلا پایا گیا ہے کیونکہ نائیجیریا کے لوگ عموماً کم چربی دار غذا استعمال کرتے ہیں۔  کچھ محققین نے دماغی صدمات یا چوٹ لگنے کو بھی اس کا سبب ظاہر کیا ہے۔
تشخیص
الژھائمر کی تشخیص مریض کی روداد کے لحاظ سے کی جاسکتی ہے اور محض قیاسی ہوگی کیونکہ حتمی تشخیص کے لیے عصبی خلیات کو خوردبینی عدسے میں مشاہدہ کرنا لازمی ہے تاکہ ریشے دار ساختیں اور کھرنڈ کا پتہ لگایا جاسکے؛ اس لیے زندہ شخص میں یہ عمل ناممکن ہے۔ سریریاتی (کلینکلی) طور پر یادداشت زائل کرنے والے دوسرے امراض جیسے لقوہ (اسٹروک)، ڈپریشن، شراب خوری یا چند دوائیں استعمال کرنا جیسی باتوں سے فرق کر کے الژھائمر کی موجودگی سمجھی جا سکتی ہے۔ نئی تکنیک کی موجودگی میں برین اسکین، اور اسی سے جڑی ہوئی دوسری اہم تکنیکوں کا استعمال بھی دماغی افعال کے تعلق سے معاون معلومات دیتا ہے۔
علاج
ایک صدی گذر چکی ہے مگر الژھائمر کا ہنوز کوئی شافی علاج ممکن نہیں ہو سکا ہے۔ البتہ علامات کو کم کرنے اور ان کی مدتِ پیدائش و پرورش کو طویل کرنے کے لیے دوائیں دی جاتی ہیں جن میں یادداشت کے عمل میں حصہ لینے والے نیوروٹرانسمیٹر ’ایسیٹائیل کولین‘ "Neurotransmitters "Acetylcholine کے ترشح (اخراج) اور دوران کو بنائے رکھنے والی دوائیں ہیں جنھیں ’ایسی ٹائل کولی نسٹریزاِن ہبی  ٹرس‘ Acetylcholinesterase inhibitors کہتے ہیں ۔ جدید تحقیقات سے جن عوامل کو بدن کے اندر علامات کی پیدائش کا سبب سمجھا گیا ہے ان کے تریاق کے طور پر دواؤں کی تیاری کی جارہی ہے۔ اب وہ کس قدر موثر ثابت ہوں گی یہ تو آنے والے دن بتائیں گے۔
تیمارداری
الژھائمر کے مریض کی تیمارداری اور دیکھ بھال کی بڑی ذمہ داری مریض کے قریب ترین رشتے داروں یا ان کی دیکھ ریکھ پر مامور افراد کی ہوتی ہے۔ انھیں بہت چوکنّا رہنا پڑتا ہے۔ مریض کی روزبروز گرتی ہوئی ذہنی حالت کے پیشِ نظر اس کی ضروریات کے علاوہ یہ دھیان رکھنا بہت ضروری قرار پاتا ہے کہ وہ توجہ نہ رہنے پر کسی راستے پر چل پڑیں اور پھر ان کی واپسی مشکل ہو جائے۔ مریض کسی بھی وقت جھگڑ سکتے ہیں، رونے لگتے ہیں یا پھر بے حد خوفزدہ ہو نے کا اظہار کر سکتے ہیں۔ ان سب حالات میں انھیں بہت سنبھالنا ہوگا۔ ایک اور صورت پیدا ہو سکتی ہے کہ مریض کو سنبھالنے والا فرد بھی بسا اوقات زیادہ جاگنے کی وجہ سے مختلف طرح کے عوارض کا شکار ہو سکتا ہے اس لیے اس بات کا بھی خاص خیال رکھتے ہوئے مناسب حالات پیدا کرنا چاہیے
QuizTime, Mumabi; in leadership of
Hamid Iqbal Siddiqui and his associate Khan Akhlaque Ahd.; attempts to  bring Urdu Medium Students at the competitive  level of other Vernacular and English medium students
انگریزی میڈیم سے تعلیم کا ترقی سے تعلّق؟
اگر انگلش میڈیم میں پڑھنے سے ہی ہمارے بچے ترقی کر سکتے ہیں تو...  
تین چار پشتوں سے انگلش میڈیم سے تعلیم حاصل کرنے والے...
ہندوستانی عیسائیوں کو تو ملک کی سب سے زیادہ ترقی یافتہ قوم ہونا چاہئے تھا... 
حقیقت سے چشم پوشی مت کیجیے 
بچوں کی ابتدائی تعلیم ان کی مادری زبان میں ہی ہونی چاہئے. 
نتیجہ فکر: حامد اقبال صدیقی (کوئز ٹائم، ممبئی )

Monday, April 11, 2011

رقموں کو میں گھپلوں کی گنتا بھی بھلا کیسے؟

یارو   مجھے     زیرو  نے  پریشان    کر  دیا 

نتیجہ فکر: ڈاکٹر ریحان انصاری


ذیل کی تحریر ہمارے رفیق محترم ضیاء الرحمن انصاری صاحب (پرنسپل) نے ارسال کی ہے. قارئین کی خدمت میں پیش کیا جاتا ہے.

جاگو بھارت جاگو!
Awaken  Dear Indians Awaken!
ہمارے دیش کا سب سے بڑا 2G گھوٹالہ ایک لاکھ چھہتر ہزار کروڑ کا ہے.
1 لاکھ 76 ہزار کروڑ روپے.
ہمارے ملک کی کل آبادی 121 کروڑ ہے.
ذرا سوچئے ایک عام ہندوستانی کا اس میں کتنا روپیہ ہو سکتا ہے؟
جواب ہے:  54 . 1454 کروڑ فی ہندوستانی.
جس دیش میں جنتا بھوک سے مر رہی ہے.
اس دیش کے ایک انسان کا اتنا پیسہ سیاستداں کھا جا رہے ہیں.
یہ سوچنے کا نہیں کچھ کرنے کا وقت ہے.
جاگو بھارت جاگو!
جے ہند!

,Ziyaur-Rehmaan M. H. Ansari
Principal
Sardar Haji Ameer Saheb Rais High School & Jr. College,
Rais High School Campus, Old Thana Road, Bhiwandi-421 302
Dist. Thane, Maharashtra.