To View This Blog in Nastaliq Script Download Faiz Nastaliq Unicode Font

Download Faiz Nastaliq Unicode Font from http://www.faiznastaliq.com/faiznastaliq.zip unzip & install it to your windows/font directory

Tuesday, April 12, 2011

QuizTime, Mumabi; in leadership of
Hamid Iqbal Siddiqui and his associate Khan Akhlaque Ahd.; attempts to  bring Urdu Medium Students at the competitive  level of other Vernacular and English medium students
انگریزی میڈیم سے تعلیم کا ترقی سے تعلّق؟
اگر انگلش میڈیم میں پڑھنے سے ہی ہمارے بچے ترقی کر سکتے ہیں تو...  
تین چار پشتوں سے انگلش میڈیم سے تعلیم حاصل کرنے والے...
ہندوستانی عیسائیوں کو تو ملک کی سب سے زیادہ ترقی یافتہ قوم ہونا چاہئے تھا... 
حقیقت سے چشم پوشی مت کیجیے 
بچوں کی ابتدائی تعلیم ان کی مادری زبان میں ہی ہونی چاہئے. 
نتیجہ فکر: حامد اقبال صدیقی (کوئز ٹائم، ممبئی )

5 comments:

Dr Rehan Ansari said...

اسلم غازی کا نامہ حامد اقبال صدیقی کے نام (مرسلہ ڈاکٹر ریحان انصاری)
برادرم حامد اقبال۔ سلام و رحمت
معاف کیجئے گا انگریزی اسکولوں میں صرف عیسائی بچے نہیں پڑھتے بلکہ اسی فیصد غیر عیسائی بچے پڑھتے ہیں اور اس کی وجہ انگریزی سے محبت نہیں بلکہ ان اسکولوں کا غیر معمولی معیار تعلیم ہے۔ اس کے بر خلاف اردو اسکولوں کی حالت زار سے ہم سب واقف ہیں جہاں طلبا کی تعلیم تو کیا ہوتی خود اساتذہ کو تعلیم و تربیت کی ضرورت ہے۔ آج انگریزی اسکول اردو دان طبقے کے لئے مجبوری بن گئے ہیں ۔ یہ ایسی ہی مجبوری ہے جیسی یہ کہ انتہائی ایماندار ہونے کے با وجود آپ ریل کا ٹکٹ بلیک میں خریدنے پر مجبور ہیں یا اپنا کام سرکاری دفتروں میں رشوت دے کر کر وانے پر مجبور ہیں۔
اردو کی محبت ضرور ہو لیکن حقائق سے چشم پوشی بھی جرم ہے جس کی سزا ہم نہیں ہماری آئندہ نسلیں بھگتیں گی کیونکہ ہم تو اس وقت سود و زیاں کے چکر سے نکل چکے ہوں گے۔
ضرورت اس بات کی نہیں کہ ہم لوگوں کو اردو کی تعلیم بچوں کو دلوانے کے لئے راغب کریں بلکہ ضرورت اردو اسکولوں کا معیار بلند کرنے کی ہے۔ یہ کام پچاس فیصد بھی ہو جائے تو لوگ خود بہ خود اردو کی طرف راغب ہو جائیں گے۔ یہ صورتحال کچھ اردو ہی کے ساتھ نہیں بلکہ بے شمار مراٹھی اسکول بھی بند پڑے ہیں خود بال ٹھاکرے جیسے مراٹھی کے حامی نے اپنی پوتوں کو انگریزی اسکول میں تعلیم یہ کہہ کر دلوائی کہ مراٹھی میڈیم میں ہم نے اپنی ایک نسل کو تباہ کر دیا۔
یہ سچ ہے کہ محبت اندھی ہوتی ہیے خواہ محبوب کوئی زبان ہی کیوں نہ ہو لیکن یہ زمینی حقائق ہیں جنہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور نہ کیا جانا چاہئے۔ آپ کا کام بہت صحیح ہے لیکن اگر آپ کامیابی کےخواہشمند ہیں تو ہدف کی تبدیلی ضروری ہے ۔ پھر یہ ضروری نہیں کہ جو کام آپ آج شروع کریں اس کے نتائج آپ کی زندگی ہی میں آ جائیں۔ اکثر ایسے کاموں کے نتائج صدیوں بعد سامنے آتے ہیں ورنہ یہ سچ ہے کہ
لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی
خیر اندیش
سلمان غازی (ممبئی)

Dr Rehan Ansari said...

حامد اقبال صدیقی کا جواب
سلمان بھائی
السلام علیکم
میں ممنوں ہوں کہ آپ نےاردو کے فروغ کے تعلق سے اپنے نظریات کا اظھارفرمایا ورنہ یہاں تو یہ عالم ہے کہ:
میں یہ کیسے لوگوں کی بھیڑ سے مخاطب ہوں
جو نہ بولنا جانیں اور نہ سوچنا چاہیں
حامد اقبال صدیقی

Dr Rehan Ansari said...

السلام علیکم،
محترم سلمان بھائی ، میں آپ کی باتوں سے اتفاق رکھتا ہوں. مگر یہ بات بھی عرض کرنا چاہتا ہوں کہ جب تک اردو والے اپنے بچوں کو اردو اسکولوں میں داخل نہیں کریں گے تب تک ان کے معیار کو سدھارنے کی کسی بھی کوشش کو کامیابی نہیں مل سکے گی. یقینا ہم سب یہ سمجھتے ہیں کہ یو قربانی دینے کا کام ہے. اور اس کے لئے بہت صبر و حوصلہ چاہئے.

Hamid Iqbal Siddiqui said...

dr sahab
is guftugu ko jaari rehna chahiye
shayad achche nataej baramad hon

Anonymous said...

محترم جناب ریحان صاحب۔
اگر اردو اسکولوں کا معیار بلند کرنے کے لئے شرط یہ ہے کہ پہلے اردو داں اپنے بچوں کو اردو اسکولوں میں داخل کروائیں تو کسی طور بھی قابل عمل نہیں۔ ظاہر ہے نظام کو بلدنے اور معیار کو بلند ہونے میں کافی وقت لگے گا اس عبوری دور مین کم از کم ایک نسل کو ضرور قربان کرنا ہوگا۔بھلا کون اپنے بچوں کے مستقبل کی قربانی دے گا۔ معاف کیجئے گا اردو لوگوں کو محبوب ضرور ہے لیکن اگر اسے اردو اور اپنے بچوں کے مستقبل میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہو تو وہ اپبے بچوں کی قربانی ہرگز نہیں دے گا کیونکہ یہ حماقت ہوگی۔ عقلی بنیادوں پر بھی غور فرمائیں تو یہی بات صحیح ہے کہ اگر کسی کو کوئی چیز محبوب ہے تو وہ اس کے لئے خواہ اپنا سب کچھ قربان کر دے لیکن کسی دوسرے کی قربانی خصوصا” اپنے بچوں کی ہرگز جائز نہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ اردو کم از کم اس ملک میں ایک ختم ہوتی ہوئی زبان ہے، جو زبان اردو اخباروں اور رسائل میں نظر آتی ہے وہ اردو نہیں ہے ابھی کچھ اردو داں باقی ہیں اس لئے کام چل رہا ہے کچھ عرصے بعد غالب میر اور سودا، حسرت اور آزاد کی زبان سمجھنے والے نا پید ہونگے۔ یہ ایک ایسا طوفان ہے جس کے آگے کوئی ٹھہر نہیں سکتا ہاں شتر مرغ کی طرح ریت میں منہ چھپا کر خوبصورت تصورات میں غلطاں رہنا چاہیں تو یہ صریح دھوکہ ہوگا۔
سلمان غازی، ممبئی