To View This Blog in Nastaliq Script Download Faiz Nastaliq Unicode Font

Download Faiz Nastaliq Unicode Font from http://www.faiznastaliq.com/faiznastaliq.zip unzip & install it to your windows/font directory

Tuesday, April 12, 2011

Alzheimer's Disease
الژھائمر کا مرض‘‘ (Alzheimer's Disease) ایک لاعلاج مرض ہے۔ انسانوں کو نامعلوم زمانہ سے متاثر کرنے والے اس عارضہ کا جرمنی کے ماہرِ نفسیات الوئس الژھائمر (Alois Alzheimer) نے پہلی بار اب سے پورے سو برس قبل (۱۹۰۶ء میں) بیان کیا تھا۔ اسی لیے اس کیفیت کو ان کے نام سے منسوب کیا گیا ہے۔ 
Normal & Alzheimer's Brain Structure


تعارف
یہ ایک ایسا مرض ہے جس میں دماغ بتدریج انحطاط کا شکار ہو تا جاتا ہے۔ اس کی ساخت سکڑنے لگتی ہے۔ اس کے خلیات دھیرے دھیرے اپنا کام کاج تج دیتے ہیں اور رفتہ رفتہ خود بھی ختم ہو جاتے ہیں۔ سب سے پہلے یادداشت کے مراکز اس کا شکار بنتے ہیں، اس کے بعد زبان (بولنے) پر قابو رکھنے والے خلیات، پھر وقت، جگہ اور حوائجِ ضروریہ کا ادراک کرنے والے خلیات و مراکز اور چند برسوں میں پورا دماغ اس سے متاثر ہو جاتا ہے۔ یہ عموماً ساٹھ برس سے زیادہ عمر کے افراد کو گھیرتا ہے۔ اس مرض میں گرفتارلوگ عموماً سات سے دس برسوں میں فوت ہو جایا کرتے ہیں۔ جو اس پورے عرصہ تک زندہ رہتے ہیں ان کے ایام قابلِ رحم و افسوس ہوتے ہیں۔ صرف مریض کے لیے ہی نہیں بلکہ اس کے اعزا و اقربا اور ان سب کے لیے بھی جو اس سے محبت اور بہی خواہی کا جذبہ رکھتے ہیں۔ سدا مسکن بنے رہنے والی جگہ اورآس پاس کی چیزوں اور (آشنا) لوگوں سے مریض خوف کھانے لگتا ہے، گھر کے لوگ، احباب، خویش و اقارب سب اندوہ کے ساتھ اپنے عزیز کو ذہنی و جسمانی طور پر اپنے سے دور ہوتے ہوئے دیکھتے رہتے ہیں۔
علامات
اس عارضہ کا وقوع بہت دھیرے دھیرے ہوتا ہے۔ ابتدائی دنوں میں مریض پہلے سے جانی بوجھی بات کو اپنے لیے بالکل نئی معلومات بتلاتا ہے۔ اپنا قلم، کنجیاں اور عینک وغیرہ کہیں (سامنے ہی) رکھ کر بھول جاتا ہے اور یاد نہیں کر پاتا۔  جیسے جیسے عارضہ بڑھتا ہے تو ایک دو دن پہلے کے واقعات و حالات بھی اسے بالکل یاد نہیں رہ پاتے کہ وہ کہیں گیا تھا یا کسی شناسا سے ملا تھا۔ حتیٰ کہ اپنے واقف کار سے مل کر بھی اس کا تعارف حاصل کرنا چاہتا ہے۔  زبان ساتھ نہیں دیتی اور مناسب الفاظ اظہارِ مدعا کے لیے نہیں ملتے۔  بڑھی ہوئی صورتوں میں وہ پہلے سے چلنے پھرنے والے اپنے راستوں کو بھی یاد نہیں رکھ پاتا اور کس سمت سے آیا ہے پھر کس سمت لوٹ کر جانا ہے اسے سمجھ میں نہیں آتا۔ اس طرح گم ہوجانے کا اندیشہ ہوتا ہے۔  مریض اپنے گھروالوں کی شکل سے بھی گھبرانے لگتا ہے اور ان سے ملنے یا ان سے بات چیت کرنے میں بہت خوفزدہ ہوتا ہے۔ مریض اپنے روزانہ کے معمولات جیسے کھانا پینا، غسل اور پیشاب پاخانہ نیز دیگر حوائج خود سے انجام دینے سے قاصر رہتا ہے اور محتاج ہو جاتا ہے۔  الژھائمر سے متاثر مریض اس سے فوت نہیں ہوتا اور کئی برس تک زندہ رہ سکتا ہے لیکن اس دوران کوئی اور مرض لاحق ہوکر اس کی پیچیدگیوں کی وجہ سے وہ مر سکتا ہے جیسے نمونیا وغیرہ۔
دماغی ساخت میں تبدیلیاں
انسانی دماغ سے مماثل کسی دوسرے جاندار کا دماغ نہیں ہے۔ اسی سبب دماغ کی ساخت میں ہونے والی تبدیلیوں کا کسی انسان کی زندگی میں مطالعہ قطعی آسان کام نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ درجہ بدرجہ واقع ہونے والی سبھی وجوہات اور ساختی تبدیلیوں کا پتہ نہیں لگ سکتا۔ الژھائمر کے مریض کے دماغ کا بعد از مرگ مطالعہ کیا گیا تو اس میں ظاہر ہونے والی تبدیلیاں کچھ ایسی تھیں: دماغ کی ساخت معمول سے سکڑی ہوئی ملی۔  دماغ کے متاثرہ حصوں (خصوصاً یادداشت کے مرکز) میں ریشہ دار ساختیں (Tangles) اور کھرنڈ (Plaques) پائی گئیں۔ یہ دونوں منجمد غیر طبعی پروٹین ہیں۔  ماہرین نے یہ نتائج نکالے ہیں کہ انھی دونوں کی وجہ سے دماغ کی ساخت سکڑنے لگتی ہے، عصبی خلیات انحطاط پذیر ہو جاتے ہیں، وہ سوکھنے لگتے ہیں اور مختلف مراکز کا آپسی رابطہ اور تال میل ختم ہوجاتا ہے۔سب سے زیادہ اور پہلے یادداشت اور بولنے کے مرکز متاثر ہوتے ہیں۔


اسباب
الژھائمر کے اسباب پر ابھی تک اسرار کا پردہ پڑا ہوا ہے۔ محققین نے قیاساً موروثی اسباب کو بھی بیان کیا ہے۔ اور اس ضمن میں انھوں نے جینیٹک مطالعہ پیش کیا ہے۔  کچھ نسلی، جغرافیائی حالات اور غذائیات بھی اس کے ممکنہ اسباب بنتے ہیں جیسے نائیجیریا کے غریب باشندوں کے مقابلے میں امریکہ کے امیر افراد کو الژھائمر میں زیادہ مبتلا پایا گیا ہے کیونکہ نائیجیریا کے لوگ عموماً کم چربی دار غذا استعمال کرتے ہیں۔  کچھ محققین نے دماغی صدمات یا چوٹ لگنے کو بھی اس کا سبب ظاہر کیا ہے۔
تشخیص
الژھائمر کی تشخیص مریض کی روداد کے لحاظ سے کی جاسکتی ہے اور محض قیاسی ہوگی کیونکہ حتمی تشخیص کے لیے عصبی خلیات کو خوردبینی عدسے میں مشاہدہ کرنا لازمی ہے تاکہ ریشے دار ساختیں اور کھرنڈ کا پتہ لگایا جاسکے؛ اس لیے زندہ شخص میں یہ عمل ناممکن ہے۔ سریریاتی (کلینکلی) طور پر یادداشت زائل کرنے والے دوسرے امراض جیسے لقوہ (اسٹروک)، ڈپریشن، شراب خوری یا چند دوائیں استعمال کرنا جیسی باتوں سے فرق کر کے الژھائمر کی موجودگی سمجھی جا سکتی ہے۔ نئی تکنیک کی موجودگی میں برین اسکین، اور اسی سے جڑی ہوئی دوسری اہم تکنیکوں کا استعمال بھی دماغی افعال کے تعلق سے معاون معلومات دیتا ہے۔
علاج
ایک صدی گذر چکی ہے مگر الژھائمر کا ہنوز کوئی شافی علاج ممکن نہیں ہو سکا ہے۔ البتہ علامات کو کم کرنے اور ان کی مدتِ پیدائش و پرورش کو طویل کرنے کے لیے دوائیں دی جاتی ہیں جن میں یادداشت کے عمل میں حصہ لینے والے نیوروٹرانسمیٹر ’ایسیٹائیل کولین‘ "Neurotransmitters "Acetylcholine کے ترشح (اخراج) اور دوران کو بنائے رکھنے والی دوائیں ہیں جنھیں ’ایسی ٹائل کولی نسٹریزاِن ہبی  ٹرس‘ Acetylcholinesterase inhibitors کہتے ہیں ۔ جدید تحقیقات سے جن عوامل کو بدن کے اندر علامات کی پیدائش کا سبب سمجھا گیا ہے ان کے تریاق کے طور پر دواؤں کی تیاری کی جارہی ہے۔ اب وہ کس قدر موثر ثابت ہوں گی یہ تو آنے والے دن بتائیں گے۔
تیمارداری
الژھائمر کے مریض کی تیمارداری اور دیکھ بھال کی بڑی ذمہ داری مریض کے قریب ترین رشتے داروں یا ان کی دیکھ ریکھ پر مامور افراد کی ہوتی ہے۔ انھیں بہت چوکنّا رہنا پڑتا ہے۔ مریض کی روزبروز گرتی ہوئی ذہنی حالت کے پیشِ نظر اس کی ضروریات کے علاوہ یہ دھیان رکھنا بہت ضروری قرار پاتا ہے کہ وہ توجہ نہ رہنے پر کسی راستے پر چل پڑیں اور پھر ان کی واپسی مشکل ہو جائے۔ مریض کسی بھی وقت جھگڑ سکتے ہیں، رونے لگتے ہیں یا پھر بے حد خوفزدہ ہو نے کا اظہار کر سکتے ہیں۔ ان سب حالات میں انھیں بہت سنبھالنا ہوگا۔ ایک اور صورت پیدا ہو سکتی ہے کہ مریض کو سنبھالنے والا فرد بھی بسا اوقات زیادہ جاگنے کی وجہ سے مختلف طرح کے عوارض کا شکار ہو سکتا ہے اس لیے اس بات کا بھی خاص خیال رکھتے ہوئے مناسب حالات پیدا کرنا چاہیے

2 comments:

nizam-momin said...

سلام علیکم ' ڈاکتر صاحب اس مضمون میں احتیاط کیا کیا برتنی چاہے اس کا بهی ذکر هوتا توہ کیا بات تھی.

Dr Rehan Ansari said...

السلام علیکم،
مضمون کی پسندیدگی کا شکریہ. جہاں تک احتیاط کی بات ہے تو آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ اس مرض میں کوئی احتیاط نہیں برتی جا سکتی