To View This Blog in Nastaliq Script Download Faiz Nastaliq Unicode Font

Download Faiz Nastaliq Unicode Font from http://www.faiznastaliq.com/faiznastaliq.zip unzip & install it to your windows/font directory

Monday, December 19, 2011

Halala: Another Name for Rape
Think Beyond 

Dr. Rehan Ansari
ٹائمز آف انڈیا کی ہفتہ وار خصوصی اشاعت ’’کریسٹ ایڈیشن‘‘ The Times of India - Crest Edition کے ۳دسمبر ۲۰۱۱کے شمارے میں منجری مشرا Manjari Mishra کی ایک اسٹوری شائع ہوئی تھی۔ عنوان تھا ’’زنا کا نامِ دیگر‘‘۔  "Another Name for Rape" اس میں ’حلالہ‘ کو موضوع بنا کر بیحد تیکھے اور سخت تیور میں ایک کولاج پیش کیا گیا تھا۔ اصول کے مطابق اس خاکسار نے مختلف ذرائع اور علما سے رجوع کر کے اس کا مکمل و معتدل جواب انگریزی میں ہی لکھ کر اخبارِ مذکور کو ای میل کر دیا تھا۔ مگر آج کے صحافتی اداروں اور صحافیوں کی ترجیحات سے ہم خوب واقف ہیں اس لیے توقع کے عین مطابق انھوں نے پورے مضمون میں سے گنتی کی چند سطریں ’’خیال آرائی‘‘ کے ضمن میں شائع کیں اور پورا مضمون حذف نہیں بلکہ ہضم کرگئے۔




ہم نے ایک احساسِ ذمہ داری کے تحت اس مضمون کو اردو روپ دیا اور اب آپ کی خدمت میں اس نیت کے ساتھ پیش ہے کہ ہمارے لوگوں میں بھی ایک بڑا طبقہ اس سلسلے میں بات تک کرنا پسند نہیں کرتا؛ بہت سے تباہکار مولوی حضرات اور تجارت پیشہ قاضیوں نے اسی لیے اس کا بھرپور فائدہ اٹھانے کا دھندہ بنا رکھا ہے؛ جب کہ یہ بلا تفریقِ مسلک و عقیدہ ایک شقِ شرعیہ ہے اور ہم سب کو ہی اس کا جاننا لازمی ہے۔ اس باب میں کوئی فرد سوال کرے تو اسے جھٹک دینا بے احتیاطی کا سبب ہے۔ ایک بات اور کہ روابط کے بعد مجھے حیرت ہوئی کہ لاعلمی یا مختلف عقیدہ کے سبب کچھ مسلمان اس سے خود کو دست کش کرتے ہیں اور محض احناف سے اسے جوڑتے ہیں۔ لیجیے پیش ہے اس مضمون کا اردو روپ:
منجری مشرا کا تحریر کردہ مضمون (ٹائمز آف انڈیا کریسٹ ایڈیشن، مورخہ ۳دسمبر) انتہائی تلخ لہجہ میں لکھا ہوا ہے۔ اس کا انداز متوازن نہیں ہے۔ پورا زور اس بات پر صرف کیا گیا ہے کہ کس طرح پوری مسلم کمیونٹی کہ ہدفِ ملامت بنایا جائے۔ میں پوری اسٹوری کے کسی بھی حصہ کی تنسیخ یا دفاع نہیں کروں گا کیونکہ مسلمانوں کے درمیان ایسے افراد لازماً موجود ہیں جن کا تذکرہ اور احوال اسٹوری میں دیا گیا ہے۔ کچھ لوگوں کو یہ زعم ہے کہ وہ ترقی پسند ہیں، معاذاﷲ، یہ وہی لوگ ہیں جو شرعی قوانین کا کوئی لحاظ نہیں کرتے اور مسلمانوں کی جگ ہنسائی اور انھیں دقیانوسی ٹھہرانے کا موقع بھی ڈھونڈتے رہتے ہیں۔
’حلالہ‘ کبھی پسندیدہ عمل نہیں رہا ہے۔ مسلمانوں کی اکثریت نے ہمیشہ اسے لتاڑا ہے۔ مگر بہتوں (اور مسلمانوں میں بھی) نے اس کی حقیقت کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی۔ یہ کوئی فرض Mandatory نہیں ہے جس پر خواہی نخواہی عمل کرنا ہی پڑے گا بلکہ شریعت کی ایک شق Clause ہے جس سے روشنی پاکر جب ایسا معاملہ درپیش ہو تو اس کا حل نکالا جائے۔ بہت سے علما اور غیرعلما یہ بھی کہتے ہیں کہ ’حلالہ‘ لفظ شریعت میں موجود نہیں ہے بلکہ یہ  اختراع ہے۔ چلیے یہ مان لیں کہ ایسا ہے بھی تو جب ایسے حالات ابھریں تو اسے کوئی نام تو دینا ہی ہوگا نا؟... یہی ’حلالہ‘ ہے، یعنی نام، اسم!... اگر ایسا ہی ہے تو ہم بھی کیوں نہ اسے اپنے طور پر دیکھیں۔ لفظ حلالہ کی اصل عربی ہے۔ عربی میں اس کی دو صوتیات سمجھ میں آتی ہیں ایک ’’حلالۃٌ=حلالتُن‘‘ بمعنی حلال مؤنث اور ’’حلالہ= حلالَ ہ‘‘ بمعنی حلال برائے مرد، دونوں ہی صوتیات عورت (مؤنث) سے مراد ہیں اور ’’اسم‘‘ ہیں، یہ ’’فعل‘‘ نہیں ہیں۔
آگے بڑھنے سے قبل ایک بات اور صاف کرتے چلیں۔ ہم سبھی ’ہونے‘ اور ’کرنے‘ کے فرق سے واقف ہیں۔ اس لیے اس جملے کو نوٹ کریں کہ ’’(عورت)حلالہ ہوتی ہے، کی نہیں جاتی‘‘۔اور جب کوئی عورت حلالہ ہوتی ہے تو اﷲ تعالیٰ کی جانب سے اس پر رحمت کے بھی کئی فیصلے ہوجاتے ہیں جنھیں بروقت محسوس نہیں کیا جاسکتا۔ مگر جب حلالہ کیا جاتا ہے یا کروایا جاتا ہے تو اس پر کسی اور کی نہیں نبئ رحمت ؐ نے فرمایا اﷲ کی لعنت اور پھٹکار ہوتی ہے اور حلالہ کرنے اور کروانے والے نیز ان کے جملہ معاونین واصلِ جہنم ہوں گے سدا کے لیے۔نبی اکرم ؐ نے حلالہ کرنے والے مرد کو ’’کرایہ کا سانڈ‘‘ کہا ہے۔
قرآن کی سورۃ البقرۃ کی آیت نمبر ۲۳۰ کا ترجمہ یوں کیا جاتا ہے کہ ’’پھر اگر طلاق دے دی مرد نے بیوی کو (تیسری مرتبہ) تو نہیں حلال ہوگی وہ اس کے لیے اس کے بعد جب تک کہ نہ نکاح کرے وہ کسی اور خاوند سے اس کے سوا، پھر اگر طلاق دے دے (دوسرا) خاوند اس کو تو نہیں ہے کچھ گناہ ان دونوں پر اس بات میں کہ رجوع کرلیں ایک دوسرے کی طرف بشرطیکہ دونوں یہ خیال کریں کہ قائم رکھیں گے اﷲ کی (مقرر کردہ) حدیں، اور یہ اﷲ کی مقرر کردہ حدیں ہیں جن کو کھول کھول کر بیان کرتا ہے وہ ان لوگوں کے لیے جو دانشمند ہیں‘‘۔
مشہور آن لائن انسائیکلوپیڈیا ’’وِکی پیڈیا‘‘ Wikipedia کا یہ اقتباس بھی ملاحظہ فرمائیں: ’’صاف سی بات یہ ہے کہ حلالہ منصوبہ بند طریقہ سے اور دانستہ ہرگز نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ اس عورت اور دوسرے خاوند کے مابین اس طرح نکاح کو جائز نہیں قرار دیا جاتا کہ بعد میں طلاق لے لی اور دے دی جائے گی۔اس طرح کے تعلق کو زنا کہا جائے گا اور اس کے بعد جب وہ پہلے سے منصوبہ بند انداز میں پہلے شوہر سے حلالہ کرواکے رجوع ہوگی تو اسے بھی زنا ہی کہا جائے گا۔ محمد ؐ نے ایسے مرد پر جو حلالہ کرتا ہے اور اس پر بھی جو حلالہ کرواتا ہے لعنت بھیجی ہے۔امیرالمومنین ثانی حضرت عمر ؓ نے اپنے دور میں یہ اعلان کروایا تھا کہ جو بھی لوگ منصوبہ بند طریقہ سے حلالہ کا عمل انجام دیں گے ان سب کو سنگساری کے ذریعہ موت کی سزا دی جائے گی‘‘۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ حلالہ ’’کرنے اور کروانے‘‘ کا عمل انتہائی کریہہ اور تباہ کن ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ اس کی ہر جگہ اور ہر سطح پر مخالفت کی جاتی ہے۔مگر جب بغیر کسی نیت کے حلالہ از خود ’’ہوجاتا ہے‘‘ یعنی پیش آتا ہے تو اس کے کچھ فرحت بخش نتائج بھی سامنے آتے ہیں۔ یہ بات ملحوظ رہے کہ حلالہ پیش آنے کے باوجود عورت اپنے نئے خاوند کے انتخاب اور نکاح کے لیے مکمل آزاد اور خود مختار ہے اور اس پر اپنے سابقہ شوہر سے رجوع کے لیے کسی بھی قسم کا دباؤ کسی بھی حال میں نہیں ڈالا جاسکتا۔ یہ حلالہ اس طرح بھی پیش آسکتا ہے کہ دوسرے خاوند سے نکاح کے بعد اس خاوند کا جلد ہی انتقال ہوگیا اور وہ بیوہ ہو گئی۔ پھر تنہا ہوگئی۔ایسے وقت اس کا دل اپنے سابقہ شوہر کی جانب مائل ہو اور وہ کسی طرح بھی ظالم نہ رہا ہو، طلاقِ مغلظہ ایک حادثہ کی صورت پڑ گئی ہو تو بیوگی کی عدت کے بعد وہ اپنے سابقہ خاوند کے ساتھ نکاح کر سکتی ہے اور دونوں خوش و خرم زندگی کا آغازِنو کرسکتے ہیں۔
حلالہ کے تعلق سے جتنی بھی برائیاں ہمارے اندر دکھائی دیتی ہیں اور عورت کو جس طرح شرمندہ نیز اس کا استحصال کیا جاتا ہے، وہ سب خرابیاں ہماری اپنی پیداکردہ ہیں، ان سب کا اصل اسلامی تعلیمات سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ اﷲ ہم سب کو راستی پر رکھے اور اپنے حفظ و امان میں رکھے (آمین)۔


The Muslim Woman Has
All the Rights to Choose
Her Life Partner And Nobody
Could Compel Her
درجِ بالا مضمون کے آگے بھی کچھ سطریں لکھنا چاہتا ہوں کہ حلالہ اصل میں دیکھا جائے تو عورت کی بے عزتی نہیں ہے بلکہ اس مرد کی بے عزتی اور رسوائی ہے جو ایک اچھی عورت کہ جس کے تعلق سے رسولِ اکرم ؐ کا فرمان ہے کہ دنیا کی سب سے اچھی نعمت ایک نیک بیوی ہے، سے خود کو محروم کر لیتا ہے۔ سماج میں اس کا جینا اور چلنا پھرنا اس وقت تک دشوار ہی رہتا ہے جب تک اس کا ایک بھی شاہد بستی میں موجود ہو۔ اس کے برخلاف مطلقہ عورت کے ساتھ عموماً پورے سماج کا رویہ ہمدردانہ اور مشفقانہ ہوا کرتا ہے نیز اسے دوسرا خاوند ملنا کافی آسان بھی ہوتا ہے۔ لوگ اس کی امداد کو تیار رہتے ہیں۔ جبکہ طلاق دہندہ مرد کو دوسری ’شریف‘ عورت نصیب ہونا انتہائی دشوار بلکہ اکثر ناممکنات میں ہوتا ہے۔
بعض مسلمان ان باتوں کے باوجود مطمئن نہیں ہوتے تو ان کی خدمت میں یہ آسان سا سوال ہے کہ خدا نخواستہ ان کے کسی اپنے کے ساتھ تین طلاقوں کے بعد رجوع کی خواہش یا نوبت آن پڑے تو وہ کس نام اور پروسیس کے ساتھ اس معاملہ کو نمٹائیں گے؟ یا ایک اچھی عورت کو بے آسرا چھوڑ دیں گے؟