To View This Blog in Nastaliq Script Download Faiz Nastaliq Unicode Font

Download Faiz Nastaliq Unicode Font from http://www.faiznastaliq.com/faiznastaliq.zip unzip & install it to your windows/font directory

Sunday, October 23, 2011

We will miss you dear Qaddafi
Dr. Rehan Ansari
پورے آٹھ ماہ کی داخلی جنگ کے بعد جمعرات (۲۰اکتوبر کو)قذافی مار دیئے گئے۔ مگر کیا لیبیا کو فتح کر لیا گیا؟ اب لیبیا آزادی کی جانب رواں ہوگا یا مغرب کا یرغمال و غلام بنا رہے گا؟ ابھی کیا خانہ جنگی کا دوردورہ ہوگا؟ کون اپنی روٹی پر کتنی دال کھینچے گا؟ یہ اور ایسے ہی کئی متعدد ہیجان انگیز سوالات تجزیہ کاروں کے ذہنوں میں اُٹھ رہے ہیں۔ ایسا اس لیے ہورہا ہے کہ اس سوال کا اطمینان بخش جواب نہیں مل رہا ہے کہ یورپی ممالک نے اٹلی اور امریکہ کے ساتھ مل کر کس بنیاد پر لیبیا میں دخل اندازی (حملہ پڑھیے) کیا تھا؟
بین الاقوامی میڈیا کے ذریعہ قذافی کو ایک جابر اور آمر حاکم بتلایا جاتا رہا ہے۔ لیکن قذافی نے اپنی رعیت پر کبھی کسی نوعیت کا جبر کیا ہو اس کا کوئی ثبوت  ملتا ہے نہ دیا جاتا ہے!۔ باغیوں (غداری کی جدید نقاب کا نام) کا ساتھ دینے اور انھیں قذافی کی فوج سے محفوظ رکھنے کے لیے ناٹو NATO نے یہ حملے کیے ؛ ہاں کسی قدر یہ بات درست ہو سکتی ہے لیکن اس کا ثبوت نہیں ہے کہ باغیوں نے اتحادی فوجوں کو پکارا ہو یا بلایا ہو۔ ان باغیوں نے تو ابھی تک یہ بھی نہیں بتلایا ہے کہ وہ بغاوت پر کن وجوہ سے آمادہ ہوئے ہیں اور قذافی سے ان کے کیا مطالبات تھے۔ تسلیم کرنا یا نہ ماننا تو بعد کی بات تھی۔ تیسری اور بیّن وجہ یہ دکھائی دیتی ہے کہ لیبیا کا تیل جسے صارف دنیا میں سب سے بہتر کوالیٹی کا تسلیم کیا جاتا ہے، اس کے ذخائر پر امریکہ اور یورپ کی لالچی نگاہیں ہیں اور وہاں قذافی کی جگہ اپنے کسی پٹھو کو کرسئ اقتدار سونپنا چاہتے ہیں۔


Qaddafi with his GREEN BOOK
 قذافی گذشتہ بیالیس برسوں سے پے بہ پے مختلف عہدوں پر متمکن رہے اور اپنے سیاسی و ملکی نظریات کو ’گرین بُک‘ (الکتاب الاخضر) نامی کتاب میں لکھ کر پیش کر دیا تھا۔ اس میں تین خصوصی ابواب تھے جو جمہوریت کے مسائل، معاشی مسائل اور سماجی مسائل سے متعلق تھے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ کتاب قذافی کا کھلا فرمان یا دستورِ حکومت تھا جسے ہر لیبیائی کو تسلیم کرنا تھا۔ اس کتاب کو لے کر دانشوارانہ سطح پر کافی لے دے ہوتی رہی ہے۔ ایک بات جو مقطع کی ہے وہ یہ کہ قذافی نے اپنے ملک اور عوام کو کوئی ڈُپلکیٹ دستور نہیں دیا تھا بلکہ (لنگڑا لولا کہیں یا اسے آمرانہ کہیں) اپنا ایک نظریۂ حکومت دیا تھا جس میں ’جمہوریت‘ جیسا آمروں کے نزدیک ناپسندیدہ لفظ ہی نہیں بلکہ پورا ایک باب شامل تھا!
قذافی کے پورے دورِ اقتدار میں لیبیا میں اندرونی طور پر کبھی شورش نہیں رہی۔ شاید یہی بات دنیا کے چودھریوں کو کھٹکتی رہی۔ اسی لیے اس پر مختلف طریقوں سے پابندیاں اور عتاب نازل کیے جاتے رہے۔ الزامات لگائے جاتے رہے۔ مگر لیبیا کی آبادی نے اپنے اس قائد کے خلاف کبھی بے اطمینانی نہیں ظاہر کی۔پورے ملک کی آبادی میں نہ کہیں چوری چکاری سننے کو ملتی تھی نہ میلوں میل تک کوئی بھکاری کہیں پر نظر آتا ہے۔ ان کے دورِ اقتدار میں غربت  کا پتہ نہیں تھا۔ عوام کو ایک آسودہ زندگی میسر رہی۔ صحتِ عامہ کی نگرانی کا خاطر خواہ نظم رہا۔تعلیم عام اور لازمی ہے۔ملک میں داخلی آزادی رہی ہے جسے قذافی کی زبان میں ’’الجماہیریہ‘‘ کہا جاتا تھا۔ وہ کسی بھی کاروباری کمپنی میں تنخواہ دار ملازم نہیں رہتے تھے بلکہ بحیثیت پارٹنر انھیں منافع دیا جاتا تھا۔ اسلام پسندی میں بھی انتہائیت کی جگہ باہم مسلکی و فرقہ وارانہ رواداری پائی جاتی تھی، ایک ہی مصلے پر سبھی کی نماز ہو جاتی تھی۔ قذافی کی کوئی آمرنما سفاکیت بھی کبھی دیکھنے یا سننے کو نہیں ملی۔ حتیٰ کہ دنیا کے دیگر ملکوں کے مسلمانوں میں بھی قذافی کسی دوسرے عرب رہنما کے مقابلے میں زیادہ پہچانے اور پسند کیے جاتے رہے ہیں۔ ان کی مہمان نوازی اور اعلیٰ ظرفی کا ہمیشہ اعتراف پڑھنے اور دیکھنے کو ملا۔
 اس قائد کو دنیا بھر میں میڈیا پر قابض لابی نے ہمیشہ مضحکہ خیز کردار بنا کر پیش کیا۔ اس کے ہتک آمیز کارٹون شائع کیے جاتے رہے۔ اس کے بیانات کو توڑمروڑ کر اس طرح پیش کیا جاتا رہا کہ وہ کسی ملک کا سربراہ نہیں بلکہ سیاسی طور سے ایک غیربالیدہ انسان تھا۔ وہ دنیا میں دہشت پروری کا گنہگار تھا۔ جبکہ یورپ اور امریکہ سمیت دیگر مغربی ممالک سے (تیل کی تجارت سے متعلق اور اس کے عوض بھی) اپنے مطالبات کو منوا لینے کی صلاحیت جتنی قذافی میں رہی ہے وہ دیگر عرب ملکوں کے سربراہوں میں نہیں دکھائی دی۔ شاید یہی وجہ تھی کہ وہ سب کی آنکھوں میں تنکے کی مانند کھٹکتے رہے۔ خود عرب ملکوں کے سربراہوں نے انھیں جب جب وقت ملا عربی نہیں بلکہ افریقی ہی سمجھا۔اس کے باوجود لیبیا اور برّاعظم افریقہ میں کثیرآبادی ان کی قیادت پر اعتماد کرتی رہی۔ انسانی تاریخ گواہ ہے کہ بیالیس برس جیسے طویل عرصہ کے لیے کسی سفاکیت اور بربریت کے سہارے اقتدار پر آج تک دنیا میں کوئی تنہا آمر قائم نہیں رہ سکا ہے۔
آخر لیبیا میں یہ سب ہوا کیسے۔ قارئین کو شاید یاد نہ ہو اس لیے ذکر کر دیں کہ ماہ فروری کے آخری ہفتے سے یہ شورش برپا ہوئی جب شہر بن غازی سے مصطفی عبدالجلیل نامی قذافی کے سابق معتمد نے یہ الزام لگایا کہ حکومت اپنے قیدیوں کے ساتھ انتہائی وحشیانہ سلوک کرتی ہے۔ یہ اندر کی بات تھی۔ جس پر احتجاج ہوا لیکن احتجاجیوں نے صاف کہا تھا کہ وہ بن غازی کی مقامی کارپوریشن کے خلاف ہیں، قذافی کے نہیں۔ البتہ شورش بڑھائی جاتی رہی۔ یہاں تک کہ قذافی کے حامیوں اور باغیوں میں جھڑپیں شروع ہوگئیں۔ اور یہ بنیادی وجہ فراموش کر دی گئی۔ دیکھا جائے تو یہ معاملہ کس قدر طول پکڑتا... بیچ بچاؤ کی صورت پیش آتی اور معاملہ سلجھ سکتا تھا۔ لیکن سیف الاسلام کے جوش نے ہوش کھودیا اور احتجاجیوں پر انتقامی کارروائی کروا دی۔ بس پھر کیا تھا، یورپ اور امریکہ کو موقع ہاتھ آگیا اور انھوں نے اپنے پٹھووں کو اسلحہ تک فراہم کر دیا جس کی وجہ سے مسلح جھڑپیں شروع ہوگئیں۔ قذافی حکومت کے لیے باغیوں کے پاس اسلحوں کی موجودگی ایک چیلنج کی صورت بن گئی۔ بات پھر مسلسل بگڑتی چلی گئی اور یہاں تک پہنچی۔ یورپی طاقتوں نے امریکہ کے اشارے پر فرانس کی قیادت میں الائیڈ فورس بنا لی اور حملہ کر دیا۔ لیبیا کے آسمان کو نوفلائی زون قرار دے کر خود اپنے ڈرون طیاروں کو ہر سمت اڑانے لگے اور قذافی کے فوجی ٹھکانوں کو تباہ کرنے لگے۔




 یہ حملہ صرف اسلحوں اور ہوائی جہازوں سے نہیں کیا گیا بلکہ میڈیا کے ذریعہ پوری دنیا میں قذافی اور اس کے بیٹوں کو عیاش، بدقماش، فضول خرچ، سنکی اور جانے کیا کیا الزامات کے ساتھ پیش کیا گیا۔ ہم بھی آپ کی مانند (ادھوری یا پوری) حقیقت نہیں جانتے لیکن یورپی اور امریکی میڈیا کی مبیّنہ عادتوں کے سبب ہم ان ساری باتوں پر یقین نہیں رکھتے۔ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ ایک مسلمان اتنا غیور تو ضرور ہوتا ہے کہ جانتے بوجھتے کسی فاسق اور زانی کی اقتدا میں نماز ادا نہیں کرے گا۔ مگر ہم نے دیکھا ہے کہ کسی بھی عوامی جلسہ میں وقتِ نماز ہوجائے تو خود قذافی مصلے پر امامت کے لیے اترتے تھے اور تمام حاضرین ان کی اقتدا میں نماز ادا کرتے تھے۔ تو کیا دنیا کو ان کے برے کردار کا علم تھا مگر خود لیبیائی عوام اس سے بے خبر تھے؟


قذافی سے اصل میں غلطیاں کہاں ہوئیں یہ دیکھنے کی ضرورت ہے۔ قذافی نے اپنے خلاف کی جانے والی سازش کو محسوس نہیں کیا۔ اسی لیے کسی حفظِ ماتقدم کی جانب ان کی توجہ نہیں گئی۔وہ یقینی طور سے اپنے آخری ایام میں اقتدار کے نشے میں مست و بے خود اور حد سے زیادہ خوداعتماد ہو گئے تھے اور اس کا سبب ان کے جوان بیٹوں میں اقتدار کی آسان منتقلی کے یقین کے سوا اور کچھ نہیں ہوسکتا۔اسی سبب انھوں نے ملوکیت اور جمہوریت کو خلط ملط کردیا۔ انھیں جدید دور میں لیبیا کے مختلف قبائل کی جوان ہوتی ہوئی نسلوں سے وہ رغبت نہیں نظر آئی جو اپنی جوانی کے دنوں میں پورے لیبیائی عوام سے تھی۔ کسی بھی حاکم کے لیے لازمی ہے کہ اس کا عرصۂ حکومت جتنا بڑھتا ہے وہ عوام سے اپنی قربت بھی اتنی بڑھائے۔ اس کی بجائے قذافی نے فاصلے پیدا کیے۔ لیبیا کی نوجوان نسل میں سگریٹ نوشی ایک اسٹیٹس سمبل کی مانند موجود ہے۔ انھیں وقت ضائع کرنے کے علاوہ دوسرے تعلیمی، ثقافتی و معاشرتی اشغال نہیں دیئے گئے۔ اعلیٰ تعلیمی انتظامات اندرونِ ملک کرنے کی بجائے اپنے نوجوانوں کو حکومتی اخراجات پر مغربی ممالک میں بھیجنا انھیں آسان لگا جس کی وجہ سے وطن سے ان کی محبت میں سیاست بھی داخل ہوگئی اور اس پر بیرونی نظریات کے اثرات زیادہ ملتے ہیں۔ ان جیسے اسباب نے زمامِ اقتدار پر قذافی کی پکڑ ایسی ڈھیلی کر دی کہ مغربی ممالک کو موقع ملتے ہی ان پر بھوکے جانوروں کی مانند ٹوٹ پڑے اور آخر قذافی کو ایک عبرت انگیز انجام سے دوچار ہونا پڑا۔ اے قذافی ترے انجام پہ رونا آیا۔

2 comments:

Syed Manzar said...

Gaddafi was by far the richest person in the world.

Net worth of $200 billion, making the likes of Bill Gates and Carlos Slim look like the 99% by comparison.

Parwaz said...

Mazmoon pasand aaya. Bahot khoob hai.America ki nigahen deegar Islamic mulkon par lagi hain aur hum khwab-e-khargosh ke maze le rahe hain. Malik