To View This Blog in Nastaliq Script Download Faiz Nastaliq Unicode Font

Download Faiz Nastaliq Unicode Font from http://www.faiznastaliq.com/faiznastaliq.zip unzip & install it to your windows/font directory

Sunday, October 25, 2015

Qalam Goyad Ki Man Shah-e-Jahanam
By: Shahid Latif ; Editor: "Inquilab" Daily, Mumbai
مرکزی حکومت کے خواب و خیال میں بھی نہ رہا ہوگا کہ ملک میں بڑھتی فرقہ پرستی اور عدم تحمل کے رجحان  کے خلاف سماج کے ایسے طبقے سے آواز اُٹھے گی جس کے بارے میں یہ غلط فہمی عام ہوکر تقریباً پختہ ہوچکی ہے کہ اس طبقے کے لوگ کچھ لکھتے ہیں، ایک دوسرے کو سناتے ہیں، دانشورانہ باتیں یا بحثیں کرتے ہیں اور پھر منتشر ہوجاتے ہیں یعنی اس طبقے کا سماج پر کوئی اثر نہیں  لہٰذا   سیاست کو اس سے کوئی خطرہ نہیں۔
جب کرناٹک کے اکا دکا ادیبوں نے ایوارڈ واپس کرنے کا اعلان کیا تو حکومت نے اس کی قطعی پروا نہیں کی۔ جب اُدے پرکاش جیسے ادیب نے ایوارڈ لوٹایا تب بھی حکومت نے کوئی تاثر نہیں دیا۔ دھیرے دھیرے ایوارڈ لوٹانے والے ادیبوں کی تعداد بڑھنے لگی تو حکومت متوجہ ہوئی اور جب یہ تعداد اور زیادہ بڑھی تو اس نے ایوارڈ لوٹا کر حکومت کو ’’بدنام کرنے کے رجحان‘‘ کی حوصلہ شکنی کی۔ مہیش شرما نے ادیبوں سے بے ادبی کے لہجے میں کلام کیا۔ ارون جیٹلی کا انداز بھی گستاخانہ تھا۔ اُنہوں نے ادیبوں کے اس رجحان کو ’’مینوفیکچرڈ ریوالٹ‘‘ (کسی کے اُکسانے پر ہونے والی بغاوت) قرار دیا۔ اس دوران میڈیا کی بھی ’’مدد‘‘ لی گئی اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ بے چین،   ادیب نہیں بلکہ  وہ سیاسی جماعتیں ہیں جو حاشئے پر آگئی ہیں اور یہ اُنہی کا کیا دھرا ہے۔ اس کے باوجود ادیبوں کی ’’ایوارڈ واپسی مہم‘‘ کو سبوتاژ نہیں کیا جاسکا بلکہ رفتہ رفتہ آمادۂ احتجاج ادیبوں کی تعداد پچاس تک پہنچ گئی۔ ایف ٹی آئی آئی کے طلبہ کے ناقابل تسخیر ثابت ہونے کے بعد یہ دوسرا موقع تھا جب ملک کے ادباء بھی سیسہ پلائی ہوئی دیوار ثابت ہونے لگے۔ اگر ادیبوں کا  احتجاج انفرادی نہ رہ کر اجتماعی اور منظم ہوتا تو جتنے ایوارڈ لوٹائے گئے اُس سے زیادہ لوٹائے جاسکتے تھے۔ اس کے باوجود  یہ تحریک عالمی خبروں کا حصہ بن گئی۔ ادیبوں کی عالمی انجمن ’’پین انٹرنیشنل‘‘نے، جس کا صدر دفتر لندن میں ہے، ۱۷؍اکتوبر کو ایک بیان جاری کیا جس میں ایوارڈ لوٹانے والوں کی ستائش کرتے ہوئے کہا گیا کہ ’’پین انٹرنیشنل کی ۸۱؍ ویں کانگریس میں شریک ہونے والے دُنیا بھر کے ادیب ، ہندوستان کے اُن ادباء کے حوصلے کو سلام کرتے ہیں جو ہندوستانی ادب کی وسعت اور اس کے تنوع کی ترجمانی کرتے ہیں۔ پین انٹرنیشنل، ہندوستان سے یہ توقع کرتا ہے کہ وہ اپنی آئینی اقدار کے تحفظ پر توجہ دیگا تاکہ ہر ہندوستانی شہری کا سر اونچا رہے اور اس کےدل میں کسی قسم کا خوف  نہ ہو۔‘‘  پین انٹرنیشنل کے اس بیان میں جہاں ایوارڈ لوٹانے والے ادیبوں کے نام شامل کئے گئے وہیں مرکزی وزیر ثقافت مہیش شرما کا نام لے کر اُن کے گستاخانہ  بیان کی مذمت کی گئی۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ایوارڈ کی واپسی احتجاج کا واحد طریقہ نہیں ہے لیکن ایسے وقت میں جب یہ طریقہ مؤثر ثابت ہو رہا ہو، اسی کو مستحکم کرنے کی ضرورت ہے۔  ماضی میں کبھی ایسا نہیں ہوا جب بیک وقت اتنے سارے ادیب، جن کا تعلق مختلف زبانوں اور علاقوں سے ہو،  فکری یک جہتی کے مظاہرے اور ملک کی گنگا جمنی تہذیب کے تحفظ کے مقصد سے ہم صف ہوئے ہوں تاکہ بھگوائیت کے اُس سیلاب کو روکیں جس کی اگلی منزل فسطائیت کی سونامی کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوسکتی۔  یہ وہ ادیب ہیں جن کے ضمیر زندہ ہیں، جو انسانیت کا درد محسوس کرتے ہیں، جو ادبی اتحاد کے ذریعہ قومی اتحاد کو بچانا چاہتے ہیں، جو باطل پر حق، جھوٹ پر سچ اور بے ضمیری پر ضمیر کی بالادستی پر قلم ہی نہیں چلاتے، ان صفات سے متصف ہوکر عملی جولان گاہوں میں خود کو ثابت بھی کرتے ہیں۔  راقم یہ ہرگز نہیں کہتا کہ حددرجہ مادیت اور صارفیت نے  بہت سے ادیبوں کومصلحت اندیش نہیں بنا دیا ہے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا لیکن اول تو سارے ادیب ایسے نہیں، دوئم یہ کہ مصلحت کوشی کے باوجود بعض حالات میں ادیبوں کو  انعام سے زیادہ وہ اطمینان درکار ہوتا ہے جو ضمیر کی آواز پر لبیک کہنے ہی سے حاصل ہو سکتا ہے۔  لیکن، اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ ہم ہر اُس ادیب سے، جو ایوارڈ لوٹانے کے طریق احتجاج سے متفق نہ ہو، بالکل اُسی طرح ضمیر کا سرٹیفکیٹ مانگنے لگیں جس طرح مسلمانوں سے حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ مانگا جاتا ہے۔
یہاں ایک بات اور صاف ہوجانی چاہئے۔ چونکہ کلبرگی قتل اور اس کے بعد سانحۂ دادری سے دل برداشتہ ادیبوں کے پاس ساہتیہ اکادیمی کا ایوارڈ تھا جسے لوٹا کر وہ اپنے غم و غصے اور بے چینی کا اظہار کرسکتے تھے اسلئے اُنہوں نے ساہتیہ اکادیمی ایوارڈ لوٹا دیا، اگر اُن کے پاس کوئی اور ایوارڈ ہوتا بالخصوص براہ راست حاصل ہونے والا سرکاری ایوارڈ تو وہ اُسی کو یا اُسے بھی لوٹاتے۔ آپ نے دیکھا کہ بعض فنکاروں نے اپنا پدم شری لوٹانے کا بھی اعلان کیا اور بعض نے ریاستی اُردو اکیڈمی کا ایوارڈ لوٹایا۔ کہنے کا مطلب یہ کہ ادیبوں کا غصہ اُن اداروں کے خلاف نہیں جہاں سے اُنہیں ایوارڈ ملا۔ اُن کا غصہ ملک کے مخدوش حالات اور اُس حکومت کے خلاف ہے جو خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ ساہتیہ اکیڈمی نے جمعہ ۲۳؍ اکتوبر کو اپنی ہنگامی میٹنگ میں کلبرگی کے قتل کی مذمت کی، ادیبوں سے ایوارڈ دوبارہ قبول کرلینے کی اپیل کی اور یہ اشارہ دیا کہ ادیبوں کے احساسات و جذبات سے حکومت کو باخبر کرایا جائیگا۔ ہرچند کہ ساہتیہ اکیڈمی نے قرارداد منظور کرنے میں تاخیر سے کام لینے کے باوجود کوئی ٹھوس مؤقف اختیار نہیں کیا لیکن چونکہ ادیبوں کا غصہ حکومت کے خلاف ہے اس لئے حکومت کی یقین دہانی سے قبل مشکل ہی ہے کہ ادباء محض ساہتیہ اکادیمی کی قرارداد سے مطمئن ہوجائیں۔
ایوارڈ واپسی کے سلسلے کی ایک کڑی اُردو کے مشہور شاعر منور رانا بھی ہیں جنہوں نے پہلے تو ایوارڈ لوٹانے والوں کی مذمت کی (اُن کا بیان تھا کہ تھکے ہوئے رائٹر ایوارڈ لوٹا رہے ہیں)، پھر  یہ کہتے ہوئے خود بھی ایوارڈ واپس کردیا کہ آئندہ کوئی سرکاری انعام قبول نہیں کروں گا، پھر اچانک ایسے بیانات دینے لگے جن سے، اُن کے تعلق سے بدگمانیاں ہی پیدا ہوسکتی ہیں۔ سو شل میڈیا پر اُن کے خلاف جو کچھ بھی لکھا جارہا ہے وہ اُن کے بیانات کے خلاف عوام میں پھیلی بے چینی اور ناراضگی کا ثبوت ہی ہے۔ اِس کے باوجود راقم الحروف محسوس کرتا ہے کہ اس ایک واقعہ سے ادیبوں کی تحریک متاثر نہیں ہوگی بلکہ اُس وقت تک جاری رہے گی جب تک وہ ماحول تبدیل نہیں ہوتا جن سے ادیبوں میں اضطراب پیدا ہوا۔ اطلاعاً عرض ہے کہ جس وقت یہ سطریں لکھی جارہی ہیں، مراٹھی کے ۹؍ ادیب ریاستی حکومت کو اپنا ایوارڈ واپس کرنے منترالیہ پہنچے ہیں اور اس سے قبل ۱۰۰؍ سے زائد ادیبوں نے دہلی میں خاموش مارچ کیا ہے یعنی قلم اعلان کررہا ہے کہ وہ شاہِ جہاں ہے! 

No comments: