To View This Blog in Nastaliq Script Download Faiz Nastaliq Unicode Font

Download Faiz Nastaliq Unicode Font from http://www.faiznastaliq.com/faiznastaliq.zip unzip & install it to your windows/font directory

Sunday, August 7, 2011



Miswak: The Key to Health

Dr. Rehan Ansari
مسواک دنیا بھر میں مسلمانوں کی شانِ امتیاز سمجھی جاتی ہے۔طلوعِ اسلام کے ساتھ ہی مسواک کا بھی تعلق ہے۔ اس سے قبل انسانی دنیا کی تاریخ میں اس پیمانے پر مسواک کے استعمال کا کوئی حکم ملتا ہے اور نہ تذکرہ و تفصیل ہی پائی جاتی ہے۔ یہ عمل اور اس کا حکم بھی صرف حضورِ اقدسؐ کی سنت سے منسوب ہے۔ یہاں یہ مغالطہ نہیں ہونا چاہیے کہ یہ آپؐ سے قبل دریافت نہیں ہوئی تھی یا استعمال نہیں کی جاتی تھی۔ البتہ اس کا باقاعدہ سماجی استعمال نہیں کیا جاتا تھا؛ کیونکہ اس کے اصلی فوائد سے دنیا آپؐ کے حکم کے بعد ہی متعارف ہوئی ہے۔ پہلے کی دنیا میں مشرقِ وسطیٰ سے لے کر جنوب ایشیاء اور جنوب مشرقی ایشیاء تک کے خطے میں اسے محض ’’چبانے والی لکڑی‘‘ کی حیثیت سے جانا جاتا تھا۔ مالے (ملیشیائی) زبان میں اسے  'Kayu Sugi' کہتے ہیں یعنی چبانے والی لکڑی۔
اس سے قبل دنیا بھر کے جدا جدا تمدن میں دانتوں یا منہ کی صفائی کے لیے طرح طرح کے طریقے اپنائے جاتے تھے۔ مسواک سے جانکاری حاصل ہوئی تو اسے ’’نیچرل ٹوتھ برش‘‘ کہا جانے لگا۔ وسیع تر دنیا میں دانتوں اور مسوڑھوں کی حفاظت کے لیے کچھ سنون (منجن) کے نسخے اور کیمیائی وسیلے استعمال کیے جانے لگے اور اس طرح جدید زمانے کا ٹوتھ برش اور ٹوتھ پاؤڈر یا ٹوتھ پیسٹ بنائے گئے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ طبعی (نیچرل) ٹوتھ برش اور جدید ٹوتھ برش میں کیا کوئی برتری کا مقابلہ بھی ہے؟ اس مضمون کے آخری حصے میں اس کا خلاصہ کیا جائے گا۔
تسمیہ
سِواک‘ عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی خصوصی طور سے ’’دانتوں کو رگڑنے اور صاف کرنے کے ہیں‘‘ اسی کی مناسبت سے ’’اَراک‘‘ نامی پیڑ، جسے ہمارے یہاں ’’پیلو‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، کی اس شاخ کے ٹکڑے کو ’مسواک‘ کہتے ہیں جسے بغرضِ سواک استعمال کیا جاتا ہے۔ اس پیڑ کا نباتیاتی نام Salvadora persica  (سیلواڈورا پرسیکا)ہے۔ یہ پیڑ شہر مکہ اور اس کے نواح کے علاوہ پورے مشرقِ وسطیٰ کی پیداوار ہے۔


Salvadora persica : The Miswak Tree
ضرورتِ مسواک
ہمارے جسم کی توانائی کا پورا انحصار غذا کے استعمال پر ہوتا ہے اور اس کے لیے منہ سب سے پہلی منزل ہے۔ غذا کا جزوِ بدن بننے کا اوّلین مرحلہ یہیں انجام پاتا ہے۔ اس عمل میں سب سے کلیدی رول دانتوں کا ہوتا ہے پھر زبان کے علاوہ منہ کے دوسرے اعضا بھی غذا کو نظامِ ہضم کے حوالے کرنے میں حصہ لیتے ہیں۔ اس پورے عمل کے دوران دانتوں کی درازوں اور مسوڑھوں کے ابھاروں نیز زبان کے اوپر بھی غذا کا کچھ (نرم اور ریشہ دار) حصہ پھنسا رہ جاتا ہے یا پھر اس کی تہہ جم جاتی ہے۔ ان تمام غذائی اجزا کو صحیح انداز سے صاف کرکے نکالنا بہت لازم ہے ورنہ یہ اجزاء وہیں پڑے رہ کر سڑنے لگتے ہیں اور ان میں جراثیم کی وجہ سے تیزابیت اور صحت کو خراب کرنے والے اجزاء پیدا ہو جاتے ہیں۔ یہ دانتوں کو اور مسوڑھوں کو خراب کر دیتے ہیں۔ حتیٰ کہ دانت قبل از وقت ہی آدمی کو داغِ مفارقت دے جاتے ہیں۔ مسوڑھوں میں پیپ پڑ جاتی ہے اور ’’پایوریا‘‘ Pyorrhoaea جیسا مکروہ و تکلیف دہ مرض لاحق ہو جاتا ہے یعنی مسوڑھوں سے پیپ رِستا رہتا ہے اور منہ پورا متعفن ہوتا ہے۔
ذرا تصور کیجیے کہ اس طرح کے متعدد حالات اور امراض منہ کے اندر رہیں گے تو بھلا کیسے صحت کی ضمانے دی جا سکے گی؟ یہی ساری گندگیاں پیٹ میں غذا کے ساتھ اتر جائیں گی اور پھر پیٹ میں نئے نئے امراض کا موجب بنیں گی۔اسی لیے دانتوں، مسوڑھوں، زبان اور منہ کے دیگر تمام اندرونی متعلقات کی خاطر خواہ صفائی ضروری کام ہے اور یہ کام نئے دور میں سیکڑوں قسم کے ٹوتھ پیسٹ اور ہزاروں ماڈل کے ٹوتھ برش کے ذریعہ انجام دیا جارہا ہے۔ پھر بھی کسی کو مکمل اطمینان حاصل نہیں ہوتا۔ اور وہ رہ رہ کر اپنا ٹوتھ پیسٹ یا پاؤڈر کا برانڈ کبھی بدلتا ہے تو کبھی ٹوتھ برش کی ساخت و ماڈل کو تبدیل کرنا مناسب خیال کرتا ہے۔ اسی کے مقابل میں مسواک جیسی فطری و طبعی شئے ہے جس کا استعمال و افادیت ہمیشہ وسعت سے دوچار ہے۔ اسی لیے یہ کہنا بالکل درست ہے کہ مسواک صحت کی کلید (کنجی) ہے۔
جہاں تک مذہبی رخ سے دیکھنے کا تعلق ہے تو پیغمبرِ آخرالزماں اور خیرالبشر نبیِ مکرم محمد مصطفےٰؐ  نے اس کے احکامات اتنے پیارے انداز اور اتنی حکمتوں سے دئیے ہیں کہ بزبانِ شاعر ’’نہ چاہنے والا بھی اِک بار بڑھ کے پی جائے‘‘۔ حسنِ ترغیب کا یہ پہلو تو لاثانی ہے کہ ’’اگر میری اُمت پر شاق نہ ہوتا تو میں ہر نماز کے وقت مسواک کرنے کا حکم دیتا‘‘۔ اس کے علاوہ بھی متعدد صحیح احادیث میں مسواک کے استعمال کو عادت بنا لینے کی بابت تواتر سے احکام دیئے ہیں جیسے جب آپ اپنے گھر یا کسی کے گھر میں داخل ہوں تو اس سے قبل مسواک کرلیا کریں، سفر شروع کرنے سے قبل یا اس کے خاتمے پر مسواک کیا کریں، جمعہ کو مسواک کیا کریں، سونے سے قبل اور جاگنے کے بعد مسواک کر لینا چاہیے، بھوک یا پیاس محسوس ہو تو مسواک کرنا چاہیے، یا کسی بھی تقریب یا مجلس میں شمولیت سے پہلے مسواک کرنا اچھی بات ہے۔
حضرت علی مرتضیٰؓ سے منقول ہے کہ ’’مسواک حافظہ بڑھاتی ہے اور رب کی خوشنودی کے حصول کا ذریعہ ہے‘‘۔ ان احادیث و اقوال کی تشریح میں جائیں تو دورِ حاضر میں کی جانے والی تمام تحقیقات دلیل کے طور پر پیش کی جاتی ہیں کہ انسانی صحت کا دارومدار طہارت و پاکیزگی پر ہے جبکہ ان کا حصول منہ اور دانتوں کی صفائی کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے اور طہارت تو نصف ایمان ہے۔
ہمارے ملک و معاشرے میں برائے مسواک پیلو کی شاخ کا ٹکڑا یا پھر نیم کی شاخ کا ٹکڑا مستعمل ہے۔ نیم کے تعلق سے تو پورا ایک علیحدہ مضمون درکار ہوگا البتہ ایک مشہور قول ہے کہ ’’نیم، سب سے بڑا حکیم‘‘ جو سب کچھ کہہ جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی دنیا بھر میں تقریباً سترہ ایسے پیڑ ہیں جن کی شاخوں سے مسواک کا کام لیا جاتا ہے۔ ان سب میں فوقیت پیلو کی مسواک کو ہی حاصل ہے اور اس کا سبب یہ بھی ہے کہ پیلو کی مسواک ہی اصل حکم میں شامل ہے۔ دوسرے تمام پیڑ کسی نہ کسی طرح دوسرے استعمالات میں بھی آتے ہیں مگر پیلو کی شاخ مسواک محض ہے۔
آئیے اب ہم سائنسی تحقیقات کی روشنی میں مسواک یا خشبِ اَراک یا کہیے پیلو کی لکڑی کے ان طبی فوائد پر نظر کریں کہ جو اس مضمون کا اصل منشا ہے۔
جدید تحقیقات
WHO(عالمی تنظیم برائے صحت) نے ۱۹۸۶؁ء میں مسواک کا استعمال اختیار کرنے کا مشورہ دیا۔ ۲۰۰۰؁ء میں ایک تحقیقی رپورٹ پیش کی گئی جس میں مسواک کا کیمیاوی تجزیہ کرنے پر زور دیا گیا۔ ۲۰۰۳؁ء کی تحقیقات کی روشنی میں یہ بات ثابت ہوئی کہ مسواک کا استعمال کرنے والوں کی دہنی (Oral) صحت مصنوعی برش کا استعمال کرنے والوں کے مقابلے میں زیادہ بہتر نتائج کی حامل تھی۔ یہ بات بھی ڈاکٹر عتیبی
Al-Otaibi M اور ڈاکٹر رامی محمد ثیابی Dr. Rami Mohammed Diabi کی سترہ برسوں کی تحقیقات سے سامنے آئی کہ مسواک کا استعمال کرنے والوں کے جسم میں قوتِ مدافعت زیادہ افزوں تھی نیز مختلف قسم کے نشوں کی عادت بھی چھڑانے میں مسواک مددگار ثابت ہوئی تھی۔
مسواک کے اندر پائے جانے والے کیمیائی اجزا کے اثرات کا موازنہ جدید ترین دافعِ تعفن ادویہ جیسے Ticlosan, Chlorhexidine سے بھی کیا گیا تو معلوم ہوا کہ مسواک ان دواؤں کے مانند ہی منہ کو تعفن سے محفوظ رکھتی ہے اور دانتوں پر جمنے والے سخت میل (پلاق Plaque ) کو ختم اور نابود کرتی ہے۔ مسواک مسوڑھوں پر ہلکی مالش (دلک) کے ذریعہ انھیں مضبوط بناتی ہے اور دانتوں کو سڑنے سے بچاتی ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ پہلے سے خراب دانتوں کی خرابی کو محدود کر کے انھیں مزید خراب ہونے سے محفوظ کرتی ہے۔ منہ سے بدبو کو زائل کر کے ایک خوشگوار احساس و ذائقہ بھر دیتی ہے، دانتوں کو چمک اور رونق دیتی ہے۔
مسواک کے ریشوں میں سیلولوز کافی مقدار میں ہوتا ہے اور وہ کچھ اس نوعیت کے ہوتے ہیں کہ وہ کتنا بھی دباؤ پڑے جلدی ٹوٹتے نہیں ہیں اور اتنے لچکدار ہوتے ہیں کہ کسی بھی انداز کی دراز یا کونا ہو اس میں سرایت کرسکتے ہیں، علاوہ ازیں ان ریشوں میں باریک باریک نلکی نما خلا بھی موجود ہوتے ہیں جو دباؤ کے زیرِ اثر Capillary Action کی مانند کام کرتے ہیں اور دانتوں کے درمیان پائے جانے والے مضر اجزاء اور بیکٹیریا کو اپنے اندر چوس کر گرفتار کر لیتے ہیں۔  یہ بیکٹیریا اگر ختم نہیں ہوتے تو ایسے انزائم پیدا کرتے ہیں جو دانتوں کا انیمل (Enamel)  خراب کر دیتے ہیں اور کیلشیم تباہ کردیتے ہیں۔ اس طرح دانتوں میں سوراخ اور گڑھے پیدا ہو جاتے ہیں۔ان میں بدبودار اجزا اور گیس کی پیدائش ہونے لگتی ہے۔
کیمیائی اجزاء
مسواک کے اندر جو کیمیائی اجزاء اور معدن دریافت کیے گئے ہیں ان میں ’ٹرائی میتھائیل امائن‘ (Trimethylamaine)، ایک الکلائیڈ ’سیلواڈورین‘ Salvadorine، پوٹاشیم کلورائیڈ، کافی مقدار میں فلورائیڈ اور سلیکاilica، سلفر (گندھک)، وِٹامن سی، صابنی جز ’سیپونِن‘aponin، اور سوڈیم بائی کاربونیٹ، کیلشیم آکسائیڈ،   Flavenoid، اور Sterol موجود ہوتے ہیں۔ ان میں سے اکثر جراثیم کش خصوصیات رکھتے ہیں، مجفف (رگوں کو سکیڑنے والی) ہوتے ہیں جن کی وجہ سے مسوڑھے پلپلے نہیں ہو پاتے، ان سے خون جاری ہونے کا امکان نہیں ہوتا اور مضبوط ہوتے ہیں، یہ پلاق (سخت میل) کی پیدائش کو بھی روکتے ہیں۔ دانتوں میں زُودحسیّت (Hypersensitivity) پیدا نہیں ہو پاتی جسے عام زبان میں ’’دانتوں میں پانی لگنا‘‘ کہتے ہیں۔ ایک خوشگوار بو رکھنے والا فراری روغن (Essential oil) بھی ہوتا ہے جس سے منہ اور سانس میں بدبو زائل ہوتی ہے اور تازگی کا احساس ملتا ہے۔
نقلی دانتوں اور اشیاء کا استعمال کرنے والے گروپوں پر بھی مسواک کا تجربہ کیا گیا تو نتائج مسواک کے حق میں زیادہ نکلے۔ ان مریضوں میں مسوڑھوں کی حفظِ صحت کے علاوہ نقلی دانتوں کی صفائی کی وجہ سے ان پر اُگنے والی کائی اور جراثیم کی پیدائش کے لیے مانع پائی گئی۔ اس طرح نسبتاً زیادہ بہتر نتائج نکلے۔


Miswak is sold loose and in branded packs too
مسواک کے تعلقات سے ہدایات:
مسواک کی لمبائی بیش و کم ایک بالشت کی ہونی چاہیے۔ اس کی موٹائی ہاتھ کی چھوٹی انگلی جتنی مناسب ہوتی ہے۔
مسواک کو داہنے ہاتھ سے اس طرح پکڑیں کہ چھوٹی انگلی کو مسواک کے نیچے اور انگوٹھے کو مسواک کے سرے کے بازو اور نیچے اور بقیہ تینوں انگلیوں کو مسواک کے اوپر ٹکائیں۔
مسواک کے سرے کو بھگو کر اور چبا کر برش کی مانند کر لیں۔
پہلے دائیں جانب کے اوپری ڈاڑھوں کو صاف کرنے کے لیے داخل کریں اور اوپر نیچے حرکت دے کر ہلکے ہلکے رگڑیں۔ اس طرح بتدریج سامنے کے دانتوں تک لائیں، اس کے بعد نیچے سمنے والے دانتوں کو اسی انداز میں رگڑتے ہوئے اندر کی جانب لوٹیں اور نیچے کی آخری ڈاڑھ تک جائیں۔
اسی طرح کا عمل بائیں جانب بھی کریں اور ہر مرتبہ کم از کم تین مرتبہ ایسا کریں۔
دانتوں کو افقی (آڑے) انداز میں صاف مت کیا کریں کہ اس سے مسوڑھوں کے زخمی ہوجانے کا اندیشہ ہوتا ہے۔
استعمال کے بعد مسواک کو پانی سے اچھی طرح دھو کر صاف کرلین اور کھڑا کر کے رکھیں جس میں برش والا سرا اوپر رہے۔
اگر مسواک سوکھ گئی ہو تو اسے پہلے پانی سے یا گلاب پانی سے تر کرلینا چاہیے۔ اگر یہ دستیاب نہ ہو تو منہ کا لعاب بھی کافی ہوتا ہے۔
اپنی زیرِ استعمال مسواک دوسروں کو استعمال کرنے نہ دیں۔ اور دوسروں کے سامنے بھی مسواک کرنے سے گریز کرنا چاہیے تاکہ دوسروں کو کسی قسم کی کراہت اور ناگواری کا احساس نہ ہو۔
جدید ٹوتھ برش بمقابلہ مسواک:
٭مسواک کو وسیع تر پیمانے پر سماج میں دانتوں کی حفظِ صحت کے لیے جاری کیا جانا ٹوتھ برشنگ سے زیادہ آسان ہے۔ ٭ ٹوتھ برش کے ساتھ ٹوتھ پیسٹ/پاؤڈر لازمی شئے ہے اس کے برخلاف مسواک تنہا کافی ہے۔ ٭جدید ٹوتھ پیسٹ یا پاؤڈر میں اتنے کیمیائی اجزاء کی شمولیت نہیں ہوتی جتنے مسواک میں ہیں اور اگر کسی کمپنی نے کی بھی تو وہ خاصا مہنگا ثابت ہوگا۔ ٭ مسواک کودن میں کئی مرتبہ استعمال کرنا بالکل سہل ہے اور اسے جیب میں بھی رکھا جا سکتا ہے۔ ٭ ٹوتھ برش کی جڑوں میں جراثیم کا پلنا بڑھنا کافی آسان ہوتا ہے اور عموماً برش کی برسٹلس (ریشوں) کی جڑوں میں گندگی جمع ہو ہی جاتی ہے جسے بارہا کوشش کے باوجود مکمل صاف نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے برخلاف مسواک کے ریشوں میں ایسی گندگی جمع ہونے کا امکان نہیں ہوتا بلکہ اسے فوراً کاٹ کر پھینکا جا سکتا ہے اور بار بار اسے نیا بنایا جا سکتا ہے۔ ٭ٹوتھ برش وغیرہ خراب ہونے کے بعد ضائع کرنا ایک ماحولیاتی مسئلہ ہے جبکہ مسواک کے طبعی ریشے ضائع کرنے کے بعد خود بخود مٹی بن جاتے ہیں۔ اس طرح مسواک کو ماحولیات کی آلودگی مٹانے میں معاون  اور Bio-friendlyسمجھا جائے تو مبالغہ نہیں ہوگا۔


3 comments:

Hamid Iqbal Siddiqui said...

ye bohot maloomati mazmoon hai, aap badi mehnat karte hain. Allah qubool farmae

Dr Rehan Ansari said...

Ameen wa JazakAllah

waheedontour said...

aaj dauran-e-safar "shagufa" mein aap ke blog ke bare mein padha aur ghar pahunchte hi internet par aapke blog padhe. mashallah bahut khub hain. ek hi nashist mein bahut sare post padh dale. bahut umda tariqe se mazameen tarteeb diye jaate hain. Aapko bahut mubarakbad. Inshallah ab to "Dareecha" ko pabandi se padhane ki koshish karonga. nek khwahishat ke saath. S. A. Waheed, NAGPUR