To View This Blog in Nastaliq Script Download Faiz Nastaliq Unicode Font

Download Faiz Nastaliq Unicode Font from http://www.faiznastaliq.com/faiznastaliq.zip unzip & install it to your windows/font directory

Wednesday, August 10, 2011



What an Independance
Abuse One Day and Applaud 364
Dr. Rehan Ansari
۱۵ اگست کا دن عیدالوطن ہے، ہم نے برطانوی ظلم و استبداد سے اسی روز نجات حاصل کی تھی۔ اسی لیے ہم سب اس دن کو خصوصی اہتمام کے ساتھ مناتے ہیں اور اسے ’’یومِ آزادی‘‘ کہتے ہیں۔
ہوش سنبھالنے کے بعد ہمیں جب میونسپل پرائمری اسکول میں داخل کروایا گیا تھا تو سب سے پہلے ہمیں گاندھی جی والا ’’عہد‘‘ اور راشٹریہ گیت ’’جن گن من...‘‘ رٹایا گیا تھا جسے ہم معمول کے ساتھ پڑھا کرتے تھے البتہ ان کے معانی و مطالب سے ہمیں کوئی علاقہ نہیں تھا۔ جس نغمہ نے سب سے پہلے شعوری طور پر ہمیں حب الوطنی سے آشنا کیا تھا وہ کوئی اور نہیں بلکہ ’’سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا‘‘ ہی تھا۔اس وقت ہم چوتھے درجہ میں پڑھ رہے تھے اور یومِ آزادی کی مناسبت سے ہمیں اپنی جماعت میں اسے پیش کرنے کے لیے یاد کروایا گیا تھا۔ وہ دن اور آج کا دن، ہنوز اس سے زیادہ پیارا کوئی اور نغمہ دل و ذہن کو نہیں محسوس ہو پایا۔
اونچے درجہ میں پڑھائی کے لیے ہمیں رئیس ہائی اسکول میں داخل کروایا گیا تو وہاں سے تاریخِ ہند سے بھی درجہ بہ درجہ آشنائی ہونی شروع ہوئی۔ ابتدا میں وادئ سندھ اور آریائی عہد، موریہ عہد، اشوک عہد اور پھر مغلوں کے دور تک ہمارے ملک میں جس قسم کی (متعدد و مختلف) چھوٹی موٹی سیاسی جنگیں لڑی جاتی رہیں وہ اکثر اقتدار کے حصول کی خاطر صرف حکمرانوں اور ان کی فوجوں کے مابین ہی رہیں۔ استثنائی معاملات سے اعراض کریں تو ہمیں معلوم ہو جاتا ہے کہ کسی راجہ، نواب، بادشاہ، چھترپتی یا راج گھرانے نے پوری ہندوستانی تاریخ میں اپنی پرجا (عوام) کے ساتھ عمومی ظلم و بربریت اور استحصال و ناانصافی کا کبھی کوئی باب نہیں لکھا۔ کہیں سے کوئی مستند ثبوت نہیں ملتا۔ لیکن انگریزوں نے اس ملک کو مجموعی طور سے لوٹا اور اپنے مفاد کے لیے عام ہندوستانی عوام پر ظلم و استبداد کی وہ داستانیں رقم کیں کہ ہر انصاف پسند ان سے پناہ مانگتا ہے۔ یہ خلاصہ ہے ہماری پڑھی ہوئی تاریخ کا۔ یہیں آزادی کے معنی بھی پیدا ہوتے ہیں۔
جب ہمارا تعلق بیرونی دنیا سے ہوا تو یہاں جھوٹ اور سچ کے ایک بڑے پٹارے سے سابقہ پڑا جسے اردو والے پہلے ذرائع ابلاغ کہتے تھے مگر اب نئی اصطلاح میں سب کے ساتھ یہ بھی ’’میڈیا‘‘ Media کہتے ہیں۔
میڈیا نے اس تاریخ کے چند ابواب پر جھوٹ کا ایسا ملمع چڑھایا کہ ہمارے دماغ کے چودہ طبق روشن ہوگئے۔ جن حکمرانوں نے اپنی اور اپنی نسلوں کو اس ملک کی خاک کا حصہ کردیا، اپنی صلاحیتیں اور اپنا سب کچھ اسی ملک کے حوالے کیا انھیں غاصب، ظالم اور جانے کیا کیا القاب دئیے اور جن انگریزوں نے اسی میڈیا کے مطلبی آبا و اجداد کو خطابات اور نوازشوں کے لالی پاپ دئیے اور عام ہندوستانیوں پر ظلم کی سیاہ راتیں طویل تر کر دیں انھیں یہ میڈیا ایک دن یعنی یومِ آزادی کی روایت کے تحت گالی دیتا ہے اور باقی دن ان کی داد و تحسین میں تالیا ں بجاتے ہوئے نہیں تھکتا۔


اب سے چوسٹھ (64) برس قبل اسی دن ہمارا ملک آزاد ہوا تھا۔ اس سے قبل پوری ساڑھے تین صدیوں (350 years) تک اس ملک کی شہ رگ پر انگریزی دانت گڑے رہے اور مسلسل اس کا لہو چوستے رہے۔ ان ساڑھے تین صدیوں میں ہمارے بزرگوں کی کئی بڑی اور چھوٹی جماعتوں نے زبردست مزاحمت کی لیکن جنگی و جدلیاتی تکنیک کی کمزوری نے ہمیشہ انھیں شکست سے دوچار کیا۔ محدود تعلیم اور زمانے نے ان کا جغرافیہ صرف خشکی تک محدود رکھا تھا جبکہ دشمن خشکی، آبی اور ہوائی وسائل کا بھرپور استعمال کرنے کی صلاحیت اور تکنیک سے لیس تھا اس لیے رہ رہ کر وہ حاوی ہوتا رہا۔ انجام کار ابتدائی مزاحمتوں کو اس عیار دشمن نے ناکام بغاوتوں کا عنوان دے کر تحریکِ آزادی کے باب سے اٹھا کر الگ کردیا۔ اسی میڈیا کے حوالے سے ہم سب بھی ابتدائی جنگِ آزادی کو بغاوت ہی سمجھتے آئے ہیں۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ بعد میں ہمارے ’’کالے انگریزوں‘‘ نے بھی اپنے گورے آقاؤں سے پوری وفاداری کا ثبوت دیتے ہوئے اسے میڈیا سے حاصل کرکے نصابی کتابوں میں ایسے ہی رکھ دیا۔ اس کا سبب شاید یہ ہے کہ تین سو سال کی اس مزاحمت میں چند ایک واقعات ہی استثنائی ہیں وگرنہ کلی طور پر یہ ’’بغاوتیں‘‘ مسلمانوں سے عبارت ہیں۔ اگر یہ بغاوتیں ہی تسلیم کی جائیں تب بھی ان میں موجود حرارتِ حریت کو کیوں محسوس نہیں کیا جاتا۔ یہ حرارت انگریزی استبداد کے خلاف ہی تو تھی۔ وہ انگریزی استبداد جو عام ہندوستانیوں کی گھریلو اور چھوٹی موٹی صنعتوں کا گلا دبائے جارہا تھا، ان کی روزمرہ کی معیشت کو کچلے جارہا تھا، ان کی زمینوں اور دوسری املاک پر لگان کی صورت میں تیزاب چھڑک رہا تھا۔ کیوں ہم سب تین صدیوں کے بعد چلائی جانے والی (مصنوعی) صرف کانگریسی تحریک کو ہی آزادی کی تحریک مانتے چلے آرہے ہیں؟
The Lahore Train 1947
 کیا گاندھی جی کے فلسفۂ عدم تشدد سے یہ مسلح انگریز اتنے خوفزدہ ہو چکے تھے کہ وہ شکست کھا کر چل دئیے؟ نہیں حقائق کچھ اور ہیں اور گاندھی جی اینڈ کمپنی کو انگریزوں نے جس طرح عام ہندوستانیوں کو جل دینے کے لیے خوبی کے ساتھ استعمال کیا وہ ایک تحقیق طلب موضوع ہے۔ تاریخ کے اوراق میں اس کے بڑے شواہد مل جائیں گے۔ اس موضوع کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر ۱۹۳۵؁ء میں دوسری عالمی جنگ نہ چھڑی ہوتی اور اس میں برطانوی فوجوں کی اضافی کمک کی ضرورت نہیں ہوتی تو انگریز ہندوستان کو کبھی نہیں چھوڑتے۔ وہ خود کو بھگوڑا ثابت نہیں کرنا چاہتے تھے اس لیے گاندھی جی اینڈ کمپنی کو سامنے کرکے بڑی خوبیوں اور چالبازیوں کے ساتھ ان برسوں میں استعمال کیا اور ساتھ ہی ساتھ ہندوستانیوں کے دلوں کو مذہبی تعصب سے بھر دیا، نتیجہ کے طور پر ہندوستانی پچھڑی، نچلی، اور مذہبی ذات برادریوں میں وسیع پیمانے پر انھی کے دور میں تقسیم ہو گئے۔ یہ تقسیم ہنوز قائم ہی نہیں ہے بلکہ مزید مستحکم ہوتی جارہی ہے۔ یہ کام بھی وہی کالے انگریز کیے جارہے ہیں جن کا شیوہ ہے ایک دن انگریزوں کو گالی دینا اور باقی دن تالیاں بجانا۔ جاتے جاتے ان انگریزوں نے یہ تک کیا کہ ہم سگے بھائی بہنوں کو ایک دوسرے سے اس قدر متنفر کردیا کہ ان کے درمیان ایک جغرافیائی لکیر کھینچ گئے اور اس لکیر نے طرفین کو ایک دوسرے کا بے ثمر اور بانجھ دشمن بنا کر رکھ دیا۔ دونوں جانب اقتدار پر قابض ہونے والے افراد یا جماعتیں اس دشمنی کو موقع بے موقع بساطِ سیاست پر پیدل کی مانند خانے کے آگے اور پیچھے چلتے رہتے ہیں۔


Only 14 years later our so called freedom fighters
were seen welcoming the cruel English Queen! Where the
hatred towards English rulers rested? Astonishing
انگریزوں نے اس ملک کے ساتھ اور اس کی عوام کی نفسیات کے ساتھ کتنا اور کیسا گھناونا کھلواڑ کیا ہے اس کے لیے ایک چھوٹا سا مضمون ناکافی ہے۔  چند اشارے شاید تشفی کا سبب ہو سکتے ہیں اس لیے رقم کرتے ہیں۔ آپ اور ہم انگریزوں کی تعمیرکردہ جتنی بھی عمارتیں دیکھیں تو وہ انجینئرنگ کا ایک اعلیٰ نمونہ نظر آتی ہیں۔ یہ سبھی عمارتیں ’’ نوآبادیاتی کام کاج‘‘ کے لیے تعمیر کردہ ہیں۔ عوام کے فائدے یا تفریح کے لیے نہیں تھیں۔ اگر ہم اس دور کی مناسبت سے غور کریں تو یہ عمارتیں ہندوستانیوں کے مقابلے میں کسی قلعہ کی مانند تھیں۔ اس قلعہ کی تعمیر میں دماغ اور تکنیک انگریزوں کی تھی مگر مزدور اور خون بہانے والے نیز اس کی محافظت اور چوکیداری پر مامور لوگ ہمارے ہندوستانی عوام ہی تھے۔ یہ انگریز اتنے عیار تھے کہ تین سو برسوں سے زیادہ کی حکومت کے باوجود ہندوستانیوں کو جدید تعلیم و تکنیک سے آراستہ کرنے کی سہولیات یہاں نہیں رکھی تھی۔ ایک بھی کالج اس عرصہ میں انگریزوں نے ایسا تعمیر نہیں کیا جہاں عام ہندوستانیوں کو جدید تکنیک اور فنون سے آراستہ کرنے کی تربیت دی جاتی۔ ارے ایک بات بے موقع یاد آگئی کہ اومابھارتی میڈم نے کہا تھا کہ ’’بابری مسجد کلنک کا ٹیکہ تھی، اسے دیکھ کر غلامی کی یاد آتی تھی‘‘ ؛ اومامیڈم سے یہ ضرور پوچھنا چاہیے کہ آپ کو پارلیمنٹ ہاؤس، راشٹرپتی بھون، گیٹ وے آف انڈیا، انڈیا گیٹ، (نام کی تبدیلی کے باوجود) وی ٹی اسٹیشن، پرنس آف چارلس میوزیم اور اس طرح کی عمارتیں دیکھ کر کبھی کچھ یاد نہیں آتا۔
میڈیکل کالجوں اوراسپتالوں کی بنیاد بھی اپنے سپاہیوں اور انگریزی عملہ کی بہتری کے لیے اس وقت کی گئیں جب ایلوپیتھک دوائیں آنے لگیں اور بڑی چالاکی کے ساتھ سبھی ہندوستانی طبوں کا گلا کاٹ دیا گیا۔ انگریزوں کی روانگی کے وقت تک (غیر منقسم) ہندوستان میں کل ملا کر ۱۲۰۰ اسپتال اور ڈسپنسریاں تھیں۔ اوسطاً ۳۳۰ مربع میل کے لیے ایک اسپتال تھا۔
بیوروکریسی میں بابووں کی پیدائش بھی اسی سازش کا ایک حصہ ہے۔  ایڈمنسٹریشن والوں کو ہر میڈیا آج بھی ’’بابو لوگ‘‘ کہتا ہے اور بابو نگری کو Babudom، یہ برطانوی اثرات ہی کا ثمرہ ہے۔ یہ بابو لوگ آج تک اسی تعلیم کے زیرِ اثر کام کرتے ہیں جو انگریزوں نے جاری کی تھی۔ ہماری پارلیمنٹ کے سارے کام کاج اور اس کے انتخابات کا پورا نظام آج بھی اسی ڈگر پر چل رہا ہے جوانگریزوں کا پردان کیا ہوا ہے۔ عدالتی کارروائیاں بھی آج تک انھی اداکار و مستعار خطوط پر گامزن ہیں جو انگریزوں نے مرتب کیے تھے اور اس میں کتنے چھید موجود ہیں یہ تو ایک معمولی سا ہندوستانی بھی دیکھ لیتا ہے۔ انتظامی امور میں ہندوستانیوں کو شامل کرنے کے لیے انگریزوں نے انھیں ٹیبل اور کرسیاں عنایت کر دیں۔ انھیں بابو کا لقب عطا کیا۔ انھیں مخصوص انداز میں تعلیم دی اور ان کے ذہنوں میں سپریمسی  Supremacy کا احساس بھر دیا۔ اس طویل سازش کے لیے حوالے کے طور پر لارڈ میکالے کے ’’منٹ: Minute‘‘ فروری ۱۸۳۵؁ء، کا ایک اقتباس پیش کیا جاتا ہے جو ایک Hidden Agenda  ہے  اور تعلیمی اصلاحات کے نام سے دانستہ چالاکی کا مظہر ہے۔
Macaulay`s clarification: "We must do our best to form a class who may be interpreters between us and the millions whom we govern, a class of persons Indian in blood and color, but English in taste, in opinions, words and intellect."
 یہ اصل میں غلامی پسند طبیعت والے سماج کے اونچے طبقے (جنھیں انگریزی آفس کا پیون کہنا زیادہ مناسب لگتا ہے) کے لیے انگریزوں کی بہتر (غیرمزاحم) غلامی کا ہتھیار تھا جسے وہ باعزت منصب سمجھ کر انگریزوں کے ساتھ ہورہے۔ لارڈ میکالے نے خود اخیر سطروں میں انھیں ’’کالے انگریز‘‘ بنا دیا ہے۔


Even after only 60 years we show the similar
passion and preference as in pre-independance
towards the Enemy and Cruel English Rulers
انگریزوں کی غلامی کا ایک اور بڑا مظہر ہم ہندوستانیوں کی اپنے قومی کھیل یعنی ’’ہاکی‘‘ سے دور ہوجانا ہے اور ان کے کھیل ’’کرکٹ‘‘ پر دل و جان سے فدا ہوجانا ہے۔ آج ہاکی کا حال ہماری اپنی (اصلی ہندوستانی) زبان ’’اردو‘‘ سے بھی زیادہ پراگندہ اور ناقابلِ رفو ہو چکا ہے۔ اسی کے مانند اور بہت سی ہندوستانی قدروں اور فنون کا حال بھی برا ہوتا جارہا ہے اور مغربیت خصوصاً انگریزیت ہمارے تن بدن اور اعصاب و دماغ پر حاوی ہے۔ یہ انگریزیت کسی قدر امریکیت سے بھی مزین ہوتی جارہی ہے۔
جہاں تک ایک دن گالی اور باقی دن تالی والا معاملہ ہے اس کی ایک اور  مثال اکثر اپنا مکھڑا دکھاتی رہتی ہے۔وہ ہے برطانوی مہمانوں کے ساتھ ہمارا حسنِ سلوک۔ کوئی معمولی سا انگلستانی نمائندہ بھی حکومت کا مہمان ہو جائے تو اس کی آؤ بھگت میں شاہانہ انداز اختیار کیا جاتا ہے۔ اس سے ہنس ہنس کر ملا جاتا ہے، مسکراتے ہوئے تصویریں کھنچوائی جاتی ہیں گویا بڑے کرم فرما سے ملاقات ہوتی ہے اور پورے اہتمام کے ساتھ انھیں میڈیا کے ذریعہ نشر و اشاعت کے مراحل سے بھی گذارا جاتا ہے۔ اگر برطانوی شاہزادہ یا ملکہ قدم رنجہ فرمادیں تو مت پوچھیے کہ ہم غلامانِ انگریز ابھی تک ان کے لیے کیسے سرخ قالین بچھانے میں سر پر پیر رکھ لیتے ہیں۔ اس کے برعکس ہمارے پڑوسی ملک کے نمائندوں کے ساتھ تصویریں بالکل معاندانہ انداز میں ہی کھنچوائی جاتی ہیں، ان کے چہرے کا تاثر بھی من و عن ویسا ہی رہتا ہے جیسے اکھاڑے کے پہلوان آنکھیں ملاتے ہیں۔ جبکہ ہر دو جانب کسی نہ کسی درجہ میں خون کا رشتہ بنتا ہے۔


Our Sports, Art and Cultural people
They too abuse the English Rulers in general population
but try to be loyal when in The English Royal company
ایسی ہی اور جانے کتنی باتیں ہیں جو ’’گاہے گاہے بازخواں...‘‘ کی مانند سامنے آتی ہیں۔ ہم نئے ہندوستانیوں نے تحریکاتِ آزادی کا ساڑھے تین سو برسوں پر محیط خونبار اور پرآشوب دور نہ کبھی دیکھا ہے اور نہ اس کی حرارت ہی محسوس کی ہے ۔ لیکن اس روایت کو ضرور سنبھالے ہوئے چل رہے ہیں کہ انگریزوں کو سال کے ایک دن تو ضرور گالی دیجیے لیکن باقی دن ان کی داد و تحسین میں تالیاں بجا کر ’’آزادغلام‘‘ کا احساس دلا دیا کریں

Mr. Jinnah was also a loyal fellow of
the Britishers. This is the proof. TOI 15th Aug. 1947 front page

5 comments:

ZRA_RaisHSJC said...

Bohot khoob!
I appreciate.
Historical evidences referred here are also very appropriate.
Analogy of the status of Urdu with the deteriorating status of Hockey does not seem suitable.

Hamid Iqbal Siddiqui said...

Aap ne kamal kar diya!

nizam-momin said...

Dr. Sahab Waqayee behatreen article hai. Aisi sacchaayee likhne ki himmat kam log hi karte hain.

ChashmDeed said...

Mazmoon to achha hai hi....tasveeron ka intekhab aur caption lajawab hai....mubarak ho.....

Dr Rehan Ansari said...

Jazakumullah, Aap sabhi ka bahut shukriya hausla-afzai ke liye. I admit Zia Sir's comment for myself relating Urdu to Hockey. Thank you sir.