To View This Blog in Nastaliq Script Download Faiz Nastaliq Unicode Font

Download Faiz Nastaliq Unicode Font from http://www.faiznastaliq.com/faiznastaliq.zip unzip & install it to your windows/font directory

Sunday, January 6, 2013

If you are really proud of India
Dr. Rehan Ansari
دہلی ہنوز دہل رہی ہے۔ اس کے ساتھ ہی پورا ملک بھی دہل رہا ہے اور کہیں کہیں بیرونِ ملک بھی۔ جو کچھ ہوا وہ انتہائی برا تھا۔ بےحد شرمناک۔ اسی کے ساتھ یہ بھی بہت برا ہوا کہ ’ریپ‘ اور اس کے ہندوستانی مترادفات زنا، بلاتکار وغیرہ جیسے الفاظ، جن کے مفہوم کو ایک خاص عمر سے مناسبت ہے اُسے میڈیا کی مدد سے، گھر کا کم شعور بچہ بچہ بھی جاننے لگا ہے؛ ہو سکتا ہے بہت سے افراد ہماری اس رائے سے اتفاق نہ کریں۔ مگر ہم یہ خیال پیش کرتے ہوئے پوری طرح سنجیدہ ہیں۔ کیونکہ ایک بچہ جب اس لفظ کے سیاق و سباق کے تعلق سے سوال کرنے لگتا ہے تو ہمارے پیروں تلے تربیت کی زمین کھسکنے کا احساس ملتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ہم اس معاملے میں کمزور ہوں۔ مگر اس دیش میں ہم جیسے تو اور بھی والدین ہیں!
تو کیا احتجاج غلط ہورہا ہے؟... جی نہیں... یہ منشا ہی نہیں ہے... ہم تو اس احتجاج کے انجام کا غلط یا صحیح اندازہ لگانے کی کوشش کر رہے ہیں... اور ناکام ہیں!... البتہ پتہ نہیں کیوں احتجاج کی نوعیت و طوالت ہمیں کچھ سازشی سی لگتی ہے۔
آواز میں توانائی ہوتی ہے۔ جب بہت سی آوازیں ایک ساتھ کسی مقصد کے لیے اٹھائی جائیں تو اس توانائی میں کئی گنا اضافہ ہو جاتا ہے۔ اس احتجاج میں ہم نے یہ بھی مشاہدہ کیا۔ آواز کا اثر بھی دیکھا کہ اربابِ اقتدار خوفزدہ سے ہیں اور ’مون برت‘ رکھے ہوئے ہیں۔ چُپ کا روزہ!... عام آدمی جب چلّا چلّا کر نڈھال ہوچلا تو بڑی مشکل سے سونیا گاندھی کے منہ سے اتنا پھوٹا کہ ’’ہم نے آپ کی آواز سن لی ہے‘‘!
ہمیں مظلوم و مُثلہ اور مہلوک لڑکی کا گہرا صدمہ ہے۔ اس کے والدین نیز جملہ اہالیانِ خانہ سے بھی پوری ہمدردی ہے۔ میڈیا نے اس کا نام مخفی رکھ کر، اس کی تصویر بچا کر اور اس کے گھر کا اَتہ پتہ ظاہر نہ کرکے جس قدر پردہ داری کی ہے اس کے لیے اسے مبارکباد دیتے ہیں۔ میڈیا کے رویہ سے یہ بات اظہرمن الشمس ہوگئی کہ عورت کی عزت پردہ داری میں ہی محفوظ ہے۔ یہ آفاقی کلیہ ہے۔
خیر، انجام تو مبینہ زانیوں کا جو ہونا ہے اس کا ہم بھی آپ کی مانند انتظار کر رہے ہیں، کہ ہمارے اختیار میں یہی ہے... ہم بھی اپنا احتجاج درج کرتے ہیں کہ ان رذیلوں کو ایسی عبرتناک سزا ملنی چاہیے کہ پھر کوئی اس جرم کے ارتکاب کی ہمت نہ کرسکے۔
لیکن... زنا کا جرم تو انسانی تاریخ جتنا پرانا ہے... کیا دہلی کے مبینہ زانیوں کو سزا ملنے کے بعد ختم ہوجائے گا اس کا امکان؟... ہنسنا بھی محال ہے اور رونا بھی ضروری ہے۔ جن ملکوں میں اس جرم کے ارتکاب کی بھنک بھی نہیں لگ پاتی ہم نے سن رکھا ہے کہ وہاں بھی کسی نہ کسی طرح، چوری چھپے، ایک آدھ واردات ہو جاتی ہے۔ اور اگر پکڑے گئے تو سمجھو گئے کام سے۔ فوری طور پر۔ مگر ہمارے ملک میں ایسی وارداتوں کو روزانہ سیکڑوں اور ہزاروں (لاکھوں لکھنے میں احتیاط مانع ہے) کی تعداد میں انجام پانے کے باوجود ’زنا‘ کی تعریف سے دور رکھا جاتا ہے بلکہ اسے ’لیو اِن ریلیشن شپ‘ Live-in relationship بہ معنی ’ہم باش‘ جیسا خوش کن نام دیا گیا ہے۔ کیونکہ ہمارے ملک میں ابھی ’راضی بہ رضا‘ والے عمل کو زنا میں شامل کرنے سے کچھ لوگوں کو اعتراض ہے۔
اس کے علاوہ بھی بہت سی شکلوں میں ہمارے ملک میں زنا کا رواج ہے۔ پھر، اپنے ملک پر ہم جس قدر فخر کرتے ہیں اسی ملک میں ایسی پوری پوری بستیاں بسائی گئی ہیں جہاں زنا کرنے کے لیے کھلی چھوٹ میسر ہوتی ہے۔ احتجاج آمادہ جدید کلچر کے دلدادہ افراد سے ہم ایک سوال تو ضرور کریں گے کہ آپ کتنے فیصدی ’ستارہ برانڈ‘ ہوٹل یا غیرستارہ بردار گیسٹ ہاؤس اور ریسورٹ بتلا سکتے ہیں کہ جہاں کسی اجنبی بیسوا، داشتہ یا کسبی کے ساتھ شب بسری کی سہولیات بہم نہیں ملتیں؟ کس کی سرپرستی میں یہ سب ہوتا ہے؟ کیا حکومت کے علاوہ یا ہمارے قانون کے علاوہ کسی اور سے یہ آسانیاں ممکن ہیں؟ کیا یہ سب زنا اور بلاتکار یا ریپ نہیں ہیں؟ کیوں کبھی کوئی احتجاج اس کے خلاف نہیں ہوتا؟ یہاں ہم گجرات اور کشمیر میں حکومتی سرپرستی یا  پولیس اورفوجی استبداد میں عورتوں پر ہوئے جنسی مظالم پر اس لئے نہیں لکھ رہے ہیں کہ نہ حکومت کے کانوں میں یہ آواز اثر کرتی ہے اور نہ فوجی سربراہ سے کسی انصاف کی توقع رکھ سکتے ہیں.
حالیہ سنگین واردات کے بعد تحریکی، اخلاقی، قلمی، فلمی اور ہر طرح کے احتجاج میں عورتوں اور لڑکیوں کے ساتھ ملک کے ہر طبقہ کی اکثریت نے بجاطور سے ہمدردی کا اور فکر کا اظہار کیا ہے۔ زانیوں پر ہر جگہ تھوکا گیا ہے۔ لڑکی یا عورت ایک انسان کی ماں ہے۔ اس کا درجہ بہت بلند ہے۔ اس کے ناموس کی حفاظت سے مرد کا وقار بڑھتا ہے، رتبہ اور عزت بڑھتی ہے۔ سماج کا ناموس عظیم بنتا ہے۔ اس لیے انسان (بہ معنی مرد) کو اپنی حدود بھی جاننی چاہیے۔ اسے حیوان نہیں بننا چاہیے۔ وہ عورت کے ناموس کی جتنی حفاظت کرے گا اس کی عزت و وقار میں بھی اتنا ہی اضافہ ہوگا۔
سماج مرد اور عورت سے مکمل ہوتا ہے۔ اس گاڑی کا ایک پہیہ بھی بے قابو ہوا تو گاڑی کی چال میں یکسوئی نہیں ملے گی۔ ہمارا سماج کسی قدر بے سمت چل رہا ہے۔ یہ حقیقت ہے۔ اسے بے سمت کرنے میں مرد بھی برابر کے حصہ دار ہیں۔ جب سے مغربی کلچر کی یلغار ہوئی ہے، جنسی تمیز کو ہلکایا گیا ہے، تب سے لڑکیاں (اور بعض عورتیں بھی!) بہت بے باکی کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔ کالجوں اور عوامی راستوں یا پارکوں میں ان کی حرکت (اور ملبوس) پر جس کسی نے توجہ دلانے کی کوشش کی اسے لعن طعن اور بدزبانی سے نوازا گیا۔ اُس خیرخواہ کو بدخو اور بدطینت سمجھایا گیا۔ اس کے پیچھے لٹھ لے کر دوڑایا بھی گیا۔ حتیٰ کہ وہ حضرت یا خاتون نے گوشہ نشینی اختیار کرنے میں ہی اپنی عافیت جانی۔ جاری ایام میں بھی ایسا ہوا ۔
These should never be considered as bad dresses
because they are the attires of daily Indian life
زیرِ تبصرہ احتجاج میں ایسے مناظر اور واقعات بھی دیکھنے ، سننے اور پڑھنے کو ملے جہاں بہت سے احتجاجیوں نے سنجیدہ پیغامات دئیے اور پلےکارڈ نیز بینروں میں بھی اس کا اظہار کیا، وہیں کچھ ’جدیدلڑکیوں‘ کے گروہ نے حسبِ عادت ’’ کپڑے نہیں، سوچ بدلو/ نظر تیری بری، پردہ میں کروں؟/ میرا اسکرٹ نہیں تیرا بے قابو ہونا ذمہ دار ہے‘‘ وغیرہ جیسے پیغامات بھی دیئے۔ کیا معنی ہیں اس کے؟... ہمارا سوال یہ ہے کہ جنسی عمل کا محرک یا اس پر اکسانے والی کیا شئے ہوتی ہے؟ کیا بیٹھے بیٹھے مرد یا عورت کو جنسی بھوک یا شہوت جاگ جاتی ہے؟ کیا اس شہوت کی بیداری کو غلط جذبہ قرار دیا جاسکتا ہے؟ جی ہاں، غلط جگہ، غلط محرک اور غلط حرکت کو جائز نہیں کہا جاسکتا۔ بجلی کی رو اگر صحیح کنکشن میں دوڑتی ہے تو مسلسل فوائد حاصل ہوتے ہیں مگر یہی بجلی اگر غلط وائر اور غلط کنکشن میں داخل ہوجائے تو سوائے شارٹ سرکٹ اور نقصان کے کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ ’جدید لڑکیاں‘ یا جدید خیال والی عورتیں ہمیشہ غلط کنکشن کو ترغیب دیتی ہیں تو انجام کار انھیں نقصان تو اٹھانا ہی پڑ سکتا ہے۔ یہ کہنے یا لکھنے والے کو آپ کے لعن طعن خاموش تو کرسکتے ہیں اور وہ مصلحتاً خاموش بھی ہو جائے گا مگر آپ کا نقصان تو نوِشتۂ دیوار کی مانند صاف ہے۔ اپنے جسم کی نمائش کس لیے کرتی پھرتی ہیں آپ؟ کیا مردوں کو اعصابی آزمائش سے گذارنے کے لیے، ردّ عمل میں نقصان کون اٹھائے گا؟

Our institutes and paths are not backwards
Boys should never look with greed. But, be blind
معروضات اور بھی ہیں، ان کے دو دو پہلو بھی ہیں ، بات لمبی ہوجائے گی، غیر مختتم، مگر یہ بات کہ...احتجاج کے دوران عورتوں کے تحفظ کے لیے سخت قانون بنانے کا مطالبہ بھی شد و مد کے ساتھ کیا جارہا ہے! اچھی بات ہوگی لیکن... آوارہ مزاجوں پر تو کوئی خاص اثر نہیں ہوگا، ہاں البتہ، شریف مردوں کو جھرجھری سی چھوٹی ہوئی ہے۔ پبلک سواریوں میں داخل ہوتے ہوئے بھیڑبھاڑکے وقت دھکم پیل کے سبب کسی لڑکی کی معمولی سی شکایت پر شریف زادہ پریشان ہو سکتا ہے۔ وہ جتنی احتیاط سے پہلے چلتا تھا اب اس سے کئی گنا احتیاط برتنے میں اسے لڑکی کو زیادہ دھیان سے دیکھنا پڑے گا، جو بہر صورت اور لازماً خطرناک ہو سکتا ہے۔

No comments: