If you are really proud of India Dr. Rehan Ansari |
تو کیا احتجاج غلط ہورہا ہے؟... جی نہیں... یہ منشا ہی نہیں ہے... ہم تو اس احتجاج کے انجام کا غلط یا صحیح اندازہ لگانے کی کوشش کر رہے ہیں... اور ناکام ہیں!... البتہ پتہ نہیں کیوں احتجاج کی نوعیت و طوالت ہمیں کچھ سازشی سی لگتی ہے۔
آواز میں توانائی ہوتی ہے۔ جب بہت سی آوازیں ایک ساتھ کسی مقصد کے لیے اٹھائی جائیں تو اس توانائی میں کئی گنا اضافہ ہو جاتا ہے۔ اس احتجاج میں ہم نے یہ بھی مشاہدہ کیا۔ آواز کا اثر بھی دیکھا کہ اربابِ اقتدار خوفزدہ سے ہیں اور ’مون برت‘ رکھے ہوئے ہیں۔ چُپ کا روزہ!... عام آدمی جب چلّا چلّا کر نڈھال ہوچلا تو بڑی مشکل سے سونیا گاندھی کے منہ سے اتنا پھوٹا کہ ’’ہم نے آپ کی آواز سن لی ہے‘‘!
ہمیں مظلوم و مُثلہ اور مہلوک لڑکی کا گہرا صدمہ ہے۔ اس کے والدین نیز جملہ اہالیانِ خانہ سے بھی پوری ہمدردی ہے۔ میڈیا نے اس کا نام مخفی رکھ کر، اس کی تصویر بچا کر اور اس کے گھر کا اَتہ پتہ ظاہر نہ کرکے جس قدر پردہ داری کی ہے اس کے لیے اسے مبارکباد دیتے ہیں۔ میڈیا کے رویہ سے یہ بات اظہرمن الشمس ہوگئی کہ عورت کی عزت پردہ داری میں ہی محفوظ ہے۔ یہ آفاقی کلیہ ہے۔
خیر، انجام تو مبینہ زانیوں کا جو ہونا ہے اس کا ہم بھی آپ کی مانند انتظار کر رہے ہیں، کہ ہمارے اختیار میں یہی ہے... ہم بھی اپنا احتجاج درج کرتے ہیں کہ ان رذیلوں کو ایسی عبرتناک سزا ملنی چاہیے کہ پھر کوئی اس جرم کے ارتکاب کی ہمت نہ کرسکے۔
لیکن... زنا کا جرم تو انسانی تاریخ جتنا پرانا ہے... کیا دہلی کے مبینہ زانیوں کو سزا ملنے کے بعد ختم ہوجائے گا اس کا امکان؟... ہنسنا بھی محال ہے اور رونا بھی ضروری ہے۔ جن ملکوں میں اس جرم کے ارتکاب کی بھنک بھی نہیں لگ پاتی ہم نے سن رکھا ہے کہ وہاں بھی کسی نہ کسی طرح، چوری چھپے، ایک آدھ واردات ہو جاتی ہے۔ اور اگر پکڑے گئے تو سمجھو گئے کام سے۔ فوری طور پر۔ مگر ہمارے ملک میں ایسی وارداتوں کو روزانہ سیکڑوں اور ہزاروں (لاکھوں لکھنے میں احتیاط مانع ہے) کی تعداد میں انجام پانے کے باوجود ’زنا‘ کی تعریف سے دور رکھا جاتا ہے بلکہ اسے ’لیو اِن ریلیشن شپ‘ Live-in relationship بہ معنی ’ہم باش‘ جیسا خوش کن نام دیا گیا ہے۔ کیونکہ ہمارے ملک میں ابھی ’راضی بہ رضا‘ والے عمل کو زنا میں شامل کرنے سے کچھ لوگوں کو اعتراض ہے۔
اس کے علاوہ بھی بہت سی شکلوں میں ہمارے ملک میں زنا کا رواج ہے۔ پھر، اپنے ملک پر ہم جس قدر فخر کرتے ہیں اسی ملک میں ایسی پوری پوری بستیاں بسائی گئی ہیں جہاں زنا کرنے کے لیے کھلی چھوٹ میسر ہوتی ہے۔ احتجاج آمادہ جدید کلچر کے دلدادہ افراد سے ہم ایک سوال تو ضرور کریں گے کہ آپ کتنے فیصدی ’ستارہ برانڈ‘ ہوٹل یا غیرستارہ بردار گیسٹ ہاؤس اور ریسورٹ بتلا سکتے ہیں کہ جہاں کسی اجنبی بیسوا، داشتہ یا کسبی کے ساتھ شب بسری کی سہولیات بہم نہیں ملتیں؟ کس کی سرپرستی میں یہ سب ہوتا ہے؟ کیا حکومت کے علاوہ یا ہمارے قانون کے علاوہ کسی اور سے یہ آسانیاں ممکن ہیں؟ کیا یہ سب زنا اور بلاتکار یا ریپ نہیں ہیں؟ کیوں کبھی کوئی احتجاج اس کے خلاف نہیں ہوتا؟ یہاں ہم گجرات اور کشمیر میں حکومتی سرپرستی یا پولیس اورفوجی استبداد میں عورتوں پر ہوئے جنسی مظالم پر اس لئے نہیں لکھ رہے ہیں کہ نہ حکومت کے کانوں میں یہ آواز اثر کرتی ہے اور نہ فوجی سربراہ سے کسی انصاف کی توقع رکھ سکتے ہیں.
حالیہ سنگین واردات کے بعد تحریکی، اخلاقی، قلمی، فلمی اور ہر طرح کے احتجاج میں عورتوں اور لڑکیوں کے ساتھ ملک کے ہر طبقہ کی اکثریت نے بجاطور سے ہمدردی کا اور فکر کا اظہار کیا ہے۔ زانیوں پر ہر جگہ تھوکا گیا ہے۔ لڑکی یا عورت ایک انسان کی ماں ہے۔ اس کا درجہ بہت بلند ہے۔ اس کے ناموس کی حفاظت سے مرد کا وقار بڑھتا ہے، رتبہ اور عزت بڑھتی ہے۔ سماج کا ناموس عظیم بنتا ہے۔ اس لیے انسان (بہ معنی مرد) کو اپنی حدود بھی جاننی چاہیے۔ اسے حیوان نہیں بننا چاہیے۔ وہ عورت کے ناموس کی جتنی حفاظت کرے گا اس کی عزت و وقار میں بھی اتنا ہی اضافہ ہوگا۔
سماج مرد اور عورت سے مکمل ہوتا ہے۔ اس گاڑی کا ایک پہیہ بھی بے قابو ہوا تو گاڑی کی چال میں یکسوئی نہیں ملے گی۔ ہمارا سماج کسی قدر بے سمت چل رہا ہے۔ یہ حقیقت ہے۔ اسے بے سمت کرنے میں مرد بھی برابر کے حصہ دار ہیں۔ جب سے مغربی کلچر کی یلغار ہوئی ہے، جنسی تمیز کو ہلکایا گیا ہے، تب سے لڑکیاں (اور بعض عورتیں بھی!) بہت بے باکی کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔ کالجوں اور عوامی راستوں یا پارکوں میں ان کی حرکت (اور ملبوس) پر جس کسی نے توجہ دلانے کی کوشش کی اسے لعن طعن اور بدزبانی سے نوازا گیا۔ اُس خیرخواہ کو بدخو اور بدطینت سمجھایا گیا۔ اس کے پیچھے لٹھ لے کر دوڑایا بھی گیا۔ حتیٰ کہ وہ حضرت یا خاتون نے گوشہ نشینی اختیار کرنے میں ہی اپنی عافیت جانی۔ جاری ایام میں بھی ایسا ہوا ۔
These should never be considered as bad dresses because they are the attires of daily Indian life |
Our institutes and paths are not backwards Boys should never look with greed. But, be blind |
No comments:
Post a Comment