Aamir Khan's Half Truth Dr. Rehan Ansari |
’ستیہ میو جیتے‘ شو میں بھی یہ مشہور مکالمہ دوہرایا گیا کہ ’ڈاکٹر کو لوگ ایشور یا بھگوان کا درجہ دیتے ہیں!‘‘ مگر دیکھا گیا ہے کہ ڈاکٹر کو اس کی مبینہ یا مفروضہ دونوں قسم کی (بشری) ’غلطیوں‘ کے لیے مریضوں کا سماج (خصوصاً شہروں میں بسنے والا تعلیم یافتہ یا نیم خواندہ سماج) ہر قسم کی سزا دینے پر اتر آتا ہے۔انھیں جسمانی اور مالی (کبھی جانی بھی) نقصانات پہنچاتاہے۔ بدتمیزیاں کرتا ہے۔ گویا وہ موقع کی تلاش میں رہتے ہیں کہ کب کسی ڈاکٹر کا گریبان ہاتھ میں آئے اور وہ اسے عریاں کرکے چھوڑیں۔ایک نہیں کئی مثالیں دی جاسکتی ہیں۔ جانی نقصان کی مثال کی خبر زیادہ پرانی نہیں ہے کہ (غالباً کولہا پور کے قریب) ایک ڈاکٹر کے پاس ایک باربر نے اپنا علاج کروایا۔ ڈاکٹر نے اسے دورانِ علاج ایک مرتبہ انجکشن دیا تھا۔ خون کی جانچ کے بعد اسے ’ایچ آئی وی پازیٹیو‘ پایا گیا تو اس نے سمجھا کہ مذکورہ ڈاکٹر نے اسے یہ مرض دیا ہے۔ جب وہ ڈاکٹر اس کے پاس شیونگ کے لیے گیا تو اس باربر نے اس کا گلا کاٹ دیا اور ڈاکٹر وہیں فوت ہوگیا۔
ایمرجنسی کی صورت میں کسی بچے یا مریض و مریضہ کی جان بچانے کی کوششوں میں ناکامی ہاتھ آجائے تو اسپتالوں میں ڈاکٹروں اور ان کے معاون عملہ پر جذبات کی رو میں بہہ کر حملہ کون کرتا ہے اور کیوں کرتا ہے؟... اسپتالوں یا دواخانوں کا فرنیچر اور دوسرے مہنگے اسٹرکچر اور آلات کو تباہ و برباد کون کرتا ہے اور کیوں کرتا ہے؟... دوا کا معمولی سا بھی ری ایکشن ہو جائے (جو مریض کی اپنی جسمانی کیفیت کی وجہ سے ہوتا ہے) تو ڈاکٹر کو ہر قسم کا کھرا کھوٹا کون سناتا ہے؟
آپ کو علم ہونا چاہیے کہ پورا منظرنامہ سرکار اور عوام کی وجہ تبدیل ہوا ہے۔ جب ۱۹۸۶ء میں کنزیومر پروٹیکشن ایکٹ (CPA) کا میڈیکل پروفیشن پر بھی نفاذ و اطلاق ہوا تھا تو وکیلوں کی باچھیں کھل اٹھی تھیں۔ معمولی معمولی بیماریوں کے لیے ڈاکٹروں نے اپنے قانونی دفاع کے لیے پیتھالوجیکل یا ریڈیالوجیکل ٹیسٹ کیے بغیر علاج کرنا نامناسب لگنے لگا تھا۔ انھیں اندیشہ تھا کہ پتہ نہیں کس مرض کی پیچیدگی کی وجہ سے کو سا مریض انھیں کنسلٹنگ روم سے اٹھا کر عدالت کے کمرے تک پہنچا دے۔ یہیں سے ڈاکٹروں نے نہیں بلکہ چالاک، لالچی اور کاروباری طبقہ نے مریضوں کے جسم اور جیب پر اپنے دانت گاڑ دئیے تھے جس کی ترقی یافتہ شکل کو آپ نے ’ستیہ میو جیتے‘ پروگرام میں پیش کیا ہے۔
کارپوریٹ اداروں نے فائیو اسٹار اور سیون اسٹار اسپتالوں کو جنم دیا۔ جو لوٹ کھسوٹ کے سب سے بڑے اڈے ہیں لیکن یہ مالکان بدنام نہیں ہیں بلکہ سامنے جو ڈاکٹر ہیں وہ بدنام ہوجاتے ہیں۔ان اداروں کا سیٹ اپ کرنے والے افراد میں تاجرانہ ذہنیت کے لوگ ہوتے ہیں جو مریضوں کو طرح طرح سے لوٹنے کے حربے آزماتے ہیں لیکن ڈاکٹروں کا چہرہ سب کے سامنے ہوتا ہے اس لیے بدنام بھی وہی ہوا کرتے ہیں۔ مریضوں نے ان مہنگے اسپتالوں کی فیس کا بوجھ برداشت کرنے سے معذوری ظاہر کی وہیں انھیں ایک دوسرا راستہ ’میڈی کلیم‘ Mediclaim کا سجھایا جاتا ہے۔آخر میڈی کلیم کے کارپوریٹ فیشن کو کس نے رواج دیا ہے، اور اس کی آڑ میں کون کیا کررہا ہے؟
آئی ایم اے (IMA) اور دیگر طبی تنظیموں کا یہ اعتراض بھی بالکل بجا ہے کہ عامرخان کے پروگرام سے یہ غلط پیغام بھی گیا ہے کہ رحم (بچہ دانی) کو کاٹ کر نکالنے کی اکلوتی وجہ اس میں کینسر لاحق ہونا ہے جبکہ متعدد دیگر وجوہات بھی ہیں کہ کسی عورت کی مجموعی صحت کی خرابی کی ذمہ دار رحم میں موجود دیگر تکلیفیں بھی ہوتی ہیں۔ جس ڈاکومینٹری کے ذریعہ عامرخان نے آندھراپردیش کے غریب و ناخواندہ افراد کے گاؤں میں بیشتر عورتوں کی بچہ دانی کے آپریشن کے ذریعہ ان کو بانجھ کرنے کی سازش دکھائی ہے اس میں یہ نہیں بتلایا کہ یہ سازش کسی ڈاکٹر یا طبی ادارے کی تھی یا حکومت کے ’فیملی پلاننگ‘ ڈپارٹمینٹ کی تھی؟ ہم یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ سازش حکومت کی ہی تھی؛ کسی بھی ڈاکٹر کے جسم میں یہ شیطان نہیں پلتا کہ وہ عورتوں کا رحم کاٹتا پھرے۔
یہ بیان بھی کافی توجہ طلب رہا کہ ڈاکٹر جو برانڈیڈ Branded دوائیں لکھتے ہیں وہ جینرک Generic دواؤں کے مقابلے میں کافی مہنگی ہوتی ہیں، دس گنا تک مہنگی!... جناب عامر خان صاحب آپ یا کوئی اور سپراسٹار جب کسی نیوٹریشنل سپلیمنٹ کے اشتہار میں آتے ہیں یا مثال کے طور پر کیڈبری چاکلیٹ بار کو ہی لیجیے؛ یہ چاکلیٹ اپنی لاگت کے اعتبار سے ۲ روپے فی بار سے زیادہ کا نہیں بنتا ہوگا مگر صارفین کو بیس روپے سے کم میں دستیاب نہیں ہوتا! آپ جانتے ہی ہیں کیوں ایسا ہوتا ہے۔ جب دواؤں کو بھی برانڈیڈ کیا جاتا ہے تو اس پر سرکاری ٹیکس ایسے لگتے ہیں کہ ایک روپے کی چیز جگہ پر پانچ روپے کی ہو جاتی ہے۔ پھر پروموشن سے لے کر سیل تک اس پر جتنے اخراجات ہوتے ہیں وہ اس کی قیمت میں برابر اضافہ کا سبب بنتے ہیں۔ بس اتنی سی بات کے غبارے میں آپ نے ایسی ہوا بھردی کہ وہ چرچے میں آگئی۔ اگر برانڈیڈ دوائیں مہنگی ہیں تو وہ حکومت کی پالیسیوں اور قوانین کی وجہ سے ہیں۔ ڈاکٹروں کی وجہ سے نہیں۔ آپ کی ریسرچ ٹیم کے کام سے بھی یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ ایک ہی پریسکرپشن پر دو کاؤنٹرس سے الگ الگ قیمت میں دوائیں ملیں اور ڈاکٹرس کو کوئی اعتراض نہیں رہا۔
جہاں تک ڈاکٹروں کی انسانیت کی بات ہے تو عامرخان یہ بھی سن لیں کہ جہاں کہیں ہنگامی صورتحال پیدا ہوتی ہے تو جس پروفیشنل طبقے کو پہلے دن سے ہی (ضرورت کے آخری دن تک) ’فری سروسیس‘ دیتے ہوئے دیکھا جاتا ہے وہ دوسرا کوئی نہیں صرف ڈاکٹر اور ان کا معاون طبی عملہ ہوتا ہے۔ چاہے کوئی وبا پھیلے یا ارضی و سماوی آفات کا زمانہ ہو، ہر جگہ کے تمام ڈاکٹر اپنی نیند اور آرام سب تج کر متاثرین و مریضوں کا فری علاج اور دوسری خدمات کرتے ہیں۔ پورے ملک میں صرف اساتذہ کا دوسرا طبقہ ملتا ہے جو طلبہ اور ان کے سرپرستوں کے لیے ’فری رہنمائی سروسیس‘ دینے آتا ہے (حالانکہ اس میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ اب کچھ جگہوں پر اساتذہ پروفیشنل انداز سے آنے لگے ہیں)۔ ہم نے کبھی نہیں دیکھا کہ عامرخان یا ان جیسے بڑے نام والے کبھی خود سے، بغیر کسی اپیل کے، بغیر فیس لیے ہوئے سماجی کاموں کے لیے اس انداز میں آگے بڑھتے ہیں جیسے ڈاکٹرس بڑھتے ہیں! یہ تمام پروفیشنلس میں صرف ڈاکٹرس کا خصوصی امتیاز ہے کہ وہ امداد پر آتے ہیں تو بلا معاوضہ اور بلاآرام انتھک یہ کام کرتے ہیں۔
ایک بات اور لکھنے کا جی کرتا ہے کہ عامر خان کے اسپانسرس، اسکرپٹ رائٹر اور وہ خود بھی نام نہاد قومی میڈیا، سسٹم اور حکومت کی پولیں کھولنے والے ’ستیہ‘ کو شاید ہی کبھی دکھانے کی جرأت کرسکیں۔ جیسے اقلیتوں پر ہونے والے مظالم اور تعصبات، ان کے حقیقی مسائل کی پیشکش، پولیس کے ذریعہ معصوم نوجوانوں کا انکاؤنٹر، رات کے اندھیرے میں گھروں سے اٹھا کر نامعلوم مقامات پر قید کرکے انھیں ٹارچر کرنا اور ناکردہ گناہوں کو قبول کرنے کے لیے ہر قسم کا دباؤ، وزیر اور اسٹیبلشمینٹ میں شامل افراد کس طرح ٹینڈر کے ذریعہ کماتے ہیں اور غیرمحسوب دولت اکٹھا کرتے ہیں، بلڈرلابی کس طرح کوڑیوں کے مول زمینیں ہتھیاکر ان سے کروڑوں روپے کی فصل کاٹتی ہے؟ وغیرہ... ہمیں پتہ نہیں کیوں یقین سا ہے کہ عامرخان یا ان کے اسکرپٹ رائٹر ان عنوانات پر کوئی ستیہ دکھا نہیں پائیں گے۔ ان میں اتنی ہمت نہیں دکھائی دیتی۔ ہمیں ماضی میں پریہ تینڈولکر کا سیریئل ’رجنی‘ یاد ہے جو عامرخان کے ٹاک شو کی بجائے باقاعدہ ایک کہانی کی مانند دکھایا جاتا تھا۔ دونوں میں مماثلت کافی ہے۔ خود رجنی نے بھی اسٹیبلشمینٹ کے کالے کرتوتوں کو کبھی اجاگر نہیں کیا گیا تھا۔ وہ بھی سماج کو چھوٹے پیمانے پر لوٹنے والوں کے عنوانات سے متعلق ہوا کرتا تھا۔
عامرخان صاحب چھوٹے اسکرین پر جذبات انگیز باتوں کے بعد اپنی نمناک آنکھوں کو آستین کے کناروں سے پونچھنے کا انداز اور جذبات میں ڈوبے ہوئے حاضرین خصوصاً لڑکیوں کے چہرے اسکرین پر دکھانے سے آپ کے شو کی ٹی آر پی تو بڑھ سکتی ہے مگر حقیقت بھی افشا ہوجائے یہ ضروری نہیں ہے۔ خیر، ہمیں انتظار کرکے دیکھنا ہوگا کہ عامر خان اور ان کے اسکرپٹ رائٹر ہمارے دعوے کو جھٹلا سکتے ہیں یا نہیں.
3 comments:
Nice article....!Congratulatulation to you on a very special response to a very very special show...!
Md.Shabbir Farooqui.
بالکُل درست کہا آپ نے ڈاکٹر صاحب۔۔
Shukriya taaeed ke liye.
Post a Comment