Sooraj Achcha Bachcha Hai Compiled by: Farhan Hanif Review: Dr. Rehan Ansari |
سو ورق ہیں البم کے کودکی سے پیری تک
وقت کے مصور کا موقلم نہیں ٹھہرا
اتنے متغیر اور گوناگوں شعری گلیارے ہیں کہ ان میں کبھی املی کے بوٹے مل جاتے ہیں تو کہیں ٹافیوں کی برسات ہوجاتی ہے۔ سخت گیر دھوپ کا سامنا ہے تو ممتا کے آنچل کی ٹھنڈی چھاؤں بھی میسر ہوجاتی ہے۔ ہمیں اس پر نظم بہ نظم تبصرہ کرنے کی کوشش یا جرأت یا دونوں اس لیے نہیں کرنا چاہیے کہ ہر کسی کا اپنا بچپن ہوتا ہے اور بچپن پر تبصرہ ناگوار ہے۔ یہ انسان کی معصومیت پر تبصرہ ہوگا۔ وہ معصومیت جو اسے فطرت کی عطا ہوتی ہے۔وہ معصومیت جسے کہیں سے مستعار لیا جاسکتا ہے نہ خریدا جاسکتا ہے۔ وہ معصومیت جو صدفیصد خالص ہوتی ہے۔Sooraj Achcha Bachcha Hai : Title |
نظموں پر فنی نقطۂ نظر سے ضرور باتیں کی جاسکتی ہیں کیونکہ ان کا تعلق بچوں سے ہے نہ بچپن سے۔ یہ آموختہ ہے عمرِ رواں کا۔ پیرایۂ بیاں ہے ایک بالیدہ نظر شخص کا۔ فنی پہلوؤں کے اعتبار سے پورا مجموعہ ہمعصر معیار کی تلاش میں مرتب کیا گیا ہے لیکن روایتی کلاسیکی معیار بھی برقرار نظرآتا ہے۔ لفظوں کے دریچوں سے تہذیبِ نوی جھانکتی ملتی ہے تو بزرگوں کی نصیحتیں اور تربیتیں بھی ڈگمگ قدموں پر نگاہ رکھتی ملتی ہیں۔
نظموں کے تعلق سے جامع طور پر ہم ایک سطر میں یہی کہنا چاہیں گے کہ کلام اور شاعر سبھی معتبر ہیں۔ کئی نام اردو ادب، فلموں اور دیگر میڈیا کے لیے بھی بہت مشہور ہیں۔ ان میں جگن ناتھ آزاد، شمس الرحمن فاروقی، گلزار، محمد علوی، مظفر حنفی، قیصر الجعفری، ندا فاضلی، جاوید اختر، عبدالاحد ساز، ظفر گورکھپوری، سدرشن فاخر، زبیررضوی، صلاح الدین پرویز، افتخارامام صدیقی، ابراہیم اشک، احمدوصی، حامد اقبال صدیقی، عادل اسیر دہلوی، نور جہاں نور وغیرہ شامل ہیں.ان سب نے مل کر آدمی کے بچپن کے ان گوشوں کو آئینہ کر دیا ہے جو بصورت دیگر تحت الشعور میں بوسیدہ ہو جاتے ہیں.
سچ کہوں تو ’’سورج اچھا بچہ ہے‘‘ کو پرکھنے کے لیے میں نے اپنی ڈھائی سالہ بیٹی کے سامنے کچھ نظمیں گا کر پڑھیں تو وہ غرق ہوکر سنتی رہی اور اس آنکھوں میں شرارت اور چہرے کی بشاشت مسلسل افزوں ہوتی رہی۔ یہ اس کتاب کی کامیابی کی دلیل ہے۔
رِدھم اور شرارت کا آمیزہ اس کے صفحات پر موجود الفاظ و اشعار کی زبردست توانائی بنا ہوا ہے۔ پڑھتے پڑھتے بچپن میں بچھڑے ہوئے کتنے ہی الفاظ سے بازملاقات ہوئی۔ مصرعے اور اشعار تو بچپن کی رفتارِقدم کی مانند پھدکتے اچھلتے ملتے ہیں۔ بچوں کے آہنگی اشعار ملتے ہیں جن میں معنی کا پایا جانا عنقا ہوتا ہے تو کچھ نظمیں بھرپور فلسفہ اور پیغام میں بھی ملفوف ملتی ہیں۔
اس مجموعہ میں نظم اپنے کئی فارم میں بیک وقت جلوہ گر ہے۔ مثنوی، مثلث، پابند، آزاد، معریٰ، دوبیتی اور قطعہ، مسدس، ترجیع بند اور تجرباتی وغیرہ۔ اس حیثیت سے بھی ایک طالبعلم کے لیے یہ ملاحظہ کی چیز ہے۔
نغموں اور نظموں سے نکلتی ہوئی روح و ریحاں ہمارے اندرون میں ایسے سرایت ہوئی کہ ہمیں فرحاں کر گئی۔ ہر کسی کا بچپن ایک الف لیلوی داستان کی مانند ہوتا ہے۔ کھٹی میٹھی، تلخ و شیریں۔ اس کا دَرک جس عمر میں ہوتا ہے وہاں صرف یادوں کا جزیرہ آباد ہوتا ہے اور صرف یہ صدا بازگشت کرتی ہے کہ ’’کوئی لوٹا دے مرے بیتے ہوئے دن!‘‘
Farhan Hanif |
شائقین اسے حاصل کرنے کے لیے مکتبہ جامعہ (دہلی/ علیگڑھ/ ممبئی) اور دیگر اداروں کے علاوہ [پوسٹ باکس نمبر 4546، ممبئی سینٹرل پوسٹ آفس، ممبئی 400008 (مہاراشٹر، اِنڈیا)]سے منگا سکتے ہیں ۔نیز فون نمبر +91-9320169397سے بھی رابطہ کر سکتے ہیں۔کتاب کی قیمت صرف پچاس روپے (ہندوستانی) ہے۔
No comments:
Post a Comment