Muslims have to face the music
Dr. Rehan Ansari
ایک ماں کی خواہش کے برخلاف اس کی بیٹی کے حق میں ’محمڈن لا‘ کا سہارا لیتے ہوئے دہلی ہائیکورٹ کا حالیہ فیصلہ ایک مرتبہ پھر مسلمانوں اور اسلام پر حملہ کرنے والوں کے لیے بہانہ بن گیا ہے۔ گویا اس فیصلہ کے ذریعہ دہلی ہائیکورٹ کے معزز جج صاحبان نے مسلمانوں کی پیٹھ پھر سے کھول دی ہے کہ اب جو چاہے لٹھ لے کر دوڑے اور ان پر برسانا شروع کردے۔اس لڑکی کی ماں مسلم ہے۔ اس کی خواہش تھی کہ اس کی کمسن بیٹی کو ایک برس قبل پھسلا کر لے جانے والے مسلم شخص پر اغوا اور زنا کا معاملہ درج کیا جائے تو اس ماں کی حمایت کرنے اور فیصلہ پر تنقید کی بجائے ہم نے دیکھا کہ نام نہاد قومی میڈیا کے مبصرین نے دہلی ہائیکورٹ کے فیصلے کو بنیاد بنا کر شرعی عائلی قوانین کو نشانہ بنانا شروع کردیا۔ یامظہرالعجائب۔
دہلی ہائیکورٹ نے اس دلیل کو تسلیم کیا کہ خود لڑکی کی خواہش ہے کہ وہ اپنے زیرِ بحث شوہر کے ساتھ رہے اور ’محمڈن لا‘ کی رو سے ایک لڑکی ’’اگر‘‘ پندرہ برس کی عمر میں ’’بالغ‘‘ ہوجاتی ہے تو اسے اختیار ہے کہ وہ اپنی رضا سے نکاح کرکے اپنے شوہر کے ساتھ زندگی گذار ے۔ اسی خواہش (مرضی) کی رو سے اس مسلم لڑکی کو اپنے شوہر کے ساتھ رہنے کی اجازت دی جاتی ہے!... جبکہ ہندوستانی قانون کی رو سے کوئی بھی لڑکی یا لڑکا اٹھارہ برس سے کمسنی میں نابالغ تصور کیا جاتا ہے یعنی (اپنی یا کسی اور کی مرضی سے) شادی کے قابل نہیں سمجھا جاتا۔ ... پھر کورٹ نے لڑکی کی سسرال والوں کو ہدایت دی کہ وہ ہر چھ مہینے پر ’’چائلڈ ویلفیر کمیٹی‘‘ کے سامنے لڑکی کو لے کر حاضر بھی ہوتے رہیں تاوقتیکہ وہ اٹھارہ برس کی نہیں ہوجاتی؛ تاکہ ’’لڑکی کا بچپن‘‘ محفوظ رہے!... کیا آپ کو ہنسی نہیں آئی؟
یہ مختلف فیصلہ کس لیے؟ کس کی بہبود کے لیے؟ کیا اسلام اور مسلم دشمن اس کا کوئی فائدہ نہیں اٹھائیں گے؟ ہم نے دیکھا کہ انٹرنیٹ پر اس خبر کے ذیل میں دئیے جانے والے کمینٹ کس قدر گندے خیالات اور گالیوں سے بھرے ہوئے ہیں۔
ایک دن ہی گذرا ہے کہ ’اِندرجیت ہزرہ‘ Indrajit Hazra نامی انگریزی کالم نویس کی ہرزہ گوئی سامنے آئی۔ ’دی ہندوستان ٹائمز‘ جسے عرفِ عام میں HT لکھا اور بولا جاتا ہے ، کی۷جون کی اشاعت میں اس نے اپنا تضحیک آمیز کمینٹ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’لیکن ملّا کے ’پرنسپلس آف محمڈن لا‘ کی دفعہ 251 ’ہندوستانی قانون‘ سے بالا ہوجاتی ہے؛ جس کے مطابق ہر عاقل و بالغ محمڈن شادی کر سکتا/سکتی ہے‘‘ وہ مزید لکھتے ہیں کہ ’’بلوغت کے لیے اگر کوئی ثبوت و صراحت نہ ملے تو پندرہ برس کی عمر تسلیم کی جاسکتی ہے!‘‘ ’’اور یہ مذہبی قانون ہے جسے دہلی کی سیکولر ہائیکورٹ نے پندرہ سالہ ’ہندوستانی شہری‘ کے لیے تسلیم کیا ہے‘‘!
اندرجیت ہزرہ درج بالا سطروں میں کس کس کی تضحیک کررہے ہیں یہ بات کوئی بڑی وضاحت نہیں چاہتی۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ وہ متعدد تضحیکات میں بیک وقت ہائیکورٹ کی تضحیک بھی کر رہے ہیں۔
اس کے ساتھ ہی ہزرہ نے ہندو میریج ایکٹ کی اس ضمن میں تعریف کی ہے کہ وہ شادی کے لیے کم سے کم عمر اٹھارہ سال کی تسلیم کرتا ہے جبکہ مسلم قانون ایسا نہیں کرتا!... اور مزید تنقیدیں بھی ہیں جن کا جواب دیا جاسکتا ہے لیکن ہم سرِ دست ان سے صرفِ نظر کرتے ہیں۔
ہزرہ سے ہم زیادہ بات کیا کہیں؟ بس اتنا کہنا چاہیں گے کہ ’’ اچھی طرح دیکھ لیں اور اگر آپ کا اپنا گھر (یعنی ہندو قوانین) ہر طرح سے درست ہو تو ہی دوسرے کے گھر کے عیوب پر انگلی اٹھائیں۔ اسلام کو اور اس کے قوانین کو سمجھنا ہو تو پوری دیانتداری سے سمجھیں۔ اپنا دماغ لادنے کی کوشش نہ کریں۔ ہم اس وقت تک اسلامی قوانین کو آپ کے لیے ناقابلِ قبول سمجھتے اور جانتے ہیں جب تک آپ خود مسلمان نہیں ہوجاتے۔ اس طرح واضح ہے کہ ملک کی دوسری مذہبی اقلیتوں کی مانند ہمیں بھی اپنے مذہبی قوانین پر چلنے کی پوری آزادی دستورِ ہند سے ملی ہے اور یہ آزادی ہمارا (سبھی اقلیتوں کا) دستوری حق ہے‘‘۔
دستورِ ہند تو محض آزادی کے دن جتنا پرانا ہے، اسلام ہو، ہندو مذہب ہو یا ارضِ وطن کا دیگر کوئی بھی مذہب، ان کا زمانہ زیادہ قدیم ہے اس لیے ان کے قوانین بھی قدیم تر ہیں۔ کل اگر ہندوستان کے دستور و قانون میں ترمیمات یا حکومتوں میں تبدیلیاں جاری رہیں تو کیا سبھی کے مذہبی قوانین بھی انھی کے مطابق تبدیل ہوا کریں گے؟ ایسا ممکن نہیں ہے... ہمارا (کثیرالمذہبی) سیکولرزم یہی ہے کہ ’جیو اور جینے دو‘۔
ہمیں تو یہ توقع تھی کہ فاضل کالم نگار یا ان جیسے کمنٹیٹرس دہلی ہائیکورٹ کے ججوں کو ہندوستانی قوانین کی دہائی دے کر ان کے فیصلے پر کچھ لکھتے یا کہتے، اس بچی کی ماں کے درد کو سمجھتے اور اس کے ہمدرد بنتے، لڑکی کی آمادگی کی وجوہات کا پتہ چلاتے اور تحقیق کرتے کہ اسے کہیں بلیک میل کرکے تو بیان نہیں دلایا جارہا ہے؟ اس نامعقول شوہر کے خلاف کچھ الفاظ خرچ کرتے جس نے ’’ایک نابالغ ہندوستانی شہری‘‘ کے جسم و نفسیات کے ساتھ گھناونا کھلواڑ کیا ہے۔ مگر، افسوس، ہمیں ایسا کچھ نہیں ملا! ملا تو یہ ملا کہ ’’ملّا‘‘ ملا! ’’محمڈن لا‘‘ ملا! مسلمان ملا جس کی برہنہ پیٹھ پر سب لٹھ لے کر برسانا شروع کرچکے ہیں اور یہ ملّا بیچارہ شرعی تو چھوڑئیے طبی طور سے بھی یہ ثابت کرتا پھرے کہ بلوغت کی عمر کیا ہوتی ہے (اور کم عمری میں بھی کئی لڑکیاں ہمارے وشال دیش میں مائیں بن چکی ہیں) تو وہ ہندوستانی قانون کے خلاف ہی رہے گا!
ہم اخیر میں یہ بھی لکھنا چاہیں گے کہ پورے ملک میں اعدادوشمار اکٹھا کر کے دیکھنا چاہیے کہ مسلمانوں میں ’’اٹھارہ برس سے کم عمر میں شادیاں‘‘ کہاں رائج ہیں اور دستورِ ہند کی پامالی کہاں کہاں ہورہی ہے؟ ہمیں یقین ہے کہ دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہوجائے گا۔ بہرحال ہمیں ابھی اپنی پیٹھ پر مزید لٹھیں سہنے کے لیے تیار رہنا ہوگا.
No comments:
Post a Comment