Is Mobile Phone or Tower Hazardous |
بعض اشیاء ایسی ضروریاتِ زندگی بن جاتی ہیں کہ ان سے پیچھا چھڑانا تقریباً ناممکن ہو جاتا ہے۔ موبائل فون یا سیلولر فون ایسی ہی ایک شئے ہے۔ ہمیں اپنے بچپن کا وہ دور اچھی طرح یاد ہے جب ایلومنیم کے برتن میں کھانا پکانا مضر سمجھا جاتا تھا۔ اور یہ دھات زبردست بدنامی کا شکار ہوئی تھی۔ لیکن بعد کے دور میں تانبہ اور پیتل کے برتن باورچی خانوں سے رفتہ رفتہ رخصت پذیر ہوگئے اور آج ہر باورچی خانے میں ایلومنیم کے برتوں کی حکومت ہے۔ اس کا سب سے مفید پہلو یہ ہے کہ برتنوں کو قلعی کرنے سے لوگوں کو نجات مل چکی ہے۔
آج کل موبائل یا سیلولر فون بھی اسی قسم کی بدنامی یا اندیشوں کا شکار ہے کہ اس سے دماغی ٹیومر یا کینسر وغیرہ پیدا ہوتے ہیں۔
اصل میں سائنسی تحقیقات کا معاملہ فی زمانہ ایسا ہی ہے کہ جو تحقیقات پیش کی جاتی ہیں وہ پیشکش کی خوبی کے سبب جھوٹی ہو کر بھی سچ ہی معلوم ہوتی ہیں۔ مگر ایسا کسی مخصوص پروڈکٹ کے ساتھ ہوتا ہے۔ پروسیس کے ساتھ نہیں۔ عمومی تحقیقات میں دیانت برتی جاتی ہے۔ اس فرق کو سمجھنے کے لیے واضح کردیں کہ زیرِ بحث سیلولر فون ایک پروڈکٹ ہے لیکن اس کی ٹیکنولوجی یعنی ریڈیو میگنیٹک ویوز (Radiomagnetic Waves) پروڈکشن ایک پروسیس ہے۔ آئیے سب سے پہلے ہم یہ دیکھیں کہ موبائل فون کی مضرت سے خوف کی بنیاد کیا ہے۔
تابکار شعاعیں اور ریڈیائی موجیں:
Radiation Rays and Radiomagnetic waves
موبائل فون کی افادیت کے باوجود لوگوں میں یہ خوف ہے کہ اس میں جو لہریں پیدا ہوتی ہیں یا اس کو موصول ہوتی ہیں ان سے ٹیومر یا کینسر ہوتا ہے۔ اصل میں لہروں سے مراد صرف تابکار لہروں کا تصور ذہن میں ہوتا ہے۔ جبکہ سائنس میں لہریں کئی طرح کی ہیں۔ تابکار جوہری لہریں جنھیں Radioactive Rays کہتے ہیں یہ امواج (Waves) نہیں ہیں۔ بلکہ جوہری شعاعیں ہیں، Rays ہیں، ان کا صحیح نام ’’اَشعاع‘‘ ہے یعنی Radiation۔ ان کی مضرت سب پر واضح ہے۔ جبکہ روشنی اور آواز کی اساسی حیثیت لہروں کی ہے ’’امواج‘‘ یعنی Waves کی۔انھیں ’ریڈیائی لہریں‘ Radio waves کہتے ہیں۔ جس طرح روشنی کی مناسب مقدار آنکھوں کی صحت کے لیے ضروری ہے اسی طرح آواز کی مناسب مقدار قوتِ سماعت کے نارمل رہنے کے لیے لازمی ہے۔روشنی کی مقدار میں کمی یا اس میں شدت و اضافہ جس طرح الگ الگ نتائج پیدا کرتا ہے ویسے ہی ریڈیائی لہروں کی دوسری شکلیں بھی ہیں جن کی کمی و بیشی طرح طرح کے اثرات مرتب کرتی ہیں۔ یہ اتنی متنوع ہیں کہ کسی معیار کا تعین نہیں کیا جاسکتا۔ تابکار شعاعیں اصل میں براہِ راست جسمانی ساختوں کو نقصان پہنچاتی ہیں جبکہ ریڈیائی لہریں تکنیکی سہاروں سے مفید نتائج کی ذمہ دار ہیں۔ ریڈیائی لہروں کو دو اہم عوامل کی ضرورت پڑتی ہے؛ برقی رَو اور مقناطیسی میدان۔ جب تک یہ دونوں مہیا نہیں ہوتے ریڈیائی لہروں سے نتائج نہیں نکلتے۔ ریڈیائی لہروں سے انسان انگنت فائدے حاصل کرتا ہے جن میں سے چند درج ذیل ہیں:
٭M اور FM ریڈیوبراڈکاسٹ
٭ Cordless Phones
٭ آٹومیٹک (خودکار) دروازے
٭ وائرلیس نیٹ ورک، راڈر، ہوائی جہاز کے لوازمات
٭سیلCell والے کھلونے
٭ ٹیلیویژن براڈکاسٹ
٭سیٹیلائٹ کمیونکیشن... اور درجنوں دیگر وسائل وغیرہ
اب اگر دیکھا جائے تو سیلولر فون کی بھی نوعیت انھی میں سے ایک ہے۔
سیلولر فون:
سیلولر فون ریڈیو، ٹیلیویژن اور کمپیوٹر ٹیکنالوجی کا مشترکہ استعمال کرتا ہے۔ اس کے نام کی وجہ یہ ہے کہ اس کی تکنیک جغرافیائی خانوں یا قطعات (Cells) کا استعمال کرتی ہے۔ یہ خانے سیلولر فون ٹاور یا ستونوں پر منحصر ہوتے ہیں اور ان کا ایک متعین احاطہ ہوتا ہے۔ دو ٹاوروں کے احاطے ایک دوسرے پر اس طرح (overlap) چڑھ جاتے ہیں کہ ان کا بڑا حصہ مشترک ہو جاتا ہے۔ اسی لیے جب استعمال کنندہ ایک سیل سے دوسرے سیل میں داخل ہوتا ہے تو کمپیوٹرائزڈ موبائل ٹیلیفون سویچنگ آفس (MTSO) کے ذریعہ ایک ٹاور سے دوسرے ٹاور میں کال ٹرانسفر Handover ہو جاتی ہے اور سلسلۂ کلام ٹوٹتا نہیں۔ اس سلسلہ میں موبائل فون ٹیکنالوجی کتنی ایڈوانس ہو چکی ہے اس کا اندازہ کیجیے کہ اب موبائل فون کے ذریعہ ہی ویڈیوکانفرنسنگ بھی ممکن ہے، انٹرنیٹ اور ای میل کا استعمال بھی ممکن ہوچکا ہے اور اس کے علاوہ اب آفس یا گھر سے دور ہونے کے باوجود بہت سے کاروباری معاملات کے لیے اس کا استعمال ہوتا ہے۔ اس کا تذکرہ اس مضمون میں زیادہ ضروری نہیں ہے اس لیے ہم دوبارہ اپنے موضوع یعنی صحت کے ساتھ موبائل فون یا اس کے ٹاور کا تعلق پر لوٹتے ہیں۔
ٹاوروں کو اینٹینا Antenna بھی کہتے ہیں۔ ٹاوروں کی اپنی اپنی استعداد ہوتی ہے جس کی بنا پر وہ تعداد اور فاصلے کے لحاظ سے ٹیلیفون کالس کے سگنل وصول کرتے یا بھیجتے (ٹرانسمٹ کرتے) ہیں۔ ایک ہی علاقے میں کئی ٹاور بھی ہوتے ہیں اور اب تو ایک ہی ٹاور پر مختلف ٹیلیفون کمپنیوں کے ٹرانسیورس (ٹرانسمیٹرس اور ریسیورس کا اجتماع) ہوتے ہیں۔ یہ امدادِ باہمی کی صورت میں کام کرتے ہیں۔ اس کی وجہ سے اب سروسیس میں کافی سہولت ہوگئی ہے۔ ریڈیو لہروں کے ذریعہ آواز، تصویریں، کمپیوٹر ڈیٹا کو میلوں دور کے فاصلے تک پہنچانا اب زیادہ آسان ہوچکا ہے۔حالانکہ ریڈیو لہریں نہ تو انسانی آنکھیں دیکھ سکتی ہیں اور نہ محسوس ہوتی ہیں لیکن ان لہروں اور موجوں نے پوری دنیا کو تبدیل کر کے رکھ دیا ہے.
2 comments:
ye nhayat arq rezi se likha
gaya behad malumati mazmun hai, mubarakbad
urdu akhbarat mein aksar science aur technology ya tibb ke nazuk mozuaat par aadhe-adhoore ya ghalat tarjume bohot si ghalat fehmiyan paida kar dete hain
Post a Comment