To View This Blog in Nastaliq Script Download Faiz Nastaliq Unicode Font

Download Faiz Nastaliq Unicode Font from http://www.faiznastaliq.com/faiznastaliq.zip unzip & install it to your windows/font directory

Sunday, May 15, 2011

The Role of Urdu Newspapers in
Promoting Urdu Literature
ہر زبان و ادب کے فروغ اور ترویج میں اس زبان کے اخبارات کا رول بے حد اہم خیال کیا جاتا ہے۔ اہلِ دانش و بینش کا اس پر سدا اتفاق رہا ہے۔ حتیٰ کہ اردو کے ہی ایک شاعر نے کیا خوب نکتہ بیان کیا ہے کہ’’وہ قوم زندہ ہے جہاں اخبار زندہ ہے!‘‘
اصل میں کسی بھی متمدّن معاشرے کی زندگی اخبار سے عبارت ہے۔ اخبار اس تمدّن کا آئینہ ہوتا ہے۔ ادب اور اہلِ ادب زندگی کی حسین و لطیف قدروں سے معاشرے کو آگاہ اور آراستہ کرتے ہیں۔ اسی لیے جب تک اخبارات ادب کو فروغ نہیں دیں گے تب تک زندگی مستحسن قدروں سے عاری ہوگی۔
اب ہم اس ضمن میں جب اردو اخبارات کے رول کو دیکھنا چاہیں گے تو ایک طویل ماضی سے حال کو مربوط کرنا ہوگا۔ اور یہ کوئی بہت آسان کام ہے نہ اِس کا بیان ہی اُتنا سہل ہے۔ ملکِ عزیز کی برطانوی استبداد سے آزادی کے بعد اردو کی حالت پھر بھی بہت بری نہیں ہوئی تھی۔ ہندوستان کے طول و عرض میں اردو ایک مقبول زبان کی حیثیت رکھتی تھی۔ بلا تفریقِ مذہب و ملّت ایک بڑے عوامی طبقے میں اسے اظہارِ رائے کے لیے استعمال کرنے کا رواج تھا۔ لہٰذا اس دور میں اردو کے بیحد کامیاب اور معیاری اخبارات و رسائل کی ایک بڑی تعداد تاریخ میں درج ملتی ہے۔ جیسے الہلال، اردوئے معلی، جامِ جہاں نما، البلاغ، کامریڈ، تیج، صدقِ جدید؛ اور ممبئی سے شاعر،صبحِ امید، خلافت، انقلاب، ہندستان وغیرہ۔ حالانکہ دیکھا جائے تو اس وقت طباعت کے معاملات گوناگوں مسائل سے دوچار رہتے تھے جبکہ آج کمپیوٹر کی مدد سے ان تمام مسائل کو چند کلک کی مدد سے حل کر لیا جاتا ہے۔
جیسا کہ ہم نے شروع میں ہی عرض کیا کہ  اخبارات اور رسائل کی کامیابی و مقبولیت کا بڑا دارومدار ان کے مشمولات میں ادب کی شمولیت پر ہوتا ہے؛ چنانچہ اردو کے اخبارات بھی اسی لیے ترقی کرتے رہے کہ اُس دورمیں اُردو کے نامور اُدبا اور شعرا کے علاوہ سماجی معاملات و مسائل پر خامہ فرسائی کرنے والے اکثر ادبی زبان  میں ہی اظہارِ خیال کیا کرتے تھے۔
رفتہ رفتہ ہم چھ دہائیوں میں ایسے دور میں داخل ہو چکے ہیں کہ اخباروں کی اشاعت تو کمپیوٹر کی جدید ٹکنالوجی کے سہارے بیحد آسان ہو چلی ہے۔ پہلے زمانے میں ایک یا دو رنگوں کے ساتھ ہی اسپاٹ رنگین شمارے شائع کرنا گویا بڑا صحافتی کام انجام دینا تھا...  مگر آج کا عالم بالکل جدا ہے...  یعنی اب چہار رنگی شمارے شائع نہ ہوں تو اخبار نامکمل لگتا ہے۔ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ نظروں کو خیرہ کرنے والی دیدہ زیبی کے باوجود ادب کے طلبہ ہی کیا عوام کو بھی صحتمند اور تعمیری ادب میسر نہیں ہے۔ ہمارا یہ الزام ان معنوں میں نہ لیا جائے کہ اردو کے معروف اور مستند ادبا و شعراء کے رشحاتِ قلم اور کلامِ بلاغت نظام رہ رہ کر ان میں شامل کیے جاتے رہتے ہیں پھر ہم ایسا کیوں کہہ رہے ہیں۔ بلکہ ہم اصل میں یہ کہنا چاہتے ہیں کہ آموختہ بیان کرتے رہنا ایک بات ہے اور نیا ادب تخلیق کرنا نیز آج کی دنیا کی ضروریات و مسائل کی ترجمان تحریروں کا سامنے آنا دوسری بات ہے۔ پہلے کے اردو اخباروں یا رسائل کے مدیران کے انتخاب کا پیمانہ بھی اداروں کے نزدیک جدا رہتا تھا۔ وہ کسی بھی ایسے صاحبِ طرز شاعر یا ادیب کا انتخاب کرتے تھے جو زمانے کی تبدیلیوں اور تقاضوں پر بھرپور نگاہ رکھتے تھے۔ ادبی دنیا میں داخل ہونے والے نئے ادبا اور شعرا کی بھرپور پذیرائی اور حوصلہ افزائی جن کا شیوہ تھا۔ معیاری تسلیم کیے جانے والے تمام اخبار و رسائل تازہ نگارشات کی اشاعت میں تعلق و تملق کو قطعی خاطر میں نہیں لاتے تھے۔ ان کے نزدیک معیارمحض تعمیری و تخلیقی نگارشات ہوتی تھیں۔ اب اخباری اداروں کے پیشِ نظر صرف کاروباری مفادات ہوتے ہیں اور اسی لیے وہ ایسے افراد کو منصبِ ادارت سونپتے ہیں جو اس کام میں ان کے لیے بھرپور مفید ثابت ہوں۔ ان افراد کا زبان و ادب سے یا پاسبانِ زبان و ادب سے کسی قسم کا کوئی تعلق یا رابطہ قطعی شرط نہیں رہ گئی ہے۔ اب اس طرح کیا حال پیش آئے گا اسے بیان کرنا شاید ضروری نہیں رہ جاتا۔

نئے دور میں بھی اکّا دکّا اخبارات و رسائل اس بات کا ضرور لحاظ رکھ رہے ہیں کہ ادبی حصہ میں شائع ہونے والی تحریریں غیر معیاری اور سطحی انداز کی نہ ہوں مگر ان میں اور پرانے اخبار و جرائد میں ایک فرق یہ ہے کہ نئے اخبارات ادب سے ہٹ کر دوسرے صفحوں پر یہی احتیاط روا نہیں رکھتے۔ جس کی وجہ سے دوسرے صفحات پر زبان اور اِملے کی جو گت بنتی ہے اس سے بڑی کراہت ہونے لگتی ہے اور محسوس ہونے لگتا ہے کہ اردو ادب کی خدمت میں یہ اخبار محض اتنا ہی حصہ لینا پسند کرتے ہیں کہ ادب کی جانب سے چشم پوشی اور عدم توجہی کے الزام سے بچ سکیں۔
علاوہ ازیں ہم دیگر زبانوں سے موازنہ کریں تو وہاں زبان و ادب میں نئی کتابوں کے اضافے پر صاحبِ تصنیف یا تالیف کی بھرپور پذیرائی اور قارئین کو کتاب خریدنے پر اکسانے کے لیے اچھے تبصرے کیے جاتے ہیں۔ لیکن اس جانب اردو زبان کے تعلق سے بہت کم مخلصین نظر آتے ہیں۔
نئی نسل میں ابھرنے والے قلمکاروں کی حوصلہ افزائی بھی اس طرح کی جاتی ہے گویا ان پر ایک بار شائع کر کے احسان کیا جا رہا ہے۔ اور کسی نئے تخلیق کار کا مکرّر شائع ہوجانا تو جانیے خوش بختی کی معراج پر متمکن ہونا ہے۔ ان سب پر مستزاد یہ کہ انھیں کوئی معاوضہ ملنا تو درکنار ان کے اسٹیشنری کے مناسب اخراجات بھی انھیں دینے والے ادارے موجود نہیں ہیں۔ ایسی صورت میں ان کے حوصلے ٹوٹ جاتے ہیں۔
یہی ہیں چند وجوہات کہ جن کی وجہ سے نئے قلمکار حوصلہ مند نہیں ہو پاتے اور مشقِ خامہ فرسائی رک جاتی ہے۔ اس کا انجام ہمارے اور آپ کے سامنے ہے کہ نئے زمانے کے قلمکاروں کی ترجیحات بڑی تیزی کے ساتھ تبدیل ہو جاتی ہیں اور وہ بساطِ ادب سے اٹھ کر کسی اور دنیا میں مگن ہو جاتے ہیں۔ اس لیے اردو اخبارات کا مناسب پلیٹ فارم فراہم نہ کرنے کا ہی نتیجہ ہے کہ اس زبان میں نئے افکار و خیالات اب رقم نہیں ہو پا رہے ہیں۔ اردو اخباروں کو جلد ہی اپنی اس روِش پر مثبت طور سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ورنہ وہ دن دور نہیں جب یہ بے اعتنائی لاعلاج مرض بن چکی ہوگی۔ اچھے ادیب و شاعر اور دیگر اصنافِ ادب کے تخلیق کاروں کو اردو اخباروں کے پلیٹ فارم میسر آنے کے بعد ہی زبان کی ترقی ممکن ہے۔ ورنہ وہ دن بھی آئے گا کہ جب رونے بھی نہ پاؤگے.

1 comment:

شمس शम्स Shams said...

हा हा हा....
मक्कारी के साथ बेशर्म और मुंहचोर भी हो मेरे कमेंट हटा देने से क्या मैं तुम्हारा पीछा छोड़ दूंगा? जब तक तुम डा.रूपेश जी से सबके सामने माफ़ी नहीं मांगते मैं तुम्हें रगड़ता रहूंगा। तुमने भारी गलती करी है जिसका दंड तुम्हें भुगतना पड़ रहा है। मुझे नहीं पता कि तुम किन लोगों की संगति में रहते हो जो तुम्हें तुम्हारी बेवकूफ़ी और घमंड का एहसास नहीं दिलाते। जो तुम्हें तुम्हारी गलती बताए वो तुम्हें दुश्मन दिखने लगता है तो यकीनन तुम भ्रष्टबुद्धि हो नस्तालिक टैक्स्ट(यानि अरबी,उर्दू,सिंधी,पर्शियन की लिपि) के दुनिया के पहले ब्लागर।
जय जय भड़ास