To View This Blog in Nastaliq Script Download Faiz Nastaliq Unicode Font

Download Faiz Nastaliq Unicode Font from http://www.faiznastaliq.com/faiznastaliq.zip unzip & install it to your windows/font directory

Thursday, May 19, 2011

Urdu: Our Mother Tongue and We
Shahid Latif: Editor "Inquilab" Mumbai

زبان کی اہمیت تو خیر سے کسی دور میں کم نہیں ہوسکتی لیکن یہ حقیقت ہے کہ دور حاضر میں اس سے بے طرح انکار کیا جارہا ہے۔ لوگ باگ یہ کہنے لگے ہیں کہ زبان، ترسیل کا محض ذریعہ ہے اس سے زیادہ کچھ نہیں چنانچہ اگر زبان کے قواعد کا لحاظ رکھے بغیر بھی ترسیل ہوسکتی ہے تو اس میں کیا قباحت ہے۔
    اس میں کوئی شک نہیں کہ زبان اظہار کا وسیلہ ہے لیکن اسے اتنے محدود معنی میں دیکھنے کی کوشش بے معنی کہلائے گی ۔ اس سلسلے میں ایک مثال ملاحظہ کیجئے۔ مکان رہنے کےلئے ہوتا ہے۔ پھونس کا مکان بھی مکان ہے، اینٹ اور گارے سے بنایاہوا کچا مکان بھی مکان ہے، پختہ دیواروں سے گھرا ہوا لیکن مختصر رقبے کا مکان بھی مکان ہے اور عالی شان، وسیع و عریض محل نمامکان بھی مکان ہے۔ جب ان میں سے ہر چیز مکان ہے تب انسان پھونس کے مکان پر کیوں اکتفا نہیں کرتا جبکہ رہنےکےلئے وہ بھی کافی ہے اور مکان کی تعریف پر پورا اُترتا ہے۔ زبان صرف اظہار کا وسیلہ ہے تو مکان بھی صرف رہنے کےلئے ہوتا ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ایک طرف ہم مکان کو زیادہ وسیع اور خوبصورت بنانے کی سعی کرتے ہیں لیکن زبان سے صرف ’’کام چلانے‘‘ کا کام لینا چاہتے ہیں۔مکان کےلئے رنگ و روغن کو ضروری قرار دیتے ہیں لیکن زبان پر معمولی سی محنت بھی نہیں کرنا چاہتے؟ مکان کو آراستہ و پیراستہ رکھنا چاہتے ہیں اور اسے اپنی حیثیت کا نشان (اسٹیٹس سمبل) گردانتے ہیں لیکن زبان کو یہ درجہ نہیں دینا چاہتے۔ مکان کی دیوار پر خراش بھی آجائے تویوں محسوس ہوتا ہے جیسے کسی نے منہ نوچ لیا ہو لیکن زبان کی دیواروں کا پلاسٹر اُکھڑتا چلا جائے تب بھی ہمیں کوئی تکلیف نہیں ہوتی۔ مکان کو گھر اور گھر کو اُس کی تہذیب کا حامل بنانا چاہتے ہیں لیکن زبان کی تہذیب سے خود کھلواڑ کرتے ہیں۔ اور یہ سب اس لئے ہورہا ہے کہ ہم مکان کو مارکیٹ ریٹ کے نقطہ ٔ نظر سے آنکتے ہیں اور زبان کو بے قیمت تصور کرنے لگے ہیں جبکہ اس دور خرابات میں بھی زبان تنگ دست نہیں ہوئی بلکہ اپنے سچے قدردانوں کو بہت کچھ عطا کرتی ہے۔ مثال کے طور پر جو شخص اچھی زبان بولتا ہو وہ اپنے مخاطب کے دل میں جگہ بنا کر رہتا ہے۔ جو شخص بامحاورہ زبان جانتا ہو لوگ اس کی قدر کرتے ہیں۔ جو زبان کی تہذیب سے واقف ہو اُسے سر پر بٹھایاجاتا ہے۔ جو زبان کا نکتہ داں ہو اُس کا احترام کیا جاتا ہے۔ الغرض زبان کی اہمیت بھی ہے اور اس سے فائدہ بھی۔ اب اس کا انحصار ہم پر ہے کہ ہم اس کےلئے دیدہ و دل فرش راہ کرتے ہیں یا اسے سربازار رُسوا۔ آج تقریباً ہر زبان کے لوگ اپنی زبان کے ساتھ بدترین درجے کی نا انصافی کررہے ہیں۔ ایک زبان میں دوسری زبان کے الفاظ کی ملاوٹ، تلفظات کے تئیں بے حسی، املا کے تئیں لاپروائی، محاوروں اور ضرب الامثال کو غیر ضروری سمجھنے کی فکری کجی اور زبان کی تہذیب اور اس کی اہمیت سے انکار کی سرکشی عام ہوتی جارہی ہے۔ گھر اور معاشرے کے بڑے بھی اب اپنے بعد کی نسل کو ٹوکتے نہیں ہیں ورنہ ایک زمانہ تھا جب ایک لفظ کے غلط بولنے یا پڑھنے والے کی وہی سزا ہوتی تھی جو کسی مجرم کی ہوتی ہے۔ والدین اپنے بچوں کو زبان کے غلط استعمال پر نہ صرف ٹوکتے تھے بلکہ بعض اوقات سزا بھی دیتے تھے۔ اس کے برخلاف صحیح زبان بولنے اور برجستہ اشعار سنانے پر شاباشی بھی دیتے تھے اور بعض اوقات انعام بھی۔ اب شاید ہی کسی گھر میں ایسا ہوتا ہو۔یہی وجہ ہے کہ ’’خواب‘‘ بے چارہ ’’کھاب‘‘ ہوکر رہ گیا اور ’’گرم‘‘ پگھل کر ’’گَرَم‘‘ ہوگیا ہے۔
    زبان کی محبت کم سے کم تر ہوجانے کے سبب زبان کی محفلوں سے اُنسیت ختم ہوگئی اور زبان کی درس و تدریس کا جذبہ مفقود۔ ز بان کام چلانے تک محدود ہوگئی جبکہ صحتِ زبان زوال پذیر ہے۔ اپنی غفلت کے سبب ہم یہ بھولتے جارہے ہیں کہ (اپنی) زبان میں ہمارا مذہبی لٹریچر موجود، ہمارا ادب محفوظ، ہماری تہذیب سلامت اور ہماری تہذیبی شناخت پوشیدہ ہے۔ زبان گئی تو ہمارا بہت کچھ رُخصت ہوجائے گا اور اگر ہمارا بہت کچھ رُخصت ہوگیا تو سمجھ لیجئے کہ ’’اب ہم بھی جانے والے ہیں سامان تو گیا!‘‘

    ہمیں اتنی طویل تمہید کی ضرورت صرف یہ کہنے کےلئے پیش آئی کہ گرما کی تعطیلات میں ہم، نئی نسل کو زبان کی طرف راغب کرسکتے ہیں اور اُنہیں اچھی اچھی کتابیں پڑھا سکتے ہیں۔ پاش لوکالیٹی میں مکان خریدنے کی آرزو پوری ہو نہ ہو، زبان و ادب کی پاش لوکالیٹی میں بودوباش اختیار کرنے کی تمنا (اگر پیدا کی گئی تو) ضرور پوری ہوسکتی ہے۔ اگر آپ اسے ضروری سمجھتے ہیں تو بعد کی نسل کو سمجھائیے کہ ایک بار طالب علمی کا یہ دور گزر گیا تو پھر عملی زندگی اس ذخیرے سے فیضیاب ہونے کا موقع نہیں دیتی بالخصوص اس دور میں جب مادی ترقی انسان کو ہر طرح کی دوسری ترقی سے بے نیاز کرکے پیسہ کمانے کےلئے اتنا دوڑاتی ہے کہ آدمی دوڑتا ہی رہتا ہے۔ چاہے ہانپتا کانپتا دوڑے لیکن دوڑنا ضروری ہوتا ہے!!

1 comment:

nizam-momin said...

خیال تو بلکل درست ہے ' ساتھ ہی مرض کے اعتبار سے علاج کے چند اور نسخے ہوتے تو کیا بات تھی