To View This Blog in Nastaliq Script Download Faiz Nastaliq Unicode Font

Download Faiz Nastaliq Unicode Font from http://www.faiznastaliq.com/faiznastaliq.zip unzip & install it to your windows/font directory

Friday, July 29, 2011

Moonsighting and We MuslimsDr. Rehan Ansari
ماہِ رمضان محض چند قدم کے فاصلے پر ہے۔ گوکہ اسلامی مہینوں کو قمری مہینے کہا جاتا ہے مگر جمیع مسلمانوں کو دو چاندوں سے رغبت زیادہ ہے یعنی رمضان اور شوّال کے، اور دس چاند بلا نوید کوئی دیکھتا ہے کوئی نہیں۔ امسال بھی اﷲ خیر کا معاملہ فرمائے اور ہلالِ صیام کی ہویدگی آسان و اظہر فرمائے۔ ایں دعا است (آمین)۔
رمضان اور شوال کے چاند کی دید اور رویت پر چاند ماری برصغیر میں ہماری فطرتِ ثانیہ بن چکا ہے۔بردارانِ ملت کے مزاجوں میں مدوجزر پیدا ہو جاتا ہے۔ ہم نے سدا دیکھا ہے کہ پورے مسلم معاشرے میں قابلِ قدر و تعظیم علما سے زیادہ اہمیت پیشہ ور مولویوں کو حاصل ہو گئی ہے جو تقریباً ہر جماعت و مکتبِ فکر میں موجود ہیں۔انہی کے سبب مسلمان طبقاتی طور پر تقسیم بھی ہیں اور جماعتوں میں بھی گروہ بندیاں ملتی ہیں۔ رویتِ چاند کی ٹھیکیداری بھی اب تقسیم کرلی گئی ہے۔
'ان ایام میں ہمارے مزاجوں کی گرمی کا جو مطالعہ کیا تو پتہ چلا کہ اس ٹمپریچر کو ناپنے کے لیے کوئی تھرمامیٹر کامیاب نہیں ہو سکتا۔ ہم اس حقیقت کو مانتے ہیں کہ کوئی بھی خلافِ مزاج خبر مزاجوں کو بگاڑ دیتی ہے مگر چاند کے ہویدا ہونے کی خبر تو متوقع خبروں کے زمرے میں آتی ہے، اس کا تو شدید انتظار رہتا ہے، خوش دلی کے ساتھ استقبال کرنا چاہیے، لیکن ہوتا اس کے برعکس ہے یعنی قریبِ نصف شب کو کہیں سے خبر آئے تو بلا تاخیر پارہ چڑھ جاتا ہے۔ ہم یہ ہرگز نہیں کہتے کہ آپ تحقیق نہ کریں اور آنکھیں موند کر خبر پر یقین کرلیں۔ بے شک آپ کا حق ہے کہ تمام ضروری تصدیق اور استناد حاصل کرلیں اور پھر مانیں۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ چھوٹتے ہی غصے کا اظہار کرنے لگتے ہیں اور کچھ تو گالیاں بھی بکنے لگتے ہیں۔ نعوذ باﷲ من ذٰلک۔ ایک انتشار ، ایک اضطراب، ہجومِ بیکراں، مختلف شرائطِ شہادت پر تکرار، بحث و مباحثہ، گرماگرمی اور کبھی کبھار ہاتھا پائی بھی!... اصل میں چاند دِکھنے کے ساتھ کریڈٹ بھی دکھائی دینی چاہیے نا!... یہ سب باتیں گروہی اور جماعتی مخاصمت کا کھلا مظہر ہیں۔ مذہب ایک طرف ہوگیا ہے اور گروہ بندی کو کچھ زیادہ اہمیت حاصل ہو گئی ہے۔خالص دینی مسائل پر بھی فروعی مسلکی اختلافات کا غلبہ ہونے لگا ہے۔عام مسلمان بھی علمائے کرام و عظام سے زیادہ پارٹ ٹائم مولویوں کی آئیڈیالوجی سے سحرزدہ ہیں۔ چاند کی آنکھ مچولی والے ابرآلود ایام میں شاہدینِ ہلال کو ذلیل و رسوا کرنے اور سرِعام بے عزت و مطعون کرنے کے تمام ممکنہ حربے آزمائے جاتے ہیں۔ ہم اپنے دل میں سوچتے رہتے ہیں کہ اگر یہی معاملہ رہا تو کوئی شریف اور بھلا مسلمان آئندہ کیا چاند کی شہادت دینے کا حوصلہ بھی رکھ سکے گا؟ مذہبِ امن وسلامتی کو ماننے والے ایک ’’اچھی بات‘‘ پر اس قدر مشتعل ہوجائیں گے یہ ہمارے گمان سے اونچی بات ہے۔
ہمارے یہاں بعض مولوی گروہ شرعی گواہی کے لیے ’’مشرع‘‘ مسلمان ہونے کی شرط لگاتے ہیں اور ان کی نظر میں مشرع ہونے کے لیے سب سے پہلی شرط داڑھی ہے، وہ بھی ان کی پیمائش کے لحاظ کی! (عورتوں کو اب چاند دیکھنے کی ضرورت نہیں رہی)۔ پھر یہ بھی ہورہا ہے کہ شاہدِ ہلال کی کھال پر مسلک کی چھاپ بھی تلاش کی جاتی ہے۔ اس ضمن میں ہمیں ماضی کا ایک سچا واقعہ یاد آگیا جو ہم نے اپنے بزرگوں سے سنا تھا۔ ہمارے شہر کے انتہائی معروف و معتبر شاعر و حکیم مرحوم عبدالحئی ظریف نظامپوری ایک دوسرے صاحب کی معیت میں جامع مسجد (ممبئی) میں چاند کی رویت کی شہادت دینے کے لیے پہنچے تھے۔ وہاں شہادت لینے والے صاحبان نے کہا تھا کہ آپ کی شہادت قابلِ قبول نہیں ہے اس لیے کہ آپ کے داڑھی نہیں ہے۔ تو انھوں نے برجستہ یہ کہا اور لوٹ آئے کہ ’’چاند دیکھنے کا تعلق آنکھ سے ہے داڑھی سے نہیں‘‘۔


عام مسلمان، حتیٰ کہ تعلیم یافتہ مسلمان بھی دینی معاملات میں (بربنائے خوفِ بے جا) تدبر کرنا اپنی ذمہ داری قطعی نہیں سمجھتا، بلکہ وہ صرف مولوی پر (وہ بھی اپنے ہی مسلک کے) بھروسہ کرنا پسند کرتا ہے۔ جبکہ معتبر و مستند علما کی دینی کتب پوری طرح رہنمائی کے لیے موجود ہیں جو دیانتدارانہ تدبر میں معاون بن سکتی ہیں۔ مگر اب تو مسلکی عصبیت کی عینک کے بغیر آنکھیں بھی کچھ دیکھنے سے ہی قاصر ہوگئی ہیں۔
تلخ نوائی معاف، بارانِ رحمت کا مہینہ رمضان ہمارے لیے کسی ’’سالانہ فیسٹیول‘‘ کی شکل اختیار کرتا جارہا ہے، اور روزِ عید اسی فیسٹیول کا آخری دن.

2 comments:

Hamid Iqbal Siddiqui said...

muddat se mera chaand dikhai nahin diya,
aey ruyat e hilal commettee kahan hai tu.

Dr Rehan Ansari said...

Chaand ke paas hi rehte ho / shikwa-e-beja karte ho