To View This Blog in Nastaliq Script Download Faiz Nastaliq Unicode Font

Download Faiz Nastaliq Unicode Font from http://www.faiznastaliq.com/faiznastaliq.zip unzip & install it to your windows/font directory

Tuesday, July 26, 2011

Ibne-Safi: The One Man Army Who
Saved The Society From Obscene Literature
Dr. Rehan Ansari
اسرار احمدناروی اپنے والد سے منسوب کنیت ابنِ صفی کے نام سے معروف زیادہ ہیں۔ آپ کے والد کا نام ’صفی اﷲ‘ تھا اور والدہ محترمہ کا نام ’نذیرن بی بی‘ تھا۔ ننہال کا تعلق حضرت نوح ناروی کے خانوادے سے تھا۔ ۲۶ جولائی ۱۹۲۸ء کو الٰہ آباد کے علاقے ’نارا‘  (اترپردیش، ہند) میں پیدا ہوئے تھے اور باون (۵۲) برس کی عمر میں ۲۶ جولائی کو ہی ۱۹۸۰ء میں کراچی (پاکستان) کے پاپوش نگر قبرستان سے خلدآشیاں ہوئے۔ (یہاں ایک عجب نکتہ یہ پیدا ہوگیا ہے کہ یومِ پیدائش کے چھبیس اور یومِ وفات کے چھبیس کا مجموعی عدد باون ہوتا ہے جو عمر کے سال ہیں)۔ آپ نے علیگڑھ مسلم یونیورسٹی سے بی اے کیا تھا اور خدمتِ تدریس سے وابستہ ہو گئے تھے۔ آپ نے اپنے نام یعنی اسرار احمد ناروی سے شاعری کی خدمت کی۔ ان کے علاوہ ’سنکی سولجر‘ اور ’طغرل فرغان‘ کا قلمی نام بھی اختیار کر رکھا تھا۔ اگست ۱۹۵۲ء میں (جب ہندی کو بڑھاوا دینے اور اردو کے تئیں سرکاری تعصب سامنے آنے لگا تو) پاکستان ہجرت کرگئے اور وہیں ’اُم سلمہ خاتون‘ سے رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوئے۔ آپ کو اخیر عمر میں لبلبے کا سرطان لاحق ہو گیا تھا۔


Ibne-Safi with wife Umme-Salma Khatoon
ابنِ صفی وہ عبقری شخصیت تھی جس نے بیسویں صدی کے وسط میں اردو والوں کو فحش لٹریچر سے محفوظ رکھنے کا نیک کام انجام دیا اور ایک پوری جنریشن کی حفاظت کا ایک انوکھا اسلوب اختیار کیا تھا۔ انھوں نے اپنے زمانے کے مزاج سے ہم آہنگ ہو کر ’’سِرّی ادب‘‘ تخلیق کیا۔ اس کی ضرورت بھی بڑے فکر و خیال کے ساتھ سامنے آئی تھی۔ کیونکہ اس وقت پورے برّصغیر کا اردو معاشرہ ایک پرآشوب دور میں داخل ہوتا چلا جارہا تھا۔ لوگوں کی دلچسپی تعمیری اور اصلاحی ادب سے ختم ہوتی جارہی تھی اور اس جانب نئے لکھنے والے بھی کم سے کم ہوتے جارہے تھے۔ چنانچہ پڑھنے والوں کی اکثریت کی مارکیٹ پر فحش نگاروں نے چھاپہ مار کر گھٹیا، سستے اور بازاری قسم کی رنگین مزاجیوں سے بھری فحش تحریریں بھرنا شروع کردی تھی۔ حتیٰ کہ خاتون قلمکار (یا خاتون قلمکاروں کے نام سے لکھنے والے) بھی ایسے ناول اور (قسط وار) افسانے لکھ رہے تھے جو صرف جنسیات کا مرقع ثابت ہوتی تھیں اور بلا تخصیصِ عمر انھیں چھپ چھپا کر پڑھنے والے بڑھتے جا رہے تھے۔ ان کی وجہ سے اردوداں معاشرہ تہذیبی زوال و ابتذال کی جانب بڑھنے لگا تھا۔


Ibne-Safi with Ali Abbas Husaini
ایسے میں عباس حسینی اور ابن صفی جیسے فکرمند ادیبوں نے سرجوڑ کر کچھ کرنے کی بابت سوچنا شروع کیا اور ابن صفی نے عباس حسینی کے ساتھ مل کر اردو نوجوانوں کو ایک ایسی تحریر سے واقف کرانے کی ٹھان لی جو ان کے ذوق و شوق کی بھی سیرابی کرے اور ان کی طبیعت کو اضمحلالی دور سے نکال دے۔اس طرح اردو میں باقاعدہ سری ادب کی داغ بیل ڈالی گئی۔ خدا کو بھی یہ منظور ہوا۔ اس کے بعد اردو دنیا کو ابن صفی کے قلم سے وہ ناول دستیاب ہوئے جنھیں معرکۃ الآرا ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ جنھوں نے اشاعت اور ایڈیشن کے سارے ریکارڈ اپنے نام کر ڈالے۔ ان دونوں اصحاب نے مل کر نوجوانوں کی سوچ کے دھارے کو کسی قدر مثبت موڑ دینے کی بھرپور اور کامیاب سعی کی۔
ابن صفی ہندوستان کے اس علاقے میں پیدا ہوئے جس نے اردو ادب کو لاثانی طنز و مزاح نگار شاعر اکبر الٰہ آبادی دیا تھا۔ ظاہر سی بات ہے کہ علاقائیت اور اکبر الٰہ آبادی کی مقبولیت کے سبب اسرار احمد ناروی ابن صفی کے مزاج و شخصیت پر بھی یہ حس پوری طرح حاوی ہونی ہی تھی۔ ان کے اس مزاج کا عکاس ان کے ناول ہیں جن میں معاون کرداروں کی زبان سے ایسے بیساختہ اور برمحل جملے اداکیے ہیں کہ قاری تنہائی میں بھی مسکراتا ہی نہیں بلکہ کھلکھلا پڑتا ہے۔ ان کے ناول تحیرخیزی، مہم جوئی، سسپنس، رومان اور مزاح سے مرصع ہوتے تھے اور منظرنامہ کی تیز تبدیلی سے قاری ایک ہی نشست میں پورا ناول پڑھے بغیر مطمئن نہیں ہوتا تھا۔
 اس اسلوب کو لے کر ایک بھرے پرے معاشرے نے نہ صرف لطف و حظ اٹھایا بلکہ خود اردو کی لسانی دنیا میں اپنے اسلوب کے تئیں ابنِ صفی ایک مثبت بحث کا عنوان بن گئے۔ یعنی ان کے اسلوب کو اردو ادب کا حصہ ہونا چاہیے یا نہیں۔ کیا سِرّی ادب جسے جاسوسی ادب کے نام سے زیادہ جانا گیا ہے اس کی کوئی ادبی حیثیت و مقام ہے؟ کیا اسے بھی نثری اصنافِ ادب میں شامل کیا جانا چاہیے؟
علی عباس حسینی کا تعلق الہٰ آباد کے ایک زمیندار گھرانے سے تھا۔ ان کا اپنا ایک حلقۂ دوستاں تھا۔اس میں قلمکار، شاعر اور دانشور تھے۔ اسی حلقے میں ایک مرتبہ زوردار مباحثہ ہوا کہ ’اردو کی اشاعتی دنیا اب فحش نگاری کے علاوہ کسی اور پر تکیہ نہیں کرسکتی‘ اور یہ واقعہ ہے کہ اس دور میں ’وہی وہانوی‘ جیسے فحش نگاروں نے پوری مارکیٹ کو گویا یرغمال بنا لیا تھا۔ اس مباحثہ میں ابن صفی نے چیلنج کیا کہ جرائم، جاسوسی اور مہم جوئی کے عنوانات پر ناول لکھے جائیں تو ان کی بھی مارکیٹ میں بڑی مانگ ہوگی۔ اکثر دوستوں نے ان سے اختلاف کیا مگر عباس حسینی نے ان کی ہامی بھری اور حامی ہوگئے۔ عباس حسینی کا اپنا ’پرنٹنگ پریس‘ بھی تھا۔ دونوں نے مل کر الٰہ آباد میں ’نکہت پبلی کیشنز‘ کی بنیاد ڈالی۔ پھر یہ سفر نئی منزلیں طے کرتے اور تاریخ مرتب کرتے ہوئے آگے بڑھتا رہا۔ ’جاسوسی دنیا سیریز‘ کے تحت ایک سو پچیس ناول دیئے اور ’عمران سیریز‘ کے تحت ایک سو بیس ناول سامنے آئے۔ اکثر ناول ’پیپربیک‘ (غیرمجلد) ایڈیشن تھے۔ جاسوسی دنیا کے تحت انھوں نے پہلا ناول ۱۹۵۲ میں شائع کیا جس کا نام ’دلیر مجرم‘ تھا، اس کی قیمت ہندوستانی ’دس آنے‘ تھی۔ انسپکٹر نواب احمد کمال فریدی (کرنل فریدی) اور سرجنٹ ساجد حمید (کیپٹن حمید)، قاسم، انور، رشیدہ کے علاوہ ایک پوری ٹیم کے کرداروں کی تخلیق کی۔ عمران سیریز میں، علی عمران، جوزف، سلیمان، ایکس ٹو، جولیانا فٹزواٹر، سنگ ہی، فنچ، تھریسیا اور جانے ایسے کتنے یادگار کرداروں کی تخلیق کی تھی۔ ہر ناول سو سے ایک سو بیس صفحات پر مشتمل ہوتا تھا۔ یقینا انھوں نے معاصر انگریزی ناول ناگاروں کی تحریروں کو بھی سامنے رکھا تھا جن میں اگاتھا کرسٹی، ایان فلیمنگ، استانلے گارڈنر، مکی اسپلین اور متعدد دیگر۔ مگر انھوں نے اپنی تحریروں میں طبعزادیت برقرار رکھی۔ کہیں بھی سرقے کا شبہ نہیں ہوتا۔
ابن صفی کے قارئین کی بڑی تعداد متوسط طبقے میں پائی گئی یا اعلیٰ متوسط طبقے میں۔ مگر ان کے اسلوب کے حاسدین اردو کے جید طبقے میں رہے۔ ان کے ناولوں کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ انپڑھ مزدوروں اور محنت کشوں کا طبقہ (گروپ میں) بھی مل بانٹ کر ہر ماہ ایک ناول خریدتا اور کسی پڑھنے والے کو ڈھونڈ کر اسے باآواز بلند پڑھنے کو کہتا اور سن کر لطف اندوز ہوتا۔


Asrar Ahmad Narwi
aka
IBNE-SAFI
ابن صفی کی مقبولیت اور ان کے ناولوں کی مانگ کا یہ عالم تھا کہ ان کے نام سے مشابہ کئی بوگس ناموں کے ساتھ سطحی قسم کے ناول بھی بازار میں بکنے لگے۔ کسی نے این صفی، کسی نے عین صفی کے نام سے لکھا۔  کانپور کے ایک پبلشر کی دیدہ دلیری یہ بھی تھی کہ ’ابن صفی‘ کے نام سے ہی بوگس ناول بازار میں چلاتے رہے۔ ابن صفی نے اس کی تردید بھی کی مگر مارکیٹ کے نقارخانے میں ان کی آواز کہاں سے سنی جاتی۔ ان کے تخلیق کردہ کرداروں کو لے کر بھی بیشتر نے دہلی وغیرہ سے ناول لکھ کر ان کی مارکیٹ میں سیندھ لگاتے رہے تھے۔ مگر جو شہرتِ جاوداں اور اعتبار ابن صفی کے حصے میں آیا سارقین ان کی پرچھائیں کو بھی نہیں پا سکے۔
ابن صفی ایک اچھے شاعر بھی تھے۔ شاعری وہ اسرار ناروی کے نام سے کرتے تھے۔ ہم ان کے ایک قطعہ کے ساتھ اپنی بات کو ختم کرنے سے قبل ان کے لئے دعائے مغفرت کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا تھا:
       ہم خود ہی کرتے رہتے ہیں فتنوں کی پرورش
        آتی نہیں ہے کوئی بلا ہم پہ ناگہاں
        جنگل میں بھیڑیوں سے سوا کون معتبر
        جس کے سپرد کیجیے اقلیمِ جسم و جاں

8 comments:

Hamid Iqbal Siddiqui said...

bhai, IBNE SAFI marhoom ke kirdaron ko lekar ek novel "Khofnak Haseena' main ne bhi likha tha jise delhi ke ek bogus publisher ne H Iqbal ke farzi naam se chhapa tha, baad mein apne kiye par bohot naadim hua. khair marhoom ne mujh aise na-jaane kitne hi logon ko likhna sikhaya. un ke sare kirdar aaj bhi hamare zehnon men zinda hain

URDU KHATTATI said...

mera pasndeeda writer jis ki taqreeban sabhi novels mene padi hai aaj un ke bare main aap ka mazmoon pard kar purani yaadain taaza hogai Allah marhoom ko apni rehmaton se nawaze ....AAMEEN
Aslam Kiratpuri

Dr Rehan Ansari said...

Jazakumullah, Ibne-Safi hamari bhi zehni aur ilmi tarbiyat mein hissadar rahe hain. Ek fitri lagao raha hai un ki zaat se. Yeh aur baat ki Unki beshtar novels ko hum ne Nao-Umri mein padha tha is liye unki tamam baatein yaad naihn hain. Aur dobaara padhne ki shadeed khwahish ke bawajood ab itna waqt nahin milta. Lekin baharhaal hum unko aur unke kirdaaron ko faramosh nahin kar payeinge. Main to mazmoon mein mazeed tassurat aur tehqeeqat likhna chahta tha magar tawalat ke andeshe ke pesh-e-nazar itne par hi iktifa karna pada. Kisi aur mauqe par InshaAllah mazeed tafaaseel likhoonga. Duaaon ki iltemaas hai.

Rashid Ashraf said...

ڈاکٹر صاحب، آداب!

منکہ راشد اشرف، ایک انیجنئر، افسانہ و مضمون نگار، ابن صفی پر محقق کی حیثیت سے بھی جانا جاتا ہوں!

بہت خوشی ہوئی کہ ہندوستان میں بھی ابن صفی صاحب کے فعال چاہنے والے اب تک موجود ہیں، خالد جاوید اور محمد عارف اقبال صاحب کے بعد اب آپ کی تحریر دیکھی

ایک گزارش یہ ہے کہ اپنے مضمون میں آپ نے جو تصاویر شامل کی ہیں وہ احقر نے فرزند ابن صفی سے لے کر چند ماہ قبل اپنی سائٹ وادی اردو ڈاٹ کام اور ابن صفی ڈاٹ انفو پر شامل کی تھیں، ان کا حوالہ ضرور آنا چاہیے

ایک ضروری باتوں کی تصحیح کرلیجیے:

----- پہلے پیراگراف میں طغزل فرقان کو طغرال فرقان لکھا گیا ہے
------ چھٹے پیراگراف کے آغآز میں عباس حسینی کو علی عباس حسینی لکھا گیا ہے، علی عباس حسینی کا ابن صفی کے دوست و ناشر عناس حسینی سے کوئی تعلق نہیں ہے

خیر اندیش
راشد اشرف
کراچی سے

Dr Rehan Ansari said...

السلام علیکم،
راشد اشرف صاحب، پسندیدگی اور پزیرائی کے لئے شکرگزار ہوں. آپ کی دی ہوئی معلومات کے لئے شکریہ مگر میں نے آپ کی سائٹ سے تصویریں لی ہی نہیں تھیں تو حوالہ کیسے دے سکتا تھا؟ میں نے نیٹ سے براوز کرکے تصویریں جمع کی تھیں اور انکے منبع الگ الگ تھے. بہرکیف آپ سے رابطہ بن کر خوشی ہوئی. طغرل والی ٹائپ کی غلطی تھی. آپ کی نشاندہی کا شکریہ. میں بھی اردو کی فوج کا ایک ادنی سپاہی ہوں. ہندوستان میں بہت کچھ ہے. آپ لوگ بہت فاصلے سے دیکھنے کے عادی ہیں اس لئے مکمّل منظرنامہ نہیں دیکھ پاتے. ابن صفی خود ہندوستان کی دیں ہیں. کھر ربوہ بنا رہے گا تو مزید گفتگو جاری رہیگی. ایک مرتبہ پھر آپ کی پذیرائی کے لئے شکرگزار ہوں.
احقر
ڈاکٹر ریحان انصاری

Rashid Ashraf said...

ڈاکٹر صاحب
بہت شکریہ آپ کے جواب کا
آپ کے مضمون میں صفی صاحب کی ایک تصویر ہے جس میں وہ اپنی اہلیہ کے ہمراہ کھڑے ہیں، یہ اور اس جیسی دس مزید تصاویر عرصہ تیس بعد فرزند ابن صفی، احمد صفی نے مجھے چند ماہ پیشتر دی تھیں، اسکیننگ کی گئی اور پھر وادی اردو اور ابن صفی ڈاٹ انفو (کویت میں مقیم ہمارے عزیز بھائی جناب محمد حنیف کی صفی صاحب پر اولین ویب سائٹ) پر شامل کی گئیں اور بعد میں میں نے انہیں فیس بک پر بھی صفی صاحب کے صفحے پر شامل کیا

آپ کا فرمانا بجا ہے، یقیننا یہ وہاں سے کئی جگہوں پر کاپی کی گئی ہوں گی اور انہی میں سے کسی سائٹ سے آپ نے لی ہوگی

میں نے صفی صاحب پر اپنے ایک مضمون کا لنک اپنے اگلے پیغام میں درج کیا تھا لیکن شاید لنک ہونے کے سبب وہ آپ کے بلاگ پر قبول نہ کیا گیا

اگر آپ گوگلز سرچ انجن پر احقر کا مکمل نام
Rashid Ashraf
لکھیں تو اولین نتیجہ یہ سامنے آئے گا:
Articles and Columns By Rashid Ashraf

آپ اس میں چلے جائیں تو ابن صفی صاحب پر تین عدد مضامین اس خاکسارکے تحریر کردہ وہاں موجود ہائیں گے، اس کے علاوہ چند تحقیقی مضامین بھی موجود ہیں

خیر اندیش
راشد
zest70pk جی میل ڈاٹ کام

Rashid Ashraf said...

ڈاکٹر صاحب

گزشتہ ماہ حیدرآباد دکن سے جریدہ قومی زبان کی انتظامیہ نے مجھ سے رابطہ کر کے وادی اردو پر موجود مواد سے استفادہ کرنے کی اجازت چاہی تھی، قومی زبان کی جانب سے اس مرتبہ ابن صفی نمبر نکل رہا ہے (شاید شائع ہوچکا ہے، تاحال مجھ تک نہیں پہنچا)، ایک عدد مضمون بھی انہوں نے مجھ سے مانگا تھا، بھیجا گیا اور شائع بھی ہوا، یہاں تک میں پیش رفت سے آگاہ ہوں

عنوان ہے "ابن صفی، شہرت اب سرحدوں کے پار"
پاکستان کے معروف ٹی وی چینل جیو ٹی وی نے ابن صفی ہر گزشتہ برس ایک گھنٹے کی دستاویزی فلم نشر کی تھی، پاچن ماہ ہم نے چینل کے ساتھ کام کیا، لیکن جب تمام دنیا میں یہ فلم نشر ہوئی تو محنت وصول ہوئی، آپ مجھے ای میل کیجیے تو میں آپ کو لنک بھیجتا ہوں

آپ اور ہم صفی صاحب کے تعلق سے ایک ہی رشتے میں بندھے ہوئے ہیں

خیر اندیش
راشد
zest70pk جی میل ڈاٹ کام

Rashid Ashraf said...

حامد اقبال صدیقی صاحب
آداب

آپ نے فرمایا کہ کسی زمانے میں آپ نے ایچ اقبال کے فرضی نام سے ناول لکھا تھا، عرض کروں کہ ایچ اقبال صاحب کراچی میں مقیم ہیں، حیات ہیں، اور میری ان سے ملاقات ہوتی رہتی ہے

انہوں نے ابن صفی کے کرداروں پر بھی بہت لکھا اور میجر پرمود کے نام سے ان کا ایک کردار تو خاصا مشہور ہوا تھا

خیر اندیش
راشد
کراچی سے