To View This Blog in Nastaliq Script Download Faiz Nastaliq Unicode Font

Download Faiz Nastaliq Unicode Font from http://www.faiznastaliq.com/faiznastaliq.zip unzip & install it to your windows/font directory

Saturday, July 30, 2011

Muhammad Rafi: The multifaceted voiceA Tribute to the legendary SingerDr. Rehan Ansari
۳۱؍ جولائی ۱۹۸۰ء کو محمد رفیع جسمانی طور سے ہم سے جدا ہو گئے تھے، مگر ان کی آواز ہنوز گونج رہی ہے۔ کبھی ریڈیو سے، کبھی ٹیلیویژن پر، کبھی انٹرنیٹ سے تو کبھی مختلف ثقافتی یا ملکی و قومی تیوہاروں پر گونجاروں(لاؤڈاسپیکر) سے۔ اور جب یہ سبھی میڈیا خاموش رہتے ہیں تو ذہن و دماغ میں یادوں کی خاموش وادیوں میں محمد رفیع کی آواز فرحت دیتی ہے اور ہمارے لب ان کے ساتھ کسی قدر حرکت کرنے لگتے ہیں۔ ہمیں محسوس ہی نہیں ہوتا کہ اس آواز کا حامل شخص ۳۱؍برسوں پہلے ہم سے رخصت لے چکا ہے۔ حق مغفرت کرے۔


بچپن میں ہی لاہور کی گلیوں کے ایک درویش کی صدائے التجا ان کی روح میں ایسی جا سمائی کہ ان کی اپنی آواز سحر انگیز ہو گئی؛ پھر دنیا کو ایک ایسی آواز میں نغماتِ زندگی سننے کو ملے کہ جس کے لیے نقرئی اور طلائی جیسے استعارے بھی ناکافی ہیں۔ ۴؍دہائیوں تک پھر اس شخص کی آواز نے سب کے کانوں میں رس گھولے۔ وہ شخص تو گم ہوگیا مگر اس کی آواز کی لہریں ہنوز فضاؤں کو مرتعش کر دیتی ہیں اور یہ تموج دل کی دھڑکنوں سے ہم آہنگ ہو جاتا ہے۔


Two great legends: Naushad and M. Rafi
محمد رفیع ۱۹۴۴ء میں ممبئی چلے آئے تھے۔ انھوں نے کوئی باضابطہ تربیت نہیں حاصل کی تھی مگر بعد میں پیشہ ورانہ ضرورت کے پیشِ نظر استاد بڑے غلام علی خان، استاد عبدلواحد خان، پنڈت جیون لال مٹّو اور فیروز نظامی سے ہندوستانی کلاسیکل سنگیت کے درس لیے تھے۔ مگر ان کی جملہ صلاحیتیں ودیعتِ الٰہی ہی تھیں۔ ان کی پیشہ ورانہ زندگی کے آئینے میں آپ ان کی نجی زندگی دیکھیں تو یقین نہیں آتا کہ جس آواز سے ہماری تقریباً روزانہ کی ہی ملاقات ہے، وہ اسی شریف اور منکسرمزاج شخص کی ہے۔ ان کے چہرے پر ایک جانی پہچانی مسکراہٹ کا ہمیشہ ڈیرہ رہتا تھا۔ حتیٰ کہ گاتے وقت بھی ان کے چہرے کو یہ مسکراہٹ تنہا چھوڑتی تھی اور نہ کسی دوسرے تاثر کے لیے جگہ خالی کرتی تھی۔
محمد رفیع کا پہلا پلے بیک نغمہ ۱۹۴۴ء میں ریلیز ہونے والی پنجابی فلم ’گل بلوچ‘ میں تھا۔ اس میں انہوں نے زینت بیگم کے ہم آواز ’سونیے نی۔۔۔ ہیریئے نی‘ گایا تھا۔ ممبئی آنے کے بعد موسیقار شیام سندر نے فلم ’گاؤں کی گوری‘ کے لیے انہیں گانے کا موقع دیا اور انہوں نے جی ایم دُرّانی کے ہمراہ پہلا گانا گایا ’اجی دل ہو قابو میں تو دلدار کی ایسی تیسی‘۔اس کے بعد نوشاد، شیام سندر، حسن لال بھگت رام، راجندرکرشن اور دوسرے موسیقاروں کے ساتھ انہوں نے یادگار نغمے گائے۔ گاندھی جی کے قتل کے بعد انہوں نے جو نغمہ گایا تھا ’سنو سنو اے دنیا والو باپوجی کی امرکہانی‘ تو اسے سننے کے لیے وزیرِ اعظم ہند نہرو نے محمد رفیع کو اپنے دولت کدے پر بلوایا اور چاندی کے تمغے سے نوازا تھا۔ لیکن یہ تو پہلا پڑاؤ تھا محمد رفیع کی کامیابی کی منزلوں کا۔اس کے بعد مسلسل ۴؍دہائیوں تک پوری دنیا اس کی میٹھی اور فرحت بخش آواز کے زیر و بم سے سرور پاتی رہی۔


Two most famous JAWS
Mohd Rafi with Mohd. Ali
محمد رفیع کی زندگی کئی ابواب پر مشتمل ہے اور گزشتہ ۳۰؍برسوں سے ہی نہیں اس سے قبل سے بھی اس پر مسلسل روشنی ڈالی جاتی رہی ہے۔ اسی سبب کچھ نیا لکھنے کے امکانات بھی کم سے کم ہو چکے ہیں۔ البتہ جو بات سب سے زیادہ قابلِ ذکر ہوا کرتی ہے وہ یہ کہ محمد رفیع ایک ہمہ جہت یعنی وَرسٹائل مغنی تھے۔ زندگی کا کوئی بھی روپ ہو، کیسے ہی حالات اور موسم کی بات ہو، ان سب کو محمد رفیع نے اپنی آواز میں خوب نبھایا ہے۔ کسی فقیر کی صدائے احتیاج ہو یا کسی راجہ اور بادشاہ کے احکام یا رومان ہوں، کسی معمولی سے کاروبار سے متعلق فرد کی بات ہو یا محاذِ جنگ اور سیاست کی گرمیاں ہوں، ہر جگہ صرف محمد رفیع نے ہی انصاف کیا ہے۔ کوئی دوسرا گلوکار اتنے رنگ و روپ سے مزین نہیں ملتا۔
محمد رفیع نے ہزاروں نغمے گائے۔ ان میں کلاسیکل بھی ہیں، حب الوطنی کے گیت بھی ہیں، ہجر و یاسیت کے نالے بھی ہیں اور شرارت بھری کھلنڈری رومانی چھیڑچھاڑ بھی،حمد و نعت و منقبت بھی سنائی دیتی ہیں تو بھجن اور قوالیوں کی ترنگ بھی،معمولی اور عام سے ساز پر بھی ترانے ملتے ہیں اور ڈسکو اور پاپ میوزک کے پرشور ماحول کے گانے بھی ہیں، غرض زندگی کے کسی بھی گوشے کا نغمہ نہیں بچا ہے جسے محمد رفیع نے زیورِ ترنم نہ دیا ہو۔ اسی طرح ہم یہ بات بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہندوستان ایک کثیرمذہبی ملک ہی نہیں ہے بلکہ کثیر تہذیبی اور کثیر لسانی ملک بھی ہے، اس لیے محمد رفیع نے پورے ملک کے عوام کو بھی اپنی آواز سے یوں نوازا ہے کہ انہوں نے اُردو اور ہندی کے علاوہ کوکنی، مراٹھی، بھوجپوری، اُڑیہ، پنجابی، بنگالی، گجراتی، سندھی، کنّڑ، تیلگو، ماگھی، میتھلی، آسامی، انگریزی، فارسی، اسپینی اور ڈچ زبانوں میں بھی دنیا کو نغمے سنائے ہیں۔ گزشتہ برس ایک مبصر نے ان کے انداز پر ایک رائے یوں دی تھی کہ ’’مجھے تم سے محبت ہے، کہنے کے سیکڑوں رنگ بھی ہو جائیں، تو ان سب کا حسنِ ادائیگی صرف محمد رفیع سے ہی ممکن تھا!‘‘
لیکن مختلف قومی اور فنکارانہ اعزازات پانے والے پدم شری محمد رفیع کو اس ملک میں پوری راحت بھری زندگی ملی ہو ایسا بھی نہیں رہا ہے۔ ہم نے اپنی نوعمری میں (اور بیشتر نے) وہ دور بھی دیکھا تھا کہ ملک میں ایمرجنسی کا نفاذ بعد میں ہوا تھا مگر اس سے پہلے محمد رفیع کو ناانصافی کا شکار بنا کر ان کے نغموں پر ایمرجنسی لگا دی گئی تھی۔ ہوا یہ تھا کہ ’آرادھنا‘کے چند گیتوں کی ریکارڈنگ کے بعد اس فلم کے موسیقار ایس ڈی برمن کو بیماری کے سبب اسپتال داخل کیا گیا، جس کے سبب بقیہ گیتوں کی ریکارڈنگ اُن کے صاحبزادے آر ڈی برمن(جو ’آرادھنا‘ میں اسسٹنٹ میوزک ڈائریکٹر تھے) نے اُس طرز پر نہیں کی، جو طرز ایس ڈی نے تیار کر رکھی تھی۔ آر ڈی نے کشور کمار کے ساتھ بقیہ نغمے ریکارڈ کیے ، جو زبردست ہٹ ہوئے۔ مگر یہاں سے ایس ڈی اور آر ڈی کے اختلاف نے شدّت اختیار کر لی ، جس کے نتیجے میں آر ڈی برمن نے آزادانہ طور پر موسیقی ترتیب دینا شروع کر دی۔ اُس وقت راجیش کھنّہ اپنے فلمی کریئر کے عروج پر تھے۔ ان کی ہر فلم کامیابی کے جھنڈے گاڑ رہی تھی  اسی کے ساتھ کشور کمار کا بھی بول بولا ہوگیا اور انہوں نے فلمی گلوکاروں میں پہلی پوزیشن حاصل کر لی، ساتھ ہی ساتھ  رائلٹی کے سلسلے میں لتا منگیشکر سے بھی رفیع صاحب کی اَن بن ہو گئی تھی، یہ کافی رسوخ رکھتی تھیں جس کے سبب ہر کوئی بُلبُلِ ہند کی ناراضگی سے اپنا دامن بچانا چاہتا تھا؛ مگر وہ شریف آدمی جس کا نام محمدرفیع تھا ، کسی بھی قسم کی بری عادتوں سے محفوظ ایک نیکوکار کی مانند زندگی گزار رہا تھا، اس عرصہ میں صرف اپنے رب پر بھروسہ کیے رہا کہ وہ اسے اور اس کی صلاحیتوں کو ضائع نہیں ہونے دے گا۔۔۔ اور ایسا ہی ہوا۔ جب بدنصیبی کے یہ بادل چھٹ گئے تو اس کے بعد محمد رفیع نے اخیر عمر تک ایسے ایسے نغمے دیے کہ چھوٹی عمر کے بچے ہوں یا شباب سے دوچار ہونے والی جنریشن، مائیں ہوں یا باپ اور دادا، سب مسلسل نہال ہوتے رہتے ہیں۔ آخری برسوں میں محمد رفیع کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ وہ روزانہ ۵؍گیت کے اوسط سے ریکارڈنگ کرایا کرتے تھے اور اُن کے ایک گیت کا معاوضہ ۱۸؍تا ۲۰؍ہزار روپئے تھا کہ جب کہ کشور کمار کے ایک گیت کا معاوضہ ۵؍ہزار روپئے تھا۔ اس کے باوجود اس شریف گلوکار کا عالم یہ تھا کہ اگر کوئی گیت انہیں بہت زیادہ پسند آ جاتا تھا تو اُسے مفت میں بھی گا دیتے یا برائے نام معاوضہ لے لیا کرتے تھے۔ہمیں تو نہیں لگتا کہ گلوکاری جیسے میدان میں کہ جہاں معمولی معمولی کمزوریوں کو بھی بڑی بڑی تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور بہت تیزی کے ساتھ ناموں اور کاموں کو فراموش کر دیا جاتا ہے، وہاں پر محمد رفیع کے نام پر ہلکی سی دھول بھی جم پائی ہے۔



M. Rafi and Naushad rehearsing at latter's home

No comments: