To View This Blog in Nastaliq Script Download Faiz Nastaliq Unicode Font

Download Faiz Nastaliq Unicode Font from http://www.faiznastaliq.com/faiznastaliq.zip unzip & install it to your windows/font directory

Monday, July 11, 2011

Rains & Rainy DiseasesDr. Rehan Ansari
موسمِ باراں جتنا رومان پرور اور لطف اندوزی والا موسم ہے اس پر بہت کچھ لکھا جاتا رہا ہے۔ یقینا یہ قدرت کا بیش بہا تحفہ ہے، نعمت ہے، رحمت ہے، لیکن شہری زندگیوں میں یہ بیشتر اوقات زحمت بن جاتا ہے۔ اس کا سبب ہمارا اپنا ماحول اور گذر بسر کے طریقے ہیں۔ ہم اپنا رُوٹین سال بھر تبدیل نہیں ہونے دینا چاہتے جبکہ قدرت کا رُوٹین سال بھر میں مختلف تقاضے کرتا ہے۔ انھی تقاضوں میں سے حفظانِ صحت کے طریقے بھی ہیں۔
برسات کے موسم کے ساتھ ماحول تبدیل ہو جاتا ہے۔ اس ماحول میں پلنے اور بڑھنے والے امراض مخصوص ہیں۔ انھیں دو اہم قسموں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے ایک تو ہوا سے پھیلنے والے امراض اور دوسرے پانی سے پھیلنے والا امراض۔ پانی سے پھیلنے والے امراض میں سب سے زیادہ عام اور پریشان کن مرض ’’پیچش‘‘ ہے۔ اس کے علاوہ یرقان، کالرا، پولیو، ٹائیفائڈ، ڈینگو بخار، لیپٹواسپائروسس Leptospirosis وغیرہ بے حد سنگین امراض ہیں۔ ان کے علاوہ امراض میں دمہ، جوڑوں کا درد، جلد کے امراض، سردی، کھانسی، نمونیا بھی ہیں۔



Dengue Fever, Aedis egypti mosquito
اس میں کئی امراض ایسے ہیں کہ جو انسانوں سے انسانوں میں منتقل ہوتے ہیں اور کئی ایسے ہیں جو پالتو یا غیرپالتو جانوروں یا کیڑے مکوڑوں اور دوسرے حیوانات سے منتقل ہوتے ہیں۔ کئی ایسے ہیں جو غذاؤں میں امراض کے جراثیم کی شمولیت سے پھیلتے ہیں۔ یہ سب باتیں تمہیداً اس لیے بیان کی جارہی ہیں کہ انھی عوامل پر قابو پا لیا جائے تو برسات میں پھیلنے والے امراض سے بچاؤ کی بڑی اچھی صورت نکل آئے گی۔
پیچش
پیچش کا اصل سبب غذائی تلوّث ہے۔ یہ دو طرح کی ہوتی ہے۔ ایک امیبائی اور دوسری جراثیمی۔ یعنی غذا یا پینے کے پانی میں جب امیبا نامی خوردبینی جاندار شامل ہو جائے یا شِگیلا (Shigella) نامی جراثیم (بیکٹیریا) کا تلوّث ہو جائے تو پیچش لاحق ہو جاتی ہے اور پیٹ میں سخت مروڑ کے ساتھ چپچپے پاخانے ہونے لگتے ہیں، جس میں کبھی خون بھی شامل ہوتا ہے۔ ایسا دن میں کئی بار ہوتا ہے اور مریض نڈھال ہو جاتا ہے۔ علامت میں قے بھی شامل یا شریک ہو سکتی ہے۔ کبھی پاخانے بالکل پتلے دست کی شکل میں بھی ہوتے ہیں اور دیگر علامات یکساں ہوتی ہیں۔
اس کا علاج ڈاکٹر سے ہی کروانا چاہیے۔ کیونکہ صحیح تدبیر نہ اپنانے اور بے پروائی کی صورت میں معاملہ خطرناک بھی ہو جاتا ہے۔
علاج میں خود کرنے کے کام یہ ہیں: زیادہ سے زیادہ پانی پینا چاہیے۔ پینے کا پانی اُبلا ہوا رکھا جائے۔ اگر ORSیعنی پانی میں ملانے والا نمک اور شکر کا سفوف استعمال کیا جائے تو اور بہتر ہوتا ہے۔ آرام کیا جائے۔ مرض کی شدت کے اعتبار سے گھر پر علاج کروایا جائے یا اسپتال میں داخل کرنا لازمی ہے اس کا فیصلہ اپنے فیملی ڈاکٹر پر چھوڑیں۔


Diarrheoa and Cholera
ڈائریا (اور) کالرا
یہ بھی آلودہ یا ملوّث پانی کے پینے سے ہوتا ہے۔ اس میں پتلے دست آتے ہیں اور دن بھر میں بار بار جلاب ہوتا ہے۔ اسی سبب جسم میں پانی کی کمی کی علامات ظاہر ہونے لگتی ہیں۔ مریض ڈھلک جاتا ہے۔ بخار چڑھ جاتا ہے۔ پیٹ میں درد نیز متلی اور قے بھی ہوتی ہے۔ ڈاکٹر کے مشورے کے مطابق علاج کریں اور صاف شدہ پانی پئیں۔ باقی تدابیر حسبِ بالا یعنی پیچش کے علاج کی مانند ہیں۔ کالرا کا ڈائریا بے حد شدید اور بہت زیادہ متعدی یعنی ایک سے دوسرے کو لگنے والا مرض ہے۔ یہ اکثر اوقات مہلک ہو جاتا ہے۔ اس لیے برسات کے موسم کے ڈائریا کو کسی بھی صورت میں نظر انداز کرنا اپنی جان سے کھیلنے کے مترادف ہوتا ہے۔جس قدر جلد ممکن ہو قریبی اسپتال سے رجوع ہو نا چاہیے اور کالرا کی تشخیص ہو جائے تو مقامی حکام کو فوری طور پر اس کی اطلاع دینی لازمی ہے۔


Leptospirosis & Jaundice
یرقان
یہ جگر کی خرابی کے سبب ہوتا ہے۔ جب جگر میں سوجن پیدا ہو جاتی ہے تو خون میں ایک ذرہ بڑھ جاتا ہے جسے بلیروبین (Bilirubin)کہتے ہیں۔ اس کی وجہ سے جلد اور آنکھوں کے سفید حصے میں زردی یا پیلا رنگ دکھائی دینے لگتا ہے۔ اس کے اسباب اور حالات تو بہت سارے ہیں لیکن یہاں برسات کے مطابق بتلانا چاہیں گے کہ اس موسم میں یرقان کا عام سبب ’لیپٹواسپائروسس‘ نامی مرض ہوا کرتا ہے جسے Weil's Disease  بھی کہتے ہیں۔ یہ مرض تحقیق کے مطابق ایک بیکٹیریا سے پھیلتا ہے جو برسات کے پانی میں چوہوں کے (کبھی کتوں، خنزیر اور گھوڑوں کے بھی) پیشاب کے ذریعہ سے شامل ہوتا ہے اور جمع ہوئے پانیوں میں جب کوئی چلتا ہے اور اس کی جلد کسی وجہ سے مجروح ہو تو اس زخم کے راستے یہ جراثیم جسم میں داخل ہو جاتے ہیں۔ اس کی اہم علامات میں بخار، لرزہ، شدید بدن درد اور سر کا درد شامل ہیں۔ بڑھی ہوئی صورتوں میں جگر اور گردہ بھی متاثر ہو جاتے ہیں اور یرقان ظاہر ہوتا ہے۔ آنکھوں اور جسم کی اندرونی جھلیوں میں خون رِسا ہوا بھی نظر آتا ہے۔ اگر یہ منزل آجائے تو اس مرض کو خطرناک درجے میں سمجھا جاتا ہے۔
اس کا علاج تو اسپتال میں ہی ممکن ہے، جیسے ہی کچھ علامات ظاہر ہوں فوراً اپنے ڈاکٹر سے رجوع کریں۔ خود سے کچھ کرنے کے اور تحفظی طریقے یہ ہیں: پانی سے بھرے ہوئے علاقوں میں چلنے سے گریز کریں، اگر یہ ممکن نہ ہو تو پھر گمبوٹ استعمال کریں۔ کچرا وغیرہ کوڑا دان یا صحیح جگہوں پر پھینکیں۔ چوہوں کی آبادی کم کرنے میں بلدیہ کا تعاون کریں ۔
۶ تا ۸گلاس پانی یومیہ پئیں۔ تازہ پھل اور ان کا رس نکال کر استعمال کریں۔ کھانے میں بھی تازہ اور دھلی ہوئی سبزیاں استعمال کرنا بہتر ہے۔ کافی، مشروبات، شراب، اور اسی قسم کی کباڑ غذائیں استعمال کرنے سے پرہیز کریں۔ گوشت، مچھلی، دودھ، پنیر، کا استعمال نہ کریں۔ سگریٹ اور تمباکو کے دیگر استعمال سے بچیں۔
ڈینگو
یہ فلیوی وائرس Flavi-virusکی وجہ سے پھیلتا ہے۔ اور اس وائرس کو پھیلانے کا ذمہ دار ایک ایڈیس ایجپٹائی Aedes aegypti نامی مچھر ہے۔ یہ مچھر رات کے برخلاف دن کے وقت کاٹا کرتا ہے۔ اس کی علامات میں اچانک تیز بخار چڑھنا، لرزہ، شدید سر درد، کمزوری، آنکھوں میں درد، پٹھوں اور جوڑوں میں درد، خون نکلنے کی علامات، قے، چٹے، سیاہ پاخانہ جیسی باتیں شامل ہیں۔ اس کا علاج بھی خود سے کرنے کی غلطی نہ کریں۔ ڈاکٹر یا اسپتال سے رجوع کریں۔ مناسب تحفظ کے طریقے اپنائیں جیسے مچھروں کی پیدائش کی جگہوں کو ختم کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں۔ پانی جمع رہنے والی جگہوں کو مناسب انداز میں ڈھک کر رکھیں یا پھر انھیں ختم کر دیں جیسے پودوں اور پھولوں کے گملے، زیرتعمیر بلڈنگوں کے سلیب، بلڈنگوں کی پانی کی ٹنکیاں، مختلف مصارف میں رہنے والے ٹائر اور ٹیوب،گٹریں اور نالیاں، وغیرہ وغیرہ۔
پولیو
یہ پولیو کے وائرس سے پھیلنے والا شدید قسم کا متعدی مرض ہے۔ یہ بھی پانی کے وسیلے سے پھیلتا ہے۔ پولیو کے وائرس مریض کے فضلے میں شامل رہتے ہیں اور جب یہی فضلہ پینے کے پانی میں شامل ہو کر کسی طرح دوسرے بچّے کے جسم میں منتقل ہوگیا تو اسے متاثر کر سکتا ہے۔
اس کا علاج تو خیر سے ابھی تک کچھ کامیاب نہیں ہے لیکن اس سے بچاؤ کے ٹیکے دستیاب ہیں اور بے حد کارگر ہین۔ حکومتِ ہند اور حکومتِ مہاراشٹر اس کا دور (Pulse)بھی رہ رہ کر چلاتے رہتے ہیں تاکہ اس کے وائرس کا ہمارے  ملک اور ریاست سے نام و نشان مٹ جائے۔ اس لیے جتنی آسانی اس کے وائرس کے پھیلنے کے لیے ممکن ہے اس سے کہیں زیادہ آسان پولیو ڈوز کی دو بوندوں کی خوراک لینے سے اس کے بچاؤ کی تدبیر ہے۔ اس لیے ہم سبھی کو چاہیے کہ اپنے ننھے بچوں کو ہر دور (pulse)میں یہ خوراک ضرور دلوائیں۔

ٹائیفائڈ
یہ مرض سالمونیلا Salmonellaنامی جراثیم سے پھیلتا ہے۔ اس کے پھیلاؤ کا طریقہ بھی پولیو کی مانند ہے۔ یعنی پینے کے پانی یا غذا میں مریض کے فضلے کے اجزاء شامل ہوں تو یہ مرض ان کے ذریعہ جسم میں داخل ہو جاتا ہے۔ البتہ جس طرح پولیو چھوٹے بچوں کو متاثر کرتا ہے تو ٹائیفائڈ کے لیے عمر کی کوئی قید نہیں ہے۔ یہ ہر عمر کے فرد کو متاثر کر سکتا ہے۔ اس کی تشخیص ڈاکٹروں کے ذریعہ ہی ممکن ہے۔ اس کی عام، علامات میں پوری طرح نہ اترنے والا بخار، کبھی کبھی جلاب، چکتّے، بھی شامل ہیں۔ پھر بھی بہت نمایاں علامات کا پایا جانا ذرا کم ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔ البتہ ڈاکٹر پر اعتماد رکھا جائے تو اس کا علاج آسانی کے ساتھ ہو جاتا ہے۔ اچھی سے اچھی اور اثردار دوائیں ہر جگہ دستیاب ہیں۔
دمہ
برسات میں ہوائیں زیادہ مرطوب اور بوجھل ہو جاتی ہیں۔ ان کا بہاؤ بھی نسبتاً دھیما رہتا ہے۔ اسی سبب اس میں زودحسّاسیت کے ذمہ دار الرجین (Allergen)بہت زیادہ ملتے ہیں۔ معلق رہتے ہیں۔اور چونکہ یہ ایک ہی جگہ زیادہ دیر تک موجود رہتے ہیں، ساتھ ہی ساتھ گھروں یا کارخانوں سے اٹھنے والے دھوئیں، گردوغبار بھی کثیر مقدار میں شامل ہوتے رہتے ہیں، اس لیے دمہ کے مریضوں کے لیے مصیبت کا سبب ہوتے ہیں۔ ان کے لیے دواؤں اور دیگر تدابیر کے اختیار کرنے کا بھی موسم ہو جاتا ہے برسات کا موسم۔


Pneumonia and Cough


فلو،سردی، کھانسی، نمونیا
فلو یا انفلوئنزا ایک شدید متعدی مرض ہے جو وائرس سے پھیلتا ہے۔ سردی کھانسی اس کے ساتھ ہی شامل رہتی ہے۔ نمونیا پھیپھڑوں کی اندرونی سوجن کا نام ہے جو عموماً کئی وجوہات سے پھیلتا ہے لیکن برسات میں فلو کے وائرس کی وجہ سے ہونے والا نمونیا ہی عام ہے اس لیے ہم دیگر اسباب سے ہونے والے نمونیا کے بیان سے انحراف کرکے صرف برساتی نمونیا کے تعلق سے ہی معلومات دیں گے۔
فلو کی عام علامات میں شدید بخار اور بدن میں بہت زیادہ درد کی شکایت ہوتی ہے۔ گلے میں خراش، کھانسی، چھینک، تکان، شدید سر درد، سانس میں قدرے تکلیف، جوڑ جوڑ دُکھنا، آنکھوں میں جلن، متلی و قے کا احساس، ناک سے رطوبت کا گرنا وغیرہ شامل ہیں۔
نمونیا کی علامات میں درجِ بالا کے ساتھ ساتھ سینے میں درد اور شدید کھانسی پائی جاتی ہے۔ بخار بھی شدید ہوا کرتا ہے۔ مریض کو کھانسنے میں بہت تکلیف ہوتی ہے اس لیے مریض تکلیف کے باوجود کھانسی کو روکنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کی تشخیص سینے کے ایکسرے کی مدد سے بہت آسانی سے ممکن ہوگئی ہے۔ تشخیص بر وقت ہو جائے تو علاج بھی آسانی کے ساتھ ہوتا ہے۔
جب ان امراض کا شکار ہوں تو آپ کو چاہیے کہ چھینکتے وقت ناک پر رومال رکھ لیا کریں اور کھانستے وقت منہ کو رومال سے ڈھک لینا چاہیے۔مریضوں سے دور رہنا چاہیے اور اگر آپ خود مریض ہوں تو خود کو دوسروں سے الگ رکھنے کی کوشش کریں۔
جوڑوں کا درد
جوڑوں کا درد بھی لاتعداد اسباب سے لاحق ہوتا ہے۔ یہاں ہم یہ واضح کرنا چاہیں گے کہ برسات کے موسم میں بھی جوڑوں کے درد میں مبتلا لوگوں کو کافی پریشانی اٹھانی پڑتی ہے۔ اس کی سب سے اہم علامت درد ہے، جوڑوں کا درد۔ جوڑ اکڑ جاتے ہیں۔ چھونے پر درد کا احساس ہوتا ہے۔ درد کی سبھی علامات برسات کے موسم میں کچھ سوا ہو جاتی ہیں۔ حسبِ ضرورت علاج اور وہ بھی طبیب کی نگرانی میں لازمی ہوتا ہے۔
ہماری ذمہ داریاں
ہمیں برسات کا خیر مقدم کرنے کے ساتھ ہی ہر طرح کی صورتحال کاسامنا کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔تمام اقدامات میں سماجی طور پرحفظانِ صحت کے اصولوں کو اپنانا چاہیے۔ اور جان لینا چاہیے کہ یہی اصل میں علاج بھی ہے۔ گھروں اور علاقے سے نکلے ہوئے کوڑے اور کچرے کا صحیح ڈسپوژل ہونا چاہیے اور عوامی مقامات پر نہیں پھینکنا چاہیے۔گٹروں کو بھی ان سے اَٹنے اور مسدود ہونے سے محفوظ رکھنا چاہیے۔ یہ اپنی اور بلدیہ دونوں کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ بیماری پھیل جاتی ہے تو ایک دوسرے پر الزامات دھرے جاتے ہیں۔ چوہوں اور دیگر حیوانات سے خود کو محفوظ کرنے کے جتن کرنا لازمی ہے۔ مچھروں کی پیدائش کے عوامل ختم کر دیئے جانے چاہئیں۔پینے کا پانی اُبال کر استعمال کرنا پانی سے پیدا ہونے والے امراض سے بچاؤ کی سب سے آسان ترکیب ہے

2 comments:

Hamid Iqbal Siddiqui said...

beemariyon ki barsaat nahin
DOCTOR'S FESTIVAL
bheege huey mousam ka maza kyun nahi lete

Hamid Iqbal Siddiqui said...

beemariyon ki barsat nahin -
DOCTOR'S FESTIVAL
bheege huey mousam ka maza kyun nahin lete