To View This Blog in Nastaliq Script Download Faiz Nastaliq Unicode Font

Download Faiz Nastaliq Unicode Font from http://www.faiznastaliq.com/faiznastaliq.zip unzip & install it to your windows/font directory

Friday, July 8, 2011

Our Body Is Made Up Of Soil
It Embellishes With Soil

Dr. Rehan Ansari
طب (اور سائنس) کی ایک اہم شاخ Biochemistry بایوکیمسٹری (حیاتیاتی کیمیا) کہلاتی ہے جس میں ذی حیات جسم کے اندر ہونے والی کیمیاوی تبدیلیوں اور اس کے مدارج سے بحث ہوتی ہے۔ یہ سائنس اب سے صرف دو سو برس قبل ہی باقاعدہ طور سے مرتب کی گئی ہے لیکن (نباتات و حیوانات) کے جسم (مادّی) میں ہونے والے کیمیائی تبدّلات و تغیرات ازل سے جاری ہیں اور اﷲ ہی جانتا ہے کہ یہ سلسلہ کب تک جاری رہنا ہے۔ اہم ترین بات اس ضمن میں یہ ہے کہ جسم کو نمو کے لیے درکار جملہ غذائیں نامیاتی (Organic) مرکبات ہیں۔ ’’نامیاتی کیمیا‘‘ ایک شاخ اور مضمون کے بطور تسلیم ہونے کے باوجود علمِ کیمیا کے صفحات پر ’’آرگینک کیمسٹری‘‘ Organic Chemistry کی کوئی واضح تعریف موجود نہیں ہے! جو تعریف سب کے لیے قابلِ قبول نکلی ہے وہ یہ کہ جن مرکبات کی تشکیل میں کاربن اور ہائیڈروجن کی بندش (C-H) شامل ہوتی ہے ان کے مطالعہ کی شاخ کو ’آرگینک کیمسٹری‘ کہتے ہیں؛ اسی ضمن میں یہ بھی تحریر ہے کہ آرگینک مرکبات میں ایسے مرکبات بھی شمار کیے جاتے ہیں جن کی ترکیب میں C-H بندش نہیں پائی جاتی۔ البتہ اس کا اردو متبادل ’’نامیاتی‘‘ ازخود وضاحت کرتا ہے کہ اس میں نمو (بڑھنے) کی صلاحیت موجود ہوتی ہے اور جو مرکبات طبعی طور پر نمو پائیں یا ان میں کسی تکنیکی یا کیمیاوی تصرف کے ذریعہ نمو یا تبدّل کو پیدا کیا جائے وہ مرکبات ’نامیاتی‘ کہلاتے ہیں۔ یہی نامیاتی مرکبات انجام کار فنا پذیر (Bio-degradable) بھی ہوتے ہیں یعنی سڑ گل کر ختم ہوجاتے ہیں، مٹی میں مل جاتے ہیں۔ بہر حال ہمارا موضوعِ گفتگو یہاں دوسرا ہے اس لیے اس بات کو یہیں ختم کیا جاتا ہے۔

اﷲ نے آدم کی تخلیق مٹی سے کی۔ ایک مشتِ خاک سے۔ اسی لیے اس کے جسم میں ہونے والی ہر کمی کو دور کرنے کے لیے یا ’کون و فساد‘ یعنی بننے اور بگڑنے کے عمل میں حصہ لینے والے اجزا اِسی مٹی کے اجزا ہیں۔ ان اجزا پر بھلے ہی دیگر عناصرِ ثلاثہ یعنی آگ (حرارت)، ہوا (آکسیجن) اور پانی اپنا عمل کرتے ہیں اور انھیں نو بہ نو قسم کے مرکباتِ دریافت شدہ یا غیر دریافت ( ہنوزنامعلوم) میں تبدیل کر دیتے ہیں مگر اصل میں یہ اجزا مٹی کے ہی اجزا ہیں۔ جنھیں سائنسی زبان میں معدن و نمکیات (Minerals & Salts) کہا جاتا ہے۔انھی ترکیبات میں حیاتین (وِٹامن) اور خورد عناصرِ غذائی (Micronutrients) بھی شامل ہیں۔
اچھی صحت کا صرف یہی مطلب نہیں ہے کہ جسم امراض سے خالی ہو؛ بلکہ ذہنی و نفسانی افعال انتہائی متوازن انداز میں انجام پانے کا نام صحت ہے۔ اسی لیے صحتمند جسم کی جہاں دوسری اہم ضروریات ہیں، وہیں بے حد متوازن غذا اور غذائی اجزا (Nutrients) بھی ضروری ہیں۔ انھی کی موجودگی میں جسم کی قوتِ مدافعت اور قوتِ مناعت (Immunity) برسرِ پیکار ہوتی ہے، افراد میں بیماریوں اور ذہنی تناؤ سے جوجھنے کی صلاحیت اور طاقت بیدار ہوتی ہے۔ ان اجزا کی یومیہ ضرورت فرد کی عمر، جنس، جثہ اور معمولاتِ زندگی کے مطابق ہوتی ہے۔ عمر کے مختلف ادوار میں بھی اس کی ضرورت میں کمی و بیشی ہوتے رہتی ہے۔جیسے بچپن اور جوانی یا عورتوں کو دورانِ حمل میں مقدارِ ضرورت بدل جاتی ہے۔بڑھاپے میں گوکہ ان اجزا کی یومیہ ضرورت کم ہو جاتی ہے لیکن نظامِ ہضم سے غذائی اجزا کا انجذاب بھی متاثر ہوتا ہے؛ اس لیے تغذیہ کی کمی کے امکانات بھی ہوتے ہیں۔
طبِ قدیم میں ’علاج بالغذا‘ (جسے انگریزی میں اب Dietetics کہا جاتا ہے) کا مکمل فلسفہ اور باب موجود ہے۔ یہ اصطلاحی ترکیب خود واضح کرتی ہے کہ کوئی مریض ہے جس کا علاج کیا جارہا ہے اور علاج میں دوا نہیں بلکہ غذا شامل ہے۔ یہ غذائیں جن قدرتی وسائل سے حاصل ہوتی ہیں انھیں تین بڑے عنوانات کے تحت لکھا جاسکتا ہے:
غذائیں (حیوانی/ نباتاتی)، ثمرات، مغزیات
Foods (Animal / Plant Sources), Fruits, Nuts and Dry Fruits
ان سے ہر طرح کے ضروری غذائی اجزا دستیاب ہو جاتے ہیں۔ یعنی نشاستہ، پروٹین، چربی (شحم) وغیرہ؛ جو بدن کے اندر واقع ہونے والی ٹوٹ پھوٹ (کون و فساد) کو درست کرتے ہیں اور بدن کی نمو و صحت کے ضامن بنتے ہیں۔اور ان تینوں فطری ذرائع میں جو غذائی اجزا ذخیرہ ہوتے ہیں وہ سب کے سب مٹی سے فراہم ہوتے ہیں۔
غور کرنے کی بات یہ ہے کہ نشاستہ (کاربوہائیڈریٹ)، پروٹین اور چربی تینوں ہی اجزا نامیاتی مرکبات کی ہی شکلیں ہیں۔ یہ بدن کی نمو اور تکوین و صحت میں بنیادی رول انجام دیتے ہیں۔ان کے ساتھ انتہائی قلیل (یا لطیف کہیے) مقدار میں دوسرے عناصر اور نمکیات شاملِ غذا ہوتے ہیں جو انسانی جسم کی انتہائی مہین و نازک ساختوں اور خون کی باریک نالیوں کی صحت کی برقرای اور طبعی افعال کی درستی کے لیے لازم ہیں۔
جدید طب میں یہی اجزا تحقیقات کے بعد کشید کر کے جدید ترین ترازو یعنی اَقل ترین اوزان، جنھیں مائکروگرام (Microgram / mcg) کہا جاتا ہے، میں مریضوں کو گولیوں، کیپسول اور انجکشن کے ذریعہ دئیے جارہے ہیں۔
پہلے ان اجزا کو لحم، شحم، نشاستہ، میوہ جات و مغزیات کا نام حاصل تھا جو ’خاندانی القاب‘ کی حیثیت رکھتے تھے۔ نئی اسٹڈی نے افرادِ خانہ کو معدن و نمکیات کی حیثیت سے پکار کر ہر ایک کو جدا جدا نام دے دیئے ہیں۔ جیسے پروٹین، کاربوہائیڈریٹ، کولیسٹرول، فاسفورس، کیلشیم، سوڈیم، کلورائیڈ، آیوڈین، پوٹاشیم، میگنیشیم، جست، فولاد، وٹامن وغیرہ، وغیرہ۔
اب ہر ایک کی بدن میں یومیہ ضرورت کتنی ہے اس کے تعلق سے ہم نے اوپری سطروں میں لکھا ہے کہ افراد کی عمر، جنس، جثہ وغیرہ کے لحاظ سے یہ انتہائی متغیر ہے اور کوئی بھی اوسط حتمی نشانہ نہیں کہا جاسکتا۔ بقول ’’حصّہ بقدر جُثّہ‘‘


اس پس منظر میں علمِ غذائیات (Dietary Science) ایک منفرد فن کی شکل میں سامنے آیا ہے۔ جدید طب نے پھر اسے ایک خوبصورت پیک میں تجارتی نیتوں سے بازار میں پیش کردیا ہے۔ دیدہ زیب و جاذبِ نظر پیکٹ میں گولیاں، شربت، کیپسول وغیرہ سے لبھایا جارہا ہے۔ روزمرہ کی غذاؤں کو ناقص بتلا کر ڈاکٹروں کو نسخہ نویسی کے لیے اُکسایا جارہا ہے۔ ہر کمپنی اپنا پروڈکٹ دوسری کمپنی کے پروڈکٹ سے تقابل کرکے بہتر سمجھانے پر مصر ہے۔ اور شہروں میں یا شہری زندگی کی نقالی میں مبتلا لوگوں میں ان نئی دواؤں (غذائی اجزا) کو بطور طبی نعمت سمجھنے کا رجحان بھی پیدا ہو چلا ہے۔ اے کاش کہ وقت کا دھارا جلدی سے پلٹ جائے اور ہم دوبارہ اپنی غذاؤں پر توجہ دینے لگیں اور اعتبار کرنے لگیں۔وہ غذائیں کہ جو ہمارے بدن کی اصلی ضرورت ہیں۔ جو چٹپٹی ہوں نہ مرغن، چاٹ ہو نہ بھیل، تندوری ہو نہ تکّہ، پاؤ بھاجی ہو نہ اسنیکس اور مٹھائیاں اور نہ فاسٹ فوڈ ہو؛ بلکہ وہ سادگی سے پکائے گئے گوشت، سالن، روٹی اور دال چاول، سبزی، تازہ پھل، سلاد اور ٹھنڈے پانی پر مشتمل ہو۔ کیونکہ ایک مشتِ خاک سے ہی انسان کی تخلیق ہوئی ہے اور اس مشتِ خاک کو گیلا رکھنے اور نمویافتہ ہونے کے لیے چند بوند پانی ہی کافی ہے، اسے غذائی سیلاب کے حوالے نہیں کرنا چاہیے۔