To View This Blog in Nastaliq Script Download Faiz Nastaliq Unicode Font

Download Faiz Nastaliq Unicode Font from http://www.faiznastaliq.com/faiznastaliq.zip unzip & install it to your windows/font directory

Friday, July 15, 2011

Mumbai Terror Attacks
Do They Have Enmity Against Common Man

Dr. Rehan Ansari
بم دھماکے... پے بہ پے بم دھماکے... اچانک اور بھیڑ بھاڑ کے وقت کے بم دھماکے ممبئی میں کسی تجربہ گاہ کی مانند کیے جاتے ہیں۔ شکار ہوتے ہیں عوام۔ نقصان میں صرف پبلک رہتی ہے۔ اس کی جان بھی جاتی ہے اور معذور بھی یہی ہوتے ہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ عوام سے خصوصاً ممبئی (اور کسی حد تک دہلی) کی پبلک سے ایسی گہری دشمنی آخر کسے ہو سکتی ہے؟  شک کے ذہن سے سوچنے بیٹھیں تو کچھ دھندلی سی تصویریں، لالچی چہروں والی؛ اُبھرتی ہیں۔ ایسا سوچنے میں برائی بھی نہیں ہے کیونکہ حکومت کی مشنریاں بھی ایسی ہی سوچ کے ساتھ چند امکانی لوگوں کی حرکت کا اعلان کرتی رہتی ہیں جو بعد میں اکثر جھوٹی نکلتی ہیں۔ جرمن بیکری سے لے کر تازہ ترین واردات جے ڈے کےقتل کیس کے بعد ’انڈین مجاہدین‘ کے نام کا اعلان تھا جسے یمن سے ایک گمنام کال کی بنیاد پر تسلیم کیا گیا تھا۔ کالر کو ٹریس کیا گیا یا نہیں اس کی خبر نہیں دی گئی مگر بعد میں جے ڈے کے قاتلوں کو ’چھوٹا راجن‘ گینگ سے برآمد کیا گیا تھا۔ خیر ہم اپنی سوچ، مشکوک چہروں کی بات کر رہے تھے اس لیے آئیے پلٹیں۔ دیکھیں کہ کیا ایسا بھی ممکن ہے یا صرف ہمیں دہشت زدہ کرنا ہی ان بزدل بلاسٹرس (بلکہ باسٹرڈس) کا کام ہے۔


اب تک جتنے بم دھماکے ہوئے ہیں ان میں استثنائی صورتوں کو چھوڑ کر اکثر تجارتی علاقوں یا مراکز (پر نہیں) کے جوار میں کیے گئے ہیں۔ تجزیہ کار یہ بتلایا کرتے ہیں کہ وہ دہشت گرد ان علاقوں کا انتخاب اس لیے کرتے ہیں کہ وہاں بھیڑ ہونے سے زیادہ ہلاکتیں اور نقصان ہو سکتا ہے۔ جہاں تک نقصان کی بات ہے تو ہم نے سدا یہی پایا کہ یہ دہشت گرد مالی نقصان زیادہ نہیں ہونے دیتے (شاید اس لیے کہ یہ مال خواص کا ہوتا ہے!) مگر ’عوام‘ کا جانی یا بدنی نقصان بے دریغ اور انتہائی سفاکانہ انداز سے کر دیا جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ عوام خوفزدہ ہوتے ہیں اور دہشت ان کی ریڑھ میں ایک سرد لہر بن کر سرایت کرجاتی ہے پھر برسوں تک اس کی تصویر ذہن کے پردے پر مرتسم رہتی ہے۔
نشانہ پر رہنے والے تجارتی مراکز بھی وہ ہیں جو یا تو مالیاتی منتقلی کے ہیں یا پھر ہیرے جواہرات کی منڈیاں ہیں۔ گویا بنیادی مقصد زر و جواہر کی تجارت سے متعلق نظر آتا ہے۔ اس شک سے بہت سی شاخیں بھی پھوٹتی ہیں۔ مثلاً کن لوگوں کا یہ مقصد ہو سکتا ہے؟... وہ لوگ ملک یا بیرونِ ملک کے کن علاقوں میں زیادہ رہتے ہیں؟... اگر دہشت گردوں کا مقصد صرف عوام کو ڈرانا یا دھمکانا ہوتا ہے تو انھیں کئی بار ممبئی واسیوں کی جانب سے ہزیمت ہی اٹھانی پڑی ہے اور عوام اپنے زخموں کی مرہم پٹی کے بعد دوبارہ کسی غیرواجب احساس کے ساتھ اپنے معمولات میں مشغول ہوئے ہیں؛ تو آخر دہشت گردوں کو کامیابی کہاں حاصل ہوتی ہے؟ ہمیں امید ہی نہیں یقین ہے کہ اس مرتبہ بھی ایسا ہی ہوگا۔


Union Home Minister P. Chidambaram
visiting the site of blast in Mumbai on 14th July
آئیے ہم کچھ باتیں اپنی ریاستی حکومت کی کارکردگی کے تعلق سے بھی کرلیں۔ جب کبھی ایسا واقعہ رونما ہوتا ہے تو کسی نہ کسی ذریعہ سے شک کی پہلی سوئی کچھ منتخبہ ناموں پر ٹکتی ہے جن کے تعلق سے ہمیں آج تک نہیں پتہ کہ ان کے ہیڈکوارٹر یا ریجنل اور ژونل اڈے کہاں ہیںپھر وہ ہماری ایجنسیوں یا سیکوریٹی مشینریوں سے بچ کر یہ حملے کیسے کر جاتے ہیں؟ برسوں میں یہ حیرت بھی معدوم ہو چکی ہے۔سب کچھ ایک رُوٹین جیسا لگتا ہے۔ ہاں البتہ، جب کبھی ایسا کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے تو ان مخصوص ناموں کے سبب ہمیں محسوس ہوا ہے کہ ملک کے ایک طبقے کے خلاف نفرت کی (غیراعلانیہ) کاشت کی جاتی ہے۔ نسلوں اور برسوں سے ایک دوسرے کے پڑوس میں رہنے والے بھی نظروں میں شک کا زاویہ پال لیتے ہیں۔ سانپ کے نکل جانے کے بعد لکیر پیٹنے کے نام پر پولیس کے ذریعہ ناکہ بندی کرکے عوام کو مزید ہراس میں مبتلا کیا جاتا ہے۔ اور یہاں بھی اکثر کسی کا نام یا ظاہر مخصوص طبقے کا ہوا تو اس کی پوچھ تاچھ طویل تر ہوجاتی ہے۔ روزنامہ انقلاب کے فوٹوگرافر سمیر عابدی کا معاملہ تازہ ترین مثال ہے۔

RR Patil: Maharashtra Home Minister
ہاں، ایسے واقعات کے بعد ہمارا دل اس وقت دہشت محسوس کرتا ہے جب حکومت یا اس کی مخصوص مشینری کی کارکردگی کے تعلق سے ہم کوئی سوال اٹھائیں؛ ہمیں ڈر لگتا ہے کہ ہمیں کسی بھی حیلے سے دبوچ لیا جاسکتا ہے۔ ورنہ ہم حکومت سے یہ سوال کر سکتے ہیں کہ جس شخص نے گذشتہ واقعات کے بعد اپنی ناکامی (نااہلی پڑھیں) کی اخلاقی ذمہ داری قبول کر لی تھی اسے بار بار ریاست مہاراشٹر کا وزیرِ داخلہ کیوں بنا دیا جاتا رہا ہے۔ایسا وزیرِ داخلہ اکثر دہشت گردانہ واقعات کے دن جائے واردات سے دور کیوں رہتا ہے۔ میڈیا کا سامنا کیوں نہیں کرتا۔ سرکاری ٹی وی چینل سے اعلان یا بیان کے ذریعہ عوام کی ڈھارس کیوں نہیں بندھاتا۔ آخر کن سیاسی مصلحتوں کی دہلیز پر عوام کی جان و مال سے کھیلا جا رہا ہے۔


Police Naka Bandi
دہشت گردانہ واقعات کے بعد مسلسل یقین دہانیوں کے باوجوددہشت گردی کے واقعات بڑھ رہے ہیں تو ان کے تدارک پر حکومت کی جانب سے دیگر ماہرین کی جماعت سے کوئی مباحثہ یا گفتگو کے ذریعہ متبادل حل پر غور کیوں نہیں کیا جاتا۔
CCTV کی تنصیبات سے جب مناسب نتیجے نہیں نکل پائے ہیں تو اس کے متبادل پر حکومت کیوں نہیں سوچتی۔ دوسرے طبقات میں سے بھی جب دہشت گردوں کے چہرے بے نقاب ہوئے ہیں تو حکومت ان کے چینل کو کیوں نظر انداز کردیتی ہے۔ جب دہشت گردوں کے نشانے مخصوص ہیں تو ان مخصوص علاقوں کے تمام داخلہ دروازوں پر ہائی ٹیک سینسر اور ڈٹیکٹر نصب کر کے بڑی حد تک تحفظی اقدامات کیے جاسکتے ہیں۔ یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ دہشت گرد بم ڈھونے کے لیے جب چھوٹی موٹرگاڑیاں یا اسکوٹر وغیرہ کا استعمال کرتے ہیں تو ان کی پارکنگ (خواہ وہاں کے دکاندار یا آفس والے ہوں) ایسے علاقوں میں سرے سے کرنے ہی نہ دی جائے؛ بلکہ کچھ دور پر کہیں پارکنگ زون بنا کر مکمل سیکوریٹی چیک کے ساتھ پارکنگ کی اجازت دی جائے۔
مگر ہم نے بارہا دیکھا ہے کہ ایسے واقعات کے بعد دہشت گرد تو شہر سے چھو ہو جاتے ہیں اور شہر میں مصروف ترین شب و روز گذارنے والے شہریوں کو اکثر و بیشتر حوالداروں کی تعیناتی کے سبب دشواریوں سے گذرنا پڑتا ہے۔ انھیں تلاشی دینی پڑتی ہے۔ موٹر یااسکوٹر کے کاغذات دکھلانے پڑتے ہیں۔ راستے پر ٹریفک الگ جام ہوتا ہے اور وقت برباد ہوتا ہے۔ مہنگائی سے پریشان عوام کی گاڑیوں کا ایندھن بے سبب جلتا رہتا ہے۔ شہر کی آلودگی میں الگ اضافہ ہوتا ہے۔


Police Naka Bandi
 ہمیں تو یہی محسوس ہوتا ہے کہ کچھ لوگ ممبئی شہر کے ’ملک کی اقتصادی راجدھانی‘ کے اسٹیٹس سے نہ صرف جلتے ہیں بلکہ اس کو چھین لینے کی ہر ممکن کوشش کرنا چاہتے ہیں؛ خواہ اس کے لیے انھیں دہشت گردوں کو ’ممبئی کی پبلک کی سپاری‘ دینی پڑ جائے۔ اور وہ یہی کر ہے ہیں۔ چاہنے کے باوجود یہ شک ہمارے ذہن سے محو نہیں ہوتا

No comments: