Will the 'Moderate Islam' of Libya be Acceptable to the West, France and America Dr. Rehan Ansari |
اوّل سلطنتِ روما Roman Empire کا زمانہ جو صرف لیبیا کے اس ساحلی علاقے پر اپنا تسلط رکھنے میں دلچسپی رکھتا تھا جو بحرالاوسط (Mediterranian Sea) سے متعلق لیبیا کے شمال میں موجود ہے، انھیں دوسرے علاقوں سے کوئی رغبت تھی نہ خطرہ؛ اس کے بعد اٹلی کے ڈکٹیٹر مسولینی Benito Mussolini کا عہد، جو لیبیا کے ایک معلمِ قرآن، ۸۴ سالہ حریت پسند رہنما ’عمر المختار‘ Omar Mukhtar کی تاریخ ساز مزاحمت سے معنون ہے جنھیں اطالوی حکمرانوں نے تختۂ دار پر جھلا دیا۔ اس جانباز شہید نے آیتِ کریمہ ’انا ﷲ و انا الیہ راجعون‘ کا ورد کرتے ہوئے پھانسی کے پھندے کو قبول کیا اس طرح لیبیا کے عوام کو دائمی پیغام دے گئے؛ بعد ازاں شاہ ادریس اوّل سنوسی کا دور جو ساڑھے سترہ برسوں کا رہا، ان کے والد محمد سنوسی نے ایک صوفی سلسلہ قائم کیا تھا اور برطانوی حکمرانوں نے انھیں علاقہ سائرینیکا Cyrenaica کا امیر مقرر کیا تھا، پھر تاریخ کا ایک دور پورا ہوتا ہے اور ادریس سنوسی دسمبر ۱۹۵۱ء میں شاہ ادریس اوّل King Idris I بن کر عہدہ پر متمکن ہو جاتے ہیں، ان کے دور میں لیبیا کو برطانوی حکمرانوں سے نجات ملتی ہے مگر بلاحرب بلکہ برطانوی حکمرانوں کی پشت پناہی سے! وہ لیبیا کے اکلوتے بادشاہ تھے؛ چوتھا اور آج کی دنیا کا سب سے نمایاں دور بیالیس برسوں پر محیط کرنل معمر قذافی Muammar Qaddafi کا دور تھا، قذافی نے فوجی بغاوت کے سہارے امریکہ اور برطانوی تعلق و تملق پر آمادہ شاہ ادریس کو معزول کردیا، قذافی کے زمانہ میں دنیا نے لیبیا کو بھرپور انداز سے محسوس ہی نہیں کیا بلکہ عالمی برادری میں معمر قذافی نے لیبیا کو ایک منفرد شناخت بھی عطا کی مگر اپنے اقتدار کے خلاف ہونے والی حالیہ سازشوں کو محسوس نہ کرسکے اور وہ خود ایک افسوسناک انجام سے دوچار ہوئے۔
The Four Persons Who had Impact on history of Libya: Omar Mukhtar, King Idris I Muammar Al-Qaddafi, Mustafa Abdul Jalil |
لیبیا کی جملہ آبادی ہماری ممبئی کی مجموعی آبادی کا تقریباً نصف ہے یعنی پینسٹھ تا ستر لاکھ نفوس۔ ملک کے رقبے کے لحاظ سے فی نفر چار کلومیٹر سے بیش و کم جگہ کی تقسیم ہوسکتی ہے۔ اندازہ کیجیے سرحدی وسعت اور آبادی میں کس قدر تفاوت ہے۔ اس کے باوجود کثیر آبادی دو بڑے شہروں یعنی دارالسلطنت طرابلس (Tripoli) اور ’بن غازی‘ (Benghazi) میں مرتکز ہے اس کے علاوہ ان کے نواح میں موجود دوسرے شہروں میں بھی ملتی ہے۔ پورے ملک کا تقریباً دو تہائی علاقہ غیرآباد ہے۔ بنیادی تعلیم لازمی ہونے کی وجہ سے پوری آبادی تعلیم یافتہ ہے اور عربی زبان میں گفتگو کرتی ہے۔ دوسری زبان انگریزی مقبول ہے۔ مذہبی طور پر اکثریت اسلام کی ماننے والی ہے، برطانوی، اطالوی یا قدیم رومی اثرات کے سبب عیسائی آبادی بھی قلیل تعداد میں ہے یعنی تقریباً تین تا پانچ فیصدی۔ مالی حیثیت سے کافی مستحکم یا آسودہ لوگ ہیں۔ غربت کا دور دور تک شائبہ نہیں ملتا۔
Map of Libya |
1 comment:
Aslamualiykum
Dr Rehan ansari ji aap bahot hi ,badiya article likhte hai..
kya hum aap ka email id jaan sakte hai??icle likhte hai..
kya hum aap ka email id jaan sakte hai??
Post a Comment