To View This Blog in Nastaliq Script Download Faiz Nastaliq Unicode Font

Download Faiz Nastaliq Unicode Font from http://www.faiznastaliq.com/faiznastaliq.zip unzip & install it to your windows/font directory

Wednesday, May 11, 2011

 حرارت شدیدہ   Heat Stroke
فصلُ الصیف یعنی موسمِ گرما کی آمد کے ساتھ ہی انسان بہت سے اہتمام میں جٹ جاتا ہے۔ موسمِ گرما کی اپنی خصوصیات ہیں مگر اسی موسم میں کچھ زمینی علاقوں پر گرم ہوا ؤں کے جھکڑ چلتے ہیں اور کبھی کبھار کئی کئی گھنٹوں تک گرم ہوا بہتی رہتی ہے۔ اس ہوا کا درجۂ حرارت اتنا بڑھا ہوا ہوتا ہے کہ جسم متاثر ہو جاتا ہے۔ گرم ہوا کے بہاؤ کو لو چلنا اور اس سے متاثر ہونے کو لو لگنا کہتے ہیں۔ ہم اس کی ماہیت پر گفتگو کرنے سے قبل یہ جاننا ضرور چاہیں گے کہ بدن کا طبعی یا نارمل درجۂ حرارت کتنا ہوتا ہے اور اسے کس طرح بدن سنبھالے رکھتا ہے؟
طبعی درجۂ حرارت
ہم جو کچھ غذا کھاتے ہیں وہ ہضم کے عمل سے گذر کر تین اہم اجزاء میں تقسیم ہو جاتی ہے یعنی کاربوہائیڈریٹ (نشاستہ)، پروٹین (لحم) اور چربی (شحم)۔ غذا کے ہضم کے عمل کے دوران حرارتی توانائی کا اخراج ہوتا ہے اور یہ عمل پورے چوبیس گھنٹے جاری رہتا ہے۔ اسی حرارت کو بدن کا طبعی درجۂ حرارت اور طب کی زبان میں حرارتِ غریزیہ کہتے ہیں۔ بدن کے  جن حصوں میں عضلاتی حرکت زیادہ ہوتی ہے وہاں زیادہ غذا ہضم ہوتی ہے اور وہ حصہ ان مقامات کے مقابلے قدرے زیادہ گرم ہوتا ہے جہاں عضلات کی حرکت زیادہ نہیں ہوا کرتی۔ اسی طرح جب کوئی محنت مشقت کرتا ہے تو اس کا جسم زیادہ گرم ہوتا ہے۔

تھرمامیٹر Thermometer (مقیاس حرارت) سے ناپنے پر انسانوں میں عام طور پر 37 ڈگری سیلسیس یا 98.6 ڈگری فاہرین ہائیٹ کا درجۂ حرارت طبعی قرار دیا جاتا ہے۔ گو کہ 36.4  اور 37.2 ڈگری سیلسیس یا 97.5 اور 99  ڈگری فاہرین ہائیٹ تک کی حدود کو نارمل یا طبعی ہی سمجھا جاتا ہے۔
اگر یہ درجۂ حرارت اپنی حدود سے بڑھ جائے تو بدن کی اکائیاں یعنی خلیات؛ وہ نازک ترین ساختیں جن سے پورا بدن بنا ہوا ہے، اپنا فعل صحیح انداز سے انجام نہیں دے پاتے اور تباہ بھی ہو جاتے ہیں۔ اور اگر یہی درجۂ حرارت طبعی سے کافی کم ہو جائے تو غذا کا انہضام ہی نہیں ہو پاتا۔ بدن کے اندر پیدا ہونے والی یہ حرارت جلد کی راہ پسینے اور بخارات میں زائل ہوتے رہتی ہے اسی طرح منہ میں لعاب کی پیدائش بھی اس پر اثر انداز ہوتی ہے۔ ان افعال پر دماغ کا ایک حصہ پورا کنٹرول رکھتا ہے جسے تھرموریگولیٹری سینٹر Thermoregulatory centre کہتے ہیں۔
لو لگنا
جب جسم شدید حرارت سے دوچار ہوتا ہے اور پسینے و لعاب کے اخراج کا نظام بگڑ کر جسم کے اندر شدید گرمی اکٹھا ہو جاتی ہے (خارج نہیں ہو پاتی) اور جسم کا درجۂ حرارت کنٹرول کرنے والا دماغ کا حصہ اس شدید حرارت کو قابو میں کرنے سے ناکام ہو جاتا ہے تو جسم کے جملہ افعال متاثر ہو جاتے ہیں۔ یہ شدید حرارت کسی بھی بیرونی ذریعہ سے ہو سکتی ہے مگر جب سورج کی تپش اس کا سبب ہوتی ہے تو عموماً اسے ’’سن اسٹروک‘‘ کہتے ہیں۔ لو لگنے پر حرارت 41 ڈگری سیلسیس یا 106 ڈگری فاہرین ہائیٹ سے تجاوز کر جاتی ہے۔ اس کا دوسرا سبب یہ بھی ہے کہ کسی فرد کے جسم میں پانی کی کمی ہو گئی ہے, Dehydration (ڈیہائیڈریشن)۔ ایسی صورت میں اسے پسینہ لانے کے لیے مناسب مقدار میں پانی ہی جسم میں موجود نہیں ہے تو اندرونی درجۂ حرارت بڑھ جاتا ہے۔
لو لگنے کی وجہ سے بڑھی ہوئی حرارت بخار کی تعریف میں نہیں آتی۔

لو لگنے کے بعد جلد بالکل گرم، سرخی مائل، اور سوکھی محسوس ہوتی ہے۔ اس میں بدنی اور دماغی علامات ظاہر ہوتی ہیں اور یہ ایک طبی ایمرجنسی ہے، متاثرہ فرد کو فوری طبی امداد پہنچانا چاہیے ورنہ خطرناک نتائج بھی سامنے آ سکتے ہیں۔ شدید صورتوں میں مریض ہلاک بھی ہو جاتے ہیں۔ قحط زدہ علاقوں میں عام طور پر اموات کی وجہ یہی ہوتی ہے۔
لو کا شکار عموماً چھوٹے بچے، بوڑھے افراد اور محنت کش یا کھلاڑی طبقہ کے افراد ہوتے ہیں۔
علامات
لو لگنے کے بعدمریض ذہنی الجھن میں گرفتار نظر آتا ہے، بداطوار و بد تہذیب ہو جاتا ہے، سر میں درد ہوتا ہے اور مخمور سا لگتا ہے۔ اس کا بلڈپریشر بہت کم ہو جاتا ہے۔ کھڑے ہونے کی کوشش میں گر پڑتا ہے۔ وہ بیہوش ہو سکتا ہے، جھٹکے بھی آ سکتے ہیں۔ بڑھے ہوئے درجۂ حرارت کے باوجود پسینہ نہیں نکلتا۔ دل کی رفتار بڑھ جاتی ہے۔ سانس تیز تیز چلنے لگتی ہے۔ کچھ مریضوں کو متلی اور قے بھی محسوس ہوتی ہے۔ تکان، کمزوری اور پٹھوں میں کھنچاؤ کی شکایت ملتی ہے۔ کچھ مریضوں میں کسی بھی علامت کی غیرموجودگی کے باوجود فوری طور پر بھی لو لگنے کی پیچیدگیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔

علاج
لو لگنا ایک طبی ایمرجنسی ہے اس لیے ممکن ہو تو مریض کو فوری طور پر اسپتال میں پہچانے کے جتن کیے جائیں۔ اس کے علاوہ مریض کو بیرونی طور پر تبرید (ٹھنڈک) پہنچانے والی تدابیر اختیار کی جانی چاہئیں۔ مریض کو فوراً سایہ دار مقام پر لٹا دیا جائے، ستر کے علاوہ اس کے زیادہ تر کپڑے نکال دئیے جائیں، ٹھنڈے پانی یا دستیاب ہو تو برف کے پانی سے اس کے جسم کو بھگونا شروع کر دیا جائے یا اس پر پانی کی پھوہار ڈالی جائے۔ تالو، سر، چہرہ، گردن اور رانوں کے درمیانی حصوں سے حرارت کا اخراج زیادہ آسان ہوتا ہے اس لیے ان حصوں پر خصوصیت کے ساتھ تبریدی تدابیر اختیار کی جائیں۔ اگر مریض ہوش و حواس میں ہے تو ٹھنڈے (برف آمیز سرد نہیں!) پانی سے بھرے ہوئے ٹب میں مریض کو لٹانا بھی مفید ہوتا ہے۔ مریض کو زیادہ سے زیادہ پانی اور تسکین دینے والے شربت پلائے جائیں۔ اگر مریض کی حالت نیم بیہوشی وغیرہ کی ہو تو اسے اسپتال یا دواخانے میں درونِ وریدی (Intravenous) سیال پہنچانے کی تدبیر کی جانی چاہیے تاکہ بدن میں پانی کی کمی کو دور کیا جاسکے۔ اس کے بعد جو بھی مناسب طبی علاج درکار ہو اسے بروئے کار لایا جائے۔
احتیاطی تدابیر
سخت گرمی کے موسم میں کوشش کی جائے کہ پانی وافر مقدار میں پیا جائے۔ تیز دھوپ یا گرم ہوا میں زیادہ محنت طلب کاموں کے کرنے سے گریز کیا جائے۔ ایسے کام ناگزیر ہوں تو اس کے دوران کئی مرتبہ وقفہ کر کے پانی اور نمک یا لیموں کے قطروں کا آمیزہ یا شربت بھی پینا چاہیے۔ سرکو ڈھکا رکھیں۔ ہلکے رنگ اور ہلکے وزن کے کپڑے پہنیں، چائے کافی اور شراب کے استعمال سے اجتناب کیاجائے۔ اپنی حالت کا خود سے مشاہدہ کرتے رہیں۔ پیشاب کا رنگ ضرور دیکھیں۔ اگر پیشاب عام دنوں سے گہرے رنگ کا آ رہا ہے تو یہ پہلی علامت ہو سکتی ہے کہ بدن میں پانی کی کمی ہو رہی ہے.

5 comments:

Unknown said...

ڈاکٹر صاحب چائے اور کافی تک بات ٹھیک تھی ' یہ شراب کا ذکر ؟؟؟

Hamid Iqbal Siddiqui said...

bhai mushairon ke "shair-numa" naqqalon, gawaiyyon, bhandon, aur jokeron ko LOO kyun nahin lagti?

Unknown said...

hamid bhai mushairon ke shairon se itni nafrat kun hai

Unknown said...

mazmoon bahut acha hai lekin hamid bhai ka comment acha nahin hai

Dr Rehan Ansari said...

Hamid Bhai agar aap ne English ke "LOO" ke baare mein poocha hai to yeh in sab mushaire-baazon ko hum se ziyada lagti hai. Isi liye to stage se baar baar back-stage tak daudte rehte hain...hahahaha