To View This Blog in Nastaliq Script Download Faiz Nastaliq Unicode Font

Download Faiz Nastaliq Unicode Font from http://www.faiznastaliq.com/faiznastaliq.zip unzip & install it to your windows/font directory

Monday, May 9, 2011

Babri Masjid Decision: Justice Undone
[یہ مضمون الہ آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ (٣٠ ستمبر ٢٠١٠) کو آنے کے فورا بعد لکھا گیا تھا. خوش بختی سے آج (٩ مئی ٢٠١١) کو سپریم کورٹ نے جو فیصلہ دیا ہے اس میں کہی گئی باتیں اس مضمون کا حصہ ہیں. اس مضمون کو قند مکرر کے طور پر قارئین کی خدمت میں پیش کیا جاتا ہے.]
۳۰ستمبر کی سخت دوپہر؛ رفتہ رفتہ ایک سناٹا سا پسرا جا رہا تھا؛ سڑکوں پر سے لوگ دھیرے دھیرے ہٹنے لگے تھے؛ اعلان شدہ وقت قریب آتا جا رہا تھا؛ دکانوں کے شٹر گرنے لگے تھے؛ ایک غیر معمول سا منظر تھا اور تمام ملنے جلنے والوں کے چہرے پر آنکھوں کی جگہ پر سوالیہ نشان بنے ہوئے تھے۔ گھر میں کھانے کا وقت ہو کر بھی کسی کو بجا طور پر بھوک نہیں محسوس ہو رہی تھی۔ ذہن ایک انجانے خوف کی آماجگاہ بنا ہوا تھا۔
فیصلہ اور انصاف میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ بابری مسجد کے قضیہ کا فیصلہ بھی سامنے آیا... پورے ساٹھ برسوں کے عدالتی عمل کے بعد... افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہم انصاف کے متمنی تھے مگر اس تمنا کا خون ہوگیا۔ واقعی فیصلہ اور انصاف میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ ہم بھی اتنے معصوم نہیں ہیں کہ ایک فیصلہ کو انصاف مان لیں۔عدالتی فیصلہ کو چونکہ قبول کرنے کا ہم قرار دے چکے تھے اس لیے آپ کا فیصلہ بسر و چشم قبول بھی کیا ہے مگر ہمیں شدت کے ساتھ اپنے ایک بزرگ کا یہ شعر یاد آگیا کہ:

ہم تو پچھتاتے ہیں وفا کرکے
کچھ تو  شرماؤ  تم  جفا  کرکے
ہم عدالت کے فیصلہ اور وقار کا پورا احترام کرتے ہیں مگر بابری مسجد کی جگہ پر ’’رام بابر اکھاڑہ‘‘ کی تاسیس جس روحانی کرب و بے چینی کا سبب بنی ہوئی ہے اس کا اظہار بھی ہم اپنا بنیادی جمہوری حق سمجھتے ہیں۔عدالت بھی عقائد اور حقائق کو خلط ملط کرنے کی ایک ’’ناقابلِ یقین مگر سچ‘‘ والی نظیر قائم کرنے کی غلطی کرے گی ہمیں اس کا گمان بھی نہیں تھا۔ قابلِ عبرت ہے۔
ہمیں حیرت اس بات پر ہے کہ میڈیا کے ذریعہ یہ بات آتی رہی کہ بابری مسجد کی جگہ کی ملکیت کے حقوق کے تعلق سے فیصلہ آنے والا ہے مگر فیصلہ ایسا آیا کہ تین دھاری ہتھیار سے زمین کو لخت لخت کردیا گیا۔ ہمارے دلوں اور ذہن کو وہ صدمہ ملا کہ اب شاید کئی صدی اس سے چھٹکارا ممکن نہیں ہوگا۔ بہرحال ہمیں تلقینِ صبر و صلوٰۃ کی گئی ہے سو وہ ہم کر رہے ہیں، انشاء اﷲ استعانت بھی حسبِ وعدہ ہو کر رہے گی۔
ماہ ستمبر ابھی شروع بھی نہیں ہوا تھا کہ اسی وقت سے بابری مسجد کی جگہ کی ملکیت کے تعلق سے الٰہ آباد ہائی کورٹ کے متوقع فیصلہ کی خبریں میڈیا کا حصہ بنتی جارہی تھیں۔ ہمارے دل میں بھی تمام مسلمانوں کی مانند ایک امید بنی تھی کہ عدالت چونکہ شواہد اور دستاویزات کو ہی ٹٹولتی ہے اور ’انصاف کی دیوی کی آنکھوں پر بندھی پٹی‘ کچھ اور نہیں دیکھ اور محسوس کر پاتی اس لیے جو لوگ عقائد کی دہائیاں دے رہے ہیں انھیں شاید منہ کی کھانی پڑے گی۔ مگر یہ ہماری معصومیت ہی تھی کہ ہم نے یہ نہیں دیکھا کہ پٹی اس کی آنکھوں پر ہے مگر کان کھلے ہوئے ہیں جن سے عقیدتوں کی چنگھاڑ مسلسل ’انصاف کی دیوی‘ کے پورے وجود کو متزلزل کیے ہوئے رہی تھی۔ اور پھر ماہ ستمبر کے آخری ہفتے کی تاریخیں تبدیل ہوتے ہوتے آخری دن ایک عبرت انگیز تاریخ رقم ہو گئی۔
ملکیت کے تعلق سے تو فیصلہ سامنے آیا نہیں کہ قطعۂ اراضی کے اصل کاغذات اور آثارِ قدیمہ کی تحقیقات کی رو سے آخر وہ زمین کسے سونپی جائے لیکن ایک ایسا فیصلہ کیا گیا کہ اس ملکیت کے تین حصے کرکے تینوں متحارب فریقوں کو سونپے جائیں گے۔ سوال یہ ضرور اٹھتا ہے کہ کیا ان تینوں میں سے کسی بھی فریق نے ایک تہائی زمین کا مطالبہ عدالت سے کیا تھا کہ عدالت’’ اس تقسیمِ اراضی کو اپنا دوراندیشانہ فیصلہ‘‘ کہلانے کی مستحق قرار پاتی؟ ملکیت کی دعویٰ داری یقینا کئی قانونی و آئینی تقاضوں کی روشنی میں کی جاتی ہے اور قضاۃ کا فرض یہی ہوتا ہے کہ وہ کسی بھی ناانصافی کا مرتکب نہ ہو۔ اگر زمین پر مطلقاً ان کا حقِ ملکیت ثابت ہوتا ہے تو پوری کی پوری زمین انھیں سونپ دی جائے اس میں کسی کو کوئی اعتراض ہی کیوں ہوگا؟ مسلمان بھی اپنے دعوے سے خود ہی دستبردار ہو جائیں گے۔ بابری مسجد اراضی کی ملکیت میں عدالت نے یقینا اپنے منصب کے اعتبار کو مجروح کیا ہے۔ بہرکیف فیصلہ اور انصاف میں بڑا فرق ہوتا ہے اور کسی بھی فیصلہ کو انصاف نہیں قرار دیا جاسکتا۔
اس روز نصف شب تک الیکٹرانک میڈیا کے مبصرین اور اینکر پرسنس کی حرکات بھی دیدنی تھی۔ کہاں کہاں کی کوڑیاں لائی جارہی تھیں سمجھ میں ہی نہیں آرہا تھا، اور کسی بھی چینل یا سائٹ پر کوئی بھی بابری مسجد کی زمین کی ملکیت کے تعلق سے کوئی بات کرنے کو تیار تھا نہ ہنوز ایسا دیکھنے یا سننے کو مل رہا ہے۔ عدالت کے فیصلے کی چہار جانب سے پذیرائی اور سراہنا کی جارہی ہے۔ ہم نے بھی اسے تسلیم کرنے کی ہامی بھری تھی اس لیے مسلمان نمائندوں نے بھی رائی برابر بھی اپنے اس موقف سے اعراض نہیں کیا۔ لیکن اس الیکٹرانک میڈیا پر ایک بات بڑی واضح اور صاف تھی کہ کسی بھی مسلم نمائندے سے گفتگو کرتے ہوئے اینکر پرسن بہت جلدی سے فریم کی تبدیلی چاہتے تھے یعنی اگر مسلم نمائندے نے مسلم خیالات کی ترجمانی کی کوشش کی تو فوراً اسے کٹ کردیا جاتا اور کوئی دوسرے سوال کی زد میں لانے کی کوشش کی جاتی تاکہ اسے ’’سچ بولنے‘‘ کا وقت ہی نہ مل سکے۔ اس کے برعکس ’’آستھا‘‘ کی ترجمانی کرنے والوں کو ’’پورے وِ ستار‘‘ سے بات کرنے کا موقع دیا جاتا رہا تھا۔ اس طرح یہ کوشش برابر کی جاری رہی کہ مسلمانوں کی ترجمانی بھی کم سے کم ہو اور شارٹ سے شارٹ کی جاتی رہے۔ جہاں تک پرنٹ میڈیا کا تعلق ہے تو اس میں بھی اردو سے ہٹنے کے بعد مسلم آواز بلند کرنے والے لوگ خال خال ہی ملتے ہیں اور انھیں بھی اس کا موقع نہیں دیا جاتا البتہ مسلمانوں کو تیز آواز سے ڈانٹنے کے لیے ان کے ہاں کئی قلم چلتے ہیں اور دلوں کو چھلتے ہیں۔ انھیں ایک موقع اور مل چکا ہے۔ مگر یہ تو کہا ہی جائے گا کہ ایک ترشولی فیصلہ سے انصاف مجروح ہوا ہے۔ مسلمانوں میں عام صدمے کی لہر ہے اور یہ صدمہ بھی روح کی گہرائی میں اپنی جڑیں پیوست کیے ہوئے ہے۔ حقیقتاً ہر فیصلہ انصاف کہلانے کا حقدار نہیں ہوتا۔ فیصلہ اور انصاف میں بڑا فرق ہوتا ہے.

2 comments:

Unknown said...

بلکل صحیح فرمایا آپ نے ' فیصلہ اور انصاف میں بڑا فرق ہوتا ہے' الله سے دعا ہے کے اب انصاف کا فیصلہ ہو -

Hamid Iqbal Siddiqui said...

mazmoon to lajawab hai