Eid and Sorrows are Poles Apart Things Dr. Rehan Ansari |
بچپن سے ہم سب ایک عجیب و غریب رواج کو دیکھتے چلے آرہے ہیں۔کسی کے گھر میں میت ہو جاتی ہے تو عزیز و اقربا ہی نہیں دور و نزدیک والے بھی اس بات پر نظر رکھتے ہیں کہ اپنے عزیز کے انتقال والے برس کی ان کی عید پر صدمات کا ڈونگرہ برسا کرے۔ وہ مسکینی صورت اور اداس کیفیت میں مبتلا رہیں۔ لوگ ان سے اس لیے ملنے لازماً جائیں کہ وہ اپنے مرحوم عزیز کی یاد کرے اور خوشیاں اس کے نام کرکے خود اُداس رہے۔ چاہت و محبت کا یہ کون سا پیمانہ ہے؟... یہ ضرور ہے کہ اس پر ہماری خلط ملط ہندوستانی تہذیب کا اثر ہے۔ برادرانِ وطن کے مختلف مذہبی و تہذیبی اثرات سے یقینا ہم سب نسلاً در نسل متاثر رہے ہیں اور یہ طریقہ بھی وہیں سے درآمدہ ہے.
یقینا ہماری یہ بات چیں بہ جبیں کرنے والی ہے۔ غصہ دلانے والی ہے۔ خون کھولانے والی ہے... کیونکہ ہم مشرقی ہیں... مگر رفیقو! ایک بات ضرور ٹھنڈے دل سے سوچیں کہ ہم عید کیا اپنی مرضی سے مناتے ہیں؟... یا کسی کے حکم کی تعمیل میں اسے مناتے ہیں؟ اگر بات دوسری ہے تو اسے منانے میں ہم اپنی مرضی کیوں تھوپتے ہیں؟ جس انداز سے منانے کا حکم دیا گیا ہے اس سے روگردانی کرکے ہم کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں؟ زیادہ محبت ہمیں کس سے ہے؟ اپنے مرحوم رشتہ دار سے یا آقائے دوجہاں حضرت محمد مصطفےٰ ؐ سے؟
حضورِاکرم ؐ نے واضح طور پر جو احکام عیدین منانے کے دیئے ہیں ان میں کسی بھی زاویے سے یہ نہیں بتایا گیا ہے کہ اگر ہمارا کوئی عزیز و رشتہ دار انتقال کرجائے تو اس برس ہمیں عید منانے کا انداز بدل دینا چاہیے۔ اور کتنی پیاری اور سادہ سی ہدایات دی گئی ہیں۔ غسل کریں، مقدور بھر اچھے یا نئے کپڑے پہن لیں، دوگانہ نمازِ شکرانہ واجب ادا کریں، اور پھر ’’خوشیاں‘‘ منانے کے علاوہ دیگر ’احکام کی پابندی‘ میں دن گذاریں گے۔
خوشیاں منانے کے لیے بھی ہر (جغرافیائی و انسانی) قبیلے کی مروجہ رسوم و رواج کو روا رکھا گیا ہے (تاآنکہ وہ مشرکانہ نہ ہوں اور حدودِ اخلاق کو لانگتی نہ ہوں)۔ مگر کسی بھی جگہ اس بات کا مذکور نہیں ہے کہ کسی کے انتقال پر ان خوشیوں کو غم اور ماتم میں تبدیل کردیا جائے!
عیدالفطر کو اﷲ کی جانب سے انعام کہا گیا ہے اور عیدالاضحی کو ہم سب کے جد امجد حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یادگار بنایا گیا ہے۔ ان دونوں دنوں میں کرنے کے سبھی کام بتا دیئے گئے ہیں اور سبھی احکام خوشیاں منانے سے معنون ہیں۔ اب ہم خود اس سے گریز کریں اور اعراض برتیں تو ان احکام کی عدولی کا ذمہ دار ہم کسے قرار دیں گے؟... مگر ہماری یہ تفصیلی بات شاید سبھی کو تلخ تر معلوم ہوگی ... کیونکہ ہم سب مشرقی ہیں!
ہماری عید کی خوشیوں پر تازہ ترین حملے تو سیاسی حضرات کی جانب سے ہونے لگے ہیں۔ کہیں مسلم کش فساد ہوا تو عید سادہ منائیں، کہیں مسلمانوں کی وسیع پیمانے پر گرفتاریاں ہوئی ہیں تو عید سادہ منائیں... وغیرہ وغیرہ... حضور سوال یہ ہے کہ یہ سلسلہ ہندوستان میں کبھی رکے گا بھی؟ جنابِ والا ہمیں تو ہر حال میں عید کو سادہ ہی منانے کا حکم دیا گیا ہے۔ کہیں بھی تعلیم میں یہ نہیں ہے کہ اپنی عیدین دھوم دھام اور شور و شغب کے ساتھ منایا جائے، عیش کوشی کی جائے،فضول خرچیاں کی جائیں، اپنی تونگری کا مظاہرہ کیا جائے، مقابلے کروا کر انعامی رقوم کا لالچ دیا جائے اور اس لالچ میں افراد کی جانیں تک لے لی جائیں، معاشی طور پر کمزوروں کا منہ چڑایا جائے... یہ بھی برادرانِ مشرق کا وطیرہ ہے۔ ہمیں تو از ابتدا تا انتہا یہ حکم دیا گیا ہے کہ جب تک غریب اور کمزور افراد و طبقات کو خوشیوں میں شامل نہیں کرلیتے؛ عید کا منانا مکمل نہیں ہوسکتا اور بارگاہِ الہ العالمین میں عبادات کی قبولیت معلق رہ جائے گی۔ اب ایسی واضح ہدایات کے بعد بھلا کوئی کیسے غمخواری اور ہمدردی کے بغیر خوشیاں منا سکتا ہے؟... اس غمخواری اور ہمدردی میں تو عید کا مزہ دوبالا ہوجاتا ہے اور اصلی خوشی نصیب ہوتی ہے۔
آئیے ہم سب رمضان کی ان وداع لیتی ہوئی گھڑیوں میں اپنا محاسبہ کریں، مغفرت کے طلبگار ہوں، ہمدردی کریں، غمخواری کریں، ’’خوشیاں‘‘ تقسیم کریں اور ہر حال میں حکمِ ربانی اور حکمِ نبوی کا لحاظ رکھیں.
2 comments:
Assalam alaikum
Bahot hi munasib maozu ka intekhab kiya hai aapne.
is mazmoon ko mulk ke sabhi akhbarat main shaya hona chahiye
Post a Comment