To View This Blog in Nastaliq Script Download Faiz Nastaliq Unicode Font

Download Faiz Nastaliq Unicode Font from http://www.faiznastaliq.com/faiznastaliq.zip unzip & install it to your windows/font directory

Saturday, August 27, 2011

Eid: The day to be unshackled? Think

Dr. Rehan Ansari
اُس کسان کو آپ کیا کہیں گے جس نے بیج بونے اور اس کی آبیاری سے لے کر ہر پہلو سے بہترین دیکھ ریکھ کرنے اور فصل کاٹنے تک بے انتہا محنت کی ہو اور جب فصل کٹ چکی تو اس کے ڈھیر کو آگ لگا دی، یہ کہہ کر کہ میرا کام تو ختم ہو چکا تھا!... یقینا آپ ایسے کسان کو دانشمند نہیں کہہ سکتے۔
لیکن ہم مسلمانوں میں ایسے کسانوں کی کثرت ہے؛ جو تقویٰ کی کھیتی کو آگ لگاتے ہیں؛ رمضان کے پورے مہینے یہ بڑی محنت سے روزے رکھتے ہیں، اس کی ہر زاویے سے حفاظت کرتے ہیں، کسی لحظہ یادِ الٰہی سے غافل نہیں ہوتے۔ اس طرح اپنے اندر تقویٰ کی پیدائش اور پرورش کرکے اپنے پورے باطن کا تصفیہ اور تنقیہ کرتے ہیں۔ تمام فواحش، لہو و لعب، جھوٹ، غیبت، لالچ، چوری، بے ایمانی، جھگڑے، ظلم و جبر، حرام اور اسی طرح کی تمام برائیوں سے خود کو اتنا دور کر لیتے ہیں کہ واقعتا مسلمان ہونے کا عملی نمونہ نظر آتے ہیں۔ یہ غمخوار ہوتے ہیں اور ہمدرد بھی، یہ صابر و شاکر ہوتے ہیں اور صاف باطن بھی، یہ اپنے اعمال میں انتہائی محتاط ہوتے ہیں اور خود کے محتسب بھی، یہ ناصح بھی ہوتے ہیں اور عامل بھی، مسجد میں حاضری اور گھر میں آرام، فضولیات سے اجتناب، کاروبار میں دیانتداری ان کا معمول اور شیوہ بن جاتا ہے ... اور حقیقتاً ہر روزہ دار مسلمان زندگی کا صحیح لطف محسوس کرنے لگتا ہے۔ اسے اپنی پیدائش کا مقصد اور منصب پوری طرح سے سمجھ میں آنے لگتا ہے۔


’تقویٰ‘ یوں تو ایک ایسا موضوع ہے جس کی تفہیم کا حق ہم جیسا کم علم ادا کرنے سے قاصر ہے، اس کا حق علمائے کرام کو پہنچتا ہے۔ ہاں! ایک جملے میں ہم اسے یوں بیان کرسکتے ہیں کہ اﷲ سے ہر وقت اور ہر لمحہ ڈرنے، مدد طلب کرنے، اس پر توکّل کرنے اور اس کی منشا کا ہر کام میں احساس و دھیان رکھنے کا نام تقویٰ ہے۔
تقویٰ جیسی دولت ہاتھ آکر بھی عید کے آتے ہی ہتھیلی میں کھجلی پیدا ہو جاتی ہے۔ عید کے روز بڑا اہتمام کرکے شکرانے کی نماز ادا کی جاتی ہے۔ یہاں تک تو ہر مسلمان شکر و عبادت کا بے مثال نمونہ بنا رہتا ہے۔ اس کے علاوہ عید کی نماز کے بعد بیشتر قبرستان جاکر اپنے بچھڑے ہوئے اسلاف و اخلاف کے حق میں دعائے مغفرت کرتے ہیں۔ وہاں سے واپسی کے ساتھ فیصد کی الٹی گنتی شروع ہوجاتی ہے۔ دن بھر کھانے اور تفریح کی اجازت کا اکثر مسلمان وہ استعمال کرتے ہیں کہ یہ اجازت نہ ہوئی ماہِ صیام میں لگی ساری پابندیوں کا پروانہ ہوا۔ احتیاط توخیر بہت کم ہونے لگتی ہے اکثر اوقات خلافِ تقویٰ قدم اٹھتے ہیں۔ جدید دور کے تقاضوں کا حوالہ دے کر خوشی کے اظہار میں جدید سامانِ تعیشات، ریڈیو، ٹی وی، سی ڈی/ ڈی وی ڈی/ٹیپ ریکارڈر ، سنیما گھر کا استعمال ہونے لگتا ہے۔ نام نہاد تفریح گاہوں اور پکنک اسپاٹ کے عیش کدوں کا دورہ، ذہنی، عینی اور سمعی عیاشیوں کا دور دورہ، فضول خرچیاں، شور شرابہ، لہو و لعب، ناچ گانا، ہلّا گلّا، بدتمیزیاں اور فحش کلامی کا بازار گرم ہو جاتا ہے۔ اس کا مظاہرہ ہم اپنے یہاں کی لوکل ٹرینوں میں مبینہ طور سے کرتے رہتے ہیں۔ان سب کو ایک روز بس نہیں ہوتا تو دوسرے دن کو ’’باسی عید‘‘ جیسی بے معنی اور اضافی اصطلاح سے معنون کردیا گیا ہے! اس دن بھی پروگراموں اور ہنگاموں کی بڑی طویل فہرستیں جاری کی جاتی ہیں۔ (’باسی عید‘ کے موضوع پر ناچیز کی رائے میں اصلاح کے لیے علما کو جم کر اظہارِ خیال کرنا چاہیے)
عید اور باسی عید کے بعد بچتے ہیں گیارہ مہینے۔ ان گیارہ مہینوں میں تقویٰ کی کھیتی جل کر یوں بھسم ہو جاتی ہے کہ گمان ہوتا ہے اگر رمضان کا مہینہ ہر برس نہ آئے تو تقویٰ اپنے تمام اوصاف و معانی کے ساتھ کب کا عالمِ بالا میں سانس درست کر رہا ہوتا۔مگر اﷲ کا کرم ہے کہ سال بھر اپنے کاروبار اور پیشے سے بددیانتی کرنے والے، جھوٹ اور فحش کلامی اور گالی کو اپنی عادت میں داخل کرنے والے، منشائے الٰہی اور اسوۂ حسنہ سے غفلت کرکے چلنے والے، رشتے کے نازک تقاضوں سے کھیلنے والے اور دوسری قوموں سے متشابہ زندگی گزارنے والے مسلمانوں کے لیے اﷲ نے ہر سال ماہِ صیام میں روزے فرض قرار دئیے ہیں۔تاکہ وہ تقویٰ کے اوصاف سے باربار مزین ہوا کریں۔ پھر جنھیں توفیق ہو وہ اس عطائے بے بہا کی سال بھر حفاظت کرکے آئندہ سال مزید تقویت حاصل کریں اور یہ سلسلہ زندگی بھر جاری رہے۔ پھر جو اس سال اس کی حفاظت نہیں کرسکے آئندہ سال سے کوشش شروع کرنے کی انھیں توفیق اور موقع نصیب ہو۔
ہماری تو مخلصانہ دعا ہے کہ یومِ عید کو حقیقتاً عید کا دن سمجھا جائے نہ کہ بیڑیاں کھلنے اور پابندیاں اُٹھ جانے کا دن.



No comments: