Anybody can face Drug Reaction any time Dr. Rehan Ansari |
دواؤں کا ری ایکشن یا ردِّعمل بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہوتا ہے۔ ہمارے بدن کی بھی اپنی ایک سلطنت ہے۔ اندرونی سلطنت۔ جس کا مقتدرِ اعلیٰ دماغ ہے۔ اس کے معاون دفاعی دستے دیگر تمام اعضاء ہیں۔ اس کی سرحد جلد ہے۔ ان سب کا باہمی رابطہ اعصاب بناتے ہیں۔ اعضاء و اعصاب کے کچھ انفرادی اور اختیاری افعال بھی موجود ہیں جو یہ اعضاء اپنے طور پر انجام دیتے ہیں۔ بدن کی اندرونی حدود میں جب کبھی کوئی اجنبی شئے (کیمیکل/ دوا/غذا ،وغیرہ) داخل ہوکر خون میں گردش کرنے لگتی ہے اور وہ بدن کے اندرونی نظام کے لیے ناقابلِ قبول ہوتی ہے تو خون میں موجود دفاعی دستے ایمرجنسی موومنٹ لیتے ہیں۔ پھر بدن کے دیگر اعضاء یعنی جلد، جھلّیاں (Mucus membrane) اور سبھی نظامِ بدن اس ایمرجنسی تحریک کا ساتھ دیتے ہوئے ردِّ عمل کا اظہار کرتے ہیں۔بدن پر چھالے، آبلے، چکتے یا دانے ظاہر ہونے لگتے ہیں۔اُن میں بے چین کر دینے والا درد، کھجلاہٹ اور سوزش محسوس ہوتی ہے، کبھی آنکھوں اور منہ کی جھلی کے نیچے خون بہہ نکلتا ہے اور جھلی پھولی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ کبھی ناک سے خون آجاتا ہے۔ وغیرہ۔دوا کا ری ایکشن اسی کو کہتے ہیں۔ کبھی یہ اتنا شدید بھی ہوتا ہے کہ جان لیوا بن جاتا ہے۔
Drug Reaction or Allergy can represent many ways from simple itching, Redness and burning eyes, Extensive rashes and Swelling over soft body parts |
الرجک ری ایکشن
کچھ ٹیکے ایسے بنائے جاتے ہیں جو مائیتِ خون یعنی دمّاب (serum)؛ {دم یعنی ’خون‘ اور آب یعنی ’مائیت‘} سے بنتے ہیں۔ یہ دمّاب بڑی تیزی کے ساتھ کچھ لوگوں میں ری ایکشن کرتا ہے۔ جب یہ انتہائی شدید ہوتا ہے تو اسے اینافائلیکسس (anaphylaxis) کہتے ہیں۔اس کی شدت میں معمولی پن یا زیادہ کا انحصار بدن کے دفاعی یا مامونی نظام (Immune system) پر ہوتا ہے۔ اس عمل میں اینٹی جین (antigen)اور اینٹی باڈی (antibody)حصہ لیتے ہیں۔ اجنبی شئے کو اینٹی جین کہتے ہیں اور بدن کے دفاعی یا مامونی اسلحے کو اینٹی باڈی کہا جاتا ہے۔
اینٹی باڈ ی اصل میں پروٹین کے سالمات (molecules) ہوتے ہیں جو مائیتِ خون، بدن کے خلیات کے اندر اور بدن کی رطوبات میں شامل رہتے ہیں۔ جب بدن میں اینٹی جین داخل ہوتے ہیں تو دو طرح کے دفاعی ردِّعمل ظاہر ہوتے ہیں:
۱۔بدن کی رطوبات میں نئے اور بروقت تشکیل شدہ اینٹی باڈی شامل ہوجاتے ہیں۔ جنھیں خلطی (humoral) اینٹی باڈی کہتے ہیں۔ یہ رطوبات میں موجود پروٹین سے بندھ جاتے ہیں۔پھر خارجی پروٹین یا کیمیکل مادّے پر راست طور سے اثرانداز ہوکر انھیں معتدل کردیتے ہیں۔
۲۔ خون کے ایسے دفاعی لمفی خلیات (lymphocytes) کی پیدائش جن کو پہلے کسی طریقہ سے اینٹی جین کی پہچان (sensitization)کرائی گئی ہوتی ہے اور ان کی خلوی دیوار پر اینٹی باڈی کے سالمات پہلے سے موجود ہوتے ہیں۔
ان دونوں ردِّ عمل میں لمفی خلیات ہی اہم ترین شئے ہیں۔ کیونکہ لمفی خلیات اینٹی باڈی تیار بھی خود کرتے ہیں اور انھیں ڈھوتے بھی ہیں۔ پھر مضر اجزاء کو خارج ہونے کے قابل بھی بناتے ہیں۔
لمفی خلیات دو قسم کے ہوتے ہیں۔ انھیں ان کی پیدائش کے مقام کی مناسبت سے T-lymphocytes اورB-lymphocytes کہتے ہیں۔ جب کوئی اینٹی جین بدن میں داخل ہوتا ہے تو دونوں قسم کے لمفوسائٹس تعداد میں بڑھتے ہیں اور electophoresis کے نتیجے میں ان کی شکلیں بھی تبدیل ہوتی ہیں۔ اس طرح مختلف اینٹی باڈی پیدا ہوتے ہیں۔ اینٹی باڈی گلوبولن globulinہوتی ہیں۔ پھر ان کی الگ الگ خصوصیات اور افعال کی وجہ سے انھیں مختلف نام دئیے گئے ہیں۔ IgG, IgA, IgM, IgD, IgE۔ یہی مختلف Igیا امیونوگلوبولن اصل میں بدن کے دفاعی اسلحے ہیں۔
عموماً ایسے پروٹین جن کا سالماتی وزن 5000 سے زیادہ ہو اور وہ بدن میں داخل کیے جائیں تو ان کے خلاف ردِّعمل ہوتا ہے اور اینٹی باڈی پیدا ہوتے ہیں۔ اسی طرح بعض غیر پروٹینی اشیاء (جیسے دوائیں) بھی بدن کی قوتِ مدافعت کو اکساتی ہیں۔ ایسی اشیاء بدنی رطوبات میں موجود پروٹین کے ساتھ متصل (couple) ہو جاتی ہیں تو بدن کا نظام انھیں اینٹی جین کے طور پر شناخت کرتا ہے اور ری ایکشن ظاہر ہوتا ہے۔
اینافائلیکسس Anaphylaxis
اسے شدید ردِّعمل یا ری ایکشن بھی کہتے ہیں۔ بعض اوقات محض ایک انجکشن لگانے سے ری ایکشن اتنا شدید ہوتا ہے کہ فوری توجہ نہ دی جائے اور ایمرجنسی تدابیر اختیار نہ کی جائیں تو مریض فوت بھی ہو سکتا ہے۔اسے شدید ردِّعمل یا anaphylaxis کہتے ہیں۔ ماضی میں ’پینی سلین‘ penicillin کا ری ایکشن اس معاملے میں سب سے زیادہ مشہور رہا ہے۔ یہ انتہائی خطرناک اور ایمرجنسی صورتحال ہے۔ ایسی حالت میں مریض کی سانس کی نالیوں میں ورم آجاتا ہے، تشنج اور امتلاء ( رطوبت سے بھرجانا) پیدا ہو جاتا ہے۔ مریض حبس محسوس کرتا ہے، تنفس کی تنگی ہو جاتی ہے، خون کی نالیاں پھیل جاتی ہیں اور بلڈپریشر گر جاتا ہے، پھر مریض محض چند منٹ میں فوت بھی ہوسکتا ہے۔
اس کے علاوہ بھی کئی طرح سے دواؤں کا ری ایکشن سامنے آتا رہتا ہے۔ جس میں بعض اوقات بدن کے اندرونی نظام کو بھی شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔ ان کی تفصیلات بہت پیچیدہ ہیں۔ ری ایکشن کی صورت میں مناسب تدابیر بروقت اختیار کر لی جائیں تو مریض کو مستقبل میں کوئی پریشانی نہیں رہتی۔
اس ضمن میں یہ بات لکھنا شاید ضروری ہو کہ بعض دوائیں ایسی بھی ہیں کہ جن کے استعمال سے مریض کو بے حد فائدہ ہوتا ہے مگر ان کا استعمال اچانک اور یکسر بند کر دینے سے وہی مرض بہت شدت کے ساتھ حملہ کرتا ہے ۔ اسے drug withdrawl syndrome کہتے ہیں۔ ایسا عموماً دمہ اور مرگی کے مریضوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ اس لیے ان مریضوں کی دوائیں ڈاکٹر کی نگرانی میں ہی شروع یا بند کروانی چاہیے۔
ری ایکشن کے اسباب
٭کسی کو بھی، کسی بھی دوا کا ری ایکشن ہو سکتا ہے۔ ٭ذاتی غفلت سے یعنی اگر آپ نے اپنے طبیب کو ری ایکشن کرنے والی دوا سے متعلق پہلے سے ہی خبردار نہیں کیا اور اس نے وہی دوا تجویز کر دی اور آپ نے استعمال کر لی تو ری ایکشن ظاہر ہوگا۔ ٭ ہر کسی کے بدن کے داخلی حالات بالکل مختلف ہوتے ہیں۔ کسی فرد کو ایک دوا استعمال کرتے دیکھیں اور اسے کسی نقصان اٹھاتے نہ پائیں، پھر وہی دوا اپنے لیے استعمال کرنے پر بھی ری ایکشن ہو سکتا ہے، یعنی آپ میں اس دوا سے زودحساسیت (الرجی) موجود ہے۔ ٭بغیر طبی مشورہ کے میڈیکل اسٹور سے دوائیں خرید کر کھانے والوں کو بھی اکثر ری ایکشن کا شکار ہوتے پایا گیا ہے
1 comment:
wah!
Post a Comment