To View This Blog in Nastaliq Script Download Faiz Nastaliq Unicode Font

Download Faiz Nastaliq Unicode Font from http://www.faiznastaliq.com/faiznastaliq.zip unzip & install it to your windows/font directory

Thursday, August 18, 2011

Growing Shadow of Anna Hazare and
UPA Govt's Helplessness  
Dr. Rehan Ansari
پورے ہندوستان پر بدعنوانیوں کا سایہ ہے اور آج بڑے بڑے بدعنوانوں پر انا ہزارے کا (عفریتی) سایہ ہے۔ حکومت کے دونوں ایوانوں کے درو دیوار شورشرابہ جھیل رہے ہیں۔ اور ہم خود کو تسلی دے رہے ہیں کہ ’’ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا؟‘‘
بدعنوانی اصل میں ہے کیا اور اس کا شکار کون لوگ ہوتے ہیں۔بدعنوانی کا سب سے زیادہ شکار اس ملک کے غریب اور شریف عوام ہوتے ہیں۔ زیرِ بحث بدعنوانی ایک عجب عنوان ہے کہ جس کے لیے کوئی مناسب لفظ بھی جگہ لینے کو تیار نہیں ہے۔ فرعونیت اور قارونیت جیسے (قدرے مناسب) الفاظ بھی شاید شرماتے ہیں۔ بس اسے ’’بدعنوان‘‘ corrupt  کہہ دینا ہی سب کو کافی لگتا ہے۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ صرف اردو زبان میں یہ مسئلہ ہے۔ دیگر زبانیں بھی ’دہشت گردی‘ کی مانند ’بدعنوانی‘ کو مکمل طور پر بیان کرنے سے قاصر ہیں۔
انا ہزارے کی جاری تحریک بڑے بڑے بدعنوانوں کے خلاف ہے۔ وہ آج کمزوروں کی طاقت کی علامت بنے ہوئے ہیں۔ انھوں نے ایک امید جگائی ہے۔ بات بھی صحیح ہے کہ بڑے سدھریں گے تو چھوٹے ڈریں گے اور سدھریں گے۔ (یہ اور بات ہے کہ اناہزارے نے درمیانِ تحریک میں فرعونِ دوراں نریندر مودی کی تعریف کرکے ہم جیسوں کے نزدیک اپنے اقدامات کے تئیں خود کو مشکوک شخصیت بھی بنا لیا ہے)۔ اب اناہزارے کہاں تک کامیاب ہوتے ہیں اور لوک پال بل کے قابلِ قبول مسودہ کی تیاری اور ممکنہ نفاذ کا انجام کیا ہوتا ہے اس پر کوئی رائے زنی کرنا قبل ازوقت ہے۔ کیونکہ سامنے کانگریسی سیاستدانوں کی ایک ایسی ٹیم ہے جس کی ذہنی آبیاری بڑی میڈم اندراگاندھی کے ساتھ ہوئی ہے جن کے دور میں ہر قسم کی بدعنوانیاں پورے شباب پر تھیں۔ جب اندراگاندھی سے ان کا احتساب کرنے کو کہا گیا تھا تو انھوں نے یہ تاریخی جملہ ادا کیا تھا کہ ’’بدعنوانی تو عالمی طریقِ کار ہے‘‘ (Corruption is universal phenomenon) اور اردو کے شاعر شبیر احمد راہی نے تڑپ کر احتجاج کیا تھا کہ:

یہ  کہہ  کے   اِک  جواز  مہیا  کیا   گیا
رشوت کہاں نہیں ہے کہ درماں کریں گے ہم
 آئیے ہم ماہِ اگست کے پس منظر میں ہی کچھ باتیں دوہرائیں بھی اور حاکمی بدعنوانی کی تاریخ بھی دیکھیں۔
ہمارے وطن ہندوستان نے دورِ غلامی سے نجات کے چونسٹھ برس مکمل کر لیے ہیں۔ یہ دورِ غلامی بیرونِ ہند کی نوآبادیات پسند اور جارح قوم کے ساتھ گذرا تھا۔ تاریخ شاہد ہے کہ اس دور میں صرف حاکمین کے خوشامدی ٹولے ہی خوشحال زندگی جی رہے تھے۔ سرکاریں انھیں عزت و سماجی رتبہ و وقار اور جاگیریں بھی عطا کرتی تھیں۔ محکوم عوام میں جو ان سے غیرمتعلق رہتے تھے، ان پر کسی بھی شاہی فرمان کی بلاچوں و چرا کیے تعمیل لازمی تھی۔ وہ ہر سطح پر پسماندگی کا شکار تھے۔ ان کی اپنی مرضی کی کوئی اہمیت نہیں تھی۔انھی میں ایک گروہ حریت پسند تھا۔ وہ حکومتِ وقت کا باغی کہلاتا تھا۔ سب سے زیادہ آزمائشی زندگی اسی گروہ کی تھی۔مظالم اسی پر توڑے جاتے تھے اور وہ ظالم ہر ظلم کو ہنس کر سہتا ہی نہیں تھا بلکہ عجیب سی لذت محسوس کرتا تھا۔اس کا سینہ چوڑا ہو جاتا تھا اور جب ’جے ہند‘ کا نعرہ لگاتا تھا تو شدتِ جذبات سے اس کا چہرہ تابناک ہوجاتا تھا۔اسے اپنے وجود کے احساس اور تشخص کی چاہ تھی۔وطنِ عزیز کی خاک کے لیے قربانیاں دینا وہ باعثِ افتخار سمجھتا تھا۔ اسی جدوجہد کے نتیجہ میں بروز جمعہ، پندرہ اگست ۱۹۴۷ء کو ہندوستان میں آزادی کا سورج طلوع ہوا تھا۔
مجاہدینِ آزادی کی اکثریت جہانِ ثانی میں اپنا ٹھکانہ بنا چکی ہے۔چونسٹھ برسوں کے بعد بھی جو ہندوستانی ابھی بقیدِ حیات ہیں ان کی بوڑھی آنکھیں اپنی ہی نسل کے لیڈروں کو ایک نئے دشمن کے روپ میں دیکھ رہی ہیں۔ رہ رہ کر ان کے دلوں میں ہوک سی اٹھتی ہے۔ سوچنے لگتے ہیں کہ باہر کے دشمن سے لڑنا کتنا آسان ہے اور جب گھر کے اندر ہی دشمن پیدا ہوجائے تو اس سے لڑنا کتنا مشکل! کیا اسی دن کے لیے ہم نے آزادی کی لڑائی لڑی تھی؟ وہ دیکھتے ہیں کہ آدرش، اصول، جوش و جذبۂ قربانی، حب الوطنی، شجاعت، جنگ، محاذ، مورچہ، تحریک، بیداری، دیانتداری، ایمانداری جیسے لہو گرمانے والے عنوانات نہ صرف اپنی کشش کھو چکے ہیں بلکہ رفتہ رفتہ اپنے معنی بھی کھوتے جارہے ہیں۔ اور اب تو ان پر گفتگو کرنا کوئی لطیفہ بیان کرنے کے مصداق ہوگیا ہے۔
آج ہم ایک نئی جنگ کے محاذ پر کھڑے ہوئے ہیں۔ ہم نے جنھیں اپنے قیمتی ووٹوں سے سیاسی نمائندگی دی ہے؛ آج وہی لوگ وطن کو فراموش کرکے اپنی اور اپنی نسلوں کی محبت میں دونوں ہاتھوں سے ملک کو لوٹ رہے ہیں۔ اپنے اور اپنی نسلوں کا مستقبل ہماری دولت کے بوتے پر سنوارنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور ذلیل کرنے میں ان سب نے تمام اخلاقی و تہذیبی قدروں کو خودغرضی کی آگ کے حوالے کردیا ہے۔ ملک کے خزانے پر گھپلے بازوں کا راج ہے۔
آج جمہوری نظام صرف ’ہجومی‘ نظام بن گیا ہے۔ جہاں سر تو گنے جاتے ہیں لیکن ان میں دل اور دماغ کتنے ہیں ان کا حساب نہیں رکھا جاتا (بلکہ دل اور دماغ والوں کو اکثر باہر کا دروازہ دکھا دیا جاتا ہے!)۔
اس پورے نظام پر ہماری بے توجہی نے سیاسی بدعنوانیوں کی وہ پھپھوند لپیٹ دی ہے کہ اس کا اصلی چہرہ پہچاننا مشکل ہو گیا ہے۔ نچلی سے نچلی سطح سے لے کر مسندِ اعلیٰ و اعلیٰ ترین بھی شکوک کے گھیرے میں رہنے لگی ہے۔ دھیرے دھیرے ہم اس منزل پر پہنچ چکے ہیں کہ اس بدعنوان سسٹم سے نجات پانے کے لیے ہمیں ایک دوسری جنگ چھیڑنی پڑے گی جو انگریزوں کے خلاف لڑی گئی جنگ سے بھی زیادہ سنگین اور قربانیاں طلب کرنے والی ہو سکتی ہے۔ کیا ہم سب خود کو اس کے لیے تیار پاتے ہیں؟ پہل جو بھی کرے اس کے ساتھ جڑ جانا چاہیے۔




ایک وہ دور تھا کہ ترنگا لہرانے کے لیے بیتاب رہتا تھا اور ایک آج کا دور ہے کہ وہ فخر سے لہرانے کی بجائے شرما کر اپنا پہلو سمیٹ لینا چاہتا ہے.

4 comments:

Hamid Iqbal Siddiqui said...

ek bharpur mazmoon hai, shikriya

Rashid Ansari said...

Excellent article Rehan bhai.
Rashid Ansari. Mumbai

Dr Rehan Ansari said...

Jazakumullah, Duaon ki iltemaas taki hum bhi apne jazbaat ko duniya ke saamne rakhne ke qabil rahen.

Fahim Ahmad Momin said...

Mauque ka choka hai Dr. Saheb. Interesting reading.