To View This Blog in Nastaliq Script Download Faiz Nastaliq Unicode Font

Download Faiz Nastaliq Unicode Font from http://www.faiznastaliq.com/faiznastaliq.zip unzip & install it to your windows/font directory

Saturday, April 2, 2011

?Why Such Long Hospital Stay for Sadhvi Pragya Singh 
سادھوی پرگیہ سنگھ (Pragya Singh) جب مالیگاؤں بم دھماکوں (سمیت اجمیر، موڈاسا، سمجھوتہ ایکسپریس وغیرہ بم دھماکوں اور اپنے ساتھی سنیل جوشی کے قتل کے الزام کے لیے) گرفتار کی گئی تھی (۱۰اکتوبر ۲۰۰۸) تو ہندوانتہا پسندوں نے بیک زبان اس کی گرفتاری پر اس وقت کے اے ٹی ایس (ATS) چیف آنجہانی ہیمنت کرکرے (Hemant Karkare) کی کھلے لفظوں میں مذمت کی تھی۔ کیونکہ یہ عام ہندوؤں کے وہم و گمان کو دہلا دینے والی بات تھی کہ ان کا ہم مذہب بھی دہشت گرد قرار دیا جا سکتا ہے۔ وہ بھی ہندوستان میں۔ جسے وہ جنم دینے والی ماں کے روپ میں ’’بھارت ماتا‘‘ کہہ کر اس کی پوجا کرتا ہے، عبادت کرتا ہے، وَندے ماترم Vande Mataram پڑھتا ہے۔ مگر حقیقت تو ایک نہ ایک دن سامنے آنی ہی تھی؛
پھوڑیں ماں کے سینہ پہ بم
پڑھنے والے وندے ماترم
Ajmer and Goa Bomb Blasts
سادھوی رتھمبرا اور اُوما بھارتی نے تو پرگیہ سنگھ کا صرف دفاع ہی نہیں کیا تھا بلکہ اسے انتخابات لڑنے کے لیے ٹکٹ تک دینے پر آمادہ تھی، اس کی گرفتاری کو ہندوؤں کے خلاف گہری سازش کہا تھا، مشہور یوگا گرو بابا رام دیو نے سادھوی کو معصومیت کا سرٹیفکیٹ دیتے ہوئے اپنی حمایت بھی جتائی تھی، ہندو انتہا پسند تنظیم وشو ہندو پریشد نے تو سادھوی کی رہائی کے لیے باقاعدہ مہم چھیڑ دی تھی، ہندو جماعتوں ابھینوبھارت اور ہندومہاسبھا نے اسے ہر طرح کی قانونی اعانت کا یقین دلایا تھا، ’سری رام سینے‘ کے چیف پرمودمُتالک نے تو سادھوی کو انقلاب افروز (کرانتی کاری) کہا تھا اور اس کا موازنہ جھانسی کی رانی اور بھگت سنگھ وغیرہ سے کیا تھا اور کہا تھا کہ سادھوی کو دہشت گرد کہنا اس ملک کی انقلابی مہمات کو گالی دینے کے مترادف ہے (یہ اور بات کہ خود متالک بعد میں سادھوی کا ساتھی نکلا اور اسی کیس میں ماخوذ و گرفتار ہے)، بال ٹھاکرے اور ان کے بھتیجے راج ٹھاکرے نے سادھوی کے ساتھ جیل میں غیر مناسب برتاؤ کی شکایتیں کھلے عام کی ہیں جبکہ جارج بش کی تقلید میں ان کا ہی یہ بھی نعرہ تھا کہ جو کسی دہشت گرد کا ساتھ دے گا یا اس کی حمایت کرے گا وہ دہشت گرد کا ساتھی ہوگا!۔ بال ٹھاکرے نے سادھوی پر افتخار بھی جتایا تھا... حتیٰ کہ ہندو انتہا پسندوں نے اپنے مشہور نعرہ ’’ہر مسلم دہشت گرد نہیں ہوتا لیکن ہر دہشت گرد مسلم ہوتا ہے‘‘ کی بھی کسی نہ کسی زاویے سے تجدید کرنے کی کوشش کی تھی تاکہ سادھوی پرگیہ، کرنل پرساد پروہت اینڈ کمپنی پر لگے الزامات کو ہلکایا جاسکے... مگر... زندہ باد ہیمنت کرکرے، زندہ باد!... انھیں ایسا کس کر کیس میں باندھ کر آپ آنجہانی ہوئے ہیں کہ اب ان کے لیے کوئی راہِ فرار نہیں بچی ہے۔
Sadhvi Pragya  when arrested and taken to jail.
اب اسے کس کسوٹی پر رکھ کر دیکھا جا سکتا ہے کہ جب سے یہ پورا گروہ گرفتار ہوا ہے یا ناندیڑ اور گوا وغیرہ میں بم بناتے ہوئے ہلاک ہوا ہے تو ممبئی اور ملک کے دوسرے علاقوں میں اسی نوعیت کے بم دھماکوں کا سلسلہ رک ہی نہیں گیا ہے بلکہ غائب ہو چکا ہے۔ 
ایک ڈاکٹر (چندرپال) کی بیٹی جب جیل میں پہنچی اور پھر اسپتال تو کیا ہوا؟... سادھوی پرگیہ سنگھ نے سیاسی زندگی تو نہیں جی لیکن سیاستدانوں کے بیحد قریب رہی تھی اس لیے گرفتاری کے دو مہینے کے بعد ہی (۵دسمبر ۲۰۰۸ کو) برسوں سے کسی ایتھلیٹ کی مانند زندگی گذارنے والی اچانک بیمار ہوگئی۔ اور ایسی بیمار ہوئی کہ جے جے اسپتال کے ڈاکٹر اسے تقریباً سوا دو سال گذرنے کے بعد بھی ابھی تک اچھا ہونے کا سرٹیفکیٹ نہیں دے سکے ہیں۔یہ جے جے اسپتال کی استناد پر ازخود ایک سوال کھڑا کرنے والی بات ہے۔ پولیس نے اسے جے جے اسپتال کا بستر ضرور دیا ہے لیکن علاج وہ آیورویدک کرواتی ہے۔ وید کون ہے اس کا نام کبھی ظاہر نہیں کیا گیا۔ کیا جے جے اسپتال کے قوانین کی رو سے یہ بات روا ہے؟ (یعنی کل کوئی ملزم یا مجرم یہاں یونانی یا ہومیوپیتھی وغیرہ سے علاج کروانے کی ضد کرے تو کیا اسے بھی یہ رعایت حاصل ہوگی؟)۔ اب یہ بھی سوچنے کی بات ہوگی کہ آیورویدک کی مریضہ کو ایلوپیتھک ڈاکٹر کس انداز سے ہیلتھ سرٹیفکیٹ اور کتنی میعاد کا دیں گے؟
ہم نے دیکھا ہے کہ جب کوئی اہم شخصیت یا ملزم اسپتال میں داخل کیا جاتا ہے تو روزانہ اس کی میڈیکل رپورٹ اخباری نامہ نگاروں یا دیگر صحافیوں کو جاری کی جاتی ہے۔ اس میں مرض اور علاج کی تفصیل کے ساتھ ڈاکٹروں کی رائے اور خیالات بھی شامل ہوتے ہیں۔ لیکن سادھوی کے معاملے میں ایسا کسی دن نہیں ہوا۔ کیوں آخر؟۔ کیا اسپتال میں داخلہ ڈاکٹر دیں گے اور ڈسچارج پولیس؟...پولیس کی حراست میں رہنے والے کسی بھی ملزم یا مجرم کا یہ طویل ترین اسپتالی قیام تحقیق کی جائے تو ورلڈ ریکارڈ بھی نکل سکتا ہے!
تازہ ترین یعنی ۲۸مارچ کو اسپتال کے ڈین کے ذریعہ جاری کی گئی رپورٹ میں انھوں نے قومی تحقیقاتی ایجنسی (NIA) کو لکھا ہے کہ سادھوی پرگیہ سفر کرنے کے قابل ہے اور اسے تحقیقات کے لیے مدھیہ پردیش لے جایا جاسکتا ہے، انھوں نے مزید لکھا ہے کہ سادھوی اسی وقت بیمار ہوجاتی ہے جب پولیس یا تحقیقاتی ٹیم اس کے پاس آتی ہے، ان کے رخصت ہوتے ہی وہ دوبارہ چاق و چوبند ہو جاتی ہے۔ یہ بات وہاں کی پروفیسر الکا دیشپانڈے (ڈپارٹمنٹ آف میڈیسین) نے بتلائی ہے۔پروفیسر دیشپانڈے نے یہ بھی بتلایا کہ سادھوی انھیں یا کسی دوسرے ڈاکٹر کو چیک اپ بھی کرنے نہیں دیتیں اور بالکل بپھر جاتی ہے۔ اگر کوئی واقعی بیمار ہو تو وہ ڈاکٹر سے معائنہ میں پورا تعاون کرتا ہے۔
تحقیقی ٹیم کے سامنے بھی سادھوی بالکل گونگی اور بہری بنی بیٹھی رہتی ہے اور کسی بات کا جواب بھی نہیں دیتی۔ ہاں یا نا تک نہیں کہتی اور جب زور دیا جاتا ہے تو سر چکرانے کا بہانہ کرتی ہے۔
البتہ عدالت نے اب پولیس کو سادھوی کو مزید تحقیقات کے لیے دیواس (مدھیہ پردیش) لے جانے کی ہدایت دے دی ہے اور ملی ہوئی خبروں کے مطابق پولیس نے اس پر عمل بھی کیا ہے مگر اس کے واپس لوٹنے کے بعد کیا ہوگا، کیا سادھوی کو دوبارہ اسپتال میں ہی رکھا جائے گا، وہ بھی دیکھا جائے گا۔

Sadhvi along with some BJP leaders

سرِ دست ہم اس بات پر بھی گفتگو کرنا چاہیں گے کہ گذرتے ہوئے برسوں کے ساتھ اور جنریشن گیپ کی وجہ سے آر ایس ایس کی ’’ہندو راشٹر‘‘ والی آئیڈیا لوجی بھی بوسیدہ ہوچلی ہے۔ شاید کرنل پروہت، دیانند پانڈے، اسیمانند اور تمام دیگر گرو گولوالکر اس فلسفے کے آخری علمبرداران ہیں۔ بدلتی ہوئی دنیا نے جہاں تمام مذاہب کے نوجوانوں کو دنیا کے دیگر حصوں اور علاقوں کی جانب نظریں کرنا سکھایا ہے وہیں ہندو نوجوانوں کو بھی متوجہ کیا ہے۔ اسی لیے ان میں کسی قدر مذہب بیزاری اور مذہبی شدت پسندی کم ہوئی ہے۔ یوں بھی ہمیں کرنل پروہت کی حماقت پر ترس آتا ہے کہ (خبروں کے مطابق) تمام دھماکوں کو اسی نے فیبریکیٹ کیا تھا اور ٹریننگ بھی دی تھی۔ آخر اسے یہ کیسے لگا کہ صرف مسلمانوں (یا کسی بھی مذہب کے ماننے والوں ) کو کچھ تعداد میں ختم کرکے یا مودی کی مانند فسادات میں تباہ و برباد کرنے سے، ایک مخصوص علاقے میں قتلِ عام کرنے سے ملک ہندوراشٹر میں تبدیل ہو جائےگا؟ کیا اسے اپنے اسرائیلی آقاؤں کا حشر نہیں سمجھ میں آتا کہ وہ کس طرح قریبی زمانے میں رسوا ہونے کی منزل پر آئے جا رہے ہیں؟ کیا اسرائیل کی فلسطینیوں کو ختم کرنے کی کوشش کامیاب ہو جائے گی؟ انھیں تو یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ ہٹلر کی وسیع تر سفاکی نے جرمنی کے معدودے چند ہزار یہودیوں کو بھی پوری طرح ختم کرنے میں کامیابی حاصل نہیں کی تھی۔ کم ازکم تاریخ سے کسی بھی دانشمند کو سبق لینا لازمی ہے.

1 comment:

Syed Manzar said...

بہت خوب اب پڑھنے میں مزا آرہا ہے