To View This Blog in Nastaliq Script Download Faiz Nastaliq Unicode Font

Download Faiz Nastaliq Unicode Font from http://www.faiznastaliq.com/faiznastaliq.zip unzip & install it to your windows/font directory

Tuesday, June 28, 2011

Why Boys Lag Behind Girls in EducationDr. Rehan Ansari
لڑکے تعلیم میں لڑکیوں سے کمزور ہیں یا اسے اُلٹ کر دیکھیں تو لڑکیاں تعلیم میں لڑکوں سے زیادہ اچھے نتائج لا رہی ہیں۔ ہر دو پہلو سے لڑکوں کی معکوس تصویر ابھرتی ہے۔ ایسا کیوں ہو گیا ہے؟۔ یہ ایک فکرانگیز ہی نہیں بلکہ دردانگیز بات بھی ہے۔ اب یہ بات نئی بھی نہیں رہ گئی ہے۔ اس پر کئی برسوں سے تمام نکات پر مباحثے بھی ہو رہے ہیں اور مداوے بھی پیش کیے جاتے رہے ہیں۔ مگر ہنوز یہ عارضہ دور نہیں ہو پایا ہے کیونکہ جو مریض ہے اسے ہی فکر کم ہے دوا یا علاج کی۔یعنی لڑکے!۔ ہم لڑکیوں کی جانب سے مطمئن ہیں بلکہ خوش ہیں مگر دوسری جانب قوم کی اصل توانائی یعنی لڑکوں کو کافی کمزور پاتے ہوئے متفکر بھی ہیں۔ اور اس کے منظر نامہ کا خوردبینی معائنہ کرکے اسباب کا پتہ لگانے کی کوشش میں ہیں۔
برسوں سے مختلف تعلیمی جلسوں میں شرکت کرتے ہوئے پہلے پہل ہمارا خیال تھا کہ یہ علت مسلم نوجوانوں میں پائی جاتی ہے مگر جب کینوس کو وسیع کیا اور موجودہ صورتحال کا جائزہ انٹرنیٹ کے ذریعہ بھی لیا تو پتہ چلا کہ کسی مخصوص قوم و ملت کا یہ مرض ہے اور نہ کسی مخصوص ملک و جغرافیائی خطہ کا۔ یہ مرض عالمی سطح پر یکساں انداز سے پھیلا ہوا ہے۔ البتہ امتِ مرحومہ کی حالت ان سب کے درمیان انتہائی دِگرگوں ہے۔ سب سے خستہ ہے۔ جب یہ بات سامنے آگئی تو بے چینی و بے کلی اور بڑھی کہ آخر مستقبل میں پتوار سنبھالنے والے ان ہاتھوں اور دماغوں کو ہوا کیا ہے؟ اور جو کچھ ہوا ہے اس کے اصلی اسباب کیا ہیں؟ تو انٹرنیٹ کو مزید کھنگالنے (Browsing) کے بعد اس کے کئی عقدے کھلے، کئی نظریے اور تجزیے، طرح طرح کے مشاہدے اور تجربے سامنے آئے جن کے آئینے میں ہم اپنے لڑکوں کی تصویر دیکھنے بیٹھے ہیں۔


The Imbalance Should End
اصل میں یہ پورا موضوع نفسیاتی ہے۔ جتنی پرتیں کھولیں گے اُتنے پہلو اُجاگر ہوں گے۔ ہر سبب اور اس کا علاج وسیع نفسیاتی دائرہ رکھتا ہے۔ اسباب تو کچھ پیشرووں کی طرح ہم بھی مذکور کریں گے مگر علاج کا اشارہ تو مکمل طور سے اسی نتیجہ میں ملتا ہے کہ ’’لڑکیاں کامیاب ہو رہی ہیں تو ان کا طریقۂ تعلیم و فہمائش اپنانے میں ہی لڑکوں کی ترقی بھی ہوسکتی ہے۔‘‘... نسخہ بڑا آسان لگتا ہے اور ہم نے اسی آسانی کے ساتھ اسے تحریر بھی کردیا ہے۔ لیکن اصل مسئلہ ہنوز جوں کا توں برقرار ہے۔ یعنی اس نسخہ کے قاتل اسباب بنام لڑکوں کی نفسیات اور ان پر اثرانداز ہونے والے مستقل عوامل۔ آئیے ہم ان کا جائزہ لیتے چلیں اور غوروفکر کریں کہ اس مریض (لڑکوں) کے لیے کتنے اور کیسے متبادل نسخہ جات تجویز کیے جاسکتے ہیں جو ان اسباب کے قاطعات و مانعات بن سکیں۔
اس جنسی تفریق کو دورِ جدید میں سب سے زیادہ استحکام بخشا ہے الیکٹرانک میڈیا نے۔ دورِ جدید کا ماحول اس کا سب سے بڑا اثرانداز سبب ہے۔ اس نئے کلچر کا پسارا ٹیلیویژن کے ذریعہ عمل میں آتا ہے۔ اور روزانہ ہوتا ہے۔ٹیلیویژن دیکھنا ہم سب کا محض ایک معمول نہیں ہے بلکہ کسی نشہ کی مانند یہ ہمارے وجود میں سرایت کرچکا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ چھوٹے اور نابالغ بچے تک اس کے چھوٹے سے اسکرین پر دکھائی جانے والی مختلف اشیاء کا مطالبہ اور اس پر نظر آنے والے مختلف کرداروں کی نقل کرنے لگتے ہیں۔ لڑکے اس معاملہ میں بہت آگے نکلتے ہیں اور ابتدائی دنوں میں کوئی انھیں ٹوکتا بھی نہیں بلکہ اکثر حوصلہ افزائی کردی جاتی ہے۔ اس کے جو کچھ نتیجے سامنے آتے رہتے ہیں انھیں یہاں دوہرانے کی ضرورت نہیں ہے۔
ہم اگر تقابلی جائزہ لیں تو دنیا بھر میں دورِ جدید میں خواتین کو زیادہ اور مساوی مواقع ملنے کے بعد انھوں نے ایک مقصد کے تحت اپنا سفر شروع کیا۔ ہنوز یہ سلسلہ جاری ہے۔ مختلف پروگرام خصوصی طور سے خواتین کے لیے منعقد کیے جاتے ہیں، ان میں خواتین کی حاضری قابلِ دید ہوتی ہے اور وہاں سے وہ کسی نہ کسی پیغام کو ساتھ لیے گھروں کو نکلتی ہیں۔لڑکوں یا مردوں میں ایسا کم ہوتا ہے۔ خواتین میں فعلی و تفاعلی (Verbal and nonverbal) نیز بصری (visual) صلاحیتیں زیادہ ہوتی ہیں اور زبان بھی مہذب ہوتی ہے۔ سیکھنے سکھانے کی صلاحیت تو دونوں جانب یکساں ہوتی ہے لیکن لڑکیاں سنجیدہ و فرمانبردار اور صابر ہوتی ہیں۔ تہذیب یافتہ اور اچھی عادات و اطوار والا فرد بھی بداطوار سے سدا آگے نکلتا ہے اور زیادہ سیکھتا ہے اس لیے یہاں بھی آج کل لڑکیاں بہتر ہیں۔
اب تمام پیشہ ورانہ کورسیس میں اور بڑے کالجوں یا یونیورسٹیوں میں داخلہ فیصدی مارکس کی بنیاد پر دیا جاتا ہے اور فیصدی مارکس کلی طور سے نفری صلاحیت کی بجائے (تھیوریٹکل) یادداشت کی غمازی کرتے ہیں؛ اس لیے یہاں بھی لڑکیاں ہی سبقت لے جاتی ہیں۔ وہ پرچوں میں جوابات پورے سلیقے کے ساتھ لکھتی ہیں اس لیے انھیں نمبر بھی اچھے ملتے ہیں۔یادداشت کے معاملہ میں خواتین اور لڑکیاں بہتر ہیں، محنتی بھی ہیں اور جانتی ہیں کہ ملازمتوں میں انھیں ترجیح مل جائے گی۔
اسکولوں کی انتظامیہ کا معاملہ بھی کسی قدر اس کا ذمہ دار ہے۔ جہاں لڑکوں اور لڑکیوں کے اسکول ایک ہی انتظامیہ کے زیر ہیں وہاں لڑکیوں کے اسکول پر انتظامیہ بھرپور توجہ دیتا ہے جبکہ لڑکوں کے اسکول پر توجہ مختلف حیلوں بہانوں کا شکار رہتی ہے اور تعلیمی وسائل کی فراہمی بھی۔ جن اسکولوں میں یا مقامات پر یہ بات نہیں ہے وہاں کے نتائج بھی اچھے ہیں۔
لڑکے گھر سے باہر کی دنیا سے زیادہ متعلق رہتے ہیں اور ہمجولیوں کی بڑی تعداد رکھتے ہیں اس لیے پڑھائی کے دوران منتشر خیالی کا شکار بھی ہوا کرتے ہیں۔ وہ یادداشت کو مرکوز نہیں رکھتے۔ گھر میں بزرگوں کی ہدایات سے احتراز و گریز کرتے ہیں۔ من مانے انداز سے دن گزارتے ہیں۔ کوئی بین الاقوامی کھیلوں کا مقابلہ جاری ہو تو بیشتر وقت، وہ بھی کئی دنوں تک، صرف ٹیلیویژن کی صحبت میں گذارتے ہیں، جن جگہوں پر اجتماعی انداز سے ٹیلیویژنی کی جاتی ہے وہاں تو مزید خرابیاں اور طرح طرح کی شرطیں لگانے کی لت پڑ جاتی ہے۔ وہ فلم اور ٹی وی زدہ ہوکر غیر حقیقی تصورات میں گھرے رہتے ہیں۔ روزانہ کے معمولات میں وہ کسی ٹائم ٹیبل کو follow کرنے کے روادار نہیں ہوتے، جس کا سب سے بڑا محرک پنجوقتہ نماز ہے، لیکن عبادات اور نماز وغیرہ کی پابندی گھروں میں لڑکیاں کر لیتی ہیں مگر ہمارے لڑکے صرف تیوہاروں یا مخصوص دنوں یا رمضان کے مہینے میں ہی اس کا اہتمام کرتے نظر آتے ہیں۔ شرارت اور کھیل کود میں وقت ضائع کرنا، اچھے ساتھیوں کا انتخاب نہ کرنے کی وجہ سے بے سبب و بے مقصد آوارہ گردی کرنا اور ٹائم پاس کرنا ان کی عادت بن جاتا ہے۔ ٹیلیویژن (اور نام نہاد سیکس ایجوکیشن) کی وجہ سے ہی بہت سے جنسی معاملات سے قبل از وقت آشنائی نے ان کے دل کی دھڑکنوں میں ہلچل پیدا کردی ہے اور وہ ناوقت عشق و عاشقی کا روگ پالنے لگے ہیں۔ سڑک چھاپ عاشقی (street Romeos) کا نمونہ بننے لگے ہیں۔یہ بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ لڑکوں کی اسکولوں میں اساتذہ کی کثیر تعداد اسکول سے چھوٹنے کے بعد کے (غیرتدریسی بلکہ دیگر کاروباری یا خانگی) پروگرام کی بابت سوچتے رہتی ہے۔ ایسے میں یہ ہوتا ہے کہ باصلاحیت بچوں پر سے مجموعی طور سے توجہ ہٹ جاتی ہے اور ان کی خاطرخواہ حوصلہ افزائی نہیں ہوتی۔ اس کے برعکس کسی طالبعلم نے ذرا سی غلطی کردی تو وہ پورے اسکول کے لیے موضوعِ گفتگو بن جاتا ہے اور سب چھوڑ کر کئی دنوں تک اس طالبعلم کو شرمندہ کیا جاتا ہے، طعن و تشنیع سے نوازا جاتا ہے، اس کے حوصلے توڑے جاتے ہیں۔ لڑکوں میں کوئی اگر اپنی پڑھائی کے تئیں سنجیدہ نظر آتا ہے تو اس کے چند ہم جماعت اس کے ساتھ ہتک آمیز اور حوصلہ شکن رویہ رکھتے ہیں۔ اسے یہ کہہ کر چڑاتے ہیں کہ ’’کیا دن بھر چھوکریوں کی طرح کتاب اور گھر میں گھسا رہتا ہے بے!‘‘۔ ایسا کہنے والے بچوں پر بھی اسکول اور اساتذہ کوئی ایکشن نہیں لیتے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ پڑھنے والا بچہ سبکی محسوس کرتا ہے اور اس کا حوصلہ بھی پست ہوجاتا ہے۔ یہاں ایکشن کا ایک (مثبت) پہلو یہ بھی ہوسکتا ہے کہ پڑھنے والے بچے کو اسکول میں گاہے گاہے انعام سے نوازا جاتا رہے جو طعنہ دینے والے لڑکوں کے لیے شرمندگی کا سامان بن سکے۔
 اساتذہ کی اکثریت ایسے افراد پر بھی مشتمل ملتی ہے جنھیں خود بھی غیر نصابی مضامین، اخبارات یا کتابیں پڑھنے سے دلچسپی نہیں ملتی اور ان کا کوئی دوسرا ساتھی یہ کام کرتا ہے تو وہ ان کے لیے ’ٹائم خراب کرنے‘ اور ’اس سے کیا فرق پڑتا ہے‘ کا ملزم قرار پاتا ہے۔ ایسے اساتذہ طلبہ میں بھی خارجی مطالعہ و مشاہدہ کا رجحان پیدا نہیں کرپاتے۔ اسکولوں کی پکنک بھی اب محض ’تفریح اور enjoy  کرنے‘ کا وسیلہ بن گئی ہے وہ ’تعلیمی سیر‘ نہیں رہ گئی ہے۔ اس لیے لڑکے بھی نئے مقامات پر جاکر کھیل کود کر، کھاپی کر، واپس آجاتے ہیں۔ ان تعلیمی سیر کی وجہ سے ماضی میں جذبۂ مسابقت اور ایجادپسندی پیدا ہوتا تھا مگر اب ایسا کچھ نہیں ہے۔
گھریلو ماحول بھی تعلیم اور تدریس پر شدید طور پر اثر کرتا ہے۔ گھر میں تمام افراد (خصوصاً ماں اور باپ) آپسی جھگڑوں یا پڑوسیوں و رشتہ داروں کے درمیان جھگڑوں کے مقابلے میں پرسکون ماحول نہیں بنائیں گے اور پڑھائی کا موقع نہیں دیں گے تو لڑکیاں تو بہرحال پڑھ لیتی ہیں مگر لڑکے پیروں میں چپل ڈال کر نکل جاتے ہیں۔ پھر وہ اپنا بچا کھچا وقت کہیں بھی گذارتے ہیں اور دوسرے مشاغل و عادات کو اپنا لیتے ہیں۔ ہمارے معاشرے سے بھی وہ لائبریریاں وغیرہ بالکل غائب ہوچکی ہیں جہاں ہر قسم کے اصلاحی و تعمیری نیز تحریکی رسائل و اخبارات کا ایک وقیع ذخیرہ رہا کرتا تھا اور ان کا مطالعہ کرنے کے لیے لوگ قطاروں میں منتظر رہا کرتے تھے۔ مطالعہ کے یہ شوقین بھی زیادہ تر لڑکے ہی ہوتے تھے۔ بعد میں وہ کیا بنتے تھے یہ دوسرا سوال ہے مگر یہ ضرور دیکھا گیا ہے کہ وہ بدتہذیب و بداخلاق ہرگز نہیں بنتے تھے۔ ان میں ہر طرح کی حدِّ ادب جاننے کی صلاحیت آ جاتی تھی۔
ایک اور بات کئی برسوں سے مشاہدہ میں آرہی ہے کہ ہمارے یہاں منعقد ہونے والے تعلیمی پذیرائی کے جلسوں سے جب ماہرینِ تعلیم یا اکابرینِ قوم خطاب کرتے ہیں تو ہال میں لڑکوں کی کثرت رہنے کے باوجود لڑکوں کے خلاف تقریر کرجاتے ہیں، لڑکیوں کی کامیابی کی مبارکباد بھی یوں دیتے ہیں گویا لڑکوں کو طعنہ دے رہے ہیں، یہ ایک منفی طریقہ اور اس کا اثر بھی منفی ہی پڑتا ہے۔ کیونکہ ان باتوں پر ہال میں موجود لڑکیاں اور خواتین کھلکھلا کر تالیاں بھی بجاتی ہیں اور ٹھٹھہ بھی کرتی ہیں۔ کبھی دسیوں کامیاب لڑکیوں کے جھرمٹ میں ایک یا دو لڑکے ہوں تو ان کی پذیرائی بھی اس طرح کی جاتی ہے کہ وہ بے چارا (اپنی نوبلوغیت کے سبب) بہت جھینپا جھینپا اپنا انعام حاصل کرتا نظر آتا ہے اور دوسرے لڑکے بھی ( اندرونی احساسِ شرمندگی کی وجہ سے) اپنے ساتھی کی حمایت میں کھل کر تالیاں تک نہیں بجاتے۔ یہ ماحول تحت الشعور میں جاکر پناہ گزیں ہوجاتا ہے جو آئندہ تعلیمی سال میں ایک سال مزید جوان ہوجاتا ہے!
عالمی ( اورعمومی) سطح پر، جبکہ مادّہ پرستی کا رجحان بڑھا ہے، تربیت کا معاملہ شخصیت یا انسان سازی کی بجائے ظاہری اخلاقیات ہو گیا ہے، معیارِ زندگی کو کنزیومرزم کے معنی مل چکے ہیں، ایک اور بات دیکھنے کو ملتی ہے کہ خواتین اب زیادہ بچے پیدا کرنے کی بجائے اچھے بچوں سے گھر کو آباد کرنے کا رجحان رکھتی ہیں۔ اسی لیے اب اکثر تعلیم یافتہ جوڑے اپنے بچوں کے معیارِ زندگی کے تعلق سے سوچتے ہیں۔ اس تعلیم میں ماں کا رول بہت اہمیت حاصل کرچکا ہے۔ ان میں اب لڑکے بھی بڑے ہونے کے بعد اچھے انسان بنیں نہ بنیں لیکن انھیں اچھی تنخواہ پانے والا یا اچھی آمدنی کرنے والا ضرور بننا ہوگا۔ ایسے ماحول میں لڑکے بڑے ہونے کے بعد کسی بھی طرح کی آمدنی میں تفریق نہیں کرتے اور کئی طرح کے آمدنی کے ذرائع اپنا کر اپنے بعد آنے والے لڑکوں کے لیے بھی راہِ دیگر کی مثال بن جاتے ہیں۔ عیش و آسائش کی مثال۔ ایک غیرمحسوس سی زندگی، ایک جمود سے عبارت زندگی۔ جس کے لیے اعلیٰ تعلیم کوئی ضروری ہدف نہیں ہوتا۔
ان سب باتوں کا علاج کیا ہے؟ اس پر بھی برسوں سے سبھی سرجوڑ کر بیٹھے ہیں۔ بیحد پریکٹیکل حل بھی پیش کیے گئے ہیں۔ مگر جب ہماری قوم کے لڑکے خود ہی اس کی فکر نہ کریں تو کوئی بھی حل آسان کب ہوگا۔ طبی دنیا سے متعلق ہونے کی وجہ سے میں آپ کو ایک آسان سی مثال پیش کرتا ہوں۔ ذیابیطس جیسا مشہور عارضہ جسے عموماً مرض سمجھا اور سمجھایا جاتا ہے، کا معاملہ ایسا ہے کہ مریض خود اپنا مرض اچھی طرح جان لے، سمجھ لے تو اس کا علاج ہوتا رہتا ہے۔ یہ عارضہ بالکل انفرادی معاملہ ہے۔ علاج بالکل انفرادی سطح پر ہوتا ہے۔ دوائیں یا معالج تبدیل کرتے رہنے سے مرض اچھا نہیں ہو جاتا۔ اپنے معالج کی ہدایات پر پوری زندگی استقلال کے ساتھ عمل پیرا رہنا ضروری ہے۔ ہمارے لڑکے ہی نہیں پورا تعلیمی نظام ایک تعلیمی ذیابیطس کا شکار ہے۔
اس تعلیمی ذیابیطس کے لیے نسخہ یوں ہے کہ ہمیں اپنے اپنے مستقبل کی فکر ہونی چاہیے اور ہر کوئی ایک ہدف ضرور طے کر لے۔ پھر اپنے ٹائم مینجمنٹ کو بروئے کار لائے اور منصوبہ بند مطالعہ کرے۔ اگر کہیں کوئی دشواری ہو تو ماہرین سے رجوع کرکے اس کا حل نکالے۔
 ہم اپنے تئیں اتنا کریں کہ ہمارے اسکولوں کا ماحول، ہمارے گھروں اور آس پڑوس کا ماحول تعلیمی بنائیں، اپنے گھروں سے ٹیلیویژن نامی یک چشمی شیطان کو باہر کردیں، لڑکیوں کی تعلیمی حوصلہ افزائی ضرور کریں مگر اس کے درپردہ لڑکوں کی حوصلہ شکنی سے گریز کریں، خارجی مطالعہ کے لیے مختلف طرح سے تحریک دی جائے۔ اس کے علاوہ بھی بے شمار تجاویز پیش کی جاسکتی ہیں کہ یہ موضوع ایک ایسا موضوع ہے جس کے حل کے لیے ہم سبھی فکرمند ہیں۔ دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ جلد ہی ہمارے خوابوں کو تعبیر سے دوچار کرے اور ہمارے لڑکے تعلیمی میدان میں سنجیدہ و ترقی پذیر ہوجائیں؛ کیونکہ مستقبل کی دنیا میں کاروبارِ دنیا سنبھالنے کے لیے لڑکیاں کمزور ہی رہیں گی، خواہ وہ کیسی ہی ذہین و فراست دار ہوں۔ خواتین کی دنیا فطری طور سے وہ دنیا نہیں ہے جہاں لڑکوں اور مردوں کی ضرورت ہے اور ان کی اپنی دنیا وہ دنیا ہے کہ جہاں لڑکے اور مرد کوئی بھی کام انجام نہیں دے سکتے.

3 comments:

nizam-momin said...

Bahut hi achcha mazmoon hai. Shukriya

Hamid Iqbal Siddiqui said...

ladke agar taleem par dhyan denge to nukkad kaun sambhale ga? mult national companies apne products kise bechenge? samaj corporate sectors ke qabze me kaise rahega? maghribi tahzeeb ki badmuashiyan kaise phailengi?

ChashmDeed said...

Waqyi Dr sahab.....ye hamare samaj k liye lamha e fikriya hai.....is par hum sab ko tawwaja dene ki zaroorat hai....