To View This Blog in Nastaliq Script Download Faiz Nastaliq Unicode Font

Download Faiz Nastaliq Unicode Font from http://www.faiznastaliq.com/faiznastaliq.zip unzip & install it to your windows/font directory

Saturday, November 5, 2011

Our Sacrifice: Few Queries we face
Dr. Rehan Ansari
ہمارے ملک ہندوستان کی دنیا میں بڑی گوناگوں حیثیت و شناخت ہے۔ یہ کثیر لسانی ہے، کثیر مذہبی و کثیر تہذیبی ہے، کثیر جہتی ہے اور کثیر خیالی ہے۔ دنیا میں شاید ہی کسی دوسرے ملک کو یہ امتیاز حاصل ہو۔جب ہماری دوسری عید یعنی عیدِ قرباں نزدیک آتی ہے تو ہمارے ہندوستانی سماج میں طرح طرح کے سوالات کا گشت شروع ہوجاتا ہے۔ ہمارے لیے کچھ علما نے ہندوستانی تناظر میں اسے گائے سے نسبت کی وجہ سے ’بقرعید‘ لکھوا دیا تھا مگر اب چونکہ گائے کے ذبیحہ پر قانونی تو قانونی ہم سب نے بھی روادارانہ اور اخلاقانہ پابندی لگا دی ہے۔ اس لیے کہ ہمارے لیے احکام میں آپشن بھی موجود ہیں۔ بقرعید کو صوتی نسبت ’بکری‘ سے کیا ملی دیگر مذاہب (اور زبان) والوں نے بڑی سہولت کے ساتھ عیدِ قرباں یا ’عیدالاضحی‘ کو ’بکری عید‘ لکھناشروع کر دیا ہے؛ بلکہ چند مفروضات کے تحت تو اسے ’بکری کو کاٹنے اور کھانے کی عید‘ سے منسوب بھی کردیا ہے۔ اس کے قصور وار کیا تنہا وہی ہیں؟... شاید نہیں!... ہم بھی برابر کے قصوروار ہیں۔
ذی الحجہ کے پہلے عشرے میں (بلکہ کچھ پہلے سے ہی) برادرانِ اسلام اور برادرانِ وطن سے چند باتیں اور ملاقاتیں۔ ان ملاقاتوں میں سوالات اور چند تشویش (عملِ ذبیحہ سے ناپسندیدگی پڑھیں) کا اظہار۔ ان سب کا لبِ لباب ایسا نکلتا ہے کہ عیدالفطر (یعنی میٹھی والی) سے ’ہماری یہ عید کچھ ٹھیک ٹھاک نہیں ہے‘!... معاذاﷲ ثم معاذاﷲ۔ آپ بھی ایسے حالات سے دوچار ضرور ہوتے ہوں گے۔
آئیے ، دیکھیں کیسی کیسی باتیں ہوتی ہیں۔ اتنے بڑے پیمانے پر مسلم بستیوں یا مذبح خانوں میں سال میں اور کسی دن جانور ذبح نہیں کیے جاتے۔ اس لیے بعض لوگ جو مویشیوں کے ساتھ ہمدردی رکھتے ہیں انھیں بڑا ناگوار گذرتا ہے۔ایک صاحب نے، جو دواخانوں میں دوائیں ڈسٹریبیوٹ کرتے ہیں اور ہندو عقیدہ کے ہیں، ہم سے پوچھا کہ اگر آپ لوگ ان جانوروں کو اتنی کٹھورتا سے قتل نہیں کریں گے تو کیا فرق پڑ جائے گا؟... بڑا راست سوال تھا۔ ہم نے سوچا انھیں جواب کیا دیا جائے؟... بہرحال ان سے کہا کہ آپ اصل میں ایک مخصوص ماحول کے پلے بڑھے ہیں اس لیے میں آپ کو اس سوال کا جواب ضرور دوں گا لیکن ایک بات بتلائیے کہ قربانی جسے آپ ’بلی‘ کہتے ہیں، کیا پوری دنیا میں یا ہندوستان میں صرف مسلمان دیتے ہیں؟ اور بلی کا مطلب ہی عام طور سے جان کی بلی سے لیا جاتا ہے۔ وہ کسی قدر سٹپٹائے لیکن قائل ہوگئے۔ ہم نے کہا اب آپ کے سوال کا جواب یہ ہے کہ مسلمان ایک خاص حکم کے تحت اور محض مخصوص تین دنوں میں یہ عمل کرتے ہیں۔ اسے قتل نہیں کہتے بلکہ ’ذبح‘ کہتے ہیں۔ ذبح ایک مکمل تربیتی عمل ہے۔ عبادت کا ایک جز ہے۔ مسلمانوں کو کوئی اور منفی جذبہ یا نجی مفاد و لالچ جانوروں کی جان لینے پر نہیں اکساتی۔ یہ جذبہ صرف اور صرف نسبتِ انبیاء علیہم السلام اور ان کی پیروی سے متعلق ہے۔ خالصتاً۔ پھر چوپایوں مویشیوں کی ایک مخصوص فہرست کے تحت۔ ان کے علاوہ کوئی جانور نہیں لیے جاتے۔

Milk is for the calves but humans steal it
Can it be told so... nay

ایک دوسرے صاحب نے ہم سے یوں گفتگو کی کہ جب ہم کسی کو جان دے نہیں سکتے تو پھر ہمیں جان لینے کا حق کہاں سے حاصل ہوگیا؟ بڑا منطقی سوال ہے اور اتنا ہی عام بھی۔ خصوصاً تنظیمِ حقوقِ جانوراں PETA  کے اراکین کے نزدیک۔ عالمی پیمانے پر۔ خیر، ہم نے ان سے ایک سوال کیا کہ آپ کے نزدیک ان جانوروں کا جنھیں ہم ذبح کرتے ہیں کوئی اور مقصد دنیا میں نظر آتا ہے؟ انھوں نے جواب دیا کہ ہم انھیں کاشتکاری کے لیے اور دودھ کے حصول کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ہم نے کہا کہ جب تک ان کی مادہ بچے نہ جنے تو کیا ان سے دودھ مل سکتا ہے؟ وہ کسی قدر شش و پنج میں پڑے پھر ہم نے کہا کہ اس طرح تو ہم ان کا دودھ دوہ کر خود استعمال کر کے اس کے نومولود کا حق ماردیتے ہیں اور دودھ خود چٹ کرجاتے ہیں۔ کون کس پر ظلم کررہا ہے؟ پھر ان جانوروں کی پیدائش بھی ایک ساتھ کئی کئی بچوں کی صورت میں ہوتی ہے۔ یعنی کتنوں پر ایک ساتھ ظلم؟ پھر دنیا بھر میں سب سے زیادہ ترجیح صرف بھینس کے دودھ کو حاصل ہے۔... بہرکیف جو تعداد ان جانوروں کی بڑھ جاتی ہے ان کا استعمال یا فائدہ کیا؟... ان سے کوئی جواب نہیں بن پڑا۔ میں نے مزید کہا کہ جہاں تک کاشتکاری کا معاملہ ہے تو دنیا بھر میں بھی اور ہمارے ملک میں بھی ان جانوروں پر مشینوں اور نئی تکنیکوں کو فوقیت حاصل ہوتی جارہی ہے۔ کیا اس مصرف میں بھی یہ جانور اتنے موزوں ہیں اب؟...
مذکورہ بالا صاحب سے ہم نے یہ بات بھی کہی کہ صرف عیدِ قرباں کے موقع پر ایسے سوال کیا غمازی کرتے ہیں۔ منفی۔ سال بھر جو مچھلیاں، مرغ، بکرے، اور دوسرے حلال و حرام چوپایے کاٹے اور بیچے جاتے ہیں ان کی سوپر بازاروں میں باقاعدہ نمائش کی جاتی ہے وہاں (ان ٹریڈرس کے سامنے) آپ لوگوں کو یہ سب کہتے ہوئے نہیں دیکھا جاتا؟ صرف اخباروں یا میڈیا میں ادھ ننگے یا مکمل برہنہ فوٹو شائع کرنے تک آپ سب کو متحرک دیکھا جاتا ہے۔ کیا سوپر مارکیٹ میں کٹنے والے یہ جانور سب بے جان ہوتے ہیں؟... تو وہ بغلیں جھانکنے لگے۔ پھر دنیا بھر میں جو لوگ ہڈیوں اور چرمی اشیاء کے کاروبار سے متعلق ہیں اور بڑے بڑے ایکسپورٹر اور امپورٹر ہیں ان کے سامنے یہ باتیں اور مظاہرے کیوں نہیں کیے جاتے۔ وہ تو بیشتر اور اکثر غیرمسلم ہی ہیں!... خود PETA کے مظاہرین میں کتنے بہت سے ہوں گے جو چمڑے کی اشیا، بیلٹ، پرس، والیٹ، جوتے اور جوتیاں وغیرہ استعمال کرتے ہوں گے۔


Some Rare Breed Cattles
All season costly animals
ایک ملاقاتی نے ایسا سوال بھی داغا کہ ’بقرعید کو مہنگے سے مہنگا جانور خریدنا تو نمائش کرنا اور اسراف ہے!‘... واہ صاحب!۔ چلیے آپ کی مانند ہم بھی مان لیتے ہیں کہ یہ اسراف ہے۔ بھائی میرے، عید کو جب گوالے دودھ کی قیمت دوگنی یا سہ گنی لیتے ہیں یا دیگر مذاہب والوں کے تیوہاروں کے موقع پر بھی جب اشیائے خورونوش کی قیمت بڑھا کرلی جانے لگتی ہے تو اسے مارکیٹنگ اسٹریٹجی کہتے ہیں۔اس وقت اسراف والی تھیوری تبدیل ہوکر ڈیمانڈ اور سپلائی والی بن جاتی ہے۔ چلیے بھائی وہی جانور یعنی وہ اعلیٰ نسل والا مویشی جس کی قیمت بڑی ہوتی ہے آپ سادہ دنوں میں بھی سستا خرید کر بتلا دیں۔ مان جائیں گے کہ عیدِ قرباں کے موقع پر اس کی قیمت زیادہ دینا اسراف تھا۔ عیدِ قرباں کے قریب میں تو سادہ دنوں میں ایک عام سے جانور کی جو قیمت ہوتی ہے اسے عام خریدار بھی تیوہار کی وجہ سے تقریباً دوگنی قیمت میں خرید پاتا ہے۔ مخصوص اور اعلیٰ نسل کے جانوروں کی پیدائش اور پرداخت نیز نگرانی کا پورا دور مہنگا ہوتا ہے تو وہ جانور سستے ملیں گے بھی کیسے؟ اور اگر کوئی صاحبِ حیثیت ہے تو اسے اس کی قربانی دینے میں ایک نعمت کے حصول کا احساس بھی تو ملتا ہے۔ اس کی پیمائش کس توازن سے کی جاسکتی ہے؟... ہاں ’اور بھی غم ہیں زمانے میں...‘ سمجھانے والے سال بھر اس کی شکایت کرتے ضرور ملتے ہیں۔ یہ ملتے رہیں گے۔


It's difficult to find people who
do not like to possess Leather goods
ذبیحہ کے احکام میں صحتمند جانور اور اس کی کچھ خصوصیات کا ہونا لازمی ہے۔ ہمارے درمیان یہ بھی سوال کیا جاتا ہے کہ ہم سب مذبح میں ’جھوٹا سرٹیفکیٹ‘ لے کر جانور کو ذبح کرتے ہیں یعنی وہاں کا ویٹرنری ڈاکٹر قانونی خانہ پری کرتے وقت یہ بھرتا ہے کہ جانور قابلِ کاشتکاری نہیں ہے اور لاغر و بیمار ہے۔ کیا ایک جھوٹ کے ساتھ ہماری قربانی ہوتی ہے؟... واﷲ، نہیں ہونی چاہیے۔ مگر، ہم نے خود کب کہا کہ وہ ڈاکٹر ایسا سب لکھے؟۔ ہم تو اپنی مذہبی ذمہ داری ادا کرنے جارہے ہیں۔ یہ تو ایک ملکی اور قانونی پیچیدگی کا معاملہ ہے جسے نمٹانے کے لیے حکومت اور قانون سازوں نے یہ سب داخل کیا ہے۔ یہ کوئی مذہبی شق ہے ہی نہیں۔ یہ تو دیگر مذاہب والوں کی اعصابی کشیدگی کا علاج ہے۔ ان سے ہمیں صحیح معنوں میں کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ بہت سی ایسی ہی خانہ پریاں مسلسل اور ہر دن اس ملک میں کی جاتی ہیں۔ اگر وہ اس خانہ پری کو صحیح کرلیں، اور ہم خود چاہیں گے کہ ایسا ہو، تو ہمیں زیادہ خوشی ہوگی۔ مگر ان کی اپنی مجبوریاں ہیں۔ ان کی چکی میں ہم کیوں پسیں۔ وہ جو لکھنا چاہیں لکھیں، بس ان مخصوص ایام میں ہمیں اپنے مذہبی امور کی ادائیگی میں تعاون کریں۔ ہم نے اپنا جانور شرعی احکام کا پاس کرکے لیا ہے اور جس کے حضور قربانی دی جارہی ہے وہ جاننے والا ہے، کسی دنیاوی سرٹیفکیٹ کی احتیاج نہیں ہے۔
بہرکیف ایسے اور نہ جانے کتنے واقعات ہیں جو ذی الحجہ کے چاند کی دید سے شروع ہوکر عید تک چلتے ہیں اور ہم میں سے اکثر کو الجھن میں ڈالے رہتے ہیں۔ اﷲ ہمیں راستی کی توفیق عطاکرے اور ان اعتراضات کا جو ہمارے ملک میں مقدر ہیں کا صحیح انداز سے جواب دینے کی صلاحیت عطا فرمائے۔ ایں دعا است۔ (آمین)