Pope Favours Palestine State Invites Israel and Palestine for Joint Prayer for Peace Dr. Rehan Ansari |
دنیا میں ایک عجیب مشاہدہ یہ کیا جاسکتا ہے کہ اسلام کے علاوہ (چونکہ اسلام میں کوئی اعلیٰ ترین عالمی مذہبی شخصیت کا منصب نہیں ہوتا؛ یہاں صرف اور صرف قال اللہ و قال الرسول ﷺ کی اہمیت ہے) تمام چھوٹے بڑے مذاہب کے پیشواؤں یا عالموں کو عوام اور جملہ حکومتیں ایک خصوصی اہمیت اور وقار عطا کرتی ہیں۔ ان کی باتوں پر کوئی تنقید شاذونادر بھی نہیں دیکھی جاتی۔ ان میں بھی پاپائے روم کو امتیازی شان و مقام حاصل ہے۔اس سبب سے بھی اس دورہ اور پوپ کے فرمان کی اہمیت زیادہ ہے۔
اپنے دورے کے دوسرے دن بیت اللحم میں مانجر اسکویر کے مقام پر آؤٹ ڈور ماس سے خطاب کرتے ہوئے اسرائیلی حکام اور فلسطینی اتھاریٹی کو انھوں نے تنازعہ کا ’’امن پرور حل‘‘ نکالنے کے لیے ویٹیکن مدعو کیا ۔ پوپ نے حضرت عیسیٰؑ کے حوالے سے اپنے خطاب میں کہا کہ ’شہزادۂ امن و سلامتی‘ کی اس جائے پیدائش پرمیں فلسطینی صدر محمود عباس اور اسرائیلی صدر شمعون پیریز کو میرے ساتھ خدا کے حضور صدقِ دل سے عطائے امن طلب کرنے کے لیے دعوت دیتا ہوں۔ اس دعا کے لیے میں ویٹیکن میں آپ کو اپنے گھر پر مدعو کرتا ہوں۔ پوپ نے مزید کہا کہ قیامِ امن ایک مشکل ترین کام ہے لیکن امن کے بغیر جینا تو حد سے زیادہ دشوار اور مستقل تردّد و پریشانی کا منبع ہے۔ اس سرزمین کی ( اور پوری دنیا کی) عورتوں اورمردوں نے ہم سے درخواست کی ہے کہ اس خطہ میں امن کی پیدائش و قیام کے لیے خدا کے حضور دعا کریں۔
فلسطینی صدر نے پوپ کی دعوت کو قبول کرلیا ہے اور وہ ویٹیکن جانے کے لیے تیار ہیں۔ ایسی اطلاع فلسطینی لیجسلیٹیو کونسل کے رکن حنان اَشروی نے دی ہے۔اسرائیلی صدر کے دفتر سے بھی یہ اعلامیہ جاری کیا گیا ہے کہ پوپ کی دعوت کو خوش آمدید کہا جاتا ہے اور اسرائیلی صدر اس خطہ میں قیامِ امن کے لیے اٹھنے والے ہر قدم کی ستائش کرتے ہیں۔ مگر اسرائیل کی جانب سے ابھی تک قبولِ دعوت کی ہامی نہیں بھری گئی ہے۔
کیتھولک عیسائیوں کے پیشوا کا ’ارضِ مقدس‘ کی جانب یہ پہلا سفر تھا۔ پوپ فرانسس نے دورہ کے روایتی پروٹوکول سے اعراض کرتے ہوئے اچانک دورانِ سفر اس سخت اور مضبوط ’دیوارِ حائل‘ Separation barrier پر رکنے اور اترنے کا ارادہ کرلیا جسے اسرائیل نے ’انتفاضۂ ثانی‘ کے بعد یہودیوں پر نام نہاد فلسطینی حملوں سے حفاظت کے لیے مغربی سرحد (غزہ) پر تان دیا ہے (اور فلسطینیوں کی زرعی زمینوں کو بھی ہتھیا لیا ہے)، اپنے مقبوضہ علاقے پر ایک تاریخی خطِ تفریق کھینچ دیا ہے۔ اصل میں اس دیوار پر جابجا کچھ دلدوز نوشتے ہیں جنھوں نے پوپ کی توجہ کھینچ لی اور اس کے بعد یہ تاریخی وقفۂ سفر وجود پایا۔ اس دیوار پر پوپ نے اپنی ہتھیلیاں رکھ کر دعائیں کی۔ ان کے قریب ہی ایک بچی نے اپنے ہاتھوں میں فلسطینی پرچم تھام رکھا تھا اور بہت سارے معصوم فلسطینی بچوں نے انھیں گھیر لیا۔ پوپ نے اُن بیچاروں کی اَن کہی داستانَ الم سن لی جو آنکھوں سے بیان ہو رہی تھی۔ان کے اندر کے انسان نے کربِ بیکراں کا احساس کیا اور مشرقِ وسطیٰ کے اپنے دورے کے آخری (تیسرے) دن تمام مشاہدات کے بعد وہ کہہ اٹھے کہ ’’کیا ہم سب بھائیوں اور بہنوں کی مانند ایک دوسرے سے محبت اور احترام نہیں کر سکتے؟، کیا ہم ایک دوسرے کی تکلیفوں کو محسوس نہیں کرسکتے؟، کیا ہم سب تشدد کے ذریعہ خدا کے نام کو بدنام کرنے سے باز نہیں آئیں گے؟‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ تشدد کا جواب تشدد نہیں ہو سکتا بلکہ اسے صرف امن ہی ختم کرسکتا ہے۔
فلسطینی نیشنل اِنیشیئیٹیو (PNI) کے جنرل سکریٹری مصطفیٰ برکتی نے پوپ کے ’دیوارِ حائل‘ پر ہتھیلیاں رکھنے اور سر جھکا کر دعا کرنے کے عمل کی ان الفاظ میں تشریح کی کہ ’’پاپائے اعظم نے صرف کنکریٹ کی دیوار پر ہاتھ نہیں رکھا بلکہ انھوں نے قبضہ جات پر ہاتھ رکھا، انھوں نے نسلی تفریق و تفوق اور تعصب کے نظام پر ہاتھ رکھا، نظامِ تسلب پر ہاتھ رکھا، نظامِ تذلیل و استبداد پر ہاتھ رکھا ہے‘‘۔
پاپائے اعظم نے راست تل ابیب کا سفر کرنے کی بجائے اردن سے فلسطین کے راستے اسرائیل میں داخلہ لیا۔ یہ روایتی پاپائی سفر کے برخلاف رُوٹ تھا۔ اس لیے سبھی اس پر حیرت کا اظہار کر رہے تھے۔ پوپ نے فلسطینی صدر محمد عباس سے گفتگو کرتے ہوئے ’’آزاد فلسطینی ریاست‘‘ کا بھی ذکر کردیا۔اور فلسطین و اسرائیل سے خطہ میں امن کے قیام و فروغ میں حصہ لینے کی درخواست بھی کی۔ پوپ نے کہا کہ کئی دہائیوں سے مشرقِ وسطیٰ میں دردناک تصادم اور جنگیں ہورہی ہیں۔ یہ خطہ لہولہان ہے۔ اس کے جسم پر گہرے، بہت گہرے زخم ہیں، انھیں بھرنا دوبھر ہوچلا ہے۔ یہ بیحد ناقابلِ قبول ہے، اب یہ سلسلہ بند ہوجانا چاہیے۔ جن دنوں یہاں تشدد نہیں ہوتا تب بھی یہاں باہمی بے چینی اور بے اعتمادی کا ڈیرہ ہوتا ہے۔ خطرات موجود رہتے ہیں۔ عدم تحفظ کا احساس گھیرے رہتا ہے۔ حقوق کی سلبی اور نسلی تفاوت کا احساس گہرایا رہتا ہے۔ ہر قسم کی اذیت اور تنازعات کا اندیشہ ہوتا ہے۔
پاپائے اعظم نے دیوارِ حائل سے ہٹنے کے بعد فلسطینی عیسائیوں سے مانجر اسکویر پر خطاب کیا، اس خطاب سے قبل بیت اللحم پر حضرت عیسیٰؑ کی بچپن کی شبیہ سے مزین اسٹیج پر چند نغمے پیش کیے گئے جن میں حضرت عیسیٰؑ کی فلسطینیوں کے تئیں محبت اور ان کے حقوق کے لیے جدوجہد پر مضامین شعربند تھے۔ پوپ اس سے بھی بہت متاثر ہوئے۔ پھر وہاں موجود رفیوجی کیمپ میں مقیم چند خاندانوں کے ہمراہ لنچ لیا۔ اور اس کے بعدبیت اللحم سے تل ابیب کی جانب ہیلی کاپٹر سے پروا ز کیا۔
عیسائی پیشوا کا تل ابیب میں خیر مقدم کرنے کے لیے اسرائیلی صدر شمعون پیریز بذاتِ خود موجود تھے۔ انھوں نے مزامیرِ داؤدؑ (مناجاتِ داؤدؑ) کی پاسداریٔ روایت میں ان الفاظ میں پوپ خوش آمدید کہاکہ ’’خدا کے نام سے خیرمقدم کرتا ہوں، بابِ یروشلم پر آپ کا استقبال ہے‘‘۔ یہاں بھی جواب میں پوپ اپنے روایتی انداز سے ہٹ گئے اور ’’بروسیلز‘‘ میں یہودی میوزیم پر سنیچر کے روز ہونے والے حملہ کی مذمت کرتے ہوئے اپنے گہرے رنج کا اظہار کیا اور ایسے حملوں کو بند کرنے کی اپیل کی۔ یروشلم میں حفاظتی انتظامات اس قدر سخت رکھے گئے تھے کہ مقامی عیسائیوں نے عمومی طور پر پوپ کو نہ دیکھ پانے اور نہ مل سکنے کی شکایت کی۔
پاپائے اعظم نے محمود عباس سے ملاقات کے دوران فلسطینی ریاست کو تسلیم کیے جانے کی بھرپور وکالت کی لیکن ساتھ ہی اسرائیل کو بھی اسی حیثیت سے تسلیم کیے جانے کی بات کہی تاکہ دونوں ممالک مستقل جغرافیائی سرحدوں کے ساتھ بین الاقوامی حیثیت سے مسلّم رہیں اور خطہ میں امن قائم ہو۔قیامِ امن کی کوششیں چہار جانب سے یکساں ہونی چاہیے اور کسی بھی ملک یا قوم کو اسے سبوتاژ کرنے یا تباہ کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ یہ ذمہ داری سب کی ہو نہ کہ کسی ایک ملک یا قوم کی۔ بیت اللحم کے خطاب میں پوپ نے محمود عباس سے فلسطینی عیسائیوں کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے کی درخواست کی اور ان کے مبینہ انخلا پر اپنی فکر جتائی۔
واضح ہوکہ فلسطین اسرائیل گفتگو کو حال ہی میں جھٹکا پہنچا تھا جبکہ اسرائیل نے فلسطینیوں کی ریاست کو تسلیم کیے جانے کی کوششوں کو یکطرفہ قرار دیا تھا اور فلسطینیوں نے مغربی کنارے پر نئی اسرائیلی بستیوں پر اعتراض کیا۔
پوپ کے اس دورہ کے ایک ایک لمحہ اور ایک ایک بات کا، ہر حرکت و تصویر اور ویڈیو کا انتہائی باریک بینی سے تجزیہ اور تبصرہ کیاجارہا ہے۔ پوپ کی آمد اور دیوارِ حائل سے متعلق واقعات اور عیسائیوں سے خطاب کی قدامت پسند اسرائیلی عوام نے مخالفت بھی کی۔
جن حالات میں پوپ کا یہ دورۂ ارضِ مقدس پورا ہوا ہے اسے یقینی طور سے مشہور ہونا تھا۔ واضح ہو کہ پوپ کے ہمراہ سفر میں ان کے دو دیرینہ دوست ارجنٹینا کے ربیّ (یہودی عالم) ’ابراہام اسکورکا‘ اور ایک مسلم مفتی ’شیخ عمر عبود‘ بھی ہیں۔ عمر عبود، ارجنٹینا کی مسلم کمیونیٹی میں کافی مقبول ہیں۔ اپنے ہمسفروں کی وجہ سے پوپ نے اپنے اس سفر کو بین العقائد رواداری کی علامت و اشاعت کا نقیب بھی قرار دیا ہے۔
ہم نے اوپر لکھا ہے کہ پوپ کو اور ان کے فرامین کو دنیا کے دیگر ادیان کے پیشواؤں کے مقابلے میں ایک امتیازی حیثیت دی جاتی ہے۔ دنیا کی اکثریتی آبادی عیسائی مذہب اور خصوصاً کیتھولک ہی ہے۔ اس لیے پوپ کی شخصیت اور فرامین کو یکسر نظرانداز کرنا کسی بھی ملک کے لیے مناسب نہیں ہوتا۔ مشرقِ وسطیٰ میں اہلِ کتاب بستے ہیں۔ مسلمان، عیسائی اور یہودی۔ فلسطین میں مسلمانوں اور یہودیوں کے مابین حرب و جدال کئی دہائیوں سے جاری ہے۔ اس کے اثرات عیسائی آبادیوں پر بھی پڑتے ہیں۔ اس پس منظر میں یہاں قیامِ امن کی پاپائی کوششیں خود عیسائیوں کے تحفظ اور سلامتی کو بھی یقینی بنانے کی جانب ایک قدم کہا جا سکتا ہے۔ اسرائیل میں قدامت پسند یہودی جتنا مسلمانوں سے متنفر ہیں اس سے کہیں زیادہ عیسائیوں سے بھی نفرت کرتے ہیں۔ اسی لیے پاپائے روم کے پیغامِ امن کو اس سے قبل کہ پیریز اینڈ کمپنی قبول کریں، اسرائیلی میڈیا میں انتہائی اسٹریٹیجک کالم نویسیاں اور تبصروں کی اشاعت و نشریات شروع ہوچکی ہیں تاکہ اس دورہ کی اہمیت کو کم یا ختم کیا جاسکے اور اسے خالصتاً مذہبی دورہ کرکے بتلایا جا سکے۔ یہ کوشش کی جارہی ہے کہ دنیا کے دیگر ممالک اور سربراہانِ مملکت اس دورے کی تفصیلات نہ جان سکیں اور اسرائیل کی من مانیوں پر کسی بھی قسم کا خارجی دباؤ نہ لایا جاسکے۔ لیکن یہ وقت ہے کہ پوپ کے دورہ کو نہ سہی ان کے فرامین اور پیغامات کو اہمیت دی جائے اور فلسطین اسرائیل تنازعہ کا پائیدار اورمستقل حل نکالا جاسکے۔ اس موقع کو ہاتھ سے جانے دیا گیا تو نہ جانے کتنے برسوں یا دہائیوں کے بعد ایسا وقت نصیب ہوگا۔ کم سے کم اسرائیل پر اس وقت ویٹیکن میں پوپ کے گھر میں جانے اور دعا میں حصہ لینے کے لیے تو دباؤ ڈالنا ضروری ہے۔
ہمیں اچانک منیر آرزوؔ کا ایک شعر حسبِ حال یاد آگیا:
دل نے گھبرا کے پکارا ہے خدا کو شاید
آج آوازِ اذاں آتی ہے بُت خانے سے
No comments:
Post a Comment