Hepatitis B: The dreadful Jaundice Dr. Rehan Ansari |
Yellow discolouration of Eyes |
ایک محتاط اندازے کے مطابق پوری دنیا میں فی زمانہ اس وائرس کے تقریباً 350 ملین افراد کہنہ مرض بردار (Chronic carriers)موجود ہیں جن سے مرض برابر پھیلتا رہتا ہے۔ مرض بردار افراد بظاہر بیماری کی نہ کوئی علامت رکھتے ہیں نہ ہی انھیں اس کا احساس رہتا ہے۔ان میں سے نوّے فیصدی تو غیرمحسوس رہتے ہوئے مکمل طور پر صحتیاب بھی ہوجاتے ہیں۔سالانہ تقریباً ایک تا ڈیڑھ ملین مریض موت کا شکار ہوجاتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ہندوستان میں ہر بیس میں ایک فرد کہنہ مرض بردار (carrier) ہے۔ اس کے علاوہ جگر کے کینسر میں مبتلا تقریباً 80% مریضوں میں کینسر کی وجہ یہی وائرس ہے۔
اس کا انفیکشن کئی ذرائع سے ہوتا ہے۔ جیسے متاثرہ یا مرض بردار فرد کا خون کسی کو چڑھایا جائے، ایسے ہی افراد کے تھوک کے ذریعہ، جنسی ملاپ میں مادۂ منویہ کے ذریعہ، غیرتطہیر شدہ (unsterile)سوئیوں کے ذریعہ، کان چھدانے یا نشانات (Tattoo) گدوانے کے عمل سے، آپریشن میں غیرتطہیر شدہ آلات و اوزار کے استعمال سے، زخموں کی سلائی یا مرہم پٹی کے دوران۔ قارئین غور کریں تو ان سبھی عوامل میں ہر دو فرد (مرض بردار اور مقابل) کے خون کی مائیت (Plasma / serum) یا کوئی جسمانی رطوبت کا آپس میں ملاپ ہی بنیادی پہلو ہے۔انفیکشن لاحق ہونے کے بیشتر مواقع حادثاتی نوعیت کے ہیں۔ اس لیے کب کون اس کا شکار ہو جائے؛ یہ کہا نہیں جاسکتا۔یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ ہپاٹائٹس بی کے انفیکشن کے لیے صرف 0.00004 ملی لیٹر خون ہی کافی ہے۔
ممکنہ شکار
طب و صحت کے شعبہ سے متعلق افراد جیسے ڈاکٹر، نرسیں، پیتھالوجی اور بلڈبینک میں کام کرنے والے افراد میں اس کا انفیکشن ہونے کا خطرہ سب سے زیادہ رہتا ہے۔ان کے علاوہ غیرفطری یا غیرسماجی جنسی رشتے رکھنے والے لوگ، فاحشہ عورتیں، نشہ آور انجکشن کے عادی افراد، نشانات (ٹیٹو) گدوانے والے، ایسے کھلاڑی جن کا جسم کھیل کے دوران ٹکراتے رہتا ہے، ایسے مریض جن میں کئی مرتبہ خون چڑھانے کی ضرورت ہوتی ہے، گردوں کے وہ مریض جنھیں ڈائلیسس Dialysis سے گذرنا پڑتا ہے، ایسے نولود بچے جن کی ماؤں میں ہپاٹائٹس بی کا انفیکشن موجود ہو۔
علامات و نشانیاں
نومولود بچوں میں عموماً انفیکشن کے باوجود کسی طرح کی علامات و نشانیاں نہیں ملتیں۔ بالغ عمر والوں میں بھی مختصر تعداد ایسے افراد کی ہوتی ہے جن میں کوئی علامت نہیں پائی جاتی۔ دیگر افراد میں ابتدا میں فلو (Flu) سے مشابہ علامات جیسے بھوک کی کمی، جگر کے مقام پر درد، تھکن، بدن میں جھرجھری کا احساس اور ہلکا بخار، بدن میں شدید درد موجود ہوتے ہیں۔ دوسرے درجہ میں یرقان (jaundice) ظاہر ہوتا ہے۔چہرہ سفید پڑنے لگتا ہے۔ پیشاب کا رنگ گہرا ہو جاتا ہے۔
بعض لوگوں میں چند مہینوں کے اندر یہ مرض خود بخود اچھا ہو جاتا ہے۔ جن میں اچھا نہیں ہو پاتا ان میں کہنہ صورت اختیار کر لیتا ہے اور اس کے نتیجہ میں جگر کی ساخت تباہ ہونے لگتی ہے اور رفتہ رفتہ جگر سکڑنے لگتا ہے، اس میں سختی پیدا ہوجاتی ہے جو انجام کار کینسر میں بھی تبدیل ہو سکتی ہے۔
تشخیص
محض علامات و نشانیوں کی بنیاد پر اس مرض کی تشخیص قطعی مناسب نہیں ہے۔ اس کی تشخیص کے لیے کئی جانے والے ٹیسٹ کو ہپاٹائٹس بی وائرس ’اینٹی جین‘ اور ’اینٹی باڈی‘ کی تحقیق کہتے ہیں جنھیں عام طبی زبان میں ’’آسٹریلیا اینٹی جین‘‘ کہتے ہیں۔ جگر کی خرابی کا اندازہ ایک ٹیسٹ SGPT کے ذریعہ کیا جاتا ہے۔
علاج
بدقسمتی سے ہپاٹائٹس بی کا کوئی بھی کاری علاج دستیاب نہیں ہے۔ اِنٹرفیران (interferon)نامی نامیاتی دوا کے تجربات بھی زیادہ کامیاب نہیں ہو سکے ہیں۔ تحفظی طور پر ٹیکے لگوائے جاتے ہیں جو دو طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک حیوانی ذرائع (خون وغیرہ) سے تیار کیا جاتا ہے اور دوسرا جینی (genetic) انجینئرنگ کے ذریعہ۔ ان میں آخرالذکر مضر اثرات سے محفوظ خیال کیا جاتا ہے۔ اسے تین متعینہ مقدارِ خوراک میں دیا جاتا ہے۔ پہلا ڈوز جس دن دیا جاتا ہے اس کے ٹھیک ایک مہینہ بعد دوسرا ڈوز اور پہلے ڈوز کے ہی ٹھیک چھ ماہ بعد تیسرا ڈوز دیا جاتا ہے۔
تحفظ
شک کی صورت میں فوری طور پر خون کا چیک اپ کرانا چاہیے۔ اسپتالوں اور لیباریٹری وغیرہ میں تطہیر (sterilisation) کا خاص دھیان رکھنا چاہیے۔ ڈِسپوزیبل سوئیاں استعمال کی جانی چاہیے۔ ہاتھوں میں دستانے پہننے چاہئیں۔ ٹیکے لگوانا چاہیے۔ ان کے علاوہ گھر میں مریض کو چاہیے کہ اپنے استعمال کی چیزیں دوسروں کو ہرگز استعمال نہ کرنے دے مثلاً حجامت کی اشیاء، ریزر، کنگھی، ناخن کاٹنے کا آلہ، وغیرہ۔ مریض ماں اپنے بچے کے لیے نوالہ خود چبا کر نہ کھلائے۔ وغیرہ۔
اس مرض کے شکار لوگ جب اچھے ہو جاتے ہیں تو ان کے خون میں وائرس کے خلاف دفاعی اجسام جنھیں اینٹی جین کہا جاتا ہے وہ بنے رہتے ہیں۔ انھیں ’آسٹریلیا اینٹی جین‘ Australia antigenکہتے ہیں یا ہیپاٹائٹس بی سرفیس اینٹی جین HBsAg کہا جاتا ہے۔ جن لوگوں کے خون میں یہ اینٹی جین موجود ہوتے ہیں (جو کبھی تاحیات بھی ملتے ہیں) تو ایسے لوگوں کو مرض بردار تسلیم کرتے ہوئے بیرونی یا خلیجی ممالک میں ملازمت سے انکار کردیا جاتا ہے تاکہ ان کے یہاں عوام کو کوئی خطرہ نہ رہے۔
’آسٹریلیا اینٹی جین‘
’آسٹریلیا اینٹی جین‘ کی وجہ تسمیہ یہ بتائی جاتی ہے کہ ورمِ جگر کے اس وائرس کے اینٹی جین کا پہلا پتہ ایک آسٹریلیانژاد قبائلی کے خون سے چلا تھا۔ جس کی دریافت کرنے والے امریکی فزیشین ’بروچ بلومبرگ‘ Baruch Blumberg کو نوبیل انعام سے نوازا گیا تھا.
1 comment:
allah aap ko sehat de, take aap dusron ki sehat ki nigehdaashtke liye aise lataadad mazameen likh saken
Post a Comment