Respected Hajj Pilgrims
Have Patience and
Don't be in Hurry to Recite
"Labbaik-Allahumma-Labbaik"
At the Airports
عازمینِ حج احتیاط کریں!
ہر برس کے تجربے کی روشنی میں یہ بات لکھنا چاہتا ہوں کہ حجاج کے قافلوں کی روانگی کی خبریں اردو اخبارات عموماًااس قسم کی سرخیوں کے ساتھ شائع کرتے ہیں کہ ’’لبیک اللہم لبیک کی گونج میں حاجیوں کا قافلہ روانہ‘‘ یا ’’لبیک کی صداؤں کے درمیان حاجیوں کا قافلہ روانہ‘‘ ؛وغیرہ۔ یہ انتہائی غلط فہمی پیدا کرتا ہے اور عازمینِ حج کے لیے امتحان کا سبب بنتا ہے۔ بعض عازمین احرام کے کپڑوں کو ہی احرام سمجھتے ہیں جبکہ انھیں یہ تعلیم دی جاتی ہے کہ ’’تلبیہ‘‘ یعنی لبیک اللہم لبیک... کا پڑھنا احرام کی ابتدا ہے، یعنی احرام کی پابندیوں پر عمل پیرا ہو جانے کی شروعات۔ اس کے بعد احرام کی از ابتدا تا انتہا جملہ پابندیاں عاید ہو جاتی ہیں۔ یہ بالکل نماز کے لیے وضو کرنے اور نماز کی نیت کر کے اﷲ اکبر کہنے کی مانند معاملہ ہے۔ یعنی آپ نے وضو کیا ہے تو نماز کی پابندیاں فی الوقت عاید نہیں ہو ئی ہیں لیکن قبلہ رو ہوکر آپ نے اﷲ اکبر کہہ دیا تو اب نماز کی جملہ پابندیاں آپ پر لاگو ہو چکی ہیں۔ احرام کا کپڑا پہننے اور لبیک کہنے میں بھی ایسا ہی فرق ہے۔ یہاں مقصودِ تحریر یہ ہے کہ آپ (عازمین) کا سفر شروع ہوکر کتنے گھنٹے میں آپ عمرہ اور طوافِ قدوم سے فارغ ہو سکیں گے (جدہ ایئرپورٹ پر کارروائیوں کی رفتار کے پیشِ نظر) اس کا کوئی حتمی تعین نہیں کیا جاسکتا۔ اس لیے اگر آپ اخبارات کی سرخیوں کے تاثر میں رہ کر ایئرپورٹ پر ہی تلبیہ پڑھتے ہیں تو یقینا آپ کو احرام کی پابندیوں کا لحاظ یہیں سے کرنا پڑے گا اور ایک ایک قدم پھونک پھونک کر چلنا پڑے گا۔ ہوائی جہاز میں بعض خوشبودار اشیائے خور و نوش بھی عملہ پیش کرتا ہے، یا کوئی اور انداز سے فاسدِ احرام معاملہ پیش آسکتا ہے۔ نادانستگی میں اِلّا ماشاء اﷲ کوئی بداحتیاطی اگر ہوگئی تو اس کا کفّارہ یعنی دَم (قربانی) لازم ہو جاتی ہے۔ اس لیے بہتر تو یہی ہے کہ احرام کا لباس پہننے کے بعد میقات (ہمارے لیے یلملم) کے قرب سے پہلے تلبیہ نہ پڑھیں۔ جہاز کے اندر اس کی معلومات عملے سے مل جاتی ہے کہ کتنی دور ابھی میقات کا آنا باقی ہے۔Have Patience and
Don't be in Hurry to Recite
"Labbaik-Allahumma-Labbaik"
At the Airports
عازمینِ حج احتیاط کریں!
اردو اخبارات کے جو رپورٹر ایسی خبریں اور ایسی سرخیاں شائع کرتے ہیں انھیں بھی اس بات کی معلومات لے کر احتیاط اختیار کرنی چاہیے کیونکہ یہ ’’انتہائی حساس دینی امر‘‘ ہے۔ کم علمی کے سبب ایسا قدم اٹھانا آئندہ عازمین اور آئندہ قافلوں کے لیے تذبذب اور دشواری نیز گناہ کا سبب بنتا ہے۔ میری ناچیز گذارش یہی ہے کہ یہ احتیاط صحافی حضرات بھی برتیں اور عازمینِ حج تو خصوصی طور سے اس بارے میں خیال رکھیں اور کسی استفسار کے لیے علماء سے رجوع ہو کر اس بات کا اطمینان کرلیں۔
No comments:
Post a Comment