Not Submissive (Tasleema) but Infidel(Takzeeba): Dr. Rehan Ansari |
This and such is never an Islamic Act |
لیکن؛ آج اس موضوع پر لکھنے کے لیے میں نے خود کو بیحد مجبور پایا ہے۔ تازہ ترین واردات اس دریدہ دہن کے واقعۂ قربانی و حج سے متعلق بیان کے بعد کی ہے۔ اس سے کچھ ہی دنوں قبل اس نے مسلمان عورتوں کو ایک نامعقول ترین اور ہتکِ ناموسِ نسواں مشورہ دے کر ہلچل مچانے کی کریہہ کوشش کی تھی۔ (حالانکہ عورت کی عزت سے کھیلنے والے اس مشورہ پر حقوقِ نسواں کے علمبرداروں کو عالمی سطح پر اپنا پرچم بلند کرنا چاہیے تھا لیکن وائے حیرت ایسا نہیں ہوا)۔ واردات کا ذکر چل رہا تھا۔ واردات یوں ہوئی کہ اس ’تکذیبہ‘ کا بیان اردو میڈیا میں نمایاں طور سے شائع کردیا گیا۔ ہم نے صرف سرخی پڑھی اور متن کا وہ حصہ جسے کسی قدر جلی انداز میں دیا گیا تھا۔ تفصیل پڑھنے سے گریز ہی کیا۔ دوسری زبان والوں نے اسے کوئی اہمیت نہیں دی۔ ہمارے یہاں چند افراد، تنظیمیں اور ادارے ایسے ہر موقع کا انتظار کرتے رہتے ہیں۔ انھیں ہاتھ آگیا۔ ہجو شروع ہوگئی۔ کسی نے انھیں کسی نے اسے فاحشہ کہہ کر دل کی بھڑاس نکالی، کسی نے کتیا کہا اور کچھ نے راست گالیوں والی زبان استعمال کی۔ وزیروں اور دیگر مقتدر حضرات سے ملاقات کرکے احتجاج کیا گیا۔ یہ سب اخباروں میں متعلقہ افراد کی تصاویر کے ساتھ شامل ہوئی۔ وسیع پیمانے پر اس تکذیبہ کے خلاف پولیس کیس درج کروائے گئے۔ اب کوئی فالواَپ نہیں دکھائی دیتا۔ صرف خبروں تک سب ہوا۔ تکذیبہ اپنے اسپانسرس کی محفوظ پناہ میں اپنے دانت اور ناخن تیز کرتی بیٹھی ہے۔ کیونکہ ہمارا یہی احتجاج اور حرکات تو اس کی غذا اور آکسیجن ہے۔ ہم اس کی تحریریں نہیں پڑھتے۔ کیوں پڑھیں؟۔ جس نے آج تک اپنی (اخلاقی) اصلاح نہیں کی وہ کیسی باتیں لکھتی ہوگی؟۔ جنھوں نے پڑھا بھی ہے تو ان ’دانشواران‘ نے بھی آج تک اس کے ایسے حوالے نقل کے لیے نہیں نکالے جسے زبان و تہذیب اور ادب کا نمائندہ اقتباس بنا کر پیش کرسکیں۔ کس لیے پڑھیں؟۔ ...البتہ...!
البتہ، وہ (ان کے ّمخصوص) میڈیم کے ذریعہ خبریں بھیجتے رہے۔ ردّ عمل میں ہم احتجاج کرتے رہے، غم مناتے رہے، غصہ دکھلاتے رہے، وہ خوش ہوتے رہے، اپنا منشا پاکر ان کا حوصلہ بڑھتا رہا۔ ہمارے یہاں یہ سب گھاٹے اٹھانے کے باوجودتکذیبہ کی باتوں پر آستین چڑھا کر باتیں کرنے اور اسے برا بھلا کہنے ہی نہیں ہرزہ سرائی کرنے تک خود کو مشغول کرکے دشمنانِ اسلام و مسلمین کے مقاصد کے حصول کو آسان بنا دیتے ہیں۔
جہاں تک سوال ہے کہ کیا یہ سب غیرضروری ہے، تو ایسا نہیں ہے۔ صدمہ اور غم ہونا ایک فطری عمل ہے اور اس سے بڑھ کر ایمانی تقاضہ بھی ہے۔ مگر اس کا ہم جس طرح اظہار کررہے ہیں وہ نہ صرف بے سود ہے بلکہ بسا اوقات استہزا اور تمسخر کا سب بن جاتا ہے۔ اس کے خلاف اقدام کی دوسری صورتوں پر غور کرنا لازمی ہے۔ میری دانست میں اس کے خلاف سب سے پہلا قدم تو یہ ہونا چاہیے کہ ایسے کذابوں اور کافروں کی خبروں کا بائیکاٹ کرنا چاہیے۔ دانستہ چشم پوشی کرنا اور کسی بھی میڈیا سے ان کی خبروں کا نشریہ بند کردینا چاہیے۔ انھیں اور ان کی حرکات کو یکسر نظرانداز کرنا چاہیے۔ ہمارا احتجاجی جذبہ، ہمارا رنج، ہماری کلفت اور بے چینی کا اندراج صرف اپنے مالکِ حقیقی کے حضور میں درج کر کے اس سے استعانت کی دعا کریں۔ اصل مجرم اور آگ لگانے والوں کو اپنے ہاتھوں سے سزا دینے کے باب میں آگے لکھنے کو اور بھی باتیں ہیں مگر ہمیں پتہ ہے کہ انھیں لکھنے کے بعد دشمنانِ اسلام و مسلمین کو ہم بھی ایک موقع فراہم کردیں گے؛ اس لیے سرِ دست ہمیں اتنا ہی کہنا ہے کہ ’تکذیبہ‘ جیسی عورتیں اور مرد کسی دور میں کم ہوئے ہیں اور نہ مستقبل میں ان کی آمد غیرمتوقع ہے۔ مگر اتنا ضرور ہے کہ ان کے کسی بھی اقدام سے اسلام کا کوئی نقصان ہوا ہے اور نہ یہ اﷲ میاں کا ہی کچھ بگاڑ سکے ہیں۔ خود ہی ہلاک ہوگئے ہیں۔ یہ اور بات کہ مسلمانوں میں سے کچھ کے لیے یہ سدا نقصان کا سبب بنے ہیں۔ اﷲ ہمیں ان شیاطین من الجنۃ والناس سے محفوظ و مامون رکھے (آمین)
2 comments:
Bilkul saheeh mashwara hai Dr. Sahab.
JazakAllah, Duaon ki iltemas hai.
Post a Comment