Problems Of Working Urdu Journalists In Mumbai Muhammad Aslam Kiratpuri |
یہ دیکھا گیا ہے کہ صحافیوں کے ان معاونین کو اکثر نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ جبکہ یہی حضرات صحافت کے ریڑھ کی ہڈی کہلاتے ہیں۔نہ ہی ان کے مسائل عوام کے سامنے لائے جاتے ہیں۔ جبکہ ان کے مسائل بھی توجہ طلب ہیں۔کاتبوں کو کبھی وقت پر تنخواہ نہیں ملتی تھی۔اب کمپیوٹر آپریٹروں کا بھی یہی حال ہے۔ ایک رپورٹر پورے دن بھاگ دوڑ کر بھوکا پیاسا رہ کر اخبار کے لئے خبریں جمع کرکے اخبار کے دفتر میں لاتا ہے تو اسے آنے جانے کے اخراجات دینے میں آنا کانی کی جاتی ہے۔ غرض کہ پورا اردو اخبار کا عملہ اسی قسم کی پریشانیوں کا شکار ہے۔
پہلے جب ٹائپ کا دور تھا اردو میں اخبار نکالنا صرف مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن تھا۔کاتبوں کی جگہ کمپوزیٹر ایک ایک حروف کو جوڑ کر مضامین سیٹ کیا کرتے تھے۔پھر اس کا پروف نکالا جاتا۔اس دور میں حروف کبھی کبھی اسقد ربھدے ہو جا تے کہ پڑھنا مشکل ہوتا تھا۔ایسے دور میں بھی اردو میں بھی دن رات محنت کرکے اردو صحافیوں نے اخبارات نکالے۔ اور اپنی دن رات کی محنت کو عام قاری تک پہنچایا۔اس کے بعد لیتھو پریس کا زمانہ آیا تو اخبارات لکھنے کے لئے کاتبوں نے کمپوزیٹروں کی جگہ لے لی۔ہر اردو اخبار کے دفتر میں درجنوں کاتبوں کی ضرورت پڑی۔زرد کاغذ جسے مسطر کہاجاتا تھا پر ایک خاص قسم کی سیاہی سے کتابت کی جاتی تھی۔ان کو ایک خاص قسم کے پتھرپر منتقل کرلیا جاتا وہاں حروف الٹے دکھائی دیتے۔اس پتھر کو پریس میں ڈال کر اس پر سیاہی لگائی جاتی اور اخبار چھپ کر تیار ہو جاتا۔یہ کام بھی کافی محنت طلب تھا۔دشواریوں سے بھرپور اس کام کو پریس کے لوگ بہت کم مزدوری پر انجام دیا کرتےتھے۔ اکثر مسطر سے پتھر پر منتقلی کے دوران بہت سے حروف اڑ جایا کرتے ان اڑے ہوئے حروف کو پتھر پر ہی الٹا لکھا جاتاتھا۔کاتب حضرات جو اس کام میں ماہر ہوا کرتے تھے الٹی کتابت کیا کرتے تھے۔پورا دن کام کرنے کے بعد بھی ایک کاتب کو اتنی اجرت نہیں ملتی تھی کہ وہ اپنے بچوں کا تو کیا اپنا پیٹ بھی نہیں پال سکتا تھا۔
آہستہ آ ہستہ فوٹو آفسیٹ کا زمانہ آیا اردو والوں نے اس ٹیکنک کو اپنانا شروع کیا تو اس میں بھی کافی دقتوں کا ساما کرنا پڑا۔ آفسیٹ کے لئے لتھ فلم کا استعمال کرنا پڑتا تھا۔ جو بہت مہنگی پڑتی تھی۔اس لئے بٹر پیپر پر لکھا جاتا تھا۔جسے بعد میں کیمیکل لگے زنک پلیٹ پرفوٹو گرافی کے ذریعہ منتقل ہوجایا کرتا تھایہ طریقہ قدرے بہتر تھا۔اس میں فوٹو بھی خوبصورت چھپا کرتے ۔ اخبارات چھپتے رہےلیکن صحافیوں اور ان سے جڑے عملے کے مسائل اپنی جگہ جوں کے توں قائم تھے۔صحافی مشکلات کے دور سے گزرتے رہے۔اور ساتھ ہی اپنا کام بھی ایمانداری سے انجام دیتے رہے۔ خبر وں کوحاصل کرکے اس کو شائع کرنےتک جتنے مراحل تک گذرنا پڑتا اتنے ہی تکلیف دہ لمحات ان کی زندگی میں داخل ہوتےرہے لیکن ان کا کوئی حل نظر نہیں آیا نہ ہی کسی نے ان کی طرف توجہ دی۔
وقت کے ساتھ ساتھ نئی نئی ٹیکنالوجی اپنائی جانے لگیں۔ آج اردو اخبارات اگر دلکش اور دیدہ زیب نظر آرہے ہیں تواس میں ٹیکنالوجی اور کمپیو ٹر کا کمال ہی نہیں بلکہ اس کے ساتھ جڑے ان لوگوں کابھی ہے جو دن رات محنت اور لگن سے اردو اخبارات میں ان ٹیکنا لوجی کو استعمال کرکےاس کی خوبصورتی میں چار چاند لگا رہے ہیں۔
جب سے اردو صحافت نے کمپیوٹر کے دور میں قدم رکھا ہےاس کی ترقی دن دونی رات چوگنی ہو گئی ہے۔آج اسی ٹیکنالوجی کی بدولت ایک اخبارکے کئی ملٹی ایڈیشن نکل رہے ہیں۔ورنہ پہلے ایک اخبار ہی نکالنا جوئے شیر لانے کے برابر تھا۔یہ کمپیوٹر کا ہی کمال ہے اردو کے نستعلیق فونٹ بنا دیئے گئے ہیں۔لیکن مائیکروسافٹ جیسے بڑے ادارہ نے اردو کو ابھی تک وہ درجہ نہیں دیا ہے جس کا اردو قاری متلاشی ہے۔قومی کونسل برائے فروغ اردو کے ذمہ داران کو اس جانب خصوصی توجہ دینی چاہئے۔
آج اردو کے اخبارات جس قدرٹیکنا لوجی کا استعمال کر رہے ہیں اس سے پہلے کوئی سوچ بھی نہیں سکتاتھا۔اردو کے وہ صحافی جنہوں نے اردو اخبارات کا وہ زمانہ دیکھا ہےکہ جب ایک اخبار کی کتابت کرانے لئے گھنٹوں لگ جایا کرتے تھے۔ پھر اس کی پلیٹ بنتی تھی تب کہیں جاکر اس کی اشاعت مکمل ہوتی تھی۔ لیکن آج یہ کام منٹوں میں ہوجایا کرتاہے۔پہلے ہم اپنے آپ کو دیگر زبانوں کے اخبارات سے پچھڑا ہوا محسوس کرتے تھے۔ لیکن آج ہم اردو اخبارات کو انگریزی اور دوسری زبانوں کے ساتھ کھڑا رکھ کر دیکھتے ہیں تو ہمارا سر فخر سے تن جاتا ہے۔ان تمام باتوں کے باوجود ہمارے صحافی آج بھی اسی پرانے دور کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔وہ آج بھی بے گھر ہیں اور اخبارات کے دفتروں میں رات گزارا کرتے ہیں۔ان کی زندگی نہیں بدلی۔ یہ بات الگ ہے کہ چندبڑے اخبارات نےاپنے یہاں کے حالات تبدیل کئے ہیں۔آج بھی اردو کے کمپیوٹر آپریٹروں کا وہی حال ہے جو پہلےکاتبوں کا ہوا کرتا تھا۔مہنگائی کے اس دور میں انھیں پیٹ بھر کھانا نصیب نہیں ہوتا۔یہی وجہ ہے کہ آج کے نوجوان اردو کمپیوٹر آپریٹنگ سیکھنے کی طرف مائل نہیں ہوتے۔اردو اخبارات کو اچھے رپورٹر نہیں مل پاتے۔اردو اخبارات میں کام کرنے والے لوگ آج بھی اپنی تنخواہ کا انتظار کرتے ہیں جو انھیں کبھی وقت پر نہیں مل پاتی۔اردو اخبارات کو ہاکرس بھی نصیب نہیں ہوتےجس کی وجہ سے بہت سے اخبارات تو اسٹالوں تک بھی نہیں پہنچ پاتے۔اردو اخبار کے مالکان آج بھی اپنے عملے کے ساتھ حکمرانوں کی طرح پیش آتے ہیں۔اردو اخبارات کو خریدار نہیں ملتے۔اردو اخبارات کے صحافیوں اور دیگر عملے کو حکومت کی طرف سے کوئی مالی امداد نہیں ملتی۔ضرورت مند اردو صحافی آج بھی کرائے کے مکان میں زندگی گزاررہے ہیں۔ جبکہ ان کی تنخواہ کاایک بڑا حصہ مکان کے کرائے کی نذر ہوجاتا ہے۔ہم اردو والوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اردو صحافیوں اور ان کے ساتھ مل کر کام کرنے والو ں کے بارے میں بھی کچھ سوچیں اور ان کے حق کے لئے آواز حکومت کے ایوانو تک پہنچائیں۔تاکہ ان کے دیرینہ مسائل حل ہو سکیں۔ورنہ وہ دن دور نہ ہوگا جب اردو کا صحافی بننا کوئی پسند بھی نہ کرے گا۔اور ڈھونڈنے پر بھی کوئی اردو کا صحافی نظر نہ آئے گا۔
1 comment:
bhahot achcha hai.
Post a Comment