Indian Muzahikeen (Indian Mockers / IM) have No Hands No Brains Dr. Rehan Ansari |
شیوم ویاسؔ پاگل ہے، مجنون ہے، دیوانہ ہے، اس کی ذہنی حالت ٹھیک نہیں ہے۔ گجرات سے دلسکھ نگر (حیدرآباد) بم دھماکوں کی ذمہ داری قبول کرنے سے متعلق ایک نیوز چینل کو ’فیک ای میل‘ (Fake eMail) کرنے والے کے ای میل کا کوئی فیکٹ نہیں ہے۔ وہ محض ایک مضحکہ خیز اور دلخراش حرکت تھی۔ یہ ہم نہیں پولیس محکمہ کہتا ہے۔ سچ بھی ہو سکتا ہے۔ بھئی! پولیس کے بیان پر ہم شک کرنے کا گناہ کیوں کریں؟ البتہ ہمیں مسلسل لگتا ہے کہ اے ٹی ایس کی ساختہ ’انڈین مجاہدین‘ کے بالمقابل ایک نئی ٹیم بن رہی ہے جسے ’انڈین مضاحکین‘ (India Mockers) کا نام دینے میں شاید کوئی قباحت نہیں ہے۔دونوں کا مخفف بھی ایک (IM) ہی بنتا ہے۔
اور صاحب! ہمارے ملک میں مرکزی وزارتِ داخلہ کی جانب سے کیے گئے ’اسپیڈ پوسٹ‘ کی ڈیلیوری گھر کے افراد کو تین تین دن کی تاخیر سے ہوتی ہے،لیکن بی جے پی کی ریاستی یونٹ کے صدر کو ’سادہ پوسٹ کارڈ‘ بلاتاخیر مل جاتا ہے اور وہ میڈیا کو بھی آن کی آن میں دستیاب ہوجاتا ہے تاکہ ’دھماکوں کی ذمہ داری قبول کرنے والوں‘ کی نشادن دہی کے کام آسکے۔ اب پوسٹ آفسوں کو بھی میڈیا کے ساتھ تحقیقاتی ٹیم سے جوڑنے کی ضرورت آن پڑی ہے۔ سب مل کر کام کریں گے تو کوئی نہ کوئی ملزم چہرہ تو بنا ہی لیں گے!
ویسے قارئین جان لیں کہ مذکورہ ای میل خبر کے مطابق بہت ’ویل ڈرافٹیڈ‘ تھا اور اس میں شیومؔ کو لشکرِ طیبہ کی بھی معلومات تھی۔ اس نے حیدرآباد کے بعد گجرات میں بھی دھماکوں کی دھمکی لکھی تھی۔اس میں اہم ترین جگہوں، تنصیبات اور تعلیمی اداروں کا پتہ بھی تھا، چند موبائل فون نمبر بھی ٹھیک ٹھیک لکھے تھے۔ جعلی دستخط بھی کرنا اسے آتا ہے۔ لیکن شومئ قسمت کہ پولیس کے مطابق وہ ’مجنون‘ ہے! اگر یہ لنک سائٹ سے ہٹایا نہیں گیا ہو تو دیکھیں:
http://timesofindia.indiatimes.com/india/Gujarat-engineer-student-mails-terror-threat-held/articleshow/18683088.cms
ہمیں تو یہ سوچ کر ہی تھرتھری سی بھر گئی کہ اُس نوجوان کا نام اگر شیوم کی جگہ ’شاہ رخ‘ وغیرہ ہوتا تو شاید اس کے ’حقیقی پاگل‘ رشتہ دار تک پولیس اسکیننگ میں ’شریکِ سازش‘ مل سکتے تھے۔
ماضی میں ہماری ریاستی پولیس کے ہاتھ دھماکہ خیز مادوں اور بم سازی کے سامان کے ساتھ چند لوگ لگے تھے لیکن جیسے ہی ’ان کے نام‘ معلوم ہوئے تو میڈیا میں پولیس کے ذرائع سے یہ اطلاع ملی کہ وہ مادّے ان کے لیے کنووں یا پہاڑیوں کی کھدائی یا کھیتوں کی سینچائی وغیرہ میں امداد کی خاطر تھے اور ان کا ریاست یا بیرونِ ریاست ہونے والے بم دھماکوں سے کوئی لینا دینا نہیں تھا۔ انھیں گرفتار تک نہیں کیا گیا، اور اگر گرفتاری ہوئی بھی تو ہمیں کسی ذریعہ سے ان کا فالواَپ نہیں معلوم ہوا۔
دلسکھ نگر بم دھماکوں کی تحقیقات کا رخ بھی کیا دلچسپ ہے۔ میڈیا اور پولیس تو کوششِ بسیار کے بعد حاصل کردہ سی سی ٹی وی کے کلپ میں (گمان ہے کہ) اُس سائیکل بردار شخص کے دھندلے سے عکس میں کوئی داڑھی اور ٹوپی کی تلاش میں سرگرداں ہیں، مگر CCTV کے آپریٹرس سے اس بات کے جواب کے طلبگار نہیں ملتے کہ آخر ’پانچ دنوں تک‘ انھوں نے منقطع کیبل کا کوئی نوٹس لیا اور نہ اس کی ضرورت سمجھی۔ ہمیں یہ اطلاع بھی اب تک نہیں ملی کہ ان کیبلوں کو دوبارہ قابلِ عمل بنا بھی لیا گیا یا ہنوز ویسے ہی پڑے ہیں۔ تحقیق کاروں کو یہ اطلاع تو ضرور ہونی چاہیے کہ مہاتما کا قتل کرنے والے ناتھورام گوڈسے سے لے کر ناندیڑ پٹاخہ فیکٹری اور مالیگاؤں سمیت سبھی سائیکل اور موٹر سائیکل والے دھماکوں میں ملوّث افراد بے نقاب ہوچکے ہیں اور سب نے اصلی و نقلی داڑھیوں اور ٹوپی کا استعمال جس مقصد سے کیا تھا اس کے بھی شرمناک نتائج معلوم ہوچکے ہیں۔ پھر یہ افواہ یا Hoax اور ’فیک ای میل‘ کی بیماری بھی کوئی نئی تو ہے نہیں۔ ماضی میں جو بم دھماکے ہوئے اس وقت بھی یہ کھیل کھیلا جا چکا ہے۔ کسی اسٹیڈیم میں بم کی افواہ، کسی ریلوے اسٹیشن اور ہوائی اڈے پر افواہوں کا پسارا، سابق صدر جمہوریہ عبدالکلام کو بھیجے جانے والے فیک ای میل وغیرہ اس کی چند مثالیں ہیں۔ اتفاق سے ان سبھی افراد کے اصلی نام ظاہر ہونے کے بعد تقریباً سب کو پولیس نے ’’ذہنی معذوری‘ کا سرٹیفکیٹ دلوایا تھا!
خرد کا نام جنوں پڑ گیا جنوں کا خرد
جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے
ہمارا خیال (خام) ہے کہ اپنا میڈیا بھی مذکورہ بالا تاریخ سے خوب واقف ہے لیکن اس کے اغراض و مقاصد تو ’’سب سے آگے آگے‘‘ چلنے کے ہیں اس لیے اسے اب ’’میڈیا ٹرائل‘‘ Media Trial جیسی استناد سے بھی نوازا جاچکا ہے۔ میڈیا کے دُھریندر تو خبر پھوٹتے ہی ہندوستانی عدلیہ کو منہ چڑانے لگتے ہیں۔ اور اتنا چلّاتے ہیں کہ انصاف پسندوں کا مطالبہ اس شور میں بالکل دم توڑ دیتا ہے۔ خیر!کوئی بھی ملک عوام سے بنتا ہے۔ ہندوستان اس دنیا کا سب سے بڑا جمہوری ملک ہے اور اس کے عوام سے ہی بنا ہے۔ عوام میں اگر ان کے مذہب، ذات پات یا چند دوسری بنیادوں پر تفریق کی عادت رکھیں گے تو بھلا انتظامیہ کیسے سب کا (خصوصاً مسلمانوں کا) اعتماد حاصل کرسکے گا، اور کس طرح ملک میں سکون و ترقی کی راہیں کھل سکیں گی؟
اصحابِ اقتدار کو اب بھی ہوش میں آنا چاہیے۔ اپنی آنکھوں سے رنگین شیشے اتارنا چاہیے۔ اگر یہ نہیں کریں گے اور آج جب کل تاریخ بن جائے گا، ہم سب نہیں ہوں گے تو آئندہ نسلیں آپ کو مجرموں کے نام سے یاد کریں گی؛ ملک کے معماروں یا محافظوں کے نام سے نہیں! خواجہ یونس، عشرت جہاں اور اس کے ساتھیوں کے جعلی انکاؤنٹر نے تو آپ کے اس سسٹم کی سڑاند کا ڈھکن بھی پوری طرح کھول دیا ہے۔
2 comments:
Nice Article Dr Shaheb.......
dr sahab assalam o alikum
bhut khub kahene se to baat banegi nahin lekin is ke elawa koi chara bhi nahin hai - muhje khas taur par who hissa bhut hi acha laga jis main aapne un hind afrad ha naujawano ke e mail karne wali baat likhi hai,
aalha kare hamare yahan un likne walon ko jo terrorism par likhten hai likin un ko terrorism cases ka aga picha bhi pata nahin hota, is subject par likhne se pahele aa0p ki tarahan case ki study kar len to kaya acha ho.
aaj ke liye bus itna hi
khuda hafiz
Post a Comment