To View This Blog in Nastaliq Script Download Faiz Nastaliq Unicode Font

Download Faiz Nastaliq Unicode Font from http://www.faiznastaliq.com/faiznastaliq.zip unzip & install it to your windows/font directory

Monday, December 29, 2014

Muslim Reservation Cancelled
Congress Succeeded in it's Ploy
Dr. Rehan Ansari

ناگپور سے اس مرتبہ ہمارے لیے کھٹے سنترے آئے۔ مسلم ریزرویشن کی تجویز اپنے (متوقع) سیاسی انجام سے دوچار ہوئی۔ اسمبلی کا دو ہفتوں تک جاری رہنے والا سرمائی اجلاس اپوزیشن کے ناکارہ پن کے سبب بیشتر اوقات میں سرد تر ہی رہا۔پورے دوران میں کبھی کبھار اپوزیشن کی آوازیں کسی بیمار کے سینے سے ہوک کی مانند اٹھتی تھیں اور پھر کوئی نمایاں اثر ڈالے بغیر بند ہوجاتی تھیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ سرمائی اجلاس کے خاتمے کے ساتھ ہی (مسلم علاقوں میں) سیاسی ماحول کو گرمایا جانے لگا۔ اور اس عمل میں کانگریس پارٹی پیش پیش نظر آئی۔ ہمارے پیدائشی سیاسی بھولے بھائی بندوں نے کانگریس کی اس ہائےہو کو اپنی نمائندگی بھی تسلیم کیا اور فڈنویس حکومت پر تعصب و تنگ نظری کا الزام بھی خوب خوب لگایا اور ناانصافی کا بھی۔ ہم بھی اس بات کو یکسر غلط نہیں کہتے کہ ریاستی حکومت نے تعصب و ناانصافی نہیں برتی۔ مگر کیا اسی نومنتخبہ حکومت نے یہ غلطی کی ہے؟ پتہ نہیں آپ کا کیا خیال ہے لیکن ہمیں تو زیادہ شورشرابہ کرنے والوں کے چہرے ہی مجرم نظر آتے ہیں۔ اس پر کوئی گفتگو کرنے سے قبل آئیے پہلے کچھ آموختہ پڑھ لیں۔
ہم ریزرویشن کی تحریکات کی تفصیل میں نہ جاتے ہوئے بس یہ نکتہ پیش کرنا چاہتے ہیں کہ قلیل مدتی نارائن رانے کمیٹی نے ایسی کیا پُراثر رپورٹ پیش کردی کہ اس پر ہائی کورٹ کا امتناع بھی اثرانداز نہیں ہوا اور کانگریسی حکومت کے کانگریسی وزیر کی پیش کردہ رپورٹ کو بھاجپا کی حکومت نے یکلخت اور بلا تردّد منظور کرلیا لیکن طویل مدت تک چھان پھٹک اور مشاہدہ و مطالعہ کرنے والے بالغ نظر سابق جسٹس سچر، سابق چیف جسٹس رنگناتھ مشرا اور سابق آئی اے ایس افسر محمود الرحمٰن کی تین کمیٹیوں کی رپورٹوں میں ایسی کیا خامیاں اور سقم تھے کہ وہ توجہ کے مستحق بھی نہیں بن سکے؟



Justice Rajendra Sachar Presenting the Committee's Report
to the then PM Manmohan Singh

یہاں یہ حوالہ بے محل نہیں ہوگا کہ کوزیکوڈے کے مقام پر ہونے والی مارکسوادی کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے ۲۰؍ویں اجتماع، اپریل ۲۰۱۲ء، میں یہ ریزولیوشن پاس کیا گیا تھا کہ: ’’مسلمانوں کو جائز ریزرویشن دینے کی بابت کانگریسی حکومت جسٹس رنگناتھ مشرا کمیشن کی رپورٹ کو پارلیمنٹ کے ایوان میں مباحثہ کے لیے پیش کرنے کی بجائے اسے اترپردیش میں ہونے والے انتخابات میں سیاسی کھلونے یا حربے کے طور پر استعمال کررہی تھی۔اور ایسا کرتے ہوئے کانگریس نے فرقہ پرستوں کے ہاتھ مضبوط کیے اور انھیں بے لگام ہونے میں مدد کی، ساتھ ہی ساتھ سماج کے دیگر طبقات کو ایک کنفیوژن میں مبتلا کردیا۔ بائیں بازو کی پارٹیوں کے مسلسل مطالبہ کے باوجود کانگریسی حکومت نے ان رپورٹس سے چشم پوشی کی اور بے پروائی برتی‘‘۔
اسی طرح یہ بھی یاد کرلیں کہ ریاست میں تسلسل کے ساتھ منتخب ہونے والی کانگریسی حکومتوں نے متعدد مطالبات کے باوجود مذکورہ بالا رپورٹس کو زیرِ بحث ، زیرِ غور یا زیرِ عمل نہیں لایا۔ کیا ہم مسلم اتنے بے حس (یا زہر کے عادی) ہوچکے ہیں کہ ایک ہی بل سے بار بار ڈسے جانے کے باوجود ہوش میں نہیں آتے؟ کوئی مخلص متبادل قبول کرتے ہیں نہ تیار کرتے ہیں!




ہم مراٹھوں کے لیے ریزرویشن کے خلاف نہیں ہیں۔ نہ اس کے خلاف کوئی احتجاج یا ناخوشی کا اظہار کرتے ہیں۔ لیکن یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ نارائن رانے کمیٹی کی رپورٹ کی دستوری سطح پر مخالفت بھی ہوئی اور اس کے خلاف کیس بھی دائر کیا گیا۔ اور ادھر مسلمانوں سے متعلق تینوں کمیٹیوں کی رپورٹ کے ساتھ ایسا کچھ نہیں ہوا۔ اس کے باوجود سابق ریاستی کانگریسی اور مرکزی حکومتوں نے ان رپورٹوں کو سیاسی ہتھکنڈہ ہی بنانے کو ترجیح دی اور کبھی کوئی سنجیدگی دیکھنے کو نہیں ملی۔ برا نہ لگے اگر یہ کہیں کہ ہم نے اپنے یعنی مسلمان ایوانی نمائندوں کو بھی اس جانب محض سیاسی خاطرداری تک متحرک پایا ہے۔ چند نعرے، ایوان کے باہر تصویر کشی کی حد تک مظاہرے اور اردو اخبارات میں اپنے اس فعل کی تشہیر کرنے سے زیادہ کچھ کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ (تمام پارٹیوں کے) ہمارے یہ ایوانی نمائندے تو انتخاب کے بعد اپنے عام ووٹروں سے ملنے جلنے اور انھیں کسی مثبت تحریک کے لیے اکٹھا کرنے کے بھی روادار نہیں دکھائی دیتے۔
اسمبلی کا سرمائی اجلاس دو ہفتوں تک چلا۔ خاتمے کے موقع پر خود وزیرِاعلیٰ فڈنویس نے اپوزیشن کی کارکردگی پر جو ریمارک دیا وہ اسے شرمندہ کرنے کے لیے کافی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’’کانگریس این سی پی کی سربراہی میں اپوزیشن بٹی ہوئی تھی، بے سمت تھی، اور بے اثر بھی‘‘۔ مگر افسوس اپوزیشن کا حال یہ ہے کہ ’’گالیاں کھاکے بے مزہ نہ ہوا‘‘۔
کارواں گذرنے کے بعد جب ہم غبار دیکھتے ہیں تو نظر آتا ہے کہ ہمارے ایوانی اور نام نہاد سیاسی نمائندے طرح طرح کی حرکتوں میں مبتلا ہیں۔ سڑک اور گلیوں میں ریاستی حکومت پر الزام تراشیاں کر رہے ہیں۔ ان کی خدمت میں بڑے ادب کے ساتھ عرض ہے کہ بھائی صاحب ریاست میں جس پارٹی کی حکومت بن چکی ہے اس کے بہت سے ایجنڈے خفیہ ہوں تو ہوں؛ مگر مسلمانوں کے تئیں کوئی ایک موقع بتلا دیجیے کہ ان کا ایجنڈا آپ لوگوں کی مانند خفیہ رہا ہو؟ اس نے بار بار مسلمانوں کی کھل کر مخالفت کی ہے۔ قومی سطح سے لے کر علاقائی سطح تک (پارٹی کے اندر یا باہر) اس نے مسلمانوں کے ساتھ سوتیلا رویہ ہی رکھا ہے۔ تو آخر آپ نے ایسی حکومت سے کیوں یہ جھوٹی آس لگائی تھی؟ پھر آج کل آپ کی جانب سے جو احتجاج اور نعرہ بازیاں کی جارہی ہیں ان کو (اردو اخبارات کے علاوہ) کیا کسی بھی قسم کا قومی، ریاستی یا علاقائی میڈیا کوریج دے رہا ہے؟ کہیں کوئی ہنگامہ یا ہمدردی کا مظاہرہ ہو رہا ہے؟ کیا ریزرویشن کے آرڈیننس کے نابود یا مرحوم ہوجانے کے بعد اس احتجاج سے کچھ حاصل بھی ہونے والا ہے؟ آخر اپنی بھوک کا علاج کرنے کے لیے ملت کے مفادات کو نگل جانے کی عادت کیوں بنا لی ہے؟ کانگریس پارٹی تو سنجیدہ ہونے سے رہی، ملت کی ناگفتہ حالت کو دیکھتے ہوئے آپ لوگ تو سنجیدہ ہوجائیں۔
کانگریس نے مسلمانوں کو ریزرویشن نہ دیئے جانے کے بعد جو اچھل کود مچائی ہے وہ انتہائی مشکوک ہوجاتی ہے۔ جس حکومت نے دس برسوں تک کمیٹیوں کی رپورٹ پر جمنے والی دھول صاف کرنے کی ذمہ داری تک نہیں نبھائی، اس نے اچانک کس نیت کے ساتھ اپنی میعاد کے بالکل آخری دنوںمیں ایک آرڈیننس جاری کرنے کا کھیل کھیلا تھا؟ اسی آرڈیننس کی بنیاد پر مسلمانوں سے ووٹ بھی طلب کیے۔ کیا کچھ برسوں نہ سہی کچھ مہینوں قبل ہی وہ اسے بل کی صورت میں نہیں پیش کرسکتی تھی؟ کیا وہ اسے منظور نہیں کرواسکتی تھی؟ یقیناً وہ یہ سب کرسکتی تھی مگر جیسا کہ سی پی آئی (ایم) نے دو برسوں قبل ہی بتلا دیا تھا کہ کانگریس اسے صرف سیاسی ہتھیار بنانا چاہتی تھی، اس نے وہ کر دکھایا۔ افسوس کہ کانگریس فتح نہیں حاصل کرسکی مگر اس کی یہ سازش ضرور کامیاب ہوگئی کہ مسلمانوں کو ریزرویشن نہ دیا جائے اور اسے یہ موقع یا بہانہ بھی مل گیا کہ اس کے جرم کا طوق ریاستی بی جے پی حکومت کےگلے میں ڈال دیا جائے۔ سرِ دست مسلمانوں کی مجموعی حالت ایسی ہی ہے کہ وہ کانگریس کے اس جھوٹ کو سچ مان رہی ہے لیکن حق بات تو یہ ہے کہ بی جے پی نے ابتدا سے ہی کھلے بندوں یہ اعلان کیا ہے کہ وہ مسلمانوں کو مذہب کی بنیاد پر ریزرویشن دینے کے خلاف ہے، تو بھلا اس کا ایک ریاستی وزیرِ اعلیٰ یا اس کی پوری ٹیم کیونکر اپنے اس کھلے ایجنڈے کے خلاف جا سکتے تھے؟


Sunday, August 31, 2014


ISIS: A Political Force, Not Islamic
Dr. Rehan Ansari
اسلامی گروہ اور مسلمان مسلح گروہ میں وہی بنیادی فرق ہے جو اسلامی مملکت اور مسلم ملک یا سلطنت میں ہوتا ہے؛ مسلم امیر اور مسلمان بادشاہوں میں ہوتا ہے؛ خدمتِ دین اور دین داری ( و دُنیاداری) میں ہوتا ہے۔ اسی مناسبت سے عراق کے نوخیز گروہ داعش کو ہم اسلامی نہیں سرِ دست مسلمان گروہ تسلیم کرتے ہیں۔
اس گروہ کا اچانک عالمی سیاسی منظر نامہ پر ایک ہنگامہ خیز داخلہ ہوا ہے۔ کیا اپنے کیا بیگانے اکثر اس کے خلاف ہیں۔ اس کی تاریخ اور اس کے صحیح اغراض و مقاصد بھی پوری طرح واضح نہیں ہیں۔ ہم میڈیا سے دستیاب معلومات پر پوری طرح اکتفا بھی نہیں کرسکتے۔ کیونکہ اکثر میڈیا پر مغربی طاقتوں کی خواہش و منشا کا غلبہ ہے اور یہ ان طاقتوں کے مفادات کا پورا پورا لحاظ رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اسے دہشت گرد اور شدت پسند گروہ سے تعبیر کرتا ہے۔
جو بھی فرد یا گروہ (خصوصاً اسلامی گروہ یا جماعت) مغربی یا امریکی (تجارتی یا مادّی) مفادات کے خلاف ہوجاتے ہیں یا مزاحمت آمادہ ہوتے ہیں انھیں عالمی میڈیا کے ذریعہ انھی القابات سے نوازا جاتا ہے۔ اتفاق سے تازہ تاریخ میں طالبان، القاعدہ، صدام حسین،  اخوان المسلمون، وغیرہ چند مثالیں ہیں جن کے وجود تک انھیں طرح طرح کے الزامات اور حملوں کا سامنا رہا اور جب یہ ختم ہو گئے یا کمزور ہوگئے تو ان پر لگے الزامات کافور ہوگئے، دنیا کو بھی ان الزامات کی حقیقت کی دریافت یا بازپرس سے کوئی غرض نہیں رہی، استبدادی طاقتیں یوں بھی جوابدہی کی ذمہ داری سے بالا ہوتی ہیں، دنیا کے بیشتر ممالک تو امریکہ اور یورپ کے بندۂ بے دام بننا ہی پسند کرتے ہیں، خواہ اس کے لیے انھیں کیسی ہی قیمت کیوں نہ چکانی پڑے۔
اقوامِ متحدہ کے استفسار پر اپنا موقف واضح کرتے ہوئے الجامعۃ الازہر کے سربراہ مفتیِ اعظم شوقی عالم نے داعش کی مذمت کی ہے اور اسے ایک ایسی بدعنوان انتہاپسند تنظیم قرار دیا ہے جو اسلام کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ان کے مطابق داعش ایک ایسا نتہاپسند اور خونی گروپ ہے جو اسلام اور مسلمانوں کے لیے ضرر کا باعث ہے۔جس کا تشخص خونریزی اور بدعنوانی سے آلودہ ہے۔
مفتیِ اعظم شوقی عالم نے مزید رائے یہ دی ہے کہ داعش کی کارروائیاں ان اسلام دشمنوں کے ہاتھ مضبوط کرنے کا ذریعہ بن رہی ہیں جو مسلمانوں کو تباہ کرنا چاہتے ہیں اور ہمارے معاملات میں مداخلت کرنا چاہتے ہیں۔


Areas captured by ISIS
داعش کی حالیہ کارروائیاں اسے ان الزامات سے بری بھی نہیں کرتیں۔ان کے ماضی میں ایسی کوئی تعمیراتی سماجی خدمات یا تحریکات بھی نہیں ہیں جنھیں مثبت عمل کہا جائے۔ داعش کے مقبوضہ علاقوں کی حدیں شمالی عراق اور شام میں ہیں۔ خصوصاً تیل سے مالامال علاقے۔اس کا پورا اعمال نامہ ابھی علاقے ہتھیانے اور ان علاقوں پر اپنی مرضی کے مطابق عوام پر حکومت کرنے سے بھرا ہوا ہے۔ ان کی کوئی ایک مثبت قدر ہم ہندوستانیوں کے سامنے آئی ہے تو وہ یہ کہ ہندوستانی نرسوں کو بخیروعافیت وطن واپسی میں امداد اور تعاون کیا۔ گوکہ اس جانب نرسوںکی واپسی تک اپنے وطن کا میڈیا (ماہِ رمضان میں بھی) انھیں جابر اور بدخواہ و بدکردار ثابت کرنے میں ایک دوسرے پر بازی مارنے کی کوششوں میں مبتلا دکھائی دے رہا تھا اور اس کی اکلوتی وجہ داعش کا اسلامی خلافت کے قیام کا اعلان اور ان کا سخت گیر اسلامی تشخص تھا۔ جب نرسوں نے واپسی کے بعد اپنے انٹرویوز میں داعش کے اخلاق کی تعریف کی تواس میڈیا کے منہ پر تالے اور آنکھوں پر پٹیاں پڑگئیں۔ نرسوں کی ہمدردی اور روزگار کے معاملہ میں (سرکاری و غیرسرکاری) گھگھیانے والے ان کی واپسی کے بعد بدنام جانور کی سینگ کی طرح غائب ہوگئے؛ اور نرسیں اپنے ملک میں بے یارومددگار ہیں۔

Indian Nurses from Iraq back at home
ایک دوسرا سنگین واقعہ داعش کے ہاتھوں یزیدی فرقہ کے افراد کا قتلِ عام تھا۔اس واقعہ کے بعد ایک عراقی وزیر نے یہ اعلان بھی کیا تھا کہ داعش نے سیکڑوں یزیدیوں کو ہلاک کر دیا ہے اور ان کی عورتوں کو کنیزیں بنا لیا ہے۔مزید یہ کہ بعض یزیدیوں کو زندہ درگور کردیا ہے۔ ان الزامات کی حقیقت و ثبوت ہنوز پردۂ اخفا میں ہیں۔ اسی الزام کا آسرا لے کر امریکہ نے داعش پر کوہستانی علاقوں میں فضائی حملے شروع کیے ہیں۔
داعش نے عراق اور شام میں اپنے زیرِ تسلط علاقوں میں اسلامی خلافت قائم کرنے کا اعلان کررکھا ہے۔ اس پر گفتگو آگے ہوگی البتہ جو تفصیلات ہم تک پہنچی ہیں ان کے مطابق داعش کی ماضی میں القاعدہ سے وابستگی تھی اور اس گروہ کو ابتدا میں ’القاعدہ آف عراق‘ کے نام سے جانا جاتا تھا۔ بعد میں اس کے نام کی تبدیلی عمل میں آئی۔ موجودہ داعش مخفف ہے ’دولت الاسلامیۃ العراق و الشام‘‘ کا۔گذشتہ آٹھ برسوں میں اس کا وجود عراقی خانہ جنگی اور مختلف جنگجویانہ وارداتوں کے دوران رفتہ رفتہ ظاہر ہوا۔ لیکن اسے قبولیت عام حاصل ہونے میں اس کی کارروائیاں مانع ثابت ہوئیں۔ بیشتر کے نزدیک یہ شیعہ مخالف اور صوفی اِزم کے خلاف ایک دستہ کے روپ میں سامنے آیا؛ کیونکہ انھوں نے مقدس تصور کیے جانے والے مقابر پر حملہ کردیا تھا۔ اس تنظیم کا حالیہ سپریمو ابوبکر البغدادی ہے جو کوئی معروف شخصیت بھی نہیں ہے۔
تبصرہ نویسوں نے لکھا ہے کہ امریکہ نے بعث کی طاقت ختم کرکے غلطی کی ہے، اس کی وجہ سے اندرونی مزاحمت کم ہوگئی جس کے نتیجہ میں داعش کو ابھرنے کا موقع ملا۔ تصادم کی نیتی داعش کے لیے نفع بخش نہیں ہے۔ ایسا کرنے والی تنظیمیں بہت کم عرصہ میں نیستی کا شکار ہوجاتی ہیں یا تاریخ میں بدنام رہتی ہیں۔
امریکہ اور دیگر یورپی طاقتیں مشرقِ وسطیٰ میں مستحکم و فعال ریاستوں کا قیام چاہتی ہی نہیں۔اپنے منصوبوں کو مفاد بخش بنائے رکھنے کے لیے وہ داعش اور طالبان وغیرہ جیسے گروہوں کو زندہ رکھتی ہیں۔ عراق کی حالیہ تباہی کا صد فیصد ذمہ دار امریکہ ہے لیکن دنیا کا میڈیا امریکہ کو اس طرح پیش کیے جارہا ہے گویا عراق کے جملہ مسائل کا حل کرنے کی صلاحیت صرف امریکہ اور اوبامہ میں ہے۔ اوبامہ بھی اپنی چالیں مہرے اور گھر دیکھ کر چل رہے ہیں۔ کبھی آگے چلتے ہیں تو کبھی ڈھائی کی جست لگاتے ہیں۔ داعش کے ہاتھوں یزیدیوں کی ہلاکت کے بہانے امریکی فضائی حملے اس کی تازہ مثال ہیں۔ ورنہ اس کے پہلے وہ عراق میں کسی تازہ فوجی مداخلت سے انکار کر رہے تھے۔ ان کا یہ قول بھی کتنی تہیں رکھتا ہے ملاحظہ فرمائیں: ’امریکہ اس مسئلہ کا کوئی فوجی حل نہیں رکھتا، بلکہ اس کا عراقی روپ (حل) پیش کرنا چاہتا ہے اسی لیے حملے مخصوص و محدود اہداف پر ہی کیے جائیں گے۔‘ امریکی فضائیہ شمالی کُردِستان میں داعش کی پیش رفت کو روکنے اور کوہستانی علاقوں میں محصور یزیدی اقلیت کو تحفظ دینے کی غرض پوری کرے گی۔
برطانوی وزیرِ اعظم ڈیوڈ کیمرون نے حال ہی میں اعلان کیا ہے کہ ’داعش کے جنگجوبرطانیہ کے لیے براہِ راست خطرہ ہیں،اگر ہم نے ’’غیرمعمولی خطرناک دہشت گرد تحریک‘‘ کو روکنے کے لیے اقدام نہ اٹھایا تو یہ زیادہ مضبوط ہوتی جائے گی اور ہمیں برطانیہ کی سڑکوں پر نشانہ بنانے لگے گی!‘ یہ کون سی بڑ ہے یہ تو ڈیوڈ کیمرون ہی جانیں مگر انھیں ایسے اندیشے سوتے میں لاحق ہوئے ہیں یا جاگتے میں یہ ہماری سمجھ سے بالا ہے۔ کیونکہ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ داعش کی عسکری طاقت تو ٹوٹے پھوٹے عراق کی عسکری طاقت سے بھی کم ہے! البتہ ڈیوڈ کیمرون کے اعلان میں ان کی بدنیتی صاف اور واضح ہے۔
جب بھی مغربی اور امریکی طاقتوں کی مزاحمت میں یا ان کی پسندیدہ حکومتوں کی مخالفت کوئی سر ابھارتا ہے اسے یہ دہشت گرد اور پوری دنیا کے لیے خطرناک بتانے لگتے ہیں۔
داعش کا عندیہ ایک سخت گیر (سنّی؟) اسلامی مملکت کے قیام کا ہے۔ اوّل تو سخت گیری اسلام کا وطیرہ ہی نہیں ہے۔ خلافت تو جمہوری طریقہ سے قائم ہوتی ہے۔ داعش کا طریقۂ کار اسلامی خلافت کے مسلمہ و مقبول اکرام کو بدنام کرنے والا ہے۔
آبزرور اخبار کو تحریر کردہ ایک خط میں بشپ آف لیڈز نکولس بینز نے کہا کہ ’’دنیا میں تیزی سے پروان چڑھتے ہوئے اسلامی انتہاپسندی کے رجحان کو روکنے کے لیے ہمارے پاس مربوط اور جامع اپروچ کی کمی ہے۔‘‘ یہ زبان کسی معاملہ میں عیسائیوں یا یہودیوں سے متعلق ایک اسلامی رہنما کی ہوتی تو دنیا بیک زبان اسے دہشت گردی کا ترجمان بولتی مگر پادری اس الزام سے بری ہیں۔
داعش نیا اسلامی گروہ ہے مگر غلطیاں وہی جذباتی اور جارحانہ انداز میں دُہرا رہا ہے جو اس سے قبل طالبان اور اخوان المسلمون وغیرہ نے کی تھیں۔ اس زمرے میں آیت اللہ خمینی ایک استثنا ہیں۔ انھوں نے (شیعی) اسلامی ایران کے قیام کے ساتھ کامیابی حاصل کی تھی مگر ان کا وقت الگ تھا اور ایران کے عوام ان کے ساتھ جی جان سے لگ چکے تھے۔ اسی لیے بین الاقوامی سُوپرطاقتیں شکست کھا گئی تھیں وگرنہ رضاشاہ کو جلا وطنی نہ کرنی پڑتی۔
مصر میں اخوان المسلمین کا حالیہ انجام بھی عاقبت نااندیشی کی ایک عبرت انگیز مثال ہے۔ محمد مرسی اور اخوان نے انتخابات جیتنے کے بعد یہ سمجھ لیا تھا کہ انتخابات انھوں نے اپنے دم خم پر جیتا تھا۔ جبکہ حقیقت یہ تھی کہ حسنی مبارک سے تنگ آئے ہوئے عوام نے موقع غنیمت سمجھ کر تبدیلیٔ آب و ہوا کی خاطر ’بہارِ عرب‘ کے جھونکوں کے طفیل اخوان کو واضح اکثریت دلائی تھی۔ان کی طاقت مصر کے سبھی طبقوں اور عقیدوں کے عوام بنے تھے۔اسی لیے فوج بھی عوام کی رائے کے خلاف ایک قدم بھی اٹھانے سے گریزاں تھی۔ مگر جب مرسی نے نئے دستور (اسلامی) کے نفاذ کا اعلان کیا تو تاک میں بیٹھے ہوئے ملکی و بین الاقوامی بدخواہ اندھوں کو گویا دو آنکھیں مل گئیں۔انھوں نے فوری طور پر بدامنی پھیلانے کی سازش رچی بھی اور بروئے کار بھی لائی۔ نتیجتاً ہٹ دھرم اخوان کو معزول کردیا گیا۔ اخوان کو یہ کام جلد بازی کی بجائے حسنِ تدبّر کے ساتھ طویل وقتی منصوبے کے ساتھ دھیرے دھیرے بلا اعلان کرنا چاہیے تھا۔
اسلامی عدل و انصاف تمام انسانوں کا دل ماضی میں بھی جیت چکا ہے اور تاقیامت اس کا یہ اثر قائم رہنے والا ہے۔ البتہ اس کے نفاذ میں صرف عدل و انصاف اور سماجی مساوات و عدم تشدد کا ہی نام لیا جانا اس کے طویل مدتی نفاذ کی ضمانت بنے گا۔ اسلامی قوانین اور دستور جیسے ناموں سے اپنی دنیا کافی الرجِک ہو چکی ہے۔ آپ کو کئی دہائیوں اورممکن ہے صدیوں تک اس ذہنیت کی تبدیلی دیکھنے کو نہیں ملے گی۔


Monday, August 4, 2014

Israel will be forgiven by the world for it's crimes and Muslims too will start enjoying Pepsi again
Dr. Rehan Ansari


بیش و کم ایک مہینے تک اسرائیل نے اپنی پوری عسکری طاقت جھونکنے کی کوشش کرکے غزہ پٹی کو ملبے کے ڈھیر میں تبدیل کردیا۔ بیچارے نہتے فلسطینیوں کو الزامات لگا لگا کر اپنے دفاع کے نام پر ختم کرنے میں دنیا کی تاریخ کامکروہ ترین سلسلۂ قتل وخوں (نسل کشی پڑھیے) جاری رکھا۔ ہزاروں جامِ شہادت پی کر عالمِ باقی میں پہنچ گئے۔ ایک مبصر نے کیا خوب لکھا ہے کہ’’ دفاع تو ڈھال کا نام ہے تلوار اُٹھانے کا نہیں‘‘ اور اسرائیل نے تلوار اٹھائی ہوئی ہے۔ پھر یہ خونیں کھیل نیا بھی نہیں ہے۔ اسرائیل عادت کے مطابق اور اپنے ناپاک صیہونی ایجنڈوں کو رُوبہ عمل لانے کے لیے برسوں سے بہانوں کے ہاتھ آتے ہی یہ فعل دُہراتا رہتا ہے۔ فلسطینیوں کی نسلِ نو کا قتل وہ جان بوجھ کر کرتا ہے تاکہ مستقبل میں اسے کسی مضبوط اور نڈر مزاحمت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ اسرائیل نے پوری دنیا میں خصوصاً حماس کے حوالے سے مسلمانوں کے خلاف عمومی نفرت و تعصب کا سماں باندھ دیا ہے۔ اِدھر برِّ صغیر کے مسلمانوں نے بھی اپنی ایمانی غیرت و حمیت کے کچوکے لگنے سے اسرائیل کے خلاف کچھ نہ سہی تو اس کی مصنوعات، وہ بھی اکثر اشیائے خورونوش، کا استعمال ترک کیا اور ان کا بائیکاٹ کرنے کی ہر ممکن سعی کی۔ اس عید کو ہمارے گھروں میں سافٹ ڈرنک کی کوئی بوتل اور بچوں کو مرغوب اسنیکس نہیں لائے گئے۔ بہت سے بھائیوں نے اپنی حساب دانی کا چرچا کرنے کے لیے اس نقصان کی مالیت کا تخمینہ بھی سوشل میڈیا پر مسلسل پیش کیا یا فارورڈ کیا۔ گلی محلوں میں بینر، ہورڈنگ، پلے کارڈ، پمفلٹ، جلسے، جلوس کا انعقاد ہوا۔ کچھ سماجی، کچھ دینی، کچھ سیاسی اداروں نے بھی سرکاری دفاتر اور سفارتی دفاتر تک اپنی احتجاجی آوازیں پہنچائیں۔ اخباروں (اکثر اُردو) میں ان سب کی رنگین تصویروں کی اشاعت کی گئی۔ ہم بھی فقیروں کا بھیس بنا کر یہ سب دیکھتے رہے۔ نجی سطح پر اس بائیکاٹ میں شامل بھی رہے۔ نیت تو ہماری بالکل خالص تھی مگر خلوص کی جانچ اور خود احتسابی کرنے بیٹھے تو دل میں ایک دردِ نہاں کے علاوہ اپنے سوال کا کوئی جواب موجود نہیں پایا۔


 ایک طرف یہ سب کچھ چلتا رہا اور دوسری طرف اسرائیل ہر گذرتے دن کے ساتھ اپنے حملوں کی شدت بڑھاتا رہا۔ ہمارے معصوم فلسطینی بھائی مع اہالیانِ خانہ جان سے جاتے رہے۔
 سارے  پس منظر میں پتہ نہیں کیوں اندر سے ایک بے اطمینانی بھی دل دھڑکاتی تھی کہ ہم اپنے قول و فعل میں بہت فرق رکھتے ہیں۔ ہم دیانتدار نہیں ہیں۔ مستقل مزاج نہیں ہیں۔ کوئی منصوبہ بناتے ہیں وہ ایک مختصر مدت کے بعد نسیان کے قبرستان میں مدفون ہوجاتا ہے۔ بائیکاٹ ایک مدت کے بعد اپنی موت آپ مر جاتا ہے۔ یہودی مصنوعات کے بائیکاٹ شروع کرنے کا تو اعلان کیا جاتا ہے مگر پتہ نہیں چلتا کب خاموشی سے یہ ختم ہوجاتا ہے۔ اور ہم پھر اپنے منہ کو لگے مشروب کی بوتلوں سمیت اوڑھنے بچھونے میں بھی مرغوب مصنوعات کا استعمال کرنے لگتے ہیں۔ اسی موقع پراردو کے شہرہ آفاق مزاح نگار علامہ اکبر الٰہ آبادی کا ایک شعر یاد آرہا ہے 
ابھی بیمار ہیں، سب کررہے ہیں قول و عہد اکبرؔ 
اُسی کوچے میں پھر پہنچیں گے، ہونے دو ذرا اچھا


 مگر اب اسرائیل نے شاید تھک ہار کر (جیتا تو ابھی بھی نہیں) یہ ’نام نہاد‘ جنگ بند کرنے کی آمادگی کا عندیہ دیا ہے۔ اس عندیہ کا لطیفہ ساز پہلو یہ ہے کہ وہ یکطرفہ جنگ بندی اپنی مرضی سے کر رہا ہے (گویا یہ جنگ دو طرفہ جاری تھی!؟) اور وہ مصر کی ثالثی میں سمجھوتے میں شریک نہیں ہوگا۔ پھر یہ بھی کہ غزہ کی سرحد سے اسرائیلی ٹینک ہٹائے نہیں جائیں گے۔ یہ دھمکی بھی کہ حماس نے دوبارہ کوئی شرارت کی تو حملے کے ’’تمام آپشن‘‘ کھلے رکھے گئے ہیں۔ اب تک کے حملوں کو وہ تین اسرائیلی نوجوانوں کے قتل کا انتقام بتلاتا رہا اور اس عذر کو توسیع دینے کے لیے حماس کے ذریعہ تیار کی جانے والی دفاعی سرنگوں کو دہشت خیزی کے منابع کے طور پر مشہور کر دیا۔ تازہ حملوں کی توجیہہ یہ بیان کی گئی کہ ایک اسرائیلی فوجی ہدرگولڈن کو حماس نے یرغمال بنا رکھا ہے۔ اسرائیل کے بیان پر دنیا نے اعتبار کیا لیکن حماس نے اس لاپتہ فوجی کے پکڑے جانے کے تعلق سے اپنی لاعلمی ظاہر کی اور یہ کہ وہ اب کہاں ہے اس کا بھی اسے کوئی پتہ نہیں، بالفرضِ محال وہ ہمارے جنگجوؤں کے ہاتھ لگا تھا تو اسرائیل کی بھاری بمباری میں ہوسکتا ہے وہ ان کے ساتھ فوت ہوگیا ہو؛ تو دنیا نے اسے قابلِ اعتنا نہیں سمجھا۔ حتیٰ کہ امریکہ نے اسے حماس کی جانب سے ’معاہدۂ امن‘ کی وحشیانہ خلاف ورزی تک قرار دیا ہے!۔ مینڈکی کو بھی زکام ہونے میں دیر نہیں لگی اور اقوامِ متحدہ نے فلسطینیوں کی فکر جتاتے ہوئے ہدرگولڈن کی فوری سپردگی کا مطالبہ کردیا۔ اسرائیل تو اس معاملے میں یدِ طولیٰ رکھتا ہے کہ جھوٹ کو سچ کیسے بنایا جاسکتا ہے اور دنیا اس کے جھانسے میں بے دام غلام کی مانند آتی بھی ہے۔
 دنیا کے نقشے پر مصر بھی وہ امتیازی ملک ہے جو فلسطین و اسرائیل کے مابین گفتگو میں صرف ثالثی کے لیے تیار رہتا ہے۔ حالانکہ اس وقت جتنا بڑا مجرمِ انسانیت اور دہشت گرد اسرائیل ہے اسی کی مانند مصر میں السیسی نے جرم کیا ہے۔ اس فوجی حکمراں نے مصر کی تاریخ کی پہلی باقاعدہ جمہوری منتخبہ حکومت کو یرغمال بنا کر طاقت کا استعمال کرکے، جڑ کاٹ کر اقتدار پر قبضہ کیاہے۔ مصر نے اسرائیل سے حملے بند کرنے کی کوئی اپیل نہیں کی لیکن حماس پر دباؤ ڈالتا رہا کہ وہ معاہدہ کرلے۔ معاہدہ کی شرائط پر غور کیا جائے تو بین الاقوامی دباؤ کے تحت یہ ذلت آمیزشکست و شرائط قبول کرنے کے مصداق ہیں۔ یہ ایک مختلف موضوع ہے اس لیے یہاں اس پر گفتگو نہیں ہوگی۔ قارئین نے ضرور محسوس کیا ہوگا کہ میڈیا کی خبروں کا سورس صرف اسرائیل ہی کیوں بنا رہا؟ کسی نے فلسطین کی سرزمین سے خبریں جمع کرنے اور وہاں کے زمینی حالات بیان کرنے کی زحمت کیوں نہیں کی؟ اسرائیل نے جتنی فلسطینی جانیں لی ہیں اس سے کئی گنا ان کے گھروں کو تباہ و برباد کردیا ہے۔ کسی ایک اسرائیلی کی جان بھی حماس کے راکٹوں سے گئی اور نہ کوئی گھر ٹوٹا۔ پھر غزہ اور حماس ہی تو پورا فلسطین بھی نہیں ہے۔ وہاں تو محمود عباس، الفتح اور دیگر فلسطینی عوام بھی بستے ہیں۔ اس پورے عرصہ میں ان کا کوئی ردِّعمل سامنے آیا نہ کوئی اور خبر۔ ایک طرف حماس ہماری آس بنا رہا تو دوسری طرف الفتح کی شکست (بے عملی) باعثِ عبرت بنی۔ جبکہ حکومت میں دونوں جماعتیں شریک ہیں۔ الفتح سے ہم مزاحمتی نہیں مگر ڈپلومیٹک مداخلت کی امید تو رکھتے ہی تھے مگر ’اے بسا آرزو کہ خاک شدہ‘۔
 اور عالمی انسانی برادری؟ یہ کہاں ہے ہمیں تلاش کے باوجود نہیں ملی۔ ہمیں کچھ لوگوں نے اس دھندلے شیشے کے ایک حصہ کی گرد ہٹا کر یہ دکھلانے کی کوشش کی کہ مشرقِ وسطیٰ میں ایک ملک سعودی عرب ہے جو فلسطین کا ساتھ نہیں دے رہا ہے۔ جب ہم نے اس دھند کو ذرا زیادہ صاف کرکے منظر دکھا تو یورپ تک وہاں درجن بھر سے زیادہ ممالک نظر آئے جنھوں نے سعودی عرب کی مانند فلسطین یا غزہ کا ساتھ دینے میں غیر ضروری احتیاط برتی ہے۔ کم سے کم ان میں اتنی طاقت ضرور ہے کہ وہ اسرائیل کو ایک مضبوط ڈانٹ دے سکتے ہیں۔ اور متحدہ آواز اٹھے تو وہ بم سے خطرناک انداز سے گرے گی۔مگر… مگر لگتا ہے کہ اسرائیل نے فلسطینیوں کی جانوں اور آشیانوں پر بمباری نہیں کی، انھیں نہیں مارا، بلکہ (صرف خلیجی نہیں دنیا بھر کی) عالمی انسانی برادری کے احساس پر بمباری کرکے اسے مردہ کردیا ہے، بے حس بنا دیا ہے۔
 اسرائیل نے تھک ہار کے جنگ بند کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔ یقینا ایک نہ ایک دن تو یہ ہونا ہی تھا۔ اور جب یہ ہوجائے گا تو پوری دنیا بلا تاخیر اسرائیل کو معاف کرکے اور اس کا شکریہ ادا کرکے اپنے اپنے کاموں میں مشغول ہوجائے گی۔ اور ہمارے بھائی؟؟؟ دیکھنا، ماضی کی مانند وہ بھی دوبارہ اسرائیلی پروڈکٹس کو غٹا غٹ گلے سے اتارنے لگیں گے۔ اپنے دیوان خانوں میں سجانے لگیں گے۔ فریج میں وقت بے وقت استعمال کے لیے ذخیرہ کرنے لگیں گے۔ہمارے شہر میں ایک آٹو رکشا چلتا تھا، اس کے ہوڈ کے عقبی شیشے پر ایک چہار لفظی جملہ لکھا تھا جس کی پھیلی ہوئی معنویت ہمیں پہلی مرتبہ پڑھنے کے بعد سے لے کر ہنوز متاثر کرتی آ رہی ہے، ہمارے حالیہ احتجاج کے پس منظر میں ایک مرتبہ پھر بے ساختہ یاد آگیا کہ ’’سب کچھ تھوڑے دن‘‘۔


 ابھی نہ اسرائیل ختم ہوا ہے نہ فلسطینیوں کے حوصلے ٹوٹے ہیں۔ کوئی ہارا ہے نہ کوئی جیتا ہے۔ ہمیں تو لگتا ہے کہ ہتھیاروں کا اسٹاک مزید ستم آزمائی کے لیے شاید باقی نہیں رہا ۔ لیکن ہم بارہا اس کے بائیکاٹ کا عزم کرتے ہیں۔

Sunday, July 13, 2014

International Terrorist Israel's Brutality
and Genocide Attack on Helpless Palestinians
Dr. Rehan Ansari

 ہماری پیدائش سے بھی قبل، عرصہ پہلے، 1958ء میں ایک ہندی فلم ’’یہودی‘‘ ریلیز ہوئی تھی۔ اس میں سلطانِ روم (عیسائی) کے دربار میں اپنی مظلومیت کی دہائی دیتے ہوئے ایک یہودی کردار (سہراب مودی) کا یہ ڈائیلاگ بیحد مشہور ہوا تھا۔ اس قدر مشہور ہوا تھا کہ ہمیں ہوش سنبھالنے کے بعد بھی ایک عرصہ تک اس کی گونج سنائی دیتی رہی۔
’’تمھارا غم ہے غم،اوروں کا غم خواب و کہانی ہے
تمھارا خون ہے خون! ہمارا خون پانی ہے؟‘‘
آج وہ بے طرح یاد آگیا۔ کاش ہم اس کے ساتھ سہراب مودی کا لہجہ بھی پیش کرنے پر قادر ہوتے تو قارئین اس کا صحیح وزن محسوس کرسکتے۔ آج اس کے یاد آنے کی وجہ دوسری ہے۔ یہاں ظالم اور مظلوم بدل گئے ہیں۔ ظالم یہودی ہیں اور مظلوم فلسطینی مسلمان۔



فلسطینیوں پر تازہ دہشت تھوپنے کے لیے اسرائیل کو نیا بہانہ ہاتھ آگیا ہے۔ باہم امن مذاکرات سے وہ اتنا نہیں تلملایا تھا جتنا الفتح اور حماس کے اتحاد سے۔ اور وہ اسی اتحاد کو ضرب پہنچانے اور شکستہ کرنے کی فکر میں غلطاں تھا۔کیونکہ برسوں سے دنیا کی بہترین عسکری اور اَچوک تکنیکوں کے استعمال اور لاکھوں جانیں لینے کے باوجود فلسطینیوں کے جذبۂ قومیت و حریت کو وہ ہلکا سا نقصان بھی نہیں پہنچا سکا ہے۔
گذشتہ دنوں غربِ اردن سے تین اسرائیلی نوجوانوں کے اغوا اور قتل کے بہانے اسرائیل نے حماس کو تازہ انتقامی دھمکیاں بنام ’جواب‘ دی ہیں۔ مغربی پٹی سے تین اسرائیلی نوجوانوں کے اغوا اور قتل کی واردات کو اسرائیل نے راست طور سے حماس کی کارروائی قرار دیا تھا۔ واضح ہوکہ اس اغوا اور قتل کی ذمہ داری کسی بھی تنظیم نے قبول نہیں کی ہے۔ اور حماس نے تردید کی ہے۔ اس لیے اسرائیل کا یہ ’جواب‘ بِلاجواز ہے۔ حماس کو دھمکی دینے کے بعد ہی ایک سولہ سالہ فلسطینی لڑکے محمد حسین ابو خضیر کو وحشیانی انداز سے اس کے گھر سے اٹھا کر لے جایا گیا اور زندہ جلا دیا گیا۔ پہلے تو اسرائیل نے ابوخضیر کو زندہ جلادینے کی تردید کی مگر جب انھیں کے ڈاکٹروں کی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں یہ سامنے آیا کہ اس کے سر پر گہری چوٹ تھی اور اس کی سانس کی نلیوں میں پھیپھڑے کے اندر تک راکھ موجود ملی؛ اور یہ ثبوت ہے کہ جلائے جانے کے وقت وہ سانس لے رہا تھا؛ تو اسرائیل نے اس کی تحقیقات کا حکم دیا۔اتوار (۶؍جولائی) کو اس جرم کے تحت چھ یہودیوں کو گرفتار بھی کرلیا گیا۔ واضح ہو کہ یہ گرفتاری اس اندیشہ کے تحت کی گئی ہے تاکہ غزہ پٹی پر اسرائیلی نوآبادیات پر فلسطینیوں کے احتجاجی حملے پر روک لگائی جاسکے۔ جبکہ پیر کے دن ملنے والی خبروں میں اسرائیل نے تازہ ’’ہوائی حملوں میں سات ’حماس دہشت گردوں‘ کو ہلاک بھی کیا‘‘۔ منگل کو ہوائی حملوں میں اضافہ کر دیاگیا۔ امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی ترجمان ’جین ساکی‘ Jen Psaki  نے واشنگٹن میں یہ بیان جاری کیاکہ امریکہ راکٹ حملوں کی مذمت کرتا ہے اور اسرائیل کی حمایت کرتا ہے کہ اسے ان راکٹ حملوں سے اپنے دفاع کا پورا پورا حق ہے۔
یہ بھی یاد رہے کہ مذکورہ اسرائیلی نوجوان ۱۲؍جون کو لاپتہ ہوئے تھے اور ان کے لیے فلسطینی علاقوں اور غربِ اردن میں بڑا سرچ آپریشن کیا گیا تھا۔ چارسو سے زیادہ فلسطینیوں کو گرفتار کیا گیا تھا اور اسرائیلی فوج کے ساتھ لڑائی میں پانچ لوگ ہلاک بھی ہوئے تھے۔ پھر اُن نواجوانوں کی لاشیں حلحول قصبے میں ملی تھیں۔ اطلاع پاتے ہی بڑی تعداد میں اسرائیلی فوجیں وہاں پہنچ گئی تھیں۔اسرائیل سیکوریٹی ایجنسی نے حماس کے دو ارکان مروان القواسمۃ اور عامر ابوعیشۃ کے اس واقعہ میں ملوث ہونے کا ’شبہ‘ ظاہر کیا تھا۔ اسرائیلی فوج نے ان دونوں کے گھروں پر بارودی مواد کے ساتھ حملہ کیا، فلسطینی عینی شاہدین کے مطابق ابوعیشۃ کا گھر تباہ ہوگیا ہے۔
ابوخضیر کی تدفین کے بعد مشرقی یروشلم اور اسرائیل کی عرب بستیوں میں بے چینی پھیل گئی تھی۔ شدت پسند صیہونیوں نے ان کے گھروں کی دیواروں پر ’’خون کا بدلہ خون‘‘ جیسے اشتعال انگیز نعرے لکھ دئیے تھے اور اپنی تازہ انتقامی کارروائیوں کا آغاز کردیا تھا۔ اسرائیلی وزیرِ اعظم بنیامن نیتن یاہو نے کھلے طور سے ’جواب‘ دینے کا اعلان کرکے اس دہشت کو دوچند کردیا تھا اور اس اشتعال میں تیل کا کام کیا تھا۔ یاد رہے کہ بنیامن نیتن یاہو نے کہا تھا کہ ’’حماس کو اس کی قیمت چکانی پڑے گی!‘‘ اور جواب میں حماس نے اسرائیلی نوجوانوں کے اغوا و قتل کے الزامات کی تردید کی تھی اور کہا تھا کہ ’’ان کے خلاف کوئی بے سبب انتقامی کارروائی کی گئی تو اسرائیل کے لیے جہنم کے دروازے کھل جائیں گے‘‘۔ یہ بدبختی بھی سامنے آئی کہ فلسطینی صدر محمود عباس نے یہودی بچوں کے اغوا اور قتل پر اپنا ردّعمل میڈیا میں تو ظاہر کیا لیکن فلسطینی لڑکے کی شہادت پر اپنا کوئی تاثر نہیں دیا۔ محمود عباس نے اسرائیلی نوجوانوں کے قتل کی مذمت کی تھی اور اس پر ندامت کا اظہار کچھ ایسے انداز میں کیا تھا کہ بِل حماس کے نام ہی پھٹتادکھائی دیتا ہے اور اسرائیل کے ناپاک عزائم کو کھادپانی ملتا نظر آتا ہے۔محمود عباس نے فلسطینیوں کو کٹہرے میں کھڑا کردیا ہے۔ یہ کیا سیاست ہے اور اس ڈپلومیسی کے کیسے اثرات مرتب ہوں گے ہم اس کا اندازہ لگانے سے قاصر ہیں۔ البتہ ہم ہی نہیں دنیا جانتی ہے کہ فلسطینیوں میں الفتح اور حماس کے نام سے ہو یا کسی اور نام سے، بنیادی طور پر اتحاد لازمی ہے تاکہ ان کے کاز اور حق کو کوئی نقصان نہ پہنچ سکے۔
یہ بات تو جگ ظاہر ہے کہ میڈیا میں جو بھی خبریں آتی ہیں اس کا سلسلہ یا تو اسرائیلی ذرائع ہوتے ہیں یا امریکی ذرائع۔ انھیں ذرائع نے یہ بات نشر کی کہ اسرائیلی بستیوں پر فلسطینیوں نے مسلسل راکٹ حملے کیے اور متعدد گھروں اور بلڈنگوں کو نقصان پہنچایا۔ اسرائیلی اخبار ’یدیوت احارنوت‘ نے لکھا کہ فلسطینی مزاحمت کاروں نے جمعرات کی شب میں اسرائیل کے ’سدیروت‘ اور ’سدوت ہنیغوف‘ نامی دو کالونیوں پر کئی راکٹ حملے کیے، کئی عمارتیں تباہ کیں، درجنوں اسرائیلی زخمی ہوئے اور علاقے کی بجلی منقطع ہوگئی۔ اسی طرح اس کالونی میں ایک راکٹ اس عمارت پر گرا جو اس کالونی کے میئر کی رہائش گاہ ہے۔ جبکہ ایک اور راکٹ اس وقت گرا جب صیہونی حکومت کے وزیرِ خارجہ ’یائیرلاپید‘ سدیروت کالونی میں موجود تھے۔ ان خبروں میں بے ایمانی اس طرح جھلکتی ہے کہ اسرائیلی نقصانات کو گن گن کر یا جھوٹ کی بنیادوں پر بھی گنا تو دیا جاتا ہے مگر اسرائیل کے تکنیکی طور سے پرفیکٹ حملوں اور فضائی بمباریوں میں فلسطینیوں کے کتنے نقصانات ہوتے ہیں انھیں کبھی بیان نہیں کیا جاتا۔



تازہ وارداتوں کے بعداسرائیلی وزیرِ اعظم کا یہ جذباتی لطیفہ بھی قابلِ داد ہے ؛ کہتے ہیں ’’اخلاق ہمیں ہمارے دشمن سے ممتاز کرتا ہے، وہ موت کو مقدس سمجھتے ہیں، ہم زندگی کو مقدس سمجھتے ہیں‘‘! کاش نیتن یاہو کو کوئی آئینہ دکھا سکے کہ اصلی ’’موت کا سوداگر‘‘ کون ہے؛ کم از کم تازہ ترین ابوخضیر نامی معصوم بچے کے واقعہ میں ہی وہ اپنا چہرہ دیکھ لیں جسے زندہ جلا دیا گیا اور جلانے والے یہودی ہیں۔
جن چھ اسرائیلی نوجوانوں کو ابوخضیر کے قتل کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے انھوں نے اعترافِ جرم کرلیا ہے۔ اسرائیل کے ٹی وی ’چینل 10‘ کے مطابق ان میں ایک انتہائی معروف ربّی کا بیٹا ہے اور پانچ اس کے پوتے ہیں۔ اس پر کافی افسوس اور مذمت کا اظہار کیا جارہا ہے۔ کافی طویل رپورٹیں اور تاثرات بھی سامنے آ رہے ہیں، ابوخضیر کے والدین سے ٹیلفونک ہمدردیاں بھی کی جارہی ہیں مگر مجرمین کو سزا کیا ملے گی اس کا ہلکا سا ذکر بھی نہیں ملتا۔
جہاں تک قیامِ امن کی کوششوں کا تعلق ہے تو اس علاقے میں حماس سے ’قریبی رابطے‘ ہونے کی وجہ سے مصری انٹیلی جنس افسران اسرائیل اور حماس کے درمیان صلح کرانے کی کوششیں کررہے ہیں۔ وہ ایسا پہلے بھی کرتے آئے ہیں۔ فلسطینیوں نے انتفاضہ ثلاثہ کی تحریک چھیڑنے کی خواہش ضرور ظاہر کی ہے مگر اس پر ابھی غوروفکر جاری ہے۔
فلسطینیوں سے زبانی ہمدردی دنیا بھر میں کئی دہائیوں سے کی جارہی ہے۔ اب وہ دن آچلے ہیں کہ انھیں دھیرے دھیرے (حماس کانام لے کر) میڈیا کے ذریعہ دہشت پسند بنا دیا گیا ہے۔ محض اس لیے کہ ان کی اکثریت مسلمان ہے۔ انصاف و عدل کی دہائیاں دینے والی دنیا کی بڑی طاقتوں کو پتہ نہیں فلسطینیوں کو انصاف دلانے میں کیا دشواری اور الجھن ہے یا دلچسپی نہیں ہے۔ کوئی ایک بڑا ملک بھی اسرائیل کو کھل کر یہ بات کہنے کے لیے تیار نہیں ملتا کہ وہ غاصب ہے، جابر ہے اور فلسطینیوں کی سرزمین پر گھس پیٹھیا ہے۔ یہودیوں پر پوری انسانی تاریخ میں مسلمانوں کے ہاتھوں کبھی ظلم کا شکار ہوتے نہیں دیکھا گیا ہے۔ البتہ عیسائیوں نے اپنے دورِحکومت میں ہمیشہ یہودیوں پر عرصۂ حیات رہ رہ کر تنگ کیا ہے۔ مگر کیا جادو کی دنیا ہے کہ آج یہودیوں اور عیسائیوں میں گاڑھی چھنتی ہے۔ خیر سے الٰہ العالمین نے پندرہ سو برسوں قبل ہی یہ انتباہ پوری انسانیت کے لیے لکھ دیا ہے کہ یہود و نصاریٰ ایک دوسرے کے دوست اور حلیف ہیں اور تاقیامت رہیں گے۔
مقطع کی بات میں بنیامن نیتن یاہو کا وہ بیان سن لیں جو بین السطور اصل درد اور وجہِ استبداد ظاہر کرتا ہے کہ ’’یہ (حالیہ) واقعہ حماس اور الفتح کے درمیان اتحاد کا نتیجہ ہے جو اسرائیل کے وجود سے ہی انکاری ہیں‘‘۔ دونوں فلسطینی تنظیموں کے درمیان برسوں کی تفریق کے بعد اپریل میں مفاہمت ہوئی تھی اور گذشتہ ماہ ہی دونوں نے مل کر حکومت بنائی ہے۔
ایک جانب پوری تربیت یافتہ اور جدید ترین اسلحوں سے لیس فوج ہے اور دوسری طرف ایک عوامی گروہ، بغیر کسی فوجی تربیت والا، جنھیں بین الاقوای میڈیا جارح ملیشیا، دہشت گرد اور نہ جانے کیسے کیسے الفاظ میں یاد کرتا ہے۔ نئی دنیا کے لوگوں اور میڈیا میں شامل نوجوانوں کو بھی ان وارداتوں کا ماضی نہیں معلوم، فلسطینیوں کی نئی نسل بھی شاید لڑائی کی اصل وجوہات سے واقف نہیں ہوگی۔ انھیں بھی بس اتنا ہی سمجھتا ہوگا کہ اسرائیلی کسی نہ کسی بہانے سے ان کے آشیانے اجاڑتے رہتے ہیں اور جانیں لیتے رہتے ہیں، انھیں دنیا میں انصاف دلانے کی آواز اٹھانے والے لوگ بھی شاید کم رہ گئے ہیں۔


Wednesday, June 18, 2014



At times instead of patting the back of Muslims
Credit is given to the Police

Dr. Rehan Ansari

 نریندر مودی کی حلف برداری کو ابھی تین ہفتے بیتے ہیں۔ ان تین ہفتوں میں ہندو فرقہ پرستوں کے حوصلے مبینہ طور سے کتنے بلند ہوئے ہیں اس کا مظاہرہ مہاراشٹر میں خصوصیت سے دیکھنے کو ملا ہے۔ آگے گفتگو سے قبل آئیے ہم ان تین ہفتوں کے دستاویزی واقعات کو مندرج کر لیں جن کی تفصیلات اخباروں میں آچکی ہیں: ۱] ناندیڑ میں ۳؍مئی کو ایک مسلم نوجوان کو پکڑ کر زبرستی داڑھی مونڈھ دی گئی اور مارا پیٹا بھی گیا۔ ۲] ۳۰؍ مئی کو بھیونڈی میں ’’گوونش رکھشا اہنسا مہا سبھا‘‘ کا انعقاد کیا گیا۔ ۳] پونہ میں ایک نوجوان آئی ٹی انجینئر محسن شیخ کو ۲؍ جون کو قتل کردیا گیا۔ ۴] ۹؍ جون کو شولاپور میں امبیڈکر کے مجسمے کی بےحرمتی کر کے مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا۔ ۵]چکھلی،بلڈانہ میں ایک اور محسن شیخ کو نام پوچھ کر آٹو میں بٹھا کر زدوکوب کیا گیا۔
ان کے علاوہ کچھ چھوٹے موٹے واقعات ہو سکتا ہے کہ خبر بننے سے رہ گئے ہوں۔کیا یہ سب اتفاقات ہیں؟ یا منظم طور سے فسادات بھڑکانے کی سازشیں؟ ان سازشوں میں کامیابی نہ مل پانے کی وجہ کیا ہو سکتی ہے؟ کیا مہاراشٹر پولیس کی چابکدستی؟ ریاستی وزیرِ داخلہ آر آر پاٹل نے حسبِ سابق روایتی بیان دیا اور امن و امان کا کریڈٹ اپنی پولیس کو دیا۔

 کیا یہ واقعی پولیس کی کارکردگی تھی یا مسلمانوں کا فرقہ وارانہ فسادات کےنتائج سے آگہی، صبر و تحمل، حسنِ تدبر اور بردباری، نیز ملک و ریاست سے ان کی وفاداری؟ آر آر پاٹل کےبیا ن کے فوراً بعد ان کے لیڈر شردپوار کا بیان ان واقعات کے پس منظر میں پیارے آرآر (آبا) کے لیے کسی تازیانہ سے کم نہیں تھا کہ مرکز میں بی جے پی حکومت کے قیام کے ساتھ ہی فرقہ پرستی بڑھ گئی ہے، وہ تنظیمیں بھی اب سر ابھارنے لگی ہیں جو اب تک خاموش تھیں اور مسلمانوں پر حملہ کرنے لگی ہیں۔لیکن آرآر پاٹل کی موٹی چمڑی اسے بھی سہہ گئی۔
درج بالا واقعات کے علاوہ فرقہ واریت کا یہ نزلہ پڑوسی ریاست کرناٹک کے شہر منگلور تک پہنچا اور وہاں بھی ۲۷؍ مئی کو لاؤڈ اسپیکر پر فجر کی اذان سے متعلق ایک کم معروف ہندو تنظیم راشٹریہ ہندو آندولن نے آندولن چھیڑ دیا۔
ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ان واقعات کی یاددہانی کے لیے ہلکی ہلکی متعلقہ تفصیلات قارئین کو بتلا دیں۔ لوک سبھا انتخابات کے خاتمے کے ساتھ ہی، نتائج کے اعلان سے پہلے ہی، ہندوتوا وادی چھوٹی بڑی تنظیموں کے حوصلے کچھ یوں بلند ہوئے کہ مشہورِ عام مقولہ ’’سیّاں بھئے کوتوال اب ڈر کاہے کا‘‘ ان کی حرکت و عمل سے منعکس ہونے لگا۔
ناندیڑ میں لوک سبھا انتخابات کے خاتمے کے ایک ہفتے بعد ہی ایک مسلم نوجوان محمد فردوس محمد ابراہیم کو شرپسندوں کے ایک گروہ نے نام پوچھا اور آٹورکشا میں ٹھونس کر اس کی ڈاڑھی مونڈھ دی اور کافی مارا پیٹا۔ حتیٰ کہ وہ کافی زخمی ہوگیا۔ بہرحال کسی طرح اس کی جان بچ گئی اور کئی دنوں تک اسپتال میں رہنا پڑا۔ ادھر مقدس گائے کا قصہ بھی چھڑا۔بھیونڈی میں مئی کی آخری تاریخوں میں یکے بعد دیگرے کئی عوامی مقامات پر ہورڈنگ نظر آنے لگے۔ ان ہورڈنگز میں ۳۰؍ مئی کو منعقد ہونے والی ’گوونش رکھشا اہنسا مہا سبھا‘ میں شرکت کی اپیل کے ساتھ چند باتیں اور گائے اور بچھڑے کی تصویر کچھ اس انداز سے پیش کی گئی تھی کہ ایک خوف حملہ آور ہوجاتا تھا۔ لوگوں میں عجیب قسم کی مشتبہ سرگوشیاں اور چہ میگوئیاں ہوتی رہیں۔ ہر ہفتے کے معمول کے برخلاف جمعہ کا دن ہونے کے باوجود ایک سناٹا سا سڑکوں پر پھیلا تھا۔ ان باتوں کی بنیاد میں ظاہر سی بات ہے کہ لوگوں کے دلوں میں عیدالاضحٰی پر مذہبی امور ی ادائیگی سے متعلق شک و شبہات اٹھ رہے تھے۔ اس مہاسبھا کو چند پابندیوں کے ساتھ اجازت نامہ ملنے پر نارضگی کا اظہار کیا گیا اور حکومت اور پولیس کو ’’مسلمانوں کا نام‘‘ لیتے ہوئے دبے لفظوں میں دھمکیاں بھی دی گئیں۔ جب حکومت کی جانب سے کوئی امتناعی ردّعمل سامنےنہیں آیا تو ان شرپسندوں نے فیس بک پر متنازعہ امیج کا حیلہ اختیار کرکے پونہ میں نماز کی ادائیگی سے گھرلوٹتے ہوئے نوجوان مسلم آئی ٹی انجینئر محسن شیخ پر جان لیوا حملہ کردیا۔ مساجد اور مذہبی مقامات کو خوب نقصان پہنچایا گیا۔ قرآن کی بے حرمتی کی گئی۔ محسن کی موت نے میڈیا کی لہریں کچھ اونچی اٹھا دی تو وسیع پیمانے پر اس پر مباحث ہوئے۔ ان مباحث میں خصوصی مذمتیں تو خوب ہوئیں مگر ہندوتواوادیوں کی عمومی سرکوبی کرنے کی کوئی تجویز سامنے نہیں آئی۔ شولاپور میں امبیڈکر کے مجسمے کی بے حرمتی (افواہ؟) کو بہانہ بنا کر ایک مرتبہ پھر مسلمانوں کی املاک اور مساجد کو نشانہ بنایا گیا۔ بلڈانہ میں ایک دیگر محسن شیخ کو نماز کے بعد گھیر لیا گیا اور آٹو میں بٹھاکر دوسرے مقام پر لے جاکر مارا پیٹا گیا۔ اگر وہ شور نہ مچاتا اور کچھ لوگوں کی بروقت امداد نہ ملی ہوتی تو ممکن ہے اسے بھی جان سے ہاتھ دھونا پڑتا!
یوں بھی اپنے وطن میں شرپسند مسلمانوں پر حملہ کرنے کے لیے بہانے ڈھونڈتے یا پیدا کرتے رہتے ہیں اور دنیا جانتی ہے کہ مسلمانوں کا کوئی قصور نہ رہتے ہوئے بھی سرکاری اہلکاروں اور وزیروں کی سرپرستی میں انھیں ایسے بیشتر مواقع ملتے رہے ہیں۔ جانے کتنے بے گناہوں کو سالہا سال جیلوں اور کوٹھریوں میں گذارنے کے بعد ملک کی عدالتِ عالیہ نے بے گناہ قرار دیا ہے۔ لیکن ایک مفروضہ ہے جو سائے کی طرح ساتھ لگا ہوا ہے۔
اس ضمن میں ایک مشہور شعریاد آتا ہے کہ:
جب نیا فتنہ زمانے میں کہیں اٹھتا ہے
وہ اشارے سے بتا دیتے ہیں تُربت میری
درج بالا واقعات میں سے کوئی ایک بھی ماضیٔ قریب میں ہوتا تھا تو ہم سب جانتے ہیں کہ بڑے پیمانے پر فسادات کا سبب بن جاتا تھا۔ لیکن محض ایک مہینے کے اندر آدھ درجن واقعات پیش آئے اور کہیں کوئی فساد نہیں ہوا! کیا اس میں واقعی پولیس یا حکومت کی مستعدی اور فرض شناسی کو دخل ہے؟؛ اس باب میں ہم پُرزور آواز میں ’’نہیں، ہرگز نہیں‘‘ کہتے ہیں۔ یہ فسادات تو اس لیے نہیں ہو سکے کہ مسلمانوں نے عمومی طور سے، علاقہ در علاقہ، تدبر، صبر و تحمل، وطن کی سلامتی اور بردباری سے کام لیا۔ ماضی کے فسادات کے انجام سے سبق لیا۔ وگرنہ ایک علاقہ کا واقعہ دوسرے علاقے کے فساد کا سبب بنتے ہوئے بھی دیکھا گیا ہے۔

 یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ مسلمانوں کو انفرادی طور سے گھیرنے اور مارنے والے عموماً یہ کہتے رہتے ہیں کہ ’’مسلمانوں کو اس ملک میں رہنے کا کوئی حق نہیں ہے‘‘۔ کون اس ملک میں رہ سکتا ہے اور کون نہیں، آخر انھیں یہ حکم یا فیصلہ صادر کرنے کا اختیار کس نے اور کیونکر دیا ہے؟ یہ کس بنیاد اور ذہنیت کی پیداوار ہے؟
مسلمانوں کو ہمیشہ شک کی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے۔ حساس دنوں میں جب پولیس میٹنگیں لیتی ہے تو سبق مسلمانوں کو پڑھاتی ہے۔ دوسری قومیں اور اقلیتیں مبرا سمجھی جاتی ہیں۔ مسلمانوں کو قابلِ اصلاح سمجھنے والوں کے سامنے دست بستہ یہ سوال کیا جاتا ہے کہ دوسری (ہندو پڑھیں) قوموں کو فارغ الاصلاح کیوں سمجھا جاتا ہے۔ ان کے کیمپوں اور مہاسبھاؤں میں کیسی حب الوطنی سکھائی جاتی ہے؟ ان کو تادیب و تنبیہہ کب کی جاتی ہے؟
آخر میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ مہاراشٹر کی موجودہ سیاسی صورتحال ایسی ہے کہ کانگریس اور این سی پی کا ایک دوسرے کے بغیر وجود ہی بے معنٰی ہے۔ وہ ایک دوسرے پر سیاسی مجبوریوں کے تحت تنقیدیں کرسکتے ہیں لیکن ایک دوجے کے بغیر اقتدار میں باقی نہیں رہ سکتے۔ مہاراشٹر کے مسلمان کو نسبتاً زیادہ حساس بھی سمجھا جاتا ہے۔ درج بالاواقعات کو اسٹیج کرنے کے لیے لوک سبھا انتخابات کے بعد مہاراشٹر کو ہی چنا جانا برسرِ اقتدار پارٹیوں کے در پر دستک دینے کے لیے کافی سمجھنا چاہیے۔ کیونکہ یہاں کی بیشتر لوک سبھا سیٹوں پر بھگوا محاذ قابض ہوا ہے اور اس کامیابی کی تہہ میں کام کرنے والے جذبات و احساسات کو ٹھنڈا پڑنے سے پہلے اسمبلی انتخابات کے لیے بھنانا ضروری ہو گیا ہے۔ کانگریس این سی پی محاذ مسلمانوں کو سمجھانے بجھانے کی بجائے برادرانِ وطن کو وطن سے اصلی محبت کے سبق پڑھانے کی جانب توجہ دے تو شاید اس کی نیّا پار لگ سکے گی۔ نہیں تو، منترالیہ پر یک رنگا پرچم لہرا سکتا ہے۔

Monday, June 2, 2014

Pope Favours Palestine State
Invites Israel and Palestine for Joint Prayer for Peace

Dr. Rehan Ansari
مئی کے آخری ہفتے میں عیسائی مذہبی پیشوا پوپ فرانسس کا دورۂ ’ارضِ مقدس‘ اپنے اندر کئی خصوصیات رکھتا ہے۔مشرقِ وسطیٰ کے اپنے سہ روزہ دورہ کے دوران پاپائے روم فرانسس نے جو بیانات دیئے اور خطہ میں جن کوششوں کی ضرورت پر زور دیا اس کی بابت یہ کہا جاسکتا ہے کہ دوجانبی گفتگو اور مسئلہ میں ایک تیسرا اور خوشگوار راس وجو د میں آیا ہے اور اب یہ مثلث بن گیا ہے۔ سرِدست یہ تیسرا راس امید افزا بھی ہے اور خوش آئند لگتا ہے۔
دنیا میں ایک عجیب مشاہدہ یہ کیا جاسکتا ہے کہ اسلام کے علاوہ (چونکہ اسلام میں کوئی اعلیٰ ترین عالمی مذہبی شخصیت کا منصب نہیں ہوتا؛ یہاں صرف اور صرف قال اللہ و قال الرسول ﷺ کی اہمیت ہے) تمام چھوٹے بڑے مذاہب کے پیشواؤں یا عالموں کو عوام اور جملہ حکومتیں ایک خصوصی اہمیت اور وقار عطا کرتی ہیں۔ ان کی باتوں پر کوئی تنقید شاذونادر بھی نہیں دیکھی جاتی۔ ان میں بھی پاپائے روم کو امتیازی شان و مقام حاصل ہے۔اس سبب سے بھی اس دورہ اور پوپ کے فرمان کی اہمیت زیادہ ہے۔
اپنے دورے کے دوسرے دن بیت اللحم میں مانجر اسکویر کے مقام پر آؤٹ ڈور ماس سے خطاب کرتے ہوئے اسرائیلی حکام اور فلسطینی اتھاریٹی کو انھوں نے تنازعہ کا ’’امن پرور حل‘‘ نکالنے کے لیے ویٹیکن مدعو کیا ۔ پوپ نے حضرت عیسیٰؑ کے حوالے سے اپنے خطاب میں کہا کہ ’شہزادۂ امن و سلامتی‘ کی اس جائے پیدائش پرمیں فلسطینی صدر محمود عباس اور اسرائیلی صدر شمعون پیریز کو میرے ساتھ خدا کے حضور صدقِ دل سے عطائے امن طلب کرنے کے لیے دعوت دیتا ہوں۔ اس دعا کے لیے میں ویٹیکن میں آپ کو اپنے گھر  پر مدعو کرتا ہوں۔ پوپ نے مزید کہا کہ قیامِ امن ایک مشکل ترین کام ہے لیکن امن کے بغیر جینا تو حد سے زیادہ دشوار اور مستقل تردّد و پریشانی کا منبع ہے۔ اس سرزمین کی ( اور پوری دنیا کی) عورتوں اورمردوں نے ہم سے درخواست کی ہے کہ اس خطہ میں امن کی پیدائش و قیام کے لیے خدا کے حضور دعا کریں۔
فلسطینی صدر نے پوپ کی دعوت کو قبول کرلیا ہے اور وہ ویٹیکن جانے کے لیے تیار ہیں۔ ایسی اطلاع فلسطینی لیجسلیٹیو کونسل کے رکن حنان اَشروی نے دی ہے۔اسرائیلی صدر کے دفتر سے بھی یہ اعلامیہ جاری کیا گیا ہے کہ پوپ کی  دعوت کو خوش آمدید کہا جاتا ہے اور اسرائیلی صدر اس خطہ میں قیامِ امن کے لیے  اٹھنے والے ہر قدم کی ستائش کرتے ہیں۔ مگر اسرائیل کی جانب سے ابھی تک قبولِ دعوت کی ہامی نہیں بھری گئی ہے۔


کیتھولک عیسائیوں کے پیشوا کا ’ارضِ مقدس‘ کی جانب یہ پہلا سفر تھا۔ پوپ فرانسس نے دورہ کے روایتی پروٹوکول سے اعراض کرتے ہوئے اچانک دورانِ سفر اس سخت اور مضبوط ’دیوارِ حائل‘ Separation barrier پر رکنے اور اترنے کا ارادہ کرلیا جسے اسرائیل نے ’انتفاضۂ ثانی‘ کے بعد یہودیوں پر نام نہاد فلسطینی حملوں سے حفاظت کے لیے مغربی سرحد (غزہ) پر تان دیا ہے (اور فلسطینیوں کی زرعی زمینوں کو بھی ہتھیا لیا ہے)، اپنے مقبوضہ علاقے پر ایک تاریخی خطِ تفریق کھینچ دیا ہے۔ اصل میں اس دیوار پر جابجا کچھ دلدوز نوشتے ہیں جنھوں نے پوپ کی توجہ کھینچ لی اور اس کے بعد یہ تاریخی وقفۂ سفر وجود پایا۔ اس دیوار پر پوپ نے اپنی ہتھیلیاں رکھ کر دعائیں کی۔ ان کے قریب ہی ایک بچی نے اپنے ہاتھوں میں فلسطینی پرچم تھام رکھا تھا اور بہت سارے معصوم فلسطینی بچوں نے انھیں گھیر لیا۔ پوپ نے اُن بیچاروں کی اَن کہی داستانَ الم سن لی جو آنکھوں سے بیان ہو رہی تھی۔ان کے اندر کے انسان نے کربِ بیکراں کا احساس کیا اور مشرقِ وسطیٰ کے اپنے دورے کے آخری (تیسرے) دن تمام مشاہدات کے بعد وہ کہہ اٹھے کہ ’’کیا ہم سب بھائیوں اور بہنوں کی مانند ایک دوسرے سے محبت اور احترام نہیں کر سکتے؟، کیا ہم ایک دوسرے کی تکلیفوں کو محسوس نہیں کرسکتے؟، کیا ہم سب تشدد کے ذریعہ خدا کے نام کو بدنام کرنے سے باز نہیں آئیں گے؟‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ تشدد کا جواب تشدد نہیں ہو سکتا بلکہ اسے صرف امن ہی ختم کرسکتا ہے۔
فلسطینی نیشنل اِنیشیئیٹیو (PNI) کے جنرل سکریٹری مصطفیٰ برکتی نے پوپ کے ’دیوارِ حائل‘ پر ہتھیلیاں رکھنے اور سر جھکا کر دعا کرنے کے عمل کی ان الفاظ میں تشریح کی کہ ’’پاپائے اعظم نے صرف کنکریٹ کی دیوار پر ہاتھ نہیں رکھا بلکہ انھوں نے قبضہ جات پر ہاتھ رکھا، انھوں نے نسلی تفریق و تفوق اور تعصب کے نظام پر ہاتھ رکھا، نظامِ تسلب پر ہاتھ رکھا، نظامِ تذلیل و استبداد پر ہاتھ رکھا ہے‘‘۔
پاپائے اعظم نے راست تل ابیب کا سفر کرنے کی بجائے اردن سے فلسطین کے راستے اسرائیل میں داخلہ لیا۔ یہ روایتی پاپائی سفر کے برخلاف رُوٹ تھا۔ اس لیے سبھی اس پر حیرت کا اظہار کر رہے تھے۔ پوپ نے فلسطینی صدر محمد عباس سے گفتگو کرتے ہوئے ’’آزاد فلسطینی ریاست‘‘ کا بھی ذکر کردیا۔اور فلسطین و اسرائیل سے خطہ میں امن کے قیام و فروغ میں حصہ لینے کی درخواست بھی کی۔ پوپ نے کہا کہ کئی دہائیوں سے مشرقِ وسطیٰ میں دردناک تصادم اور جنگیں ہورہی ہیں۔ یہ خطہ لہولہان ہے۔ اس کے جسم پر گہرے، بہت گہرے زخم ہیں، انھیں بھرنا دوبھر ہوچلا ہے۔ یہ بیحد ناقابلِ قبول ہے، اب یہ سلسلہ بند ہوجانا چاہیے۔ جن دنوں یہاں تشدد نہیں ہوتا تب بھی یہاں باہمی بے چینی اور بے اعتمادی کا ڈیرہ ہوتا ہے۔ خطرات موجود رہتے ہیں۔ عدم تحفظ کا احساس گھیرے رہتا ہے۔ حقوق کی سلبی اور نسلی تفاوت کا احساس گہرایا رہتا ہے۔ ہر قسم کی اذیت اور تنازعات کا اندیشہ ہوتا ہے۔


پاپائے اعظم نے دیوارِ حائل سے ہٹنے کے بعد فلسطینی عیسائیوں سے مانجر اسکویر پر خطاب کیا، اس خطاب سے قبل بیت اللحم پر حضرت عیسیٰؑ کی بچپن کی شبیہ سے مزین اسٹیج پر چند نغمے پیش کیے گئے جن میں حضرت عیسیٰؑ کی فلسطینیوں کے تئیں محبت اور ان کے حقوق کے لیے جدوجہد پر مضامین شعربند تھے۔ پوپ اس سے بھی بہت متاثر ہوئے۔ پھر وہاں موجود رفیوجی کیمپ میں مقیم چند خاندانوں کے ہمراہ لنچ لیا۔ اور اس کے بعدبیت اللحم سے تل ابیب کی جانب ہیلی کاپٹر سے پروا ز کیا۔
عیسائی پیشوا کا تل ابیب میں خیر مقدم کرنے کے لیے اسرائیلی صدر شمعون پیریز بذاتِ خود موجود تھے۔ انھوں نے مزامیرِ داؤدؑ (مناجاتِ داؤدؑ) کی پاسداریٔ روایت میں ان الفاظ میں پوپ خوش آمدید کہاکہ ’’خدا کے نام سے خیرمقدم کرتا ہوں، بابِ یروشلم پر آپ کا استقبال ہے‘‘۔ یہاں بھی جواب میں پوپ اپنے روایتی انداز سے ہٹ گئے اور ’’بروسیلز‘‘ میں یہودی میوزیم پر سنیچر کے روز ہونے والے حملہ کی مذمت کرتے ہوئے اپنے گہرے رنج کا اظہار کیا اور ایسے حملوں کو بند کرنے کی اپیل کی۔ یروشلم میں حفاظتی انتظامات اس قدر سخت رکھے گئے تھے کہ مقامی عیسائیوں نے عمومی طور پر پوپ کو نہ دیکھ پانے اور نہ مل سکنے کی شکایت کی۔

پاپائے اعظم نے محمود عباس سے ملاقات کے دوران فلسطینی ریاست کو تسلیم کیے جانے کی بھرپور وکالت کی لیکن ساتھ ہی اسرائیل کو بھی اسی حیثیت سے تسلیم کیے جانے کی بات کہی تاکہ دونوں ممالک مستقل جغرافیائی سرحدوں کے ساتھ بین الاقوامی حیثیت سے مسلّم رہیں اور خطہ میں امن قائم ہو۔قیامِ امن کی کوششیں چہار جانب سے یکساں ہونی چاہیے اور کسی بھی ملک یا قوم کو اسے سبوتاژ کرنے یا تباہ کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ یہ ذمہ داری سب کی ہو نہ کہ کسی ایک ملک یا قوم کی۔ بیت اللحم کے خطاب میں پوپ نے محمود عباس سے فلسطینی عیسائیوں کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے کی درخواست کی اور ان کے مبینہ انخلا پر اپنی فکر جتائی۔
واضح ہوکہ فلسطین اسرائیل گفتگو کو حال ہی میں جھٹکا پہنچا تھا جبکہ اسرائیل نے فلسطینیوں کی ریاست کو تسلیم کیے جانے کی کوششوں کو یکطرفہ قرار دیا تھا اور فلسطینیوں نے مغربی کنارے پر نئی اسرائیلی بستیوں پر اعتراض کیا۔
پوپ کے اس دورہ کے ایک ایک لمحہ اور ایک ایک بات کا، ہر حرکت و تصویر اور ویڈیو کا انتہائی باریک بینی سے تجزیہ اور تبصرہ کیاجارہا ہے۔ پوپ کی آمد اور دیوارِ حائل سے متعلق واقعات اور عیسائیوں سے خطاب کی قدامت پسند اسرائیلی عوام نے مخالفت بھی کی۔
جن حالات میں پوپ کا یہ دورۂ ارضِ مقدس پورا ہوا ہے اسے یقینی طور سے مشہور ہونا تھا۔ واضح ہو کہ پوپ کے ہمراہ سفر میں ان کے دو دیرینہ دوست ارجنٹینا کے ربیّ (یہودی عالم) ’ابراہام اسکورکا‘ اور ایک مسلم مفتی ’شیخ عمر عبود‘ بھی ہیں۔ عمر عبود، ارجنٹینا کی مسلم کمیونیٹی میں کافی مقبول ہیں۔ اپنے ہمسفروں کی وجہ سے پوپ نے اپنے اس سفر کو بین العقائد رواداری کی علامت و اشاعت کا نقیب بھی قرار دیا ہے۔


ہم نے اوپر لکھا ہے کہ پوپ کو اور ان کے فرامین کو دنیا کے دیگر ادیان کے پیشواؤں کے مقابلے میں ایک امتیازی حیثیت دی جاتی ہے۔ دنیا کی اکثریتی آبادی عیسائی مذہب اور خصوصاً کیتھولک ہی ہے۔ اس لیے پوپ کی شخصیت اور فرامین کو یکسر نظرانداز کرنا کسی بھی ملک کے لیے مناسب نہیں ہوتا۔ مشرقِ وسطیٰ میں اہلِ کتاب بستے ہیں۔ مسلمان، عیسائی اور یہودی۔ فلسطین میں مسلمانوں اور یہودیوں کے مابین حرب و جدال کئی دہائیوں سے جاری ہے۔ اس کے اثرات عیسائی آبادیوں پر بھی پڑتے ہیں۔ اس پس منظر میں یہاں قیامِ امن کی پاپائی کوششیں خود عیسائیوں کے تحفظ اور سلامتی کو بھی یقینی بنانے کی جانب ایک قدم کہا جا سکتا ہے۔ اسرائیل میں قدامت پسند یہودی جتنا مسلمانوں سے متنفر ہیں اس سے کہیں زیادہ عیسائیوں سے بھی نفرت کرتے ہیں۔ اسی لیے پاپائے روم کے پیغامِ امن کو اس سے قبل کہ پیریز اینڈ کمپنی قبول کریں، اسرائیلی میڈیا میں انتہائی اسٹریٹیجک کالم نویسیاں اور تبصروں کی اشاعت و نشریات شروع ہوچکی ہیں تاکہ اس دورہ کی اہمیت کو کم یا ختم کیا جاسکے اور اسے خالصتاً مذہبی دورہ کرکے بتلایا جا سکے۔ یہ کوشش کی جارہی ہے کہ دنیا کے دیگر ممالک اور سربراہانِ مملکت اس دورے کی تفصیلات نہ جان سکیں اور اسرائیل کی من مانیوں پر کسی بھی قسم کا خارجی دباؤ نہ لایا جاسکے۔ لیکن یہ وقت ہے کہ پوپ کے دورہ کو نہ سہی ان کے فرامین اور پیغامات کو اہمیت دی جائے اور فلسطین اسرائیل تنازعہ کا پائیدار اورمستقل حل نکالا جاسکے۔ اس موقع کو ہاتھ سے جانے دیا گیا تو نہ جانے کتنے برسوں یا دہائیوں کے بعد ایسا وقت نصیب ہوگا۔ کم سے کم اسرائیل پر اس وقت ویٹیکن میں پوپ کے گھر میں جانے اور دعا میں حصہ لینے کے لیے تو دباؤ ڈالنا ضروری ہے۔
ہمیں اچانک منیر آرزوؔ کا ایک شعر حسبِ حال یاد آگیا:

دل نے گھبرا کے پکارا ہے خدا کو شاید
آج آوازِ اذاں آتی ہے بُت خانے سے


Wednesday, April 30, 2014


Pakistan: The Deadliest Country for Journos
Dr. Rehan Ansari
جیو نیوز چینل کے اینکر پرسن حامد میرؔ پر تازہ ترین حملہ پاکستان میں صحافیوں پر کوئی تازہ حملہ نہیں ہے۔ کیا دنیا کے کسی اور ملک میں آپ نے عوام کے ہاتھوں میں ایسے پلے کارڈ دیکھے ہیں ہیں جن میں اپیل کی گئی ہو کہ ’’صحافیوں پر حملے مت کرو‘‘؟۔ شاید یہ منظر پاکستان کے علاوہ متواتر کہیں اور دیکھنے کو نہ ملے۔ کیونکہ پاکستان میں ہی صحافی کسی جنگی صورتحال کے بغیر اپنی جان ہاتھوں میں لے کر رپورٹنگ کرتے پائے جاتے ہیں۔ حکومت کے متوازی کوئی اور طاقت اپنا دبدبہ رکھتی ہے؛ اور شاید حکومت بھی اس سے ڈرتی ہے۔


ایک بات اور دیکھنے میں آئی کہ حامد میرؔ خود پاکستانی جرنلسٹ ہیں اور ان پر حملہ بھی پاکستان میں ہی ہوا ہے، مبینہ طور سے پاکستانیوں نے ہی کیا ہے، اس لیے اس پر بین الاقوامی میڈیا میں احتجاج کافی دھیمے انداز میں ہوا۔ افسوس کا روایتی اظہار کیا گیا، ایک دو جگہ مذمت کی گئی اور ان کی موجودہ طبی حالت کی خبروں کے علاوہ زیادہ کچھ رائے زنی کی گئی نہ زیادہ احتجاج ہوا۔ اداریے لکھے گئے نہ کالم سیاہ ہوئے۔ پیمانہ مختلف لگا۔ اس رویہ کے بعد ہم سوچنے لگے کہ صحافیوں میں بھی رنگ و نسل ہوتی ہے، جغرافیہ ہوتا ہے، سب کے خون کی قیمت الگ الگ ہوتی ہے۔ یہ سوال بھی سامنے کھڑا آنکھیں مٹکاتا رہا کہ اگر کسی پاکستانی (مسلمان پڑھیں) صحافی پر دوسرے ملک میں حملہ ہوجائے تو کس قسم کا ردّعمل سامنے آئے گا؟ اس احساسِ زیاں کوش کا اصل ذمہ دار کون ہے؟ حملہ آور، پاکستانی حکومت ، پاکستانی عوام یا خود بین الاقوامی میڈیا برادری؟
حامد میر پر حملوں کے فوراً بعد آنے والی خبروں میں حامد میر کے بھائی عامر میر نے اس حملے کا الزام پاکستانی انٹیلی جنس آئی ایس آئی کے سر تھوپا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’آئی ایس آئی پاکستان کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے‘۔ خود حامد میر نے دو ہفتوں قبل ہی کہہ دیا تھا کہ اگران پر ابھی کوئی حملہ ہوتا ہے تو اس کی ذمہ دار آئی ایس آئی ہوگی۔ ویسے تادمِ تحریر حملہ آوروں کے تعلق سے کوئی علم نہیں ہوسکا ہے۔ واضح ہو کہ حامد میر پاکستانی فوج کو حاصل اختیارات اور اس کی کارکردگی پر اکثر تنقید کیا کرتے ہیں۔ عامر میر کے مطابق حامد میر نے ’’کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹؔ کے لیے ایک پیغام ریکارڈ کروا رکھا ہے جس میں انھوں نے آئی ایس آئی کے سربراہ ظہیرالسلام اور کچھ کرنل رینک کے سربراہوں کے نام لیے ہیں‘‘۔ ہم سب ہندوستان میں آئی ایس آئی کی معاندانہ سرگرمیوں سے تو واقف ہیں ہی مگر یہ بڑی عجیب و غریب بات ہے کہ حکومت کا ایک ذمہ دار ادارہ ہوکر آئی ایس آئی اندرونِ ملک بھی اتنا ہی غیرمعتبر ہو! اگر اس میں شرم کا عنصر ہے تو وہ کم سے کم ہموطنوں میں ہی اپنے اعتبار کی فکر کرلے۔
دوسری جانب پاکستانی فوج کے ترجمان ادارے آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ بغیر کسی ثبوت آئی ایس آئی یا اس کے سربراہ کو حملہ کا ذمہ دار قرار دینا ’’افسوسناک اور گمراہ کن‘‘ ہے۔انھوں نے حملے کی مذمت کے ساتھ ہی آزادانہ انکوائری کا مطالبہ بھی کیا۔
حامد میر پر حملے کی مذمت و مخالفت میں پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ نے مظاہرے بھی کیے اور سینئر صحافیوں نے کہا کہ پاکستانی میڈیا کو متحد ہونے کی ضرورت ہے۔ایکسپریس ٹریبیون کے چیف ایڈیٹر ایم ضیاء الدین کے مطابق میڈیا اداروں کے مالکان بے حس اور کاروبار کے نام پر بک چکے ہیں۔ وہ مقابلہ بازی اور ریٹنگ کے لیے ایک دوسرے کی عزت کرنا بھول چکے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’پاکستان کے صحافتی اداروں میں اتحاد نہ ہونے کی وجہ سے صحافیوں کو چن چن کر مارا جارہا ہے۔‘ ان خیالات سے صاف ظاہر ہے کہ پاکستان کی میڈیا برادری خود انتشار کا شکار ہے۔ حتیٰ کہ صحافیوں پر ہونے والے حملوں کی خبریں نشر کرنے میں بھی جانبداری یا چشم پوشی کی ادا دیکھی جاتی ہے۔


Hamid Mir: The Geo TV Anchorperson
صحافیوں کی تنظیم پی ایف یو جے سے تعلق رکھنے والے معروف صحافی مظہر عباس کا کہنا ہے کہ ’’بدقسمتی سے ابھی میڈیا کے اداروں کے درمیان جو چپقلش ہے اور جو اختلافات ہیں اس کے نتائج ایک ورکنگ جرنلسٹ اور اخباری کارکنوں کو بھگتنے پڑرہے ہیں۔ لوگ ’نجی چینل‘ یا ’نجی اخبار‘ کہہ کر بات کو چھپانے کی کوشش کرتے ہیں‘‘۔۔۔۔ کسی بھی صحافی پر حملے کو دردِ مشترک بنا کر نہ پیش کیا جاتا ہے نہ محسوس کیا جاتا ہے۔
ایم ضیاء الدین مزید کہتے ہیں کہ اس طرح کے حملوں کے بعد اکثر پاکستانی سوشل میڈیا پر پاسٹر نیمو کا یہ قول شیئر کیا جاتا ہے جسے اگر ہم آج کے پاکستانی میڈیا کے حالات پر لاگو کریں تو کچھ یوں بنے گا’پہلے جب ایکسپریس پر حملہ کیا گیا تو میں نے کہا میں کوئی ایکسپریس کے لیے کام کرتا ہوں، مجھے کیا، پھر اس کے بعد جیوؔ کے اینکر حامد میر پر حملہ ہوا تو میں نے سوچا ٹھیک ہے مگر میں جیوؔ کا ملازم تو نہیں ۔۔۔‘ پاسٹر نیمو کے اس تخیلاتی قول کا اگلا حصہ کوئی بھی پاکستانی صحافی اپنے چینل، اخبار کے مالکان اور ادارے کی مناسبت سے پُر کرسکتا ہے۔ کیونکہ یہ تقریباً ہم سب پر صادق آتا ہے۔
جیو نیوز کے صدر عمران اسلم نے حامد میر پر حملے کو انتہائی ٹارگیٹڈ آپریشن کہا اور مطالبہ کیا کہ اس واردات کے ذمہ داروں کو سامنے لایا جانا چاہیے۔
رواں سال میں بین الاقوامی تنظیم ’رپورٹرز ساں فرنٹیئرز‘ کی سالانہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’’پاکستان میں فوج اور طالبان دونوں ہی صحافیوں کے لیے خطرہ بنے ہوئے ہیں اور منتخب حکومت ان دونوں کے سامنے بے بس نظر آتی ہے۔‘‘
پاکستانی وزیرِاعظم میاں نواز شریف نے یقین دہانی کرائی ہے کہ ’’پولیس کی جانب سے بڑی دلجمعی کے ساتھ تفتیش جاری ہے اور حامد میر پر قاتلانہ حملے میں جو بھی ملوث ہوا اسے کیفرِ کردار تک پہنچایا جائے گا۔ یقینا یہ حکومت اور پولیس کے لیے چیلنج ہے اور ہمیں حملہ آوروں کا سراغ لگانا ہی ہوگا‘‘۔ ماضی میں بھی صحافیوں پر حملوں کی تحقیقات کے لیے کمیشنوں کا قیام عمل میں آیا تھا البتہ ان کی رپورٹس بے نتیجہ و بے ثمر ہی رہیں۔ پڑوسی ملک کے خلاف ایٹمی اور میزائل ٹیکنالوجی سے آراستہ ہوجانے والے ملک کے وزیرِ اعظم اپنے اندرونی دشمن سے کس قدر خوفزدہ ہیں وہ بھی ملاحظہ کرلیں۔ طالبان سے مذاکرات کے بارے میں نوازشریف نے انتہائی محتاط انداز میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ’کوشش تو کافی عرصہ سے جاری ہے۔ کبھی کبھی اونچ نیچ بھی ہوجاتی ہے لیکن اپنی طرف سے ہم پورے خلوص کے ساتھ کوشش کررہے ہیں کہ مذاکرات کے ذریعہ معاملات حل کرلیں، کیونکہ اسی میں سب کی بہتری ہے‘‘۔
پاکستان کے چیف آف آرمی اسٹاف نے حالیہ دنوں میں ’بعض عناصر کی طرف سے پاکستانی فوج پر غیرضروری تنقید‘ پر افسروں اور جوانوں کے تحفظات کے بارے میں کہا کہ ’فوج اپنے وقار کا ہر حال میں تحفظ کرے گی‘۔ اس بیان میں جنرل راحیل شریف نے ’غیرضروری تنقید‘ کے الفاظ پتہ نہیں کس عندیہ کے اظہار کے تحت استعمال کیے ہیں؟ اور کیا ’ضروری تنقید‘ سہنے کا پاکستانی فوج میں یارا بھی کبھی دکھائی دیا؟ اسی تسلسل میں ان کا یہ بیان بھی ’کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی‘ کا غماز ہے کہ ’’ملک اندرونی اور بیرونی مشکلات سے دوچار ہے اور پاک فوج تمام اداروں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے‘‘۔ کاش کہ وہ شدت پسندوں کو قدر کی نہیں غیض کی نگاہ سے دیکھنے لگیں تو بیشتر مسائل چٹکیاں بجاتے حل ہوجائیں گے۔
بی بی سی اردو کے صحافی ہارون رشید نے اپنے تبصرے میں کیا خوب لکھا ہے کہ ’کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے جن ایک دو صحافیوں کو خیبر پختونخوا میں ہلاک کیا تو اس کا برملا اعتراف کیا۔لیکن باقی اسّی فیصد ہلاکتوں کے پیچھے کون تھا آج تک واضح نہیں ہوسکا ہے اور یہی ابہام ہے جو ان کے بار بار نشانہ بننے میں مدد دیتا ہے۔ جب تک اس ابہام کو دور نہیں کیا جاتا اور ملزمان کو بے نقاب نہیں کیا جاتا یہ سلسلہ جاری رہنے کا قوی امکان ہے۔ فوج اور طالبان دونوں نے حامد میر کے واقعہ میں ملوث ہونے سے انکار کیا ہے جس کے بعد یہ ابہام ’اعلیٰ ترین سطح‘ کو پہنچ چکا ہے‘۔
خیر، ہمارے سامنے یہ خیال بھی اہم ہے کہ آخر صحافیوں کو بے سبب اور بے موسم بھی پاکستان میں ہلاکت خیز حملوں کا سامنا کیوں کرنا پڑتا ہے؟ نیویارک ٹائمز میں سالِ گزشتہ (اکتوبر 2013) میں کالم نویس ہما یوسف رقمطراز ہیں کہ پاکستانی طالبان کی ایک شاخ ’شوریٔ مجاہدین‘ نے ایک برس قبل یہ انتباہ جاری کردیا تھا کہ پاکستانی صحافی اور میڈیا مآخذ ’’مجاہدین کے دشمن‘‘ ہیں۔ پاکستانی طالبان نے واضح طور سے مختلف ٹیلیویژن چینلوں اور اینکر پرسنس کو کھلے لفظوں میں دھمکایا بھی تھا جن میں حامد میر اور حسن نثار وغیرہ کے نام شامل تھے۔ ان نام نہاد مجاہدین نے میڈیا پرسنس پر الزام لگایا تھا کہ وہ اسلام مخالف طاقتوں کے مقاصد کے لیے کام کرتے ہیں اور لامذہبیت اور مغربی کلچر کے فروغ کا حصہ بنے ہوئے ہیں۔ پاکستانی طالبان اس وقت سے تلملائے اور بپھرے بیٹھے ہیں جب سے ملالہ یوسف زئی کو 2012ء میں ختم کرنے میں انھیں ناکامی ہوئی اور ساتھ ہی ملالہ یوسف زئی کے لیے میڈیا نے شہرت و تحفظ کا سامان کردیا۔
طالبان کا زور پاکستانی سرحدوں سے باہر تو چل نہیں سکتا اس لیے وہ اپنے ملک کے اندر نہتے صحافیوں پر اس قسم کے بزدلانہ حملے کرکے اپنے ہمنواؤں میں خود کو ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ ان پاکستانی طالبان کا یہ بھی طورر ہے کہ وہ صحافیوں کو بلیک میل کرتے ہیں کہ ان کے خیالات و تحریکات کو عوام تک پہنچانے اور مقبول کرنے میں صحافی ان کی مدد کریں اور ریڈیو نیز نیوز چینلوں سے اسے براڈکاسٹ یا ریلے کریں۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو کم از کم ان کے گروہ کے تشدد کی خبروں کو بھی نظر انداز کردیا کریں، کوئی تنقید نہ کریں، بصورتِ دیگر انھیں جان سے مار دیا جائے گا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ پاکستانی حکومت نے ان کی اس دو برس پرانی دھمکی کو سُنی اَن سُنی کردیا تھا۔ اگر وہ اس وقت سے ہی کسی قابلِ ذکر تحفظ کے اقدام کرتی تو کراچی ایئرپورٹ سے محض چند کلومیٹر بعد واقع سڑک کے موڑ پر حامد میر کی گاڑی بہ سلامت گذر چکی رہتی۔
طالبان ایک جنگجو جماعت ہے۔ بزعمِ خود وہ جہاد کر رہے ہیں۔ کس کے خلاف جہاد کر رہے ہیں اس کی وضاحت کبھی سامنے نہیں آئی۔ البتہ جو واضح ہوتا آیا ہے وہ یہ کہ وہ تعلیم، تہذیب، معاشرت، رواداری، اخوت اور اسی قسم کی صالح قدروں کے خلاف جہاد کرتے نظر آتے ہیں۔وہ ایک جنگجو اور مسلح جماعت ہے۔ البتہ انھیں اپنے خلاف لڑنے والے نہیں ملتے تو وہ ستم آزمائی کے لیے سب سے پہلے صحافیوں کو تاکتے ہیں، کہ یہی سب سے پہلے منہ کھولتے اور بولتے ہیں، اس کے بعد سماجی مصلحین اور معلمین کو۔ماضی میں متعدد صحافی اور علما و مصلحین ان کے ہاتھوں شہید ہو چکے ہیں۔مگر طالبان کا کل کچھ بگڑا تھا نہ آج کے حکمرانوں سے کچھ بگڑنے کا امکان ہے۔ پاکستان کا مین اسٹریم میڈیا اردو ہے یا پھر انگریزی۔ علاقائی زبانوں کے میڈیا بھی اپنا حلقہ ضرور رکھتے ہیں۔ لیکن طرہ یہ ہے کہ روشن فکر سماج کو میڈیا سے شکایت ہے کہ وہ شدت پسندوں کے خلاف اظہار میں نرمی برتتا ہے اور دوسری جانب شدت پسندوں کو میڈیا پسند نہیں آتا۔ اس طرح صحافی چکی کے دو پاٹوں کے بیچ پس رہے ہیں۔
یہ خبریں بھی ملتی رہی ہیں کہ پاکستان کے سرحدی صوبوں میں طالبان کے علاوہ علاقائی شدت پسند بھی انھی کے انداز میں صحافیوں کو دھمکاتے رہتے ہیں۔ علاوہ ازیں سیکوریٹی فورسیز بھی ان پر اسی طرح کا خوف رکھتی ہیں۔ ایسے میں بیچارے جرنلسٹ کے پاس دو ہی آپشن رہ جاتے ہیں کہ اپنے قلم میں روشنائی بھرے یا اپنا خون۔
سامنے کے منظر میں تو پاکستان میں صحافی ہونا خامہ بر گوش اور کفن بردوش ہونے کے مصداق ہے۔ان کا دوست و سرپرست کوئی نہیں ہے، دشمن سامنے بھی ہیں اور مبہم بھی، خود صحافی بھی منتشر ہیں، اگر اپنے قلم کو حریت پسندی کی راہ پر چلائیں تو سیلِ خوں سے گذرنا ہوگا، اور جو کاروباری مصلحت اپنائیں تو پیشہ طعنہ دے گا۔ اپنی بقا ملک کی بقا ہے۔ نسلِ نو کے لیے مثالیں بھی چھوڑنا ہے۔تو کیا پے در پے حملوں کے بعد پاکستانی میڈیا پر یہ حقیقت کھل رہی ہے کہ اس کی بقا صرف اتحاد میں چھپی ہے اور ایک صحافی یا اینکر پرسن پر حملہ پورے میڈیا پر حملہ سمجھا جائے گا؟


Monday, April 14, 2014

BAIT BAAZI
بیت بازی : کھویا ہوا ادبی مشغلہ 
Click on the picture to enalarge and read comfortably


A Beautifu piece appeared in daily Urdu Times Mumbai
penned by Mr. Basharat Shikoh

Monday, March 17, 2014


Niger hands Gaddafi son over to Libya
(My latest Article in Aalami Sahara)
Dr. Rehan Ansari
http://aalamisahara.com/22032014/Home.aspx



Monday, March 3, 2014

The new political sleight of Rajnath Singh
Dr. Rehan Ansari

ایک مرتبہ اور ثابت ہوا کہ وہ اتنے عقلمند نہیں ہیں جتنے بھولے ہم لوگ ہیں۔ ان کی دکانداری کا بھرم ہمیں سے قائم ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کی انتخابی مہم پورے زوروشور سے جاری ہے۔ اسی سلسلے میں دہلی میں مسلمانوں کے ایک معمولی سے مجمع (بی جے پی کے مائناریٹی سیل کے مسلم چہروں!) سے خطاب کرتے ہوئے بھاجپا کے صدر راج ناتھ سنگھ نے مسلمانوں سے معافی مانگنے کی تجویز انتہائی شاطرانہ انداز میں یوں رکھی کہ وہ اپنی اس سیاسی چال میں کامیاب ہوگئے۔ بات پھوٹتے ہی مشہور ہوگئی۔ یاد کیجیے کہ انھوں نے مشروط طور پر معافی مانگنے کی بات کی تھی کہ ’’اگر‘‘ ان سے کوئی غلطی ہوئی ہو تو وہ ’’سرجھکا کر‘‘ معافی مانگنے کو تیار ہیں۔ مسلمانوں نے حسبِ عادت و سابق اس کا فطری انداز میں ردِّعمل بھی پیش کیا ؛ ان کی اس بات کو موقع پرستانہ سیاست بھی کہا اور یہ بھی کہا کہ وہ بی جے پی اور خصوصاً اس کے وزیرِ اعظم کے لیے نامزد امیدوار مودی کو معاف کرنے کے موڈ میں قطعی نہیں ہیں۔ دیگر سیاسی پارٹیوں نے بھی اس بیان پر کچھ لے دے کی۔ راج ناتھ سنگھ نے اپنی چال میں زبردست کامیابی حاصل کرلی۔ وہ یوں کہ، خود راج ناتھ سنگھ، بھارتیہ جنتا پارٹی اور آر ایس ایس برابر جانتے ہیں کہ مسلمان انھیں معاف نہیں کریں گے۔ لیکن ہند ووٹوں کو اپنی جانب پورے وثوق کے ساتھ راغب کرنے کا حربہ یہی ہے کہ مسلمانوں کو بھارتیہ جنتا پارٹی سے مذہبی بنیادوں پر انتہائی برگشتہ دکھایا جائے اور اس طرح کانگریس اور دیگر پارٹیوں کے تعلق سے سوچنے والے ہندوؤں کے جذبات کو اُبھار کر ان کا ووٹ اپنی جانب کھینچنے کی تدبیر کی جائے۔ راج ناتھ سنگھ اس میں کامیاب ہوئے۔ ہم نے بھی اور میڈیا نے بھی ان کی بھرپور مدد کی۔ وگرنہ کیا وجہ ہے کہ اتنے حساس بیان پر نہ آر ایس ایس چیں بہ جبیں ہوئی اور نہ مودی اور مودی نوازوں نے اس پر کسی حیرت اور بے چینی کا اظہار کیا! ادھر راج ناتھ سنگھ نے بھی تمام مطلوبہ ری ایکشن آنے کے بعد اس کا فالواَپ نہیں کیا۔ وہاں سناٹا چھایا ہوا ہے۔ جو دروازہ کبھی کھلا ہوا نہیں تھا اسے بند کرنے کا جواز ہی کہاں ہے۔

راج ناتھ سنگھ اپنی مزید چانکیائی دکھاتے رہیں گے۔ وہ اپنے  بیان کی جانب مڑ کر بھی نہیں دیکھ رہے ہیں؛۔اور اپنا ووٹ بینک سنبھالنے کے لیے دوسری جانب مشغول ہوچکے ہیں۔ ہمارا فالواَپ جاری ہے اور ابھی الیکشن تک رکنے ولا بھی نہیں ہے۔ بلکہ راج ناتھ سنگھ کی اس بات کو یاد دلانے کے لیے وقفہ وقفہ سے ہماری قوم کے خودساختہ رہبر و رہنما سامنے آتے رہیں گے۔ میڈیا میں بھی رہ رہ کر اس بیان کی گرد صاف کی جاتی رہے گی۔
بات نکل آئی ہے تو ذرا ایک برس قبل کی بھی وہ بات یاد دلاتے چلیں کہ ممبئی کے مشہور پانچ ستارہ ہوٹل ’لی لا‘ میں ملک کے انتہائی مقبول، معتبر و منفرد ’’اردو‘‘ ٹی وی چینل ETV (اردو) نے  ’ملکِ عزیز میں مسلمانوں کو درپیش مسائل‘ پر چھ گھنٹوں تک چلنے والے ایک لائیو مباحثہ کا انعقاد کیا تھا۔
اس مباحثہ کی صدارت کرتے ہوئے راج ناتھ سنگھ نے بیشتر وقت این ڈی اے (واجپئی) سرکار کے دفاع یا اپنی نظریہ ساز جماعت کو سیکولر ثابت کرنے میں لگا دیا۔ کسی صاحب نے اپنی تقریر میں مسلمانوں کو ’’ملک کا حصہ دار‘‘ کہا تو انھیں جیسے موقع مل گیا کہ وہ مسلمانوں کے ریزرویشن کے مطالبے پر چوٹ کرسکیں۔ اوراسی بات کے حوالے سے ایک سوال کرکے انھوں نے سامعین میں کچھ ساعتوں کے لیے سناٹا ضرور پسار دیا تھا کہ مسلمان آخر خود کو بھارتیہ (ہندوستانی) کہتے ہیں تو پھر کیوں وہ حصہ مانگتے وقت خود کو مسلمان کہتے ہیں، بھارتیہ کیوں نہیں کہتے؛ (یعنی نام نہاد مین اسٹریم یا اوپن میں) کیوں نہیں مقابلہ کرکے آگے آتے۔ کوئی جواب نہیں دیا گیا۔ پروگرام میں مسلمانوں کا ہی مجمع بیشتر تھا۔ ہم لوگ جتنے مضطرب اور بے چین بیٹھنے کے عادی ہیں اس کا اظہار وہاں بھی ہوتا رہا۔ موقع موقع سے پیدا ہونے والے انتشار نے بھی راج ناتھ سنگھ کے سوال کا جواب دینے میں مانع رکھا۔ کئی جوابات ممکن ہیں لیکن ہم نے سوچا کہ ایک جواب انھیں دے ہی دیا جائے کہ جب مسلمانوں پر اس ملک میں چن چن کر مظالم اسی بنیاد پر ڈھائے جاتے ہیں کہ وہ ’’مسلمان‘‘ ہیں، تعصب اسی لیے برتا جاتا ہے کہ وہ مسلمان ہیں، فسادات میں نام نہاد ’’بھارتیہ‘‘ لوگوں (ہم قوم) کے ہاتھوں اسی لیے کاٹا مارا اور تباہ کیا جاتا ہے کہ وہ ’’مسلمان‘‘ ہیں، تو کیا برا ہے اگر وہ اپنا حق اور تحفطات اس حیثیت سے مانگیں کہ وہ ’’بھارتیہ مسلمان‘‘ ہیں! آپ کی چانکیائی اسی وقت کیوں جاگتی ہے جب مسلمان اپنا حق طلب کرتا ہے؟ آخر ہندوؤں میں ہی کئی ذاتوں اور برادریوں کو دستوری تحفطات اور حقوق حاصل ہیں تو صرف مسلمانوں کے مطالبے کو غیردستوری کیوں سمجھا اور سمجھایا جاتا ہے۔
راج ناتھ سنگھ کے تازہ تر بیان سے بہرحال انھیں جو حاصل کرنا تھا وہ ہوا بھی۔ ممبئی کی زبان میں انھوں نے موقع دیکھ کر چوکا لگادیا۔ بھارتیہ جنتا پارٹی اور سنگھ پریوار کی دوسری ذیلی تنظیمیں جس قدر منظم انداز سے انتخابی سرگرمیاں چلاتی ہیں اور جیسا ہوم ورک کرتی ہیں اس کی مثال دوسری سیاسی پارٹیوں میں نہیں ملتی۔ اسے بالکل پروفیشنل انداز کہا جانا چاہیے۔ وہ سیاست یا جذباتی سیاست بھی بالکل پروفیشنل انداز میں کھیلتی ہیں۔ اور صرف انتخابی موسم میں نہیں بلکہ پورے ٹرم میں ان کا یہ کھیل بند نہیں ہوتا۔ آپ نے دیکھا ہی ہے کہ ایک سابق آرمی چیف کس طرح اپنی وردی کے اترتے ہی بھگوا دھاری ہو گیا۔ ایک سابق پولیس کمشنر وردی کے اندر بھی جب تک رہا بالکل خاموشی کے ساتھ اپنی اصلیت کے مطابق کام کرتا رہا لیکن شاید انتخابات کے قریب آتے آتے اسے وردی میں گھٹن کا احساس ہونے لگا تو خاکی پتلون اتار کر خاکی نیکر چڑھا لیا تاکہ ہاتھ آیا ہوا موقع کہیں نکل نہ جائے۔ ان سابق کمشنر صاحب نے تو کچھ مہینوں پہلے ہی ہمارے چند معتبر افراد کو ساتھ لے کر ’’انسان کی تلاش‘‘ کرنی چاہی تھی۔ اس کی بھی خوب تشہیر کی گئی۔ لیکن ان کی نقاب الٹی تو ان پر ہمارا اعتبار ٹھٹھا مار رہا تھا۔حیف صد حیف۔ کئی اور مثالیں بھی ہمارے حافظے میں جاگ رہی ہوں گی لیکن خیر!
راج ناتھ سنگھ نے اپنے بیان میں طرح طرح سے پوچھے جانے والے ایک سوال کا جواب جب بھی دیا وہ یکساں تھا۔ وہ ایک سوال تھا کہ مودی آخر گجرات کے مسلم کش فساد کے لیے معافی کیوں نہیں مانگتے۔ ان کا جواب ہمیشہ یہی ملتا رہا کہ جب ملک کی عدالتِ عالیہ نے مودی کو کلین چٹ دے دی ہے تو ہم کیا اب عدالت کے فیصلے کا بھی انکار کریں گے؟ اب تو اس بات پر کوئی گفتگو بھی نہیں ہونا چاہیے۔ راج ناتھ سنگھ جی! آپ کی بات سرآنکھوں پر۔ لیکن براہِ کرم اس سوال کا جواب تو آپ، بھارتیہ جنتا پارٹی، آر ایس ایس اور خود مودی سمیت عدالت کو بھی دینا ضروری ہوگیا ہے کہ اگر ان فسادات میں مودی اور ان کی حکومت کا ہاتھ نہیں تھا تو آخر یہ فسادات کس کی ایما پر ہورہےتھے اور اصل مجرم پھر کون ہے؟ کیا گجرات میں فسادات ہوئے ہی نہیں؟ کیا وہاں کے مسلمانوں پر قیامت توڑی ہی نہیں گئی؟ کیا ریاستی حکومت نے ان تباہ حال مسلمانوں کی کوئی (ہمدردانہ) خبرگیری اور بازآباکاری کا کوئی انتظام بھی کیا؟ اگر گجرات میں اقتصادی ترقی کا ڈھنڈورا پیٹا جارہا ہے تو انسانی اور قومی تنزلی کا ذکر دبے لفظوں میں بھی کیوں نہیں کیا جاتا؟
سرِ دست ہم اپنے لوگوں سے یہ ضرور کہنا چاہیں گے کہ راج ناتھ سنگھ سمیت جتنے بھی بھاجپائی ہوں (خواہ نام سے وہ ہمارے بھائی ہوں) ان کی کسی بھی بات کو الٹ پلٹ کے ضرور دیکھنے کی کوشش کریں کہ ہر سکہ کے دو رخ ہوتے ہیں۔ ہوسکتا ہے خوشنما رخ کا دوسرا رخ انتہائی کربناک بلکہ دہشتناک نکلے۔ ان چالاک لوگوں کے بیانات پر سب سے حسین اور نتیجہ خیز ردِّ عمل یہی ہونا چاہیے کہ اسے ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دیں یا اگر یہ ممکن نہ ہوتو کسی لطیفہ کی مانند سن لیا کریں۔بس! ان کے زہروں کا تریاق یہ ہے کہ جو سیکولر برادرانِ وطن ہمارے آس پاس اور سماج و سیاست میں ہیں ان سے اپنے مراسم کو خوشگوار بنانے کی ہر ممکن کوشش کریں۔ یہی ہمارا طویل وقتی پروگرام ہونا چاہیے۔


Saturday, February 22, 2014

Monday, January 27, 2014

Isn't Somnath Bharti overly honest so far?
Dr Rehan Ansari
ایڈوکیٹ سومناتھ بھارتی ریاست دہلی کے وزیرِ قانون ہیں، ان کے پاس دیگر محکمے سیاحت، فن و ثقافت اور اصلاحِ انتظامیہ کے ہیں۔اس سے قبل وہ ہماری اور آپ کی مانند ایک عام آدمی تھے۔ مگر پیشے سے ایک کامیاب اور نامور وکیل تھے۔ آئی آئی ٹی کے پوسٹ گریجویٹ بھی ہیں۔ ریاضی سے ایم ایس سی کیا ہے اور قانون کی ڈگری ایل ایل بی بھی رکھتے ہیں۔ابھی مہینہ بھر کی دہلی میں عام آدمی پارٹی ( حسبِ اُردو ’ عآپ‘ یا مشہورِ عام ’آپ‘) کی حکومت میں ایک اہم اصلاحی کام کے لیے ان کی جانب سے کیے گئے اقدام کو لے کر ایک ہنگامہ سا کھڑا کردیا گیا ہے۔ اس ہنگامے کے پس منظر سے اور خبروں کی بین السطور سے بہت سے سوال بھی سر اُبھارتے ہیں؛ جن کا بیان آگے کیا جائے گا۔ سرِ دست یہ سوال ہمارے سامنے کسی ماہر جاسوس کی مانند عدسہ سے جھانک رہا ہے کہ ’’سومناتھ بھارتی کیوں یک بیک بی جے پی، میڈیا اور کانگریس کی آنکھ میں مساوی طور سے کھٹکنے لگے ہیں؟ کہیں وہ حد سے زیادہ ایماندار اور دیانتدار تو نہیں ہیں؟

ہمیں سومناتھ بھارتی کا اتنا ہی تعارف حاصل ہے جتنا میڈیا کے توسط سے مل سکا ہے۔ ان کے ماضی یا اصلی حال سے ہم اس لیے واقف نہیں ہیںکہ دلّی یہاں سے واقعی بہت دور ہے۔لیکن ان کے ذریعہ نیم شب کو گشت کرکے کسی فلیٹ پر چھاپہ مارنے کی کارروائی بہت معنی خیز عمل ہے۔ ایک معنی تو وہی ہیں جس کی تصویر اور تجزیہ میڈیا (نیشنل میڈیا پڑھیں؛ جو بڑی دو سیاسی پارٹیوں کی حسبِ منشا کچھ دہائیوں سے خبریں پھیلاتا ہے) پھیلانا اور دکھانا چاہتا ہے۔ اور دوسرے معنی وہ ہیں جو کسی بھی عادل حکمراں کا صدیوں سے مشہور و معروف وطیرہ و تقلید ہے کہ اپنی رعایا کی خبرگیری اور حفظ و امن کے لیے وہ راتوں کو اُٹھ کر گشت کرتے تھے۔ اور سومناتھ بھارتی کے زیرِ بحث قضیہ میں بین السطور یہی دوسرے معنی جھانکتے ہیں۔
ہمارا نیشنل میڈیا دہلی پولیس کے سامنے دو سیاہ فام افریقی عورتوں کے بیان کو یوں پیش کررہا ہے گویا وہ بالکل سچ کہہ رہی ہیں اور سومناتھ بھارتی نے ان کے ساتھ شدید غیراخلاقی برتاؤ کیا ہے۔ تفصیلات آپ کی نظروں سے بھی گذری ہوں گی۔ لیکن ان کی بین السطور میں کہیں یہ نہیں ملتا کہ آخر ان عورتوں کی دہلی میں موجودگی کی کیا وجوہ ہیں؟ کیا وہ طالبات ہیں یا کسی اور معاملہ میں اپنا ملک چھوڑ کر یہاں راجدھانی میں رہ رہی ہیں؟ان عورتوں کے ساتھ کوئی اور بھی رہائش پذیر ہے یا نہیں؟ اگر ہے یا ہیں تو وہ کون لوگ ہیں، ان کے رشتہ دار ہیں یا نہیں؟ وغیرہ۔ یہ سوال تشنہ جواب ہیں۔ میڈیا اور بھاجپا کا حملہ بس سومناتھ پر ہورہا ہے یا کیجریوال پر۔
آئیے ہم بھی دیکھیں کہ خود سومناتھ کے اسمبلی حلقۂ انتخاب جنوبی دہلی کے مالویہ نگر کی اُس کھڑکی ایکسٹینشن کے جھروکے سے دکھائی کیا دیتا ہے جس کی وجہ سے یہ ’بوال‘ کھڑا ہوگیا ہے۔ خبروں میں آتا ہے کہ یہ علاقہ برسوں سے منشیات اور جسم فروشی کے لیے معروف ہے اور وہاں رہنے والے شریف گھرانوں کے افراد کے لیے ایک آزار و ناگوار بنا ہوا ہے۔ اس علاقے میں فلیٹ کے مالکان نے انھیں کرایہ پر دے رکھا ہے اور کرایہ داروں کی اکثریت سیاہ فام افریقی ہیں، خصوصاً یوگانڈہ ملک کے۔ ان میں طلبہ بھی ہیں اور دیگر بھی۔ یہاں رہنے والی عورتیں افریقی اندازوادا سے ہی رہتی ہیں اس لیے دہلی کے منچلے اور بگڑے امیر نوجوان ان سے ہر قسم کی شرارت بھی سرِ عام کیا کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ کھلے عام جنسی طور سے چھیڑا بھی کرتے ہیں۔ نشہ آور ادویات اور شراب کی خریدوفروخت کے معاملات بھی پرانے معمولات بتائے جاتے ہیں۔ اب ایسے عالم میں ’کھڑکی‘ میں کسی خیر کی امید کہاں سے کی جاسکتی ہے۔ لیکن باربار کی شکایتوں پر سابقہ کانگریس حکومت نے جانے کیوں کانوں میں انگلیاں ٹھونس رکھی تھی۔ اس پر طرہ یہ کہ بی جے پی بھی اندھی بہری اور گونگی تھی۔میڈیا سے بھی ’کھڑکی‘ کا نام ہم نے اس باب میں کبھی نہیں سنا۔ ابھی کے سومناتھ مخالف حالات میں کھڑکی کا ایک افریقی تاجر اپنا دفاع ان جملوں میں کرتا ہے کہ ’’ہم سب تو ہندوستان کے کسی بھی ایئر پورٹ پر اپنے ملک کا پاسپورٹ لے کر آتے ہیں اور ہمارے سامان کی جانچ کے مراحل بھی طے کیے جاتے ہیں، پھر یہ الزام کیسا کہ ہم منشیات لے کر آتے ہیں اور بیچتے ہیں۔ یہ نشہ آور چیزیں تو یہیں مقامی لوگوں سے ملا کرتی ہیں۔ یہ مسئلہ تو مقامی ہے۔ ہمارا نہیں۔ (بحوالہ ’ڈیلی میل آن لائن انڈیا‘ جمعہ ۲۴؍ جنوری)
درج بالابیان میں اس بزنس مین نے اپنے دفاع کے ساتھ ہی یہ اعتراف ضرور کیا کہ کھڑکی میں منشیات مل جاتی ہیں! ہم نہیں جانتے کہ وہاں کن ذرائع سے یہ پہنچتی ہیں لیکن ملتی ضرور ہیں۔ یہ دیگر بات ہے کہ وہاں بسنے والے سبھی افریقی سیاہ فام ایسے غیرسماجی معاملات میں ملوث نہیں ہیں ، ان میں شریف کاروباری بھی ہیں، لیکن اس علاقے کا بدنامِ زمانہ ہونا ازخود ایک سوال ہے۔
اب یہ سوال اٹھتا ہے کہ سابقہ حکومت اور اپوزیشن اتنے برسوں تک کسی کارروائی سے گریزاں کیوں رہیں؟ میڈیا میں بھی کبھی کھڑکی کا نام کیوں نہیں سنائی دیا؟ اگر سومناتھ بھارتی کھڑکی میں شبینہ گشت اور چھاپہ کی کارروائی کرتے ہیں تو اس لیے کہ ان پر دوہری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ ایک تو وہ اسی حلقہ کے رکنِ اسمبلی ہیں دوسرے یہ کہ وہ ریاست کے وزیرِ قانون بھی ہیں۔ اب دیکھیے اس بات کو بھی کہ پوری دہلی دہلنے لگی اور ملک و بیرونِ ملک بھی اس کا چرچا ہوگیا مگر خود کھڑکی کے عوام کا کوئی منفی ردّ عمل سامنے نہیں آیا! آخر کیوں؟ کیوں موقعۂ واردات سے دہلی پولیس نے بھی اپنا دامن کھینچے رکھا؟ جہاں تک سومناتھ کے کسی قدر بداخلاقی سے پیش آنے کی خبروں کی بات ہے اس کی شکایت پولیس اسٹیشن میں عجیب سی لگتی ہے۔ کسی معمولی سے جرم کے مرتکب کو ملک کے کسی بھی پولیس اسٹیشن میں کیسے اخلاق کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ کبھی تو شریف شہریوں کو معمولی سی دستاویزی جانچ پڑتال کے معاملے میں بھی پولیس جس اخلاق سےپیش آتی ہے اس کی داستانیں بھی کم نہیں ہیں۔ چہ جائیکہ منشیات اور جنسی معاملات کی بات پر وزیرِ قانون سومناتھ کو خوش اخلاقی سے پیش آنے کا سوال اٹھایا جائے؟
یہ بات بھی خبر میں شامل ہے کہ سیاہ فام باشندوں کو دہلی کے نوجوان ’’کالیا، کلّو یا حبشی‘‘ جیسے ہتک آمیز ناموں سے پکارتے ہیں جس کے سبب ان کی دل آزاری ہوتی ہے اور انھیں نسلی تفریق و نفرت کا احساس ہوتا ہے! سومناتھ پر بھی اسی طرح کا الزام لگایا گیا ہے کہ اس نے چھاپے کے دوران یہ جملہ استعمال کیا تھا کہ ’’وہ کالے لوگوں کو یہاں رہنے نہیں دیں گے‘‘۔ ہمیں اس کا دفاع نہیں کرنا ہے۔ کہا ہوگا انھوں نےایسا۔ تحقیقات جاری ہیں اس بارے میں۔ لیکن...
لیکن ... یہ بات واضح کردینا چاہتے ہیں کہ ان ناموں سے یقیناً ان کو پکارتے ہوں گے ان سے ملنے والے۔ لیکن یہ عرفیتیں تو عام ہندوستانی اپنے درمیان بھی سیاہ رنگ والوں کے لیے جابجا استعمال کرجاتے ہیں۔ نسلی تفریق اور ہتک و نفرت کا احساس اس وقت کیا جاسکتا ہے کہ جب انھیں عوامی مقامات، عوامی سواریوں اور دیگر شہری سہولیات کا استعمال کرنے سے سیاہ فامیت کی وجہ سے روکا جائے۔ اور ہمارا چیلنج ہے کہ ایک سومناتھ ہی نہیں کوئی بھی بھارتی باشندہ ایسا نہیں ہے کہ کسی کو سیاہ فامیت کی وجہ سے نفرت انگیز انداز میں پکارے اور اس سے نسلی تفریق کا جذبہ دکھائے۔ یہ خود مخلص ہندوستانی افراد برداشت نہیں کریں گے۔
اس سیاسی دھماچوکڑی اور شور و غل سے پرے پردۂ زنگاری میں کوئی معشوق ہے تو بس یہی ہے کہ بی جے پی اور کانگریس کے ایم ایل ایز اور اپوزیشن لیڈروں کو ’’وی آئی پی‘‘ سیٹ تو مل گئی ہے مگر ’’کلچر‘‘ نہیں مل سکا ہے اور وہ ’آپ‘ کی ایک ماہ کی نوزائیدہ حکومت کے پانی اور بجلی والے کاموں کو جائز عوامی مقبولیت ملنے سے پہلے ہی ٹانگ کھینچنے کے لیے پوری طرح زورآزمائی میں مصروف ہیں اور ہاتھ آیا ہوا یہ موقع کھونا نہیں چاہتیں۔ نیشنل میڈیا بھی ہمیشہ کی طرح ان کا حلیف بنا ہوا ہے۔